امریکا نے افغان جنگ سے متعلق حقائق چھپائے خفیہ دستاویزات میں انکشاف

ایک ٹریلین ڈالر خرچ، 2300 فوجی ہلاک، 20 ہزار زخمی، جھوٹے سروے اور غلط معلومات جاری کی گئیں، واشنگٹن پوسٹ

عوام کو جنگ کی بہترین تصویر دکھانے ڈیٹا تبدیل کرتے تھے، باب کراؤلی، ہم افغانستان کی بنیادی سوجھ بوجھ سے ہی عاری تھے، جنرل ڈگلس لیوٹ (فوٹو: فائل)

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے افغان جنگ کے بارے میں خفیہ دستاویزات شائع کردیں جن میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکا نے 18 سالہ افغان وار میں حقائق کو عوام سے ہمیشہ چھپایا۔

دو ہزار صفحات پر مشتمل خفیہ دستاویزات میں امریکی فوجی افسروں اور اہلکاروں کے انٹرویوز شامل ہیں جن میں تقریباً سبھی کا کہنا ہے کہ اس جنگ کے بارے میں وہ ہمیشہ سچ کو چھپا کر یہ اعلانات کرتے رہے کہ وہ جنگ جیت رہے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق اس جنگ پر ایک ٹریلین امریکی ڈالر خرچ ہوئے، خواتین سمیت 2300 فوجی ہلاک اور 20 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔

واشنگٹن پوسٹ نے افغان جنگ کے بارے میں یہ معلومات جنگی اخراجات اور نااہلی کا محاسبہ کرنے والے سرکاری ادارے ''اسپیشل انسپکٹرجنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن'' سے حاصل کی ہیں۔ یہ معلومات ویت نام جنگ کے بارے میں پینٹاگان کی دستاویزات سے ملتی جلتی ہیں جو ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں کہ جب امریکا طالبان کے ساتھ جنگ کے پرامن تصفیے کے لیے دوحا میں مذاکرات کررہا ہے۔

ریٹائرڈ نیوی افسر جیفری ایگرز سابق صدور بش اور اوباما کے ادوار میں وائٹ ہاؤس میں بھی کام کرچکے ہیں ان کا اپنے انٹرویو میں کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن اپنی آبی قبرمیں جنگ کے نتائج پر یہ سوچ کر ہنس رہا ہوگا کہ ہم نے اس جنگ پر کتنا پیسہ خرچ کرڈالا۔


اسی طرح سال 2013ء میں امریکی فوج کے کرنل اور انسداد دہشت گردی کے ماہر افسرباب کراؤلی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی حکومت کو جنگ کی بہترین تصویردکھانے کے لیے ہر چیز کا ڈیٹا تبدیل کردیتے تھے، ہمارے سروے بھی مکمل غلط ہوتے تھے، ہم جس چیز کو ہرطرح سے ٹھیک دکھاتے تھے وہ آخر ہمارے لیے اپنی ہی چاٹی ہوئی آئس کون بن چاتی تھی۔

بش اوراوباما کے ادوارمیں سینئر ملٹری ایڈوائزر رہنے والے لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس لیوٹ کا اپنے انٹرویوز میں کہنا ہے کہ وہ افغانستان کے بارے میں بنیادی سوجھ بوجھ سے ہی عاری تھے، ہمیں یہ تک پتا نہیں ہوتا تھا کہ ہم کیا کرنے جارہے ہیں۔

ایک افسر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج اپنے اصل دشمن سے ہی مکمل آگاہ نہیں تھی، ہمارے کمانڈروں کو یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ ہمارے دشمن طالبان ہیں، القاعدہ ہے، داعش ہے یا غیر ملکی جنگجو ہیں یا سی آئی اے کے پے رول پر کام کرنے والے جنگجو سردار ہیں، ہمارے لیے اچھے طالبان کون اور برے کون ہیں اور وہ کہاں رہتے ہیں یا پاکستان ہمارا دوست ہے یا دشمن ہے۔

ایک امریکی افسر نے کہا کہ ہم نے افغانستان کے تاریخی پس منظر کا مطالعہ ہی نہیں کیا اور وہاں اپنے جیسا بااختیار مرکزی حکومت کا نظام لانے کی کوشش کی جبکہ وہاں ڈھیلے ڈھالے مرکزی نظام کے ساتھ علاقائی طاقتور حکومتیں رہی ہیں، امریکا نے افغانستان میں سماجی نظام تبدیل کرنے کے لیے تقریباً 138 ارب ڈالر خرچ کرڈالے مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اتنی رقم سے جنگ عظیم کے بعد آدھے یورپ کی معیشت کو بحال کردیا گیا تھا۔
Load Next Story