مسئلہ ڈرون حملوں کا

دہشت گردی نے نہ صرف پاکستان میں امن وامان کے مسائل پیدا کیے بلکہ معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکا سے دونوں ممالک کے درمیان متعدد معاملات میں پیش رفت ہوئی ہے، ان کے دورے کے موقعے پر پہلی بار ایک اہم اتحادی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مسئلے کے حل کے طورپر دیکھا اور یہ محسوس کیا گیا کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اور وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ دورہ امریکا کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ دو طرفہ تعلقات وقت کی اہم ضرورت ہے، اس وقت پاکستان کو دہشت گردی اور توانائی کے بحران کا شدید سامناہے۔ دہشت گردی نے نہ صرف پاکستان میں امن و امان کے مسائل پیدا کیے بلکہ معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی بننے کی وجہ سے پاکستان کو خودکش اور بم دھماکوں کی صورت میں بد ترین حالات کا سامناہے۔ 11برس گزرنے کے بعد بھی حالات کی بہتری کی امید پیدا نہ ہوسکی۔ 4برسوں میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، فاٹا، اسلام آباد، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں 6014 خودکش حملے اور بم دھماکے ہوئے۔ جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 1732 اہلکار اور 4233 دیگر افراد جاں بحق اور 12183 افراد زخمی ہوئے۔ سال رواں (2013) میں یکم جنوری سے 3 اکتوبر تک ملک بھر میں دہشت گردی کے 1047 افسوسناک واقعات میں 1490 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت دیگر افراد جاں بحق ہوئے۔

دہشت گردی نے نہ صرف پاکستان میں امن وامان کے مسائل پیدا کیے بلکہ معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ بم دھماکوں، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے صنعت کاروں اور تاجروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور وہ ملک میں مزید سرمایہ کاری کے بجائے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

ڈرون حملوں نے پاکستان میں دہشت گردی کو مزید ہوا دی ہے جب تک ڈرون حملے جاری رہیںگے پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں رہے گا۔ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کو بلاجواز قرار دیا ہے اور کہاہے کہ امریکا پاکستان میں ڈرون حملے کرکے جنگی جرائم کا مرتکب ہورہاہے۔ حملوں میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پر امریکا کو جواب دہ ہونا چاہیے۔پوری دنیا بہت اچھی طرح سے جانتی ہے کہ امریکا ڈرون حملے کرکے پاکستانی شہریوں پر ظلم کررہاہے، کئی بے گناہ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ لیکن سارے عالمی ادارے خاموش تماشا دیکھ رہے ہیں، کسی میں بھی ہمت نہیں کہ وہ امریکا سے سوال کرسکے، امریکا جواب دہ تب ہوگا جب کوئی سوال کرے گا مگر کون سوال کرے گا؟ عالمی ادارے جو اتنے سالوں سے خاموش تماشا دیکھ رہے ہیں یا پھر پاکستان؟ مگر پاکستان کیسے سوال کرسکتاہے۔ پاکستان تو کروڑوں کی امداد ڈالر کی صورت میں امریکا سے لیتاہے تو وہ کیا سوال کرسکتاہے؟

قیام پاکستان سے 2012تک 64 سالوں میں امریکا نے پاکستان کو 68 ارب ڈالر امداد دی۔ لیکن اس ایک ارب ڈالر فی سال امداد کے باعث پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کیا گیا، امریکی حکام جس ملک کا دورہ کرتے تھے وہاں پر پاکستان کی امداد کا نام لیاجاتاتھا۔ گزشتہ 64سال میں پاکستان نے جتنا پایا اس سے کہیں زیادہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کھوچکا ہے۔ 64 سال میں پاکستان نے امریکا سے جتنا پایا اس سے زیادہ گنوایا۔ کاش! ہمارے حکمران سمجھ جائیں کہ امریکی امداد ایک مصیبت ہے۔ جب جب امریکا نے پاکستان کو امداد دی تو اپنے مفادات کی وجہ سے دی۔ اس امداد کی وجہ سے پاکستان کو کافی بھاری قیمت دینی پڑی ہے۔ امداد کے بدلے امریکا کا کوئی نہ کوئی فرمائشی پروگرام چلتا رہا اور ہمارے حکمران امریکا کے فرمائشی پروگرام کو پوراکرتے رہے۔ پاکستان میں ڈرون حملے بھی امریکا کے فرمائشی پروگرام کا ایک حصہ ہے جسے ہمارے حکمرانوں نے پورا کیا اور ہمارے ملک کے حکمران ڈرون حملے نہ رکواسکے ۔


2004سے امریکا نے پاکستان میں 400ڈرون حملے کیے جن میں 2500سے 3600معصوم شہری مارے گئے، شمالی وزیرستان میں 2012سے 2013کے درمیان 45ڈرون حملوں کی تصدیق ہوئی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے ڈرون حملوں کے ذریعے غیر قانونی طورپرلوگوں کی جان لی۔ جس میں سے بعض جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یہ رپورٹ ان قوتوں کے منہ پر طمانچہ ہے جنہوںنے ڈرون حملوں کی خاموشی سے اور درپردہ اجازت دے کر وطن کی خود مختاری پر آنچ آنے دی۔ ان ڈرون حملوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں قبائلی علاقوں میں غریب بچوں، خواتین اور معمر لوگوں کی ہوئی ہیں۔ معیشت کا الگ بیڑا غرق ہوا ہے اور املاک کی تباہی وخطے کی عدم ترقی اور در بدری سے جن انسانی مصائب نے جنم لیا ان کی لمبی داستان ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ منظر عام پر آنے میں کافی تاخیر ہوچکی ہے۔ اگر پہلے ہی آجاتی تو کافی جانیں بچ جاتیں، خیر شکر ہے کہ کسی نے تو پاکستان کا خیال کیا۔ کسی نے تو پاکستانی شہریوں کو انسان سمجھا، ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے عالمی طاقتوں کو ڈرون روکنے میں پاکستان کی مدد کرنی چاہیے۔ اقوام متحدہ کیوں خاموش ہے؟ ہر ملک کے لیے حدیں ہیں مگر امریکا کی کوئی حدود نہیں اس کا جو جی چاہتاہے وہ کرتاہے جس ملک کو تباہ کرنا چاہتاہے کوئی نہ کوئی جواز بناکر حملہ کردیتاہے، افغانستان اور عراق کا حشر ہمارے سامنے ہے، امریکی دہشت گردی کا مقصد بڑی دہشت گردی کا خاتمہ کرنا نہیں بلکہ یہ مخصوص مفادات کا کھیل ہے اور اس لیے قابل مذمت ہے امریکا اقتصادی اور فوجی ذرایع استعمال کرکے پوری دنیا کو اطاعت گزار کی حیثیت سے اپنے گرد جمع کرنا چاہتاہے۔

ڈرون حملے پاکستان میں امریکا کی کھلی دہشت گردی ہے، کئی بے گناہ افراد مارے گئے، امریکا یا پھر ہمارے حکمرانوں کو 10سال تک کوئی شرم نہیں آئی نہ ہی ہمارے حکمران ڈرون حملے بند نہیں کرواسکے اور نہ ڈرون حملے امریکا نے بند کیے مگر اس عرصے میں ایک شخص ایسا بھی تھا جو ڈرون حملوں میں بٹن دباکر انسانوں کو ہلاک کرتاتھا اپنے اس عمل پر وہ شدید شرمندہ ہے۔ اطلاع کے مطابق ڈرون حملوں میں بٹن دباکر ہلاک کرنے والے امریکی ڈرون آپریٹر نے بے گناہ اور معصوم بچوں کی مسلسل ہلاکتوں پر شدید ذہنی دبائو کا شکار ہوکر اپنی نوکری چھوڑدی اور کہاکہ زیادہ مراعات ڈبل تنخواہ اور بونس معصوم جانوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ کاش کہ اس امریکی کی جو سوچ ہے وہ ہمارے ملک کے حکمرانوں کی سوچ ہوتی۔

مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے الیکشن سے پہلے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ملک میں ہونے والے ڈرون حملے بند کروادیںگے۔ وزیرعظم نواز شریف نے امریکی صدر اوباما سے مسئلہ ڈرون پر بات چیت کی اور ڈرون حملے بند کرنے پرزور دیا۔ وزیراعظم نواز شریف کا اس بات کا خیر مقدم کرنا چاہیے کہ انھوںنے مسئلہ ڈرون کی بات تو کی۔وزیراعظم صاحب اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈرون حملوں پر تحقیقاتی رپورٹ کے سامنے آنے پر شاید ممکن ہوسکے کہ امریکا ڈرون حملے بند کردے اور کئی قیمتی جانیں ضایع ہونے سے بچ جائیں ویسے تو یہ ایک خواب ہی لگتاہے کہ سپر پاور امریکا ڈرون حملے بند کردے ایسا شاید ممکن نہیں بلکہ امید پر دنیا قائم ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد عالمی طاقتیں اس مسئلے کو کس طرح حل کرتی ہیں یا پھرسے نظر انداز کرتی ہیں۔ جیسے 10سالوں سے نظر انداز کیاجا رہا ہے، ان عالمی طاقتوں کا ضمیر جاگے گا کہ سویا رہے گا؟ ان عالمی طاقتوں کا ضمیر جاگے یا نہ جاگے مگر سب سے زیادہ ضروری پاکستانی حکمرانوں اور پاکستانی شہریوں کا ضمیر جاگتے رہنا بے حد ضروری ہے، اسی میں پاکستان کی سالمیت اور بقا ہے اگر ہم پاکستانیوں کا ضمیر بھی ان عالمی طاقتوں کی طرح سوتا رہا تو ایک دن ہم پاکستانی شہریوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ ہمیں جاگتے ضمیر کے پاکستانی شہری بننا ہوگا۔
Load Next Story