افغانستان میں امن کیسے قائم ہو
امریکا طالبان سے خفیہ طور پر اور انتہائی راز داری کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہا ہے
KARACHI:
امریکا کے صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ امریکا عراق کی طرح افغانستان میں بھی جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے۔
اس خیال کا اظہار انھوں نے عراق میں امریکی فوجی کارروائی کے خاتمہ کے دو سال مکمل ہونے پر واشنگٹن کے نواح میں منعقدہ ایک تقریب میں فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اپنے خطاب میں انھوں نے افغانستان کے حوالے سے کہا کہ آیندہ سال افغان فوج سیکیورٹی کی ذمے داریاں سنبھال لے گی جب کہ 2014ء میں امریکی فوجی انخلاء مکمل ہو جائے گا۔
عراق سے امریکی فوجی انخلا کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن کیا امریکی فوجی انخلا کے بعد عراق میں امن قائم ہو گیا ہے یا وہاں وسیع پیمانے پر تشدد اور دہشتگردی کی وارداتیں بدستور جاری ہیں۔ اب امریکی صدر کا کہنا ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا عمل میں آ جائے گا لیکن یہاں وہ اس بات کو فراموش کر رہے ہیں کہ جنگ کا آغاز تو جو ملک بھی چاہے کر سکتا ہے خواہ وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو مگر جنگ کو انجام پر پہنچانا اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج کو سمیٹنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
عراق اس کی واضح مثال ہے۔ امریکا نے عراق میں جنگ شروع کی، صدام اور ان کے ساتھیوں کا خاتمہ کیا، اور فتح یاب ہو کر واپس آ گیا، لیکن عراق ابھی تک بدامنی اور قتل وغارت کا شکار ہے، سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے۔ کسی کو پتہ نہیں کل کیا ہو گا۔ افغانستان کا محاذ عراق سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ عراق خاصا ترقی یافتہ ملک تھا، یہاں قبائلی نظام اور جاگیرداریت کا کلچر خاصی حد تک دم توڑ چکا تھا لیکن افغانستان مکمل قبائلی معاشرہ ہے، یہاں انفرااسٹرکچر بھی نہیں ہے، صرف کابل ہی شہری کلچر کا حامل شہر ہے۔
اس قسم کے معاشرے میں امن قائم کرنا انتہائی مشکل ہے اور ایسے معاشرے کے نوجوانوں پر مشتمل فوج کو پروفیشنل کلچر میں ڈھالنا بھی مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان نیشنل آرمی کے افسر اور جوان بھی قبائلی عصبیتوں کا شکار ہیں اور ان کے نظریات اور خیالات بھی مبہم ہیں، اس قسم کی فورس زیادہ دیر تک متحد نہیں رہ سکتی، اس میں توڑ پھوڑ کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ اگر امریکا یہ سمجھتا ہے کہ اس کی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی اور ان کی جگہ افغان نیشنل آرمی کمان سنبھال لے گی تو یہ دن میں تارے دیکھنے والی بات ہے۔
ادھر امریکا طالبان سے خفیہ طور پر اور انتہائی راز داری کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہا ہے اور انھیں ترغیبات دے رہا ہے۔ دوسری طرف وہ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کے لیے پاکستان پر بھی زور ڈال رہا ہے۔ پاکستان کا اس حوالے سے موقف یہ ہے کہ فوجی کارروائی سے اول تو اس علاقے کی پوری کی پوری آبادی ہی بے گھر ہو جاتی ہے جس کی بحالی ایک الگ مسئلہ بن جاتی ہے جس کا تجربہ پاک آرمی کو جنوبی وزیرستان میں بخوبی ہو چکا ہے۔
جب کہ فوجی آپریشن کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ جن عسکریت پسندوں کے خلاف یہ کارروائی کی جا رہی ہو وہ سرحد عبور کر کے افغانستان چلے جائیں، اور وہاں حالات مزید خراب ہو جائیں۔ یوں دیکھا جائے تو امریکا کے پالیسی ساز ابھی تک افغانستان کے بحران سے نکلنے کا کوئی حمتی راستہ تلاش نہیں کرسکے۔ ان کے خیالات منتشر ہیں یہی بات افغان مسئلے کے حل میں رکاوٹ ہے، جب تک امریکا کے پالیسی ساز صیح سمت میں قدم نہیں اٹھاتے ، افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
امریکا کے صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ امریکا عراق کی طرح افغانستان میں بھی جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے۔
اس خیال کا اظہار انھوں نے عراق میں امریکی فوجی کارروائی کے خاتمہ کے دو سال مکمل ہونے پر واشنگٹن کے نواح میں منعقدہ ایک تقریب میں فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اپنے خطاب میں انھوں نے افغانستان کے حوالے سے کہا کہ آیندہ سال افغان فوج سیکیورٹی کی ذمے داریاں سنبھال لے گی جب کہ 2014ء میں امریکی فوجی انخلاء مکمل ہو جائے گا۔
عراق سے امریکی فوجی انخلا کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن کیا امریکی فوجی انخلا کے بعد عراق میں امن قائم ہو گیا ہے یا وہاں وسیع پیمانے پر تشدد اور دہشتگردی کی وارداتیں بدستور جاری ہیں۔ اب امریکی صدر کا کہنا ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا عمل میں آ جائے گا لیکن یہاں وہ اس بات کو فراموش کر رہے ہیں کہ جنگ کا آغاز تو جو ملک بھی چاہے کر سکتا ہے خواہ وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو مگر جنگ کو انجام پر پہنچانا اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج کو سمیٹنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
عراق اس کی واضح مثال ہے۔ امریکا نے عراق میں جنگ شروع کی، صدام اور ان کے ساتھیوں کا خاتمہ کیا، اور فتح یاب ہو کر واپس آ گیا، لیکن عراق ابھی تک بدامنی اور قتل وغارت کا شکار ہے، سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے۔ کسی کو پتہ نہیں کل کیا ہو گا۔ افغانستان کا محاذ عراق سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ عراق خاصا ترقی یافتہ ملک تھا، یہاں قبائلی نظام اور جاگیرداریت کا کلچر خاصی حد تک دم توڑ چکا تھا لیکن افغانستان مکمل قبائلی معاشرہ ہے، یہاں انفرااسٹرکچر بھی نہیں ہے، صرف کابل ہی شہری کلچر کا حامل شہر ہے۔
اس قسم کے معاشرے میں امن قائم کرنا انتہائی مشکل ہے اور ایسے معاشرے کے نوجوانوں پر مشتمل فوج کو پروفیشنل کلچر میں ڈھالنا بھی مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان نیشنل آرمی کے افسر اور جوان بھی قبائلی عصبیتوں کا شکار ہیں اور ان کے نظریات اور خیالات بھی مبہم ہیں، اس قسم کی فورس زیادہ دیر تک متحد نہیں رہ سکتی، اس میں توڑ پھوڑ کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ اگر امریکا یہ سمجھتا ہے کہ اس کی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی اور ان کی جگہ افغان نیشنل آرمی کمان سنبھال لے گی تو یہ دن میں تارے دیکھنے والی بات ہے۔
ادھر امریکا طالبان سے خفیہ طور پر اور انتہائی راز داری کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہا ہے اور انھیں ترغیبات دے رہا ہے۔ دوسری طرف وہ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کے لیے پاکستان پر بھی زور ڈال رہا ہے۔ پاکستان کا اس حوالے سے موقف یہ ہے کہ فوجی کارروائی سے اول تو اس علاقے کی پوری کی پوری آبادی ہی بے گھر ہو جاتی ہے جس کی بحالی ایک الگ مسئلہ بن جاتی ہے جس کا تجربہ پاک آرمی کو جنوبی وزیرستان میں بخوبی ہو چکا ہے۔
جب کہ فوجی آپریشن کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ جن عسکریت پسندوں کے خلاف یہ کارروائی کی جا رہی ہو وہ سرحد عبور کر کے افغانستان چلے جائیں، اور وہاں حالات مزید خراب ہو جائیں۔ یوں دیکھا جائے تو امریکا کے پالیسی ساز ابھی تک افغانستان کے بحران سے نکلنے کا کوئی حمتی راستہ تلاش نہیں کرسکے۔ ان کے خیالات منتشر ہیں یہی بات افغان مسئلے کے حل میں رکاوٹ ہے، جب تک امریکا کے پالیسی ساز صیح سمت میں قدم نہیں اٹھاتے ، افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔