پنجاب میں 309 ارب روپے سے زرعی ایمرجنسی کا آغاز
پنجاب کی صنعتوں بالخصوص شوگر انڈسٹری اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کا خام مال زرعی اجناس ہی ہیں۔
KARACHI:
پاکستان میں حکومت سازی کے کھیل میں پنجاب سب سے بڑا کھلاڑی ہے، پنجاب میں جس کی حکومت بنے زیادہ تر وہی جماعت وفاق میں بھی برسرا قتدار آتی ہے اور اگر کبھی ایسا نہ تو پھر پنجاب میں بننے والی حکومت وفاق سے زیادہ موثر اور طاقتور ثابت ہوتی ہے۔
11 کروڑ نفوس کی آبادی والا پنجاب ہمیشہ سے''بادشاہ گر'' رہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت پنجاب میں اپنی طاقت بڑھانے کیلئے کوشاں رہتی ہے،پیپلز پارٹی تو پنجاب سے 90 فیصد کمزور ہو چکی ہے ، مسلم لیگ(ن) آج بھی پنجاب کی سب سے طاقتور جماعت ہے جبکہ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف آتی ہے۔
جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کا بھی بعض مخصوص علاقوں میں مضبوط اثر موجود ہے۔ مجموعی صورتحال کی بات کی جائے تو پنجاب کے سیاسی اکھاڑہ میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کا ہی مقابلہ ہے۔ پنجاب زرعی پیداوار کے حوالے سے بھی ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں کی زیادہ تر آبادی دیہی یا نیم دیہی علاقوں میں رہائش رکھتی ہے۔
پنجاب کی صنعتوں بالخصوص شوگر انڈسٹری اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کا خام مال زرعی اجناس ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں سیاسی طاقت کے حصول کیلئے کسانوں میں سیاسی جماعت کا مقبول اور قبول ہونا بہت ضروری ہے۔
گزشتہ دس برس کی بات کی جائے تو مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے زراعت کو بری طرح سے نظر انداز کیا، کسانوں کے لئے لاگت کاشت پوری کرنا ناممکن ہو گیا تھا جبکہ سب سے زیادہ نقصان زرعی تحقیق کے حوالے سے ہوا، نہ تو اہم فصلات کی کوئی نئی ورائٹی لائی گئی اور نہ ہی بیجوں کے حوالے سے جدید دور کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔
کپاس جو کہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے وہ تنزلی کا شکار رہی، زرعی ادویات کے لئے بھی حکومت لکیر کی فقیر بنی رہی۔ ان تمام عوامل کا نتیجہ یہ نکلا کہ زراعت سے وابستہ علاقوں میں مسلم لیگ(ن) کمزور ہوتی چلی گئی اور کسانوں کی اکثریت نے مسلم لیگ(ن) پر''کسان دشمن'' کا ٹھپہ لگا دیا۔
تحریک انصاف نے الیکشن سے قبل اپنے انتخابی منشور میں زراعت کی ترقی اور کسان کی خوشحالی کو نمایاں طور پر شامل کیا تھا لیکن حکومت بننے کے بعد پیدا ہونے والے معاشی بحران کی وجہ سے ابتدائی ایک برس تک حکومت زراعت کیلئے کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کر سکی لیکن اب جیسے جیسے معاشی صورتحال میں بتدریج بہتری آرہی ہے تو حکومت نے بھی زرعی شعبہ کی جانب توجہ بڑھانا شروع کردی ہے اور پنجاب میں زرعی منصوبوں کی بھرمار دکھائی دے رہی ہے۔
اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے سب سے با اعتماد ساتھی اور پاکستان کے معروف ترقی پسند کاشتکار جہانگیر خان ترین کا مرکزی کردار ہے۔ جہانگیر ترین ایک جدت پسند شخص ہیں اور شاید موجودہ نظام حکومت میں وہ سب سے زیادہ فعال اور موثر بھی ہیں لیکن بعض تکنیکی اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے میڈیا میں ان کی سرگرمیوں اور دن رات کی محنت پوری طرح سے اجاگر نہیں ہوتی،کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم نے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے معروف سیاستدان مخدوم خسرو بختیار کو وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کا قلمدان سونپا ہے۔
خسرو بختیار منجھے ہوئے سیاستدان کے ساتھ ساتھ ایک تجربہ کار کاشتکار بھی ہیں۔ جہانگیر ترین نے تمام صوبوں کی مشاورت کے بعد ایک میگا زرعی منصوبہ تیار کر کے وزیرا عظم کو پیش کیا تھا جس کی عمران خان نے منظوری دے دی ہے۔ قومی زرعی ایمرجنسی کے نام سے پکارے جانے والے اس منصوبے کیلئے 309 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور قابل ذکر امر یہ ہے اس میں زراعت کے ان شعبوں کو شامل کیا گیا ہے جو ماضی میں ہمیشہ نظر انداز ہوتے رہے ہیں ۔پاکستان میں دریاوں اور نہروں کا شاندار نظام موجود ہے جسے بروئے کار لا کر ماہی پروری کے شعبے کو وسیع کیا جائے گا۔
اس مقصد کیلئے 13.9 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ دنیا بھر میں زرعی جی ڈی پی میں ماہی پروری کا اوسط شیئر 6 فیصد ہے لیکن پاکستان میں یہ شرح محض1.5 فیصد ہے۔ بڑی فصلوں کی پیداوار بڑھانے کیلئے 44.8 ارب روپے رکھے گئے ہیں جن کے ذریعے گندم کی فی ایکڑ اوسط پیداوار کو 33 من سے بڑھا کر 40 فیصد کیا جائے گا جبکہ گنے کی فی ایکڑ اوسط پیداوار کو 150 من سے بڑھا کر 600 من تک لیجایا جائے گا۔
گندم کی پیداوار بڑھا کر گندم کی کاشت کے زیراستعمال 20 لاکھ ایکڑ رقبہ کو سن فلاور، کنولا سمیت دیگر فصلوں کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ لائیو سٹاک پاکستانی زراعت کا 59 فیصد ہونے کے باوجود ہمیشہ وسائل سے محروم رہا ہے، تحریک انصاف کی حکومت نے دیہی علاقوں میں پولٹری سکیم کے علاوہ کٹاو بچاو مہم اور منہ کھر بیماری کے تدارک کیلئے منصوبے لانچ کر دیئے ہیں۔زراعت کیلئے آبی نظام آب حیات کی حیثیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے 220 ارب روپے آبی نظام کی بہتری کیلئے مختص کیئے ہیں ۔
جن میں سے 179 ارب روپے کھالہ جات کی اصلاح کیلئے استعمال کیئے جائیں گے۔کسانوں کو جدید زراعت سے آگاہ کرنے اور ان کے کھیت تک سہولیات کی فراہمی کیلئے زرعی توسیع کے محکمہ کی تنظم نو بھی کی جائے گی اور اس حوالے سےE سروس بھی شروع کردی گئی ہے۔لاہور، ڈی جی خان، حافظ آباد، شیخوپورہ اور راولپنڈی میں نئی زرعی منڈیاں قائم کی جائیں گی جبکہ موجودہ 54 منڈیوں میں ترقیاتی کام ہوں گے اور 7 منڈیوں کو کشادہ مقامات پر منتقل کیا جائے گا۔ محکمہ زراعت پنجاب نے صوبائی وسائل کے ساتھ بھی اہم منصوبے شروع کیے ہیں جن کا کریڈٹ وزیر زراعت نعمان لنگڑیال اور سیکرٹری زراعت واصف خورشید کو جاتا ہے۔
محکمہ زراعت پنجاب نے ایک سال میں بہت محنت کی، گندم کی پیداوار میں فی ایکڑ 3 ہزار پودا جبکہ کپاس کی کاشت میں 1400 پودا فی ایکڑ اضافہ کیا ، چاول کی فصل میں بھی فی ایکڑ 2500 پودوں کا اضافہ ہوا ہے۔موسمی صورتحال نے کپاس کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور اگر محکمہ زراعت نے اتنی سخت محنت نہ کی ہوتی تو کپاس کی پیداوار تباہی کے دہانے پر جا چکی ہوتی۔ محکمہ خوراک پنجاب ہر سال کسانوں سے 150 ارب روپے سے زائد مالیت کی گندم خریدتا ہے۔ پنجاب میں بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ کے سونامی کے نتیجہ میں وقاص علی محمود کو نیا سیکرٹری فوڈ تعینات کیا گیا ہے،یہ ان کی پہلی ایڈ منسٹریٹو سیکرٹری شپ ہے لیکن وہ جس قدر محنتی، معاملہ فہم اور مضبوط قوت فیصلہ والے افسر ہیں اُمید ہے کہ وہ محکمہ خوراک کو درپیش چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے ۔
پاکستان میں حکومت سازی کے کھیل میں پنجاب سب سے بڑا کھلاڑی ہے، پنجاب میں جس کی حکومت بنے زیادہ تر وہی جماعت وفاق میں بھی برسرا قتدار آتی ہے اور اگر کبھی ایسا نہ تو پھر پنجاب میں بننے والی حکومت وفاق سے زیادہ موثر اور طاقتور ثابت ہوتی ہے۔
11 کروڑ نفوس کی آبادی والا پنجاب ہمیشہ سے''بادشاہ گر'' رہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت پنجاب میں اپنی طاقت بڑھانے کیلئے کوشاں رہتی ہے،پیپلز پارٹی تو پنجاب سے 90 فیصد کمزور ہو چکی ہے ، مسلم لیگ(ن) آج بھی پنجاب کی سب سے طاقتور جماعت ہے جبکہ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف آتی ہے۔
جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کا بھی بعض مخصوص علاقوں میں مضبوط اثر موجود ہے۔ مجموعی صورتحال کی بات کی جائے تو پنجاب کے سیاسی اکھاڑہ میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کا ہی مقابلہ ہے۔ پنجاب زرعی پیداوار کے حوالے سے بھی ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں کی زیادہ تر آبادی دیہی یا نیم دیہی علاقوں میں رہائش رکھتی ہے۔
پنجاب کی صنعتوں بالخصوص شوگر انڈسٹری اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کا خام مال زرعی اجناس ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں سیاسی طاقت کے حصول کیلئے کسانوں میں سیاسی جماعت کا مقبول اور قبول ہونا بہت ضروری ہے۔
گزشتہ دس برس کی بات کی جائے تو مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے زراعت کو بری طرح سے نظر انداز کیا، کسانوں کے لئے لاگت کاشت پوری کرنا ناممکن ہو گیا تھا جبکہ سب سے زیادہ نقصان زرعی تحقیق کے حوالے سے ہوا، نہ تو اہم فصلات کی کوئی نئی ورائٹی لائی گئی اور نہ ہی بیجوں کے حوالے سے جدید دور کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔
کپاس جو کہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے وہ تنزلی کا شکار رہی، زرعی ادویات کے لئے بھی حکومت لکیر کی فقیر بنی رہی۔ ان تمام عوامل کا نتیجہ یہ نکلا کہ زراعت سے وابستہ علاقوں میں مسلم لیگ(ن) کمزور ہوتی چلی گئی اور کسانوں کی اکثریت نے مسلم لیگ(ن) پر''کسان دشمن'' کا ٹھپہ لگا دیا۔
تحریک انصاف نے الیکشن سے قبل اپنے انتخابی منشور میں زراعت کی ترقی اور کسان کی خوشحالی کو نمایاں طور پر شامل کیا تھا لیکن حکومت بننے کے بعد پیدا ہونے والے معاشی بحران کی وجہ سے ابتدائی ایک برس تک حکومت زراعت کیلئے کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کر سکی لیکن اب جیسے جیسے معاشی صورتحال میں بتدریج بہتری آرہی ہے تو حکومت نے بھی زرعی شعبہ کی جانب توجہ بڑھانا شروع کردی ہے اور پنجاب میں زرعی منصوبوں کی بھرمار دکھائی دے رہی ہے۔
اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے سب سے با اعتماد ساتھی اور پاکستان کے معروف ترقی پسند کاشتکار جہانگیر خان ترین کا مرکزی کردار ہے۔ جہانگیر ترین ایک جدت پسند شخص ہیں اور شاید موجودہ نظام حکومت میں وہ سب سے زیادہ فعال اور موثر بھی ہیں لیکن بعض تکنیکی اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے میڈیا میں ان کی سرگرمیوں اور دن رات کی محنت پوری طرح سے اجاگر نہیں ہوتی،کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم نے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے معروف سیاستدان مخدوم خسرو بختیار کو وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کا قلمدان سونپا ہے۔
خسرو بختیار منجھے ہوئے سیاستدان کے ساتھ ساتھ ایک تجربہ کار کاشتکار بھی ہیں۔ جہانگیر ترین نے تمام صوبوں کی مشاورت کے بعد ایک میگا زرعی منصوبہ تیار کر کے وزیرا عظم کو پیش کیا تھا جس کی عمران خان نے منظوری دے دی ہے۔ قومی زرعی ایمرجنسی کے نام سے پکارے جانے والے اس منصوبے کیلئے 309 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور قابل ذکر امر یہ ہے اس میں زراعت کے ان شعبوں کو شامل کیا گیا ہے جو ماضی میں ہمیشہ نظر انداز ہوتے رہے ہیں ۔پاکستان میں دریاوں اور نہروں کا شاندار نظام موجود ہے جسے بروئے کار لا کر ماہی پروری کے شعبے کو وسیع کیا جائے گا۔
اس مقصد کیلئے 13.9 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ دنیا بھر میں زرعی جی ڈی پی میں ماہی پروری کا اوسط شیئر 6 فیصد ہے لیکن پاکستان میں یہ شرح محض1.5 فیصد ہے۔ بڑی فصلوں کی پیداوار بڑھانے کیلئے 44.8 ارب روپے رکھے گئے ہیں جن کے ذریعے گندم کی فی ایکڑ اوسط پیداوار کو 33 من سے بڑھا کر 40 فیصد کیا جائے گا جبکہ گنے کی فی ایکڑ اوسط پیداوار کو 150 من سے بڑھا کر 600 من تک لیجایا جائے گا۔
گندم کی پیداوار بڑھا کر گندم کی کاشت کے زیراستعمال 20 لاکھ ایکڑ رقبہ کو سن فلاور، کنولا سمیت دیگر فصلوں کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ لائیو سٹاک پاکستانی زراعت کا 59 فیصد ہونے کے باوجود ہمیشہ وسائل سے محروم رہا ہے، تحریک انصاف کی حکومت نے دیہی علاقوں میں پولٹری سکیم کے علاوہ کٹاو بچاو مہم اور منہ کھر بیماری کے تدارک کیلئے منصوبے لانچ کر دیئے ہیں۔زراعت کیلئے آبی نظام آب حیات کی حیثیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے 220 ارب روپے آبی نظام کی بہتری کیلئے مختص کیئے ہیں ۔
جن میں سے 179 ارب روپے کھالہ جات کی اصلاح کیلئے استعمال کیئے جائیں گے۔کسانوں کو جدید زراعت سے آگاہ کرنے اور ان کے کھیت تک سہولیات کی فراہمی کیلئے زرعی توسیع کے محکمہ کی تنظم نو بھی کی جائے گی اور اس حوالے سےE سروس بھی شروع کردی گئی ہے۔لاہور، ڈی جی خان، حافظ آباد، شیخوپورہ اور راولپنڈی میں نئی زرعی منڈیاں قائم کی جائیں گی جبکہ موجودہ 54 منڈیوں میں ترقیاتی کام ہوں گے اور 7 منڈیوں کو کشادہ مقامات پر منتقل کیا جائے گا۔ محکمہ زراعت پنجاب نے صوبائی وسائل کے ساتھ بھی اہم منصوبے شروع کیے ہیں جن کا کریڈٹ وزیر زراعت نعمان لنگڑیال اور سیکرٹری زراعت واصف خورشید کو جاتا ہے۔
محکمہ زراعت پنجاب نے ایک سال میں بہت محنت کی، گندم کی پیداوار میں فی ایکڑ 3 ہزار پودا جبکہ کپاس کی کاشت میں 1400 پودا فی ایکڑ اضافہ کیا ، چاول کی فصل میں بھی فی ایکڑ 2500 پودوں کا اضافہ ہوا ہے۔موسمی صورتحال نے کپاس کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور اگر محکمہ زراعت نے اتنی سخت محنت نہ کی ہوتی تو کپاس کی پیداوار تباہی کے دہانے پر جا چکی ہوتی۔ محکمہ خوراک پنجاب ہر سال کسانوں سے 150 ارب روپے سے زائد مالیت کی گندم خریدتا ہے۔ پنجاب میں بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ کے سونامی کے نتیجہ میں وقاص علی محمود کو نیا سیکرٹری فوڈ تعینات کیا گیا ہے،یہ ان کی پہلی ایڈ منسٹریٹو سیکرٹری شپ ہے لیکن وہ جس قدر محنتی، معاملہ فہم اور مضبوط قوت فیصلہ والے افسر ہیں اُمید ہے کہ وہ محکمہ خوراک کو درپیش چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے ۔