کراچی میں آوارہ کتوں کی بہتات
مغربی ممالک میں آوارہ کتے کاٹنے پر بلدیہ کے خلاف مقدمہ دائر کیا جاتا ہے
کراچی میں ہمیشہ خوف و دہشت کی فضا کے کم ہونے کی نوید سنائی جاتی رہی ہے، اس کے باوجود یہاں کے شہری مختلف حوالوں سے آئے دن خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس خوف کی مختلف وجوہات ہیں جو توجہ کی طالب ہیں۔ کراچی کے ہر گلی کوچے میں آوارہ کتوں کی وجہ سے بھی خوف کی یہ فضا پائی جاتی ہے اور یہ خطرناک صورت حال فوری توجہ اور سدباب کی متقاضی ہے۔ اٹھائیس ستمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں پاگل کتے کے کاٹنے سے لاحق ہونیوالے مرض ریبیز کا عالمی دن منایاگیا۔ جہاں تک کراچی جیسے بین الاقوامی گنجان آباد شہرکا تعلق ہے تو یہاں آوارہ کتوں کی بہتات کے خوف و دہشت کی سنگینی کا اندازہ ان اخباری خبروں سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں آوارہ کتوں نے بچوں سمیت درجنوں افراد کو کاٹ لیا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ آوارہ کتوں کی غول در غول یلغار نے شہریوں، خاص کر عورتوں اور بچوں کی آزادانہ آمد و رفت کو متاثر کیا ہوا ہے۔ ؎
گھر رہیے تو ویرانیٔ دل کھانے کو آئے
رہ چلیے تو ہر گام پہ غوگائے سگاں ہے
شہر کی کچی بستیوں اور مضافاتی علاقوں میں رہنے والے شہریوں کو آوارہ کتوں سے نجات دلانے کی فوری ضرورت ہے۔ اس لیے کہ یہ آوارہ کتے قبرستانوں، کچی بستیوں، پرانی عمارتوں اور غیر آباد علاقوں کو اکثر اپنا مسکن بناتے ہیں، کراچی کے تقریباً ہر علاقے میں دن دہاڑے اور رات کو ٹولیوں کی شکل میں دندناتے ہیں جہاں ان کا راج نظر آتاہے۔ رات گئے ملازمت سے چھٹی کرنیوالے بیش تر لوگ گھر جاتے ہوئے کتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے زہریلا گوشت ساتھ رکھتے ہیں۔ جب حملہ ہونے کا خطرہ بڑھ جاتاہے تو زہریلا گوشت کتوں کے آگے ڈال دیا جاتاہے۔ اس ضمن میں کچھ لوگوں کا کہناہے کہ یہ آوارہ کتے اس قدر سخت جان ہوگئے ہیں کہ بعض اوقات زہریلا گوشت بھی ان پر اثر نہیں کرتا۔ اکثر و بیشتر شہر میں سگ گزیدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روشنی میں بلدیاتی سطح پر کتا مار مہم کے آغاز اور اختتام کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں لیکن آوارہ کتوں کی نسل ہے کہ خاتمے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر کیوں؟
مغربی ممالک میں آوارہ کتے کاٹنے پر بلدیہ کے خلاف مقدمہ دائر کیا جاتا ہے اور بلدیہ ہر جانے کے طورپر کم از کم 20تا 30ہزار ڈالر متاثرہ شخص کو ادا کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ علاج و معالجے کی ذمے داری بھی بلدیہ کی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کے بلدیاتی اداروں نے ابھی تک اتنی ترقی نہیں کی کہ وہ کتے کے کاٹے سے متاثر ہونیوالے افراد کے لیے ابتدائی طورپر استعمال ہونے والی ادویات بھی مہیا کرسکیں۔ چہ جائیکہ کتے کاٹے پر ہرجانہ ادا کیاجائے۔ ہمارے ہاں لوگ پاگل کتوں سے اپنی حفاظت آپ کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر بدقسمتی سے وہ کتے کے کاٹے سے زخمی ہوجاتے ہیں یا ہلاکت و پاگل پن کے مرحلے سے گزرتے ہیں تو اس قتل عمد پر کسی کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی نہیں کی جاسکتی۔ مقدمہ اور جرمانہ تو دورکی بات ہے۔ ہمارے ہاں سگ گزیدگی کے علاج کے لیے مفت ویکسین مل جائے تو بھی بڑی بات ہے یہ انتہائی مہنگی دوائیں ہیں جو کراچی کے جناح اور سول اسپتال میں بھی بہت کم پائی جاتی ہیں۔ مریضوں سے کہاجاتاہے کہ بجٹ قلیل ہے باہر سے خریدلو۔ ایسے میں غریب متاثرین جائیں تو کہاں جائیں؟
ایکسپریس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق آوارہ کتوں کی بہتات کی وجہ سے سگ گزیدگی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہورہاہے۔ کراچی میں آوارہ کتوں کے خاتمے کے لیے کوئی موثر مہم نہیں چلائی جاتی۔ صوبائی محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے کسی بھی سرکاری اسپتال میں ریبیز یونٹ نہیں تاہم سول اسپتال کراچی میں کتے کے کاٹے کے علاج کے لیے قائم کیے جانے والے یونٹ کو غیر فعال کردیاگیاہے۔ سول اسپتال میں کتے کے کاٹے کے علاج کی سہولتیں بھی موجود نہیں۔ کراچی میں صرف جناح اسپتال کے شعبہ حادثات میں سگ گزیدگی کے مریضوںاورریبیزکے مریضوں کے لیے علاج کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں، عباسی اسپتال میں کتے کے کاٹے کے مریضوں کو جناح اسپتال منتقل کیا جاتاہے۔ سول اسپتال میں سگ گزیدگی کے علاج کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے ان مریضوں کو نجی اسپتالوں میں علاج کرانے کی ہدایت دی جاتی ہے جو عام افراد کی دسترس سے باہر ہے۔ جناح اسپتال میں سالانہ سگ گزیدگی کے دس ہزار مریض لائے جاتے ہیں جن کو علاج کی تمام جدید سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ماہرین طب کا کہناہے کہ پاگل کتے کے کاٹنے سے مریض کے جسم میں ریبیز کا وائرس داخل ہوجاتاہے۔
کتے کے کاٹنے کے فوراً بعد زخم کو اچھے صابن سے اچھی طرح صاف کرنا چاہیے اور فوراً معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ پاگل کتے کے کاٹنے سے انسانی جسم میں داخل ہونیوالے ریبیز وائرس دماغ کی سوجن کا سبب بھی بنتاہے اور انسانوں میں منتقل ہوکر دماغ کے مرکزی نظام کو شدید متاثر کردیتاہے اور متاثرہ افراد بہکی بہکی باتیں بھی کرنے لگتاہے، روشنی اور پانی سے بھی مریض کو ڈر لگنے لگتاہے۔ دماغ کے کام چھوڑنے سے انسانی موت واقع ہوجاتی ہے اور ری بیز سے 95فیصد اموات ہوتی ہیں۔ریبیز کیا ہے؟ ''ریبیز'' ایک لا علاج مرض ہے، لیکن بر وقت طبی امداد سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ ان جانوروں کے کاٹنے سے ہوتاہے جو دودھ پلاتے اور بچے پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً کتے، بلیاں، نیولے، گھوڑے، گدھے وغیرہ مگر ان میں سے سب سے زیادہ تناسب یعنی 98فیصد متاثرین کا تعلق سڑکوں پر آوارہ پھرنے والے کتوں کے کاٹنے سے ہوتاہے۔
خیال رہے کہ پہلے کتے کے کاٹنے یا ریبیز کی صورت میں متاثرہ شخص کو 14انجکشن لگوانے پڑتے تھے لیکن اب عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ غیر محفوظ ویکسین ہے اس کی جگہ اب RABIES IMMUNE RIG GLOBULIN کا انجکشن بازو یا کولہوں پر لگایا جاتاہے۔ یہ انجکشن مریض کو پہلے، تیسرے ، ساتویں اور اٹھائیسویں دن لگوائے جاتے ہیں۔ مذکورہ انجکشن دو طرح کے ہوتے ہیں اور ان کی قیمتیں بھی مختلف ہیں یعنی جانوروں کے خون سے بننے والے انجکشن کی قیمت ایک ہزار روپے سے زیادہ اور انسانی خون سے بننے والے انجکشن کی قیمت6ہزار روپے سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس تناظر میں یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جاسکتی ہے کہ وزارت صحت ملک بھر میں ''ریبیز یونٹ '' کا قیام عمل میں لائے اور مقامی حکومتیں (بلدیہ) ہنگامی بنیادوں پر آوارہ کتوں کا خاتمہ کریں کیوںکہ ان کی وجہ سے بے شمار انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔ طبی ماہرین واضح کرچکے ہیں کہ ''ریبیز'' ایک ایسا لا علاج مرض ہے جس کی منزل موت ہے۔ کیا ہمیں اور ہمارے شہری اداروں کو اس خطرے کا احساس ہے؟
گھر رہیے تو ویرانیٔ دل کھانے کو آئے
رہ چلیے تو ہر گام پہ غوگائے سگاں ہے
شہر کی کچی بستیوں اور مضافاتی علاقوں میں رہنے والے شہریوں کو آوارہ کتوں سے نجات دلانے کی فوری ضرورت ہے۔ اس لیے کہ یہ آوارہ کتے قبرستانوں، کچی بستیوں، پرانی عمارتوں اور غیر آباد علاقوں کو اکثر اپنا مسکن بناتے ہیں، کراچی کے تقریباً ہر علاقے میں دن دہاڑے اور رات کو ٹولیوں کی شکل میں دندناتے ہیں جہاں ان کا راج نظر آتاہے۔ رات گئے ملازمت سے چھٹی کرنیوالے بیش تر لوگ گھر جاتے ہوئے کتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے زہریلا گوشت ساتھ رکھتے ہیں۔ جب حملہ ہونے کا خطرہ بڑھ جاتاہے تو زہریلا گوشت کتوں کے آگے ڈال دیا جاتاہے۔ اس ضمن میں کچھ لوگوں کا کہناہے کہ یہ آوارہ کتے اس قدر سخت جان ہوگئے ہیں کہ بعض اوقات زہریلا گوشت بھی ان پر اثر نہیں کرتا۔ اکثر و بیشتر شہر میں سگ گزیدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روشنی میں بلدیاتی سطح پر کتا مار مہم کے آغاز اور اختتام کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں لیکن آوارہ کتوں کی نسل ہے کہ خاتمے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر کیوں؟
مغربی ممالک میں آوارہ کتے کاٹنے پر بلدیہ کے خلاف مقدمہ دائر کیا جاتا ہے اور بلدیہ ہر جانے کے طورپر کم از کم 20تا 30ہزار ڈالر متاثرہ شخص کو ادا کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ علاج و معالجے کی ذمے داری بھی بلدیہ کی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کے بلدیاتی اداروں نے ابھی تک اتنی ترقی نہیں کی کہ وہ کتے کے کاٹے سے متاثر ہونیوالے افراد کے لیے ابتدائی طورپر استعمال ہونے والی ادویات بھی مہیا کرسکیں۔ چہ جائیکہ کتے کاٹے پر ہرجانہ ادا کیاجائے۔ ہمارے ہاں لوگ پاگل کتوں سے اپنی حفاظت آپ کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر بدقسمتی سے وہ کتے کے کاٹے سے زخمی ہوجاتے ہیں یا ہلاکت و پاگل پن کے مرحلے سے گزرتے ہیں تو اس قتل عمد پر کسی کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی نہیں کی جاسکتی۔ مقدمہ اور جرمانہ تو دورکی بات ہے۔ ہمارے ہاں سگ گزیدگی کے علاج کے لیے مفت ویکسین مل جائے تو بھی بڑی بات ہے یہ انتہائی مہنگی دوائیں ہیں جو کراچی کے جناح اور سول اسپتال میں بھی بہت کم پائی جاتی ہیں۔ مریضوں سے کہاجاتاہے کہ بجٹ قلیل ہے باہر سے خریدلو۔ ایسے میں غریب متاثرین جائیں تو کہاں جائیں؟
ایکسپریس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق آوارہ کتوں کی بہتات کی وجہ سے سگ گزیدگی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہورہاہے۔ کراچی میں آوارہ کتوں کے خاتمے کے لیے کوئی موثر مہم نہیں چلائی جاتی۔ صوبائی محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے کسی بھی سرکاری اسپتال میں ریبیز یونٹ نہیں تاہم سول اسپتال کراچی میں کتے کے کاٹے کے علاج کے لیے قائم کیے جانے والے یونٹ کو غیر فعال کردیاگیاہے۔ سول اسپتال میں کتے کے کاٹے کے علاج کی سہولتیں بھی موجود نہیں۔ کراچی میں صرف جناح اسپتال کے شعبہ حادثات میں سگ گزیدگی کے مریضوںاورریبیزکے مریضوں کے لیے علاج کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں، عباسی اسپتال میں کتے کے کاٹے کے مریضوں کو جناح اسپتال منتقل کیا جاتاہے۔ سول اسپتال میں سگ گزیدگی کے علاج کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے ان مریضوں کو نجی اسپتالوں میں علاج کرانے کی ہدایت دی جاتی ہے جو عام افراد کی دسترس سے باہر ہے۔ جناح اسپتال میں سالانہ سگ گزیدگی کے دس ہزار مریض لائے جاتے ہیں جن کو علاج کی تمام جدید سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ماہرین طب کا کہناہے کہ پاگل کتے کے کاٹنے سے مریض کے جسم میں ریبیز کا وائرس داخل ہوجاتاہے۔
کتے کے کاٹنے کے فوراً بعد زخم کو اچھے صابن سے اچھی طرح صاف کرنا چاہیے اور فوراً معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ پاگل کتے کے کاٹنے سے انسانی جسم میں داخل ہونیوالے ریبیز وائرس دماغ کی سوجن کا سبب بھی بنتاہے اور انسانوں میں منتقل ہوکر دماغ کے مرکزی نظام کو شدید متاثر کردیتاہے اور متاثرہ افراد بہکی بہکی باتیں بھی کرنے لگتاہے، روشنی اور پانی سے بھی مریض کو ڈر لگنے لگتاہے۔ دماغ کے کام چھوڑنے سے انسانی موت واقع ہوجاتی ہے اور ری بیز سے 95فیصد اموات ہوتی ہیں۔ریبیز کیا ہے؟ ''ریبیز'' ایک لا علاج مرض ہے، لیکن بر وقت طبی امداد سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ ان جانوروں کے کاٹنے سے ہوتاہے جو دودھ پلاتے اور بچے پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً کتے، بلیاں، نیولے، گھوڑے، گدھے وغیرہ مگر ان میں سے سب سے زیادہ تناسب یعنی 98فیصد متاثرین کا تعلق سڑکوں پر آوارہ پھرنے والے کتوں کے کاٹنے سے ہوتاہے۔
خیال رہے کہ پہلے کتے کے کاٹنے یا ریبیز کی صورت میں متاثرہ شخص کو 14انجکشن لگوانے پڑتے تھے لیکن اب عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ غیر محفوظ ویکسین ہے اس کی جگہ اب RABIES IMMUNE RIG GLOBULIN کا انجکشن بازو یا کولہوں پر لگایا جاتاہے۔ یہ انجکشن مریض کو پہلے، تیسرے ، ساتویں اور اٹھائیسویں دن لگوائے جاتے ہیں۔ مذکورہ انجکشن دو طرح کے ہوتے ہیں اور ان کی قیمتیں بھی مختلف ہیں یعنی جانوروں کے خون سے بننے والے انجکشن کی قیمت ایک ہزار روپے سے زیادہ اور انسانی خون سے بننے والے انجکشن کی قیمت6ہزار روپے سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس تناظر میں یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جاسکتی ہے کہ وزارت صحت ملک بھر میں ''ریبیز یونٹ '' کا قیام عمل میں لائے اور مقامی حکومتیں (بلدیہ) ہنگامی بنیادوں پر آوارہ کتوں کا خاتمہ کریں کیوںکہ ان کی وجہ سے بے شمار انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔ طبی ماہرین واضح کرچکے ہیں کہ ''ریبیز'' ایک ایسا لا علاج مرض ہے جس کی منزل موت ہے۔ کیا ہمیں اور ہمارے شہری اداروں کو اس خطرے کا احساس ہے؟