مائنس ون فارمولا اورچٹان پر بنا گھر

سیانے کہتے ہیں، سیاست میں سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔

مضبوط، اونچے گھروں میں رہنے والے بارش اور طوفانوں سے نہیں گھبراتے ، یہ تو نشیبی علاقے ہیں، جو زیر آب آتے ہیں، جھونپڑی ہے، جس کی چھت ٹپکتی ہے۔

ممتاز فکشن نگار ، راجندر سنگھ بیدی کے افسانے ''دس منٹ کی بارش'' میں اِس درد ناک کیفیت کو بہت موثر انداز میں بیان کیا گیا۔ کیسی تلخ حقیقت ہے، جس کا مکان اونچی چٹان پہ ہو اور جس کی چھت پختہ ہو، وہ مشکلات کو سہولت سے سہہ لیتا ہے۔ کرب کمزور پر اترتا ہے اور یہ المیہ نیا نہیں، یہ تو صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ ہر جگہ ہر خطے میں یہی صورتحال۔ کیا ترقی یافتہ کیا ترقی پذیر، ہر ملک میں طاقت ہی اکلوتا قانون۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ قانون صرف غریبوں کے لیے۔

ایسے میں جب میاں نواز شریف بیرون ملک جا چکے ہیں، ن لیگ کے اہم رہنما لندن کی سڑکوں پر چہل قدمی کرتے نظر آتے ہیں، اور مریم نواز بھی باہر جانے کے لیے درخواست دائر کر چکیں۔۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا یکساں احتساب کا نعرہ اور کسی کو این آر او نہ دینے کا دعویٰ کیا اپنی معنویت کھو چکا ہے؟

سیانے کہتے ہیں، سیاست میں سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ مناسب یہی تھا کہ میاں نواز شریف کو، جن کی بیماری تصدیق شدہ تھی، باہر جانے دیا جائے۔ کچھ دوست سوال کرتے ہیں کہ وہ بیمار، لاچار قیدی ، جو اُن گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں، جو انھوں نے کبھی کیے ہی نہیں، کیا انھیں بھی ایسا ہی ریلیف ملے گا؟

یہ سوال سراسر نادانی ہے۔ راقم کے نزدیک کسی کمزور، لاچار شخص کا ایسے آدمی سے موازنہ، جو تین بار اِس ملک کا وزیر اعظم رہا ہو، کامیاب ترین بزنس مین ہو، کسی صورت ممکن نہیں۔ کبھی دھرتی اور آکاش بھی ایک ہوئے ہیں؟ اور ایسا صرف ہمارے ہاں نہیں، جس ملک پر نگاہ کریں گے، آپ طاقتور کو محفوظ اور مطمئن پائیں گے۔

جہاں تک احتساب کے بیانات کا تعلق ہے، یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔ چیئرمین نیب کی آواز سنائی دے گی، وزیر اعظم کا ٹویٹ ظاہر ہو گا، وزرا پریس کانفرنس کریں گے۔ (ہاں، اِس شور میں کچھ ایسے نام بھی ہوں گے، جن کی بد عنوانی ثابت ہونے کے باوجود ان کے ذکر پر خاموشی سادھ لی جائے گی) الغرض، آنے والے دنوں میں بھی احتساب کا نعرہ یونہی بلند ہوتا رہے گا، دعویٰ کیا جائے گا کہ کسی کو این آر او نہیں ملے گا، مگر ساتھ ہی وہ افراد ، جن پر متعدد مقدمات ہیں، مفاہمت، مجبوری اور یا اپنی طاقت کے بل بوتے پر رعایت حاصل کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ اگلے الیکشن آن پہنچیں گے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کچھ کمزور ہو چکی ہو گی۔ اسے بلاول اور مریم نواز کی صورت ایک تگڑی اپوزیشن کا سامنا ہو گا۔

اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگلے الیکشن کب ہوں گے؟


پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو گزشتہ تین حکومتوں نے اپنی پارلیمانی مدت پوری کی۔ وزیر اعظم ضرور بدلے، مگر ق لیگ، پی پی اور ن لیگ تینوں پانچ برس برسر اقتدار رہیں۔ پارلیمانی نظام کام کرتا رہا۔ یہ واقعہ خوش آئند ہے۔ یاد رہے کہ ستر برس میں یہ پہلا موقع ہے، جب یہ واقعہ رونما ہوئے۔ اسی لیے امید، بلکہ خواہش رکھنی چاہیے کہ یہ پارلیمنٹ بھی اپنی مدت پوری کرے گی۔ اور اگر کوئی رکاوٹ آئی، نظام کو کوئی خطرہ لاحق ہوا، تو اپوزیشن ماضی کی طرح حکومت کا بھر پور ساتھ دے گی، آہنی دیوار بن جائے گی۔

لیکن اگر ایسا نہیں ہوا، تو اس کا سبب حکومت کا جارحانہ رویہ، بلند آہنگ ہو گا۔ مغلظات، دشنام طرازیاں، قریب نہیں لاتیں، فاصلے پیدا کرتی ہیں۔ اور فیصلے تو پیدا ہو چکے۔ اپوزیشن حکومت سے نالاں۔ مولانا فضل الرحمان میدان میں اتر چکے ہیں۔ مائنس ون کا نعرہ لگ گیا۔ مولانا کا دباؤ حکومت پر مسلسل رہے گا۔ ابھی وہ تنہا تھے، لیکن جلد تنہائی دور ہو جائے گی ۔ (عمران خان کو بھی تو طاہر القادری کا ساتھ مل گیا تھا) ممکن ہے، کل ن لیگ اور پیپلز پارٹی پوری قوت کے ساتھ مولانا کی حمایت کریں۔ حالات کا رخ بدل جائے۔ پھر حاکم وقت کی کرپشن کا شور اٹھے، پھر احتساب کی تلوار چلے، پھر کوئی نا اہل قرار پائے۔

بہ ظاہر پی ٹی آئی سرکار مضبوط ہے، لیکن سامنے نظر آنے والا منظر حقیقت نہیں ہوتا۔ گرد کے پیچھے کون سا آسیب چھپا ہے، کسے خبر۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ چاہے زرداری ہوں یا نواز شریف، سیاسی جماعت کے طاقتور ترین شخص کو احتساب کے الزامات کا سامنا رہا، منتخب وزیر اعظم رخصت ہوئے۔

کسے پتہ، کل زیر زمین حرکت ہو۔ آتش فشاں پھٹ پڑیں۔ احتساب کی نعرہ پھر ایک منتخب وزیر اعظم کی رخصتی کی وجہ بن جائے۔ نواز شریف موجودہ وزیر اعظم سے زیادہ طاقتور تھے، لیکن ہوا کا رخ بدلتا ہے، تو درخت تنکوں کی طرح ہواؤں میں اڑتے دکھائی دیتے ہیں۔

عمران خان کے بنا پی ٹی آئی کی حکومت کا تصور محال، لیکن مصلحت اور مجبوری سمجھوتوں کو جنم دیتی آئی ہے۔ نامعلوم کے دھند سے اجنبی چہرہ بر آمد ہو کر وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ نظام گھسٹتے ہوئے آگے بڑھتا رہتا ہے۔

پہلے بھی لکھا تھا، تاریخ خود کو نہیں دہراتی، یہ انسان ہے، جو اپنی غلطیاں دہراتا ہے اور اپنی خطاؤں کو تاریخ کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔ موجودہ سرکار بھی ماضی کی حکومتوں والی غلطیاں دہرا رہی ہے، ممکن ہے، ماضی کی حکومتوں کو ہی سا خمیازہ بھگتنا پڑے، مگر کسے پروا۔ حکمران لمحہ حال میں خوش، عوام بدحالی سے نبر د آزما۔

اگر آج کے حکمرانوں پر کل بدعنوانی کا الزام آیا بھی، تو وہ اپنے پیش روؤں کی طرح سہولت سے بیرون ملک روانہ ہو جائیں گے۔ طاقتور کے لیے علاج کی سہولت ہے، غریب کا نصیب موت ہے۔

مائنس ون ہو یا مائنس ٹو، چٹان پر بنے، پختہ گھر میں رہنے والے طوفانوں میں بھی محفوظ رہتے ہیں۔ زیر آب تو عوام آتے ہیں۔ نشیبی علاقوں میں، کچے گھروں میں رہنے والے عوام۔
Load Next Story