وہ جو تاریخ رقم کرگئے

زندوں کو بھوکا رکھ کر جان سے مار کر مردوں کی آرائش کرنا کیا یہ انسانیت کی تذلیل نہیں ہے؟

zb0322-2284142@gmail.com

ISLAMABAD:
مقبول اور مشہور لوگوں، رہنماؤں اور دانشوروں کو سب جانتے ہیں لیکن وہ جو لاکھوں شہری اور کارکنان تاریک راہوں میں مر کے بھی امر ہوجاتے ہیں انھیں کوئی نہیں جانتا۔ ہر چند کہ انھی کی بدولت انقلابات، تبدیلیاں اور تغیر پذیری ہوتی ہے۔ سماج کی شکل، ہیئت اور خدوخال بدل جاتے ہیں۔ دنیا کے عجائبات کی تعمیر میں جن کا لہو اور زندگی شامل ہے ان کا کوئی نام و نشان نہیں۔ تاج محل بنانیوالوں کے نام یہاں تک کہ ہنرمند مزدوروں کے نام بھی کسی کتاب میں درج نہیں۔ جب تاج محل بنایا جارہا تھا تو ہندوستان میں قحط پڑا اجناس کی قلت ہوگئی، لوگ بھوک سے مرنے لگے۔ بادشاہ کا خزانہ خالی ہونے لگا لیکن ان کی عیش و عشرت میں کمی نہ آئی۔ مزدوروں کی جان سے کھیل کر تاج محل تعمیر ہوگیا۔ اب وہ عجوبہ ہوگیا۔ عجوبہ تو ہونا تھا اس لیے کہ اس میں ہزاروں مزدوروں کا خون شامل تھا۔ ساحر لدھیانوی نے درست کہا تھا کہ ''اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل۔۔۔۔ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق''۔

ایک عجوبہ اہرام مصر ہے۔ زندوں کو بھوکا رکھ کر جان سے مار کر مردوں کی آرائش کرنا کیا یہ انسانیت کی تذلیل نہیں ہے؟ اہرام مصر کو بنانے والے مزدوروں کو روٹی کے ساتھ سانس تو دور کی بات، پیاز بھی نہیں ملتی تھی۔ اسی لیے اہرام مصر بنانیوالوں کو صرف روٹی کے ساتھ پیاز کے حصول کے لیے ہڑتال کرنی پڑی، پھر بھی انھیں پیاز نہیں ملی۔ یہ ہے اہرام مصر کی مکروہ شکل۔ اس وقت کا بادشاہ فرعون کافر تھا اور مزدور بھی کافر تھے۔ مگر استحصال طبقاتی تھا۔ اسی طرح آج بھی کچھ ممالک کے بادشاہ مسلمان اور عوام بھی مسلمان، پاکستان کے حکمراں مسلمان اور عوام بھی مسلمان۔ اوباما عیسائی ہے اور امریکی عوام بھی عیسائی، اسرائیل کے حکمراں یہودی ہیں اور عوام بھی یہودی لیکن عوام کا استحصال ہر حکمران نے جاری رکھا ہوا ہے۔ چین کا بادشاہ کنفیوشس مذہب کو ماننے والا تھا اور غلام بھی کنفیوشس تھے لیکن جب دیوار چین کی تعمیر ہورہی تھی تو ہزاروں غلاموں کو قتل کرواکے ان کے خون کو دیوار کی مضبوطی کے لیے اس کی بنیاد میں ڈالا گیا تھا۔ اب وہ دیوار بھی عجوبہ دیوار میں شامل ہے۔

دنیا کے لاکھوں شہریوں اورکارکنوں نے اپنی جان کی عظیم قربانیاں دے کر اس دنیا کو سجایا، کھلایا اور نہ جانے کیا کیا دیا۔ مگر ابھی تک سرمایہ دار طبقہ ہی ان تمام ثمرات سے لبریز ہورہا ہے۔ نازی جرمنی کے قتل و غارت گری میں جن لاکھوں انسانوں کا قتل ہوا۔ عوام جیولس فیوچک یا چند ایک اور کے علاوہ کسی کا نام نہیں جانتے۔ 16 ویں صدی میں جرمنی میں کسانوں کی عظیم تحریک میں 30 ہزار کسان مارے گئے لیکن جیمز کے علاوہ شاید ہی کوئی دوسروں کا نام جانتا ہو۔ چین کی عظیم لانگ مارچ میں ماؤزے تنگ اور چند ایک کے سوا ان لاکھوں کارکنوں کا نام کون جانتا ہے؟ جمہوریت کے لیے لڑی جانیوالی امریکا کی عظیم جنگ میں ابراہام لنکن کے علاوہ ان ہزاروں جنگ آزادی کے سپاہیوں میں سے کسی کا بھی ہم نام نہیں جانتے۔ پیرس کمیون اور اسپین کی عوامی جنگ میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کے نام کا کس کو پتہ ہے۔ مگر یہی لوگ جو تاریک راہوں میں مارے گئے تاریخ رقم کرتے ہیں۔


ایسے ہی کچھ لوگ کراچی سے حال ہی میں ہم سے جدا ہوگئے۔ ان میں تجمل الحسین ، اعجاز غنی اور شعیب جوادی ہیں۔ تجمل الحسین پیدا تو راجستھان میں ہوئے لیکن ہندوستان کی خونی تقسیم کے بعد کراچی اورنگی ٹاؤن میں آبسے۔تجمل الحسین کے نام کے بغیر کراچی کی مزدور تحریک کی تاریخ نامکمل ہے۔ وہ اورنگی ٹاؤن میں اتنے معروف کمیونسٹ تھے کہ وہ لال جھنڈے کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ویسے تو وہ دہائیوں سے مزدور تحریک سے وابستہ تھے لیکن میں 1974 سے انھیں جانتا تھا ۔ اتنے مخلص ، بے خوف، جرأت مند، بے غرض اور نظریاتی پختگی والے بہت کم انسان میں نے دیکھے ہیں ۔ ٹیکسٹائل ملوں کے مزدوروں میں بابائے مزدور کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کے ہم عصر چاچا علی جان، سائیں عزیز اللہ، عزیز سلام بخاری، محمد فصیح، سوبھو گیان چندانی اور امام علی نازش وغیرہ ہیں۔ تجمل حسین کے پی ٹی میں ایک معمولی کمپاؤنڈر تھے۔ ان کا گھر، گھر نہیں بلکہ عوامی سرائے تھا۔ ملک بھر سے کوئی بھی ساتھی کراچی آتا تو ان کے گھر جاکر ان سے ضرور ملاقات کرتا۔ جو کچھ ان کے پاس دال دلیہ ہوتا پیش کردیتے۔ ان کا پورا خاندان کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور انقلابیوں کے لیے اپنا گھر اور ایک پناہ گاہ تھا۔

میں (راقم) خود بھی جنرل ضیا الحق کے مارشل لا میں تین ہفتے روپوشی میں ان کے گھر رہائش پذیر رہا۔ ان کے بچے کھانا کھلانے سے لے کر میرے کپڑے دھونے تک کا انتظام کرتے۔ میرے خیال میں وہ ساتھیوں پر اپنی تنخواہ کی آدھی رقم خرچ کردیتے تھے۔ ایک دفعہ کا واقعہ یاد آتا ہے۔ کراچی میں پختون مہاجر فساد ہوا۔ان دنوں تجمل حسین نے کئی پشتونوں کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی تھی اور ڈنڈا لے کر دروازے پر بیٹھ گئے تھے اور یہ اعلان کردیا کہ میں نے اپنے گھر پہ توپ لگا رکھی ہے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ توپ تو درکنار ان کے پاس چھری بھی نہیں تھی۔ وہ نظریاتی پختگی اور جرأت کی علامت تھے۔ ایک خفیہ رسالہ ''سرخ پرچم'' میں ان کا انٹرویو چھپا جس میں انھیں لال جھنڈے کے طور پر مخاطب کیا گیا تھا۔ اکثر ان کی صدارت میں مزدوروں کے جلسے ہوا کرتے تھے۔ ہم ان کے گھر میں اجلاس کے دوران چندہ کرکے چائے پیتے تھے۔ کامریڈ اسد رضا تو تقریباً ساری زندگی اور ملک پرویز کئی سال سے ان کے گھر رہائش پذیر تھے۔ اورنگی ٹاؤن کے ان کے پرانے دوستوں میں الیاس راؤ اور حسیب اللہ ہیں۔تجمل حسین اب ہم میں نہ رہے مگر ان کے کارنامے، جدوجہد، خلوص اور قربانیاں کبھی بھی بھولی نہیں جاسکتیں۔ کراچی سے لے کر پشاور تک ہر شخص ان کے انتقال پر اشک بار ہے۔

دوسرے کارکن اعجاز غنی ہیں جو نظریاتی طور پر استادوں کے استاد تھے وہ بھی ہم سے جدا ہوگئے۔ پیدا تو وہ بہار میں ہوئے لیکن کراچی میں رہائش پذیر رہے۔ وہ ایک مخلص انقلابی دانشور، ترجمہ نگار، صحافی تھے۔ اعجاز غنی کو میں 30 سال سے جانتا تھا۔ وہ ڈان اخبار میں ملازمت بھی کرچکے تھے۔ ہر چند کہ ان کا میڈیکل کے شعبے سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن SIUT میں ادیب الحسن رضوی کی سرپرستی میں ترجمہ نگاری کی۔ میری ان سے پہلی ملاقات ملیر میں کامریڈ وحید مصیح ولد مصیح الرحمن کے گھر پہ ہوئی۔ ان سے میرے بحث و مباحثے اور اختلاف بھی ہوتے تھے لیکن ہماری دوستی خلوص اور نظریاتی ہم آہنگی میں کبھی فرق نہیں پڑا۔ آخری دنوں میں ان کی قربت ظفر اسلم اور قادر اعظم سے زیادہ رہی۔ ان میں ایک بات بڑی اہم تھی کہ انھوں نے موقع پرستی اور موقع پرستوں سے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ کراچی کی مزدور تحریک کے علاوہ ہشت نگر (پختون خوا) کی کسان تحریک سے بھی وابستہ رہے تھے جس کی گواہی محمد میاں بھی دیں گے۔ تیسرے صحافی اور کمیونسٹ کارکن شعیب جوادی ہیں جن کا ایدھی ہوم کراچی میں انتقال ہوا۔انتقال کے وقت ان کی عمر 87 برس کی تھی، تجمل حسین اور اعجاز غنی بھی 80 برس کے لگ بھگ تھے۔ شعیب جوادی پٹنہ، بہار کا واحد بڑا اردو اخبار روزنامہ ''آواز عام'' کے 1946 تک ایڈیٹر رہے۔

بعدازاں 1948 سے 1962 تک کراچی کے شام کا سب سے بڑا اور ریڈیکل نقطہ نگاہ کا اخبار روزنامہ ''نئی روشنی'' کے ایڈیٹر رہے۔ وہ انقلابی شاعر بھی تھے اور ڈرامہ کے اسکرپٹ کے لکھاری۔ میری ان سے ملاقات 1974 سے تھی۔ وہ آخری دنوں ملیر سعود آباد میں رہتے تھے اور انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ پھر جب پڑھانے کے قابل نہ رہے تو سعود آباد ملیر کے پارک میں بے یارومددگار پڑے رہے۔ اس سے قبل 7 ماہ میرے گھر میں بھی رہائش پذیر رہے۔ آخر کار انھیں ایدھی ہوم سہراب گوٹھ میں داخل کیا گیا، چند دنوں بعد ان کے ایک بھانجے انھیں اپنے گھر لے گئے مگر پھر وہ انھیں ایدھی ہوم میں چھوڑ گئے اور پھر وہیں ان کا انتقال ہوا۔ انتقال کے بعد ان کے چھوٹے بھائی عثمانی نے انھیں ماڈل کالونی قبرستان میں دفنانے کا انتظام کیا۔اس پر منشی پریم چند کا افسانہ ''کفن'' یاد آتا ہے۔ جس میں بہو کے مرنے پر سسر اپنے بیٹے کو مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ ''جندگی میں نیا کپڑا ملا نہیں اور اب مرنے کے بعد نیا کپھن''۔ یہ وہ عظیم لوگ تھے جنہوں نے مزدور طبقے کی رہنمائی میں غیر طبقاتی معاشرے کے قیام اور سماجی انقلاب کے لیے اپنی قیمتی زندگیوں کو داؤ پہ لگایا اور انقلاب کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا۔ ان کے نظریات ایک روز ضرور رنگ لائیں گے جب کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا ہوگا۔
Load Next Story