پاکستان غذائی قلت کا شکار کیوں

پاکستان میں غذا کی کمی نہیں ہے، بس ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ یہ غذا عام آدمی تک پہنچ سکے

غربت کی وجہ سے لوگوں کو مشکل سے دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان میں غربت دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے اور اسی غربت کی ہی وجہ سے لوگوں کو مشکل سے دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے۔ اس دو وقت کی روٹی کے حصول نے آج کے انسان کو اس طرح سختی سے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے کہ زندگی بس اسی کے گرد گھومتی رہتی ہے۔

غربت، بھو ک، افلاس انسان سے جینے کا حق چھین لیتی ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں روٹی نے ہی انسان کو اتنا اُلجھا کر رکھ دیا ہے کہ غریب کی زند گی کے شب و روز صرف روٹی کے بارے میں سوچتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اسی لیے تو کرپٹ سیاستدان ہم پر صدیوں سے راج کرتے آرہے ہیں اور نہایت دلیری سے ہمارا معاشی استحصال کرتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ غربت کی وجہ سے غذائی قلت جنم لیتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ غذائی قلت کا مسئلہ گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان ایک طرف تو زرعی ملک ہے جہاں سالانہ لاکھوں ٹن گندم اور چاول بیرون ملک برآمد کیے جاتے ہیں۔ یونیسف کے نیشنل نیوٹریشنل سروے کے مطابق پاکستان گندم پیدا کرنے والا دنیا کا آٹھواں، چاول پیدا کرنے والا دسواں، گنا پیدا کرنے والا پانچواں اور دودھ پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود پاکستان ان ممالک کی فہرست میں سب سے آگے ہے، جہاں غذائی قلت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔

پاکستان گلوبل ہنگر انڈیکس میں 119 ممالک میں سے 106 نمبر پر ہے، جسے سنگین غذائی قلت کا سامنا ہے۔ درحقیقت پاکستان (مع بنگلہ دیش، کانگو، ایتھوپیا، بھارت، انڈونیشیا) ان سات ممالک میں شامل ہے جنھیں مجموعی طور پر غذائی قلت کی حامل دنیا کی دو تہائی آبادی میں شمار کیا جاتا ہے۔ دنیا میں غربت اور بھوک پر نظر رکھنے والے انٹرنیشنل ادارے فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیوٹ کے اندازے کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک پاکستانی غذائی قلت کا شکار ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں اٹھارہ اعشاریہ تین فیصد خاندان سنگین غذائی قلت کا شکار ہیں اور 5 کروڑ افراد اپنی آمدنی کے حساب سے ضروریات زند گی سے محروم ہیں۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں غذائی قلت سے ہر سال معیشت پر جی ڈی پی کے 3 فیصد یعنی 7 اعشاریہ 6 ارب امریکی ڈالر کی لاگت آتی ہے۔

اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس غذائی قلت کی وجہ سے ہماری آنے والی نسل بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں نومولودوں کی اموات کی وجہ غذائی قلت ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں زیادہ تر 5 سال سے کم عمر بچے ٹھٹھرے (عمر کے اعتبار سے پست قد) کے حامل ہیں۔ اور ہر دس میں سے ایک بچہ دبلاپے (قد کے اعتبار سے وزن میں کمی) کا شکار ہے۔


غذائی قلت سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں زنک اور آئیوڈین کی کمی، جسم ٹھٹھر جانا، خون کی کمی، جسمانی نشوونما میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔ ان بیماریوں کی وجہ سے ملک میں افرادی پیداواریت کمزور ہوتی جارہی ہے اور مستقبل کی افرادی قوت ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

غذائی قلت کی وجوہات کو دیکھا جائے تو ملک میں آبادی کی بلند نمو، آب و ہوا کے ناسازگار حالات اور سب سے بڑھ کر ہوشربا مہنگائی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح یعنی 12 اعشاریہ 7 فیصد تک جاسکتی ہے۔ مہنگائی کے باعث غریب آدمی اپنی آمدنی کا 70 فیصد خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔

غذائی قلت کے حوالے سے سندھ کا تھر ہمیشہ ہی سرخیوں میں رہا ہے۔ وہاں ہزاروں کی تعداد میں بچے غذائی قلت کے باعث اپنی جان گنوا چکے ہیں اور ہزاروں حاملہ خواتین بدستور غذائی قلت کا شکار ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سندھ میں اُس جماعت کی حکومت ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان میں روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ لگایا تھا، مگر یہ نعرہ صرف ووٹ حاصل کرنے کےلیے ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل حکومت نے سرکاری پروگرام احساس کے تحت سیلانی لنگر اسکیم کا افتتاح کیا تھا۔ اس لنگر پروگرام پر اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے مزید پروگرام چھوٹے بڑے شہروں میں شروع ہونے چاہئیں تاکہ عوام کو دو وقت کی روٹی تو سکون سے میسر ہوسکے۔ لنگر خانوں سے ہٹ کر حکومت کو اور بھی بہترین معاشی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ مہنگائی کو کنٹرول کیا جاسکے۔ کیونکہ یہ بات تو سچ ہے کہ پاکستان میں غذا کی کمی نہیں ہے، بس ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ یہ غذا عام آدمی تک پہنچ سکے۔

ہم جنگ لڑنے کےلیے نہ جانے کتنے اربوں روپے ہتھیاروں پر خرچ کررہے ہیں، مگر بھوک، افلاس اور غربت کے خلاف جنگ لڑنے کےلیے ناقص حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔ غذائی قلت کو دور کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story