ڈینگی ایک عفریت جس پر قابو پایا جاسکتا ہے
جامع منصوبہ بندی اور ٹھوس اقدامات اس بھیانک مرض کے خاتمے میں معاون ہوسکتے ہیں۔
KARACHI:
کراچی میں مچھروں کی بہتات کی وجہ سے ڈینگی اور ملیریا کا مرض وبائی صورت اختیار کر گیا ہے اور اس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں ہول ناک اضافہ ہورہا ہے۔
حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کراچی میں جراثیم کش ادویہ کے اسپرے کے لیے 60 گاڑیاں مختص کردی گئی ہیں اوران گاڑیوں کے پیٹرول کی مد میں لاکھوں روپے کا بجٹ بھی جاری کردیاگیا ہے۔ تاہم کراچی کے بیش تر مضافاتی علاقوں اورکچی بستیوں میں اسپرے مہم شروع نہیں کی جاسکی ہے۔ کراچی میں اسپرے مہم کی ذمے دار بلدیہ عظمیٰ ہے، جس کی جراثیم کُش ادویہ کے اسپرے کے حوالے سے کارکردگی اخباری بیانات اور تصویروں تک محدود نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں امسال ڈینگی اور ملیریا سے اب تک 4 ہزار سے زاید افراد متاثر ہوچکے اور 18 افراد ڈینگی وائرس کا شکار ہوکر جاں بحق ہوچکے ہیں، لیکن حکومت سندھ نے انسانی جانوں کے ضیاع کے باوجودٹھوس اقدامات نہیں کیے ۔
کراچی میں ڈینگی وائرس اپنی تباہ کاریاں پھیلا رہا ہے۔ حکومت سندھ اور متعلقہ ادارے صرف اجلاس بلا کراپنی ذمے داریاں پوری کرلیتے ہیں لیکن عملی اقدامات نظر نہیںآتے، یہی وجہ ہے کہ ہزاروں افراد وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ کراچی میں ڈینگی وائرس گزشتہ 7 سال سے رپورٹ ہورہا ہے، جس میں اب تک 50 ہزار سے زاید افراد متاثر ہوئے ہیں اورسیکڑوں قیمتی جانیں بھی ضائع ہوچکی ہیں ۔ ڈینگی وائرس سے متاثرہ افراد کے لیے سول اسپتال سمیت کسی بھی سرکاری اسپتال میں علاج ومعالجے کی مکمل سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے نجی اسپتالوں میں مریضوں کا رش بڑھ گیا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں ان مریضوں کے لیے پلیٹ لیٹس کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ مریض نجی اسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جہاں علاج منہگا ہونے کی وجہ سے ان مریضوں کے اہل خانہ کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈینگی مچھر ایک سے دوسری جگہ اور ایک سے دوسرے شہر میں بھی منتقل ہوتا ہے۔ ملک کے دیگر صوبوں میں ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں مچھروں اورڈینگی وائرس کا سبب بننے والی مادہ مچھر ایڈیزایجپٹی کی افزائش نسل سرد موسم میں نسبتاً ماند پڑجاتی ہے۔ ڈینگی وائرس کی علامات میں تیز بخار، جسم میں شدید درد اور قے کا ہونا شامل ہیں۔ اس میں متاثرہ مریض کے جسم کے پلیٹ لیٹس انتہائی کم ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے جسم سے خون جاری رہنے کا احتمال ہوتا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق نارمل انسان میں خون جمانے والے عناصر، یعنی پلیٹ لیٹس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ ہوتی ہے۔ ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے مریضوں میں پلیٹ لیٹس کی تعداد کم ہوکر 30 ہزار رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں مریض کی زندگی بچانے کے لیے فوری پلیٹ لیٹس منتقل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈینگی وائرس کا شکار افراد غیرضروری اینٹی بایوٹک ادویات کا استعمال نہ کریں کیوں کہ اس سے مریضوں میں پلیٹ لیٹس کی تعداد مزید کم ہوجاتی اور زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ مسلسل تین دن بخار رہنے کی صورت میں خون کا ٹیسٹ (سی بی سی) کراناچاہیے۔
اس ٹیسٹ میں پلیٹ لیٹس کی تعداد معلوم کی جاتی ہے۔ بچوں میں بھی ڈینگی وائرس کی تصدیق سی بی سی ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ڈینگی وائرس میں اینٹی بایوٹک کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ ماہرامراض خون ڈاکٹر طاہر ایس شمسی کا کہنا ہے کہ مچھر ایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک سے دوسرے شہر میں بھی منتقل ہوتا ہے، لہٰذا گھروں،گلی، محلوں کی صفائی رکھیں اورگھروں کے اطراف پانی جمع نہ ہونے دیں، کیوںکہ جمع ہونے والے پانی میں مچھروں کی افزائش نسل تیزی سے ہوتی ہے۔ پانی میں معمولی سا مٹی کا تیل چھڑک دیاجائے تو مچھروں کی افزائش نسل رک جاتی ہے، کیوںکہ پانی کی سطح پر مٹی کا تیل ہوتا ہے اور آکسیجن پانی کے اندر نہیں پہنچ پاتی، جس کی وجہ سے مچھروں کی افزائش نسل رک جاتی ہے ۔گھروں میں جرا ثیم کش اسپرے روزانہ کی بنیاد پرکیاجائے اور گھروں میں جمع ہونے والے پانی کو فوری صاف کیا جائے، گھروں کی چھتوں پرکھلے ہوئے پانی کے ٹینکوں کو بھی ڈھانپ کر رکھا جائے۔ برتنوں کوالٹا کرکے رکھا جائے، تاکہ مادہ مچھرانڈے نہ دے سکے۔
ڈینگی وائرس کے ساتھ ملیریا کا مرض بھی رپورٹ ہوتا ہے اور دونوں امراض کی علامات یک ساں ہوتی ہیں۔ ڈینگی بخارکی ابتدائی علامات میں ہڈی اور جوڑوں میں درد ہونا شامل ہے۔ اس کے علاوہ متلی اور قے ہوتی ہے۔ سردرد جِلد پر دھبے جوڑوں اور پٹھوں میں درد سمیت دیگرعلامات شامل ہیں۔ ڈینگی وائرس کی شدت ہونے پر پلیٹ لیٹس کم ہوجانے کی وجہ سے خون جمانے والے اجزا اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے خون جاری ہونے لگتا ہے، ماہرین نے بتایا کہ ڈینگی بخارکا شبہہ ہونے پر اس کی تصدیق کے لیے فوری طور پر ٹیسٹ کرانا چاہیے۔ ڈینگی بخارکی تصدیق بہت ضروری ہے کیوںکہ اس سے ملیریا اور دوسری ملتی جلتی بیماریوں کے لیے بھی غیر ضروری علاج سے بچا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 5کروڑ سے زاید افراد ڈینگی وائرس کا شکار ہوجاتے ہیں جن میں 22 ہزار افرادہلاک ہوجاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق صوبۂ سندھ میں ڈینگی وائرس کے خاتمے کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی تجویز پر ڈینگی سیل میں دیگر پروگرامزکو شامل کرکے علیحدہ سے پروجیکٹ بھی بنایا جائے گا۔ یہ پہلا موقع ہے، جب صوبے میں اس وائرس کے خاتمے کے لیے ڈینگی ریڈی کیشن پروینشن اینڈ ریگولیشن قانون بنایا جارہا ہے۔ اس قانون کے ذریعے مچھروں کی افزائش نسل کا باعث بننے یا مچھروں کی افزائش نسل میں معاونت پیدا کرنے والے اداروںکو ضابطے میں لایا جائے گا۔ ان میں سوئمنگ پولز کے مالکان، ٹائر شاپس، پانی کے کھلے پائپ اورکھلے نالے کے ذمے دار شامل ہیں۔
قانون کی منظوری کے بعدان مالکان یا ذمے داروں کومتنبہ کیاجائے گا کہ مچھروں کی افزائش نسل کو روکنے کے لیے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، بہ صورتِ دیگر انہیں قانون کی خلاف ورزی پر سزا دی جائے گی۔ سیکریٹری صحت جام انعام اﷲ دھاریجوکا کہنا ہے کہ ڈینگی وائرس کے خاتمے کے لیے ایک کور کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے جس میں ڈائریکٹر ملیریا، ڈائریکٹر میونسپل سروسز، سیکریٹری فشریزاینڈ ایگریکلچر پر مشتمل ہوگی، جو ہر ہفتے انسدادِ ڈینگی مہم کا جائزہ لے گی اور مہم ان اداروں کے اشتراک سے چلائی جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے ملیریا کنٹرول پروگرام کو مزید توسیع دی جارہی ہے۔ جام انعام اﷲ دھاریجو نے کہاکہ صوبائی سطح پر عالمی ادارہ صحت کی تجویز پرتمام وبائی امراض کے خاتمے کے لیے علیحدہ سے پروگرام تشکیل دیاجارہا ہے۔
شہریوں کے جان اور صحت کے تحفظ کے لیے ڈینگی مخالف قانون بنانا اور کور کمیٹی کا قیام ایک اچھا اور بروقت اقدام ہے، تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قانون کو موثر انداز میں نافذ کیا جائے، ورنہ اس اقدام کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
کراچی میں مچھروں کی بہتات کی وجہ سے ڈینگی اور ملیریا کا مرض وبائی صورت اختیار کر گیا ہے اور اس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں ہول ناک اضافہ ہورہا ہے۔
حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کراچی میں جراثیم کش ادویہ کے اسپرے کے لیے 60 گاڑیاں مختص کردی گئی ہیں اوران گاڑیوں کے پیٹرول کی مد میں لاکھوں روپے کا بجٹ بھی جاری کردیاگیا ہے۔ تاہم کراچی کے بیش تر مضافاتی علاقوں اورکچی بستیوں میں اسپرے مہم شروع نہیں کی جاسکی ہے۔ کراچی میں اسپرے مہم کی ذمے دار بلدیہ عظمیٰ ہے، جس کی جراثیم کُش ادویہ کے اسپرے کے حوالے سے کارکردگی اخباری بیانات اور تصویروں تک محدود نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں امسال ڈینگی اور ملیریا سے اب تک 4 ہزار سے زاید افراد متاثر ہوچکے اور 18 افراد ڈینگی وائرس کا شکار ہوکر جاں بحق ہوچکے ہیں، لیکن حکومت سندھ نے انسانی جانوں کے ضیاع کے باوجودٹھوس اقدامات نہیں کیے ۔
کراچی میں ڈینگی وائرس اپنی تباہ کاریاں پھیلا رہا ہے۔ حکومت سندھ اور متعلقہ ادارے صرف اجلاس بلا کراپنی ذمے داریاں پوری کرلیتے ہیں لیکن عملی اقدامات نظر نہیںآتے، یہی وجہ ہے کہ ہزاروں افراد وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ کراچی میں ڈینگی وائرس گزشتہ 7 سال سے رپورٹ ہورہا ہے، جس میں اب تک 50 ہزار سے زاید افراد متاثر ہوئے ہیں اورسیکڑوں قیمتی جانیں بھی ضائع ہوچکی ہیں ۔ ڈینگی وائرس سے متاثرہ افراد کے لیے سول اسپتال سمیت کسی بھی سرکاری اسپتال میں علاج ومعالجے کی مکمل سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے نجی اسپتالوں میں مریضوں کا رش بڑھ گیا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں ان مریضوں کے لیے پلیٹ لیٹس کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ مریض نجی اسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جہاں علاج منہگا ہونے کی وجہ سے ان مریضوں کے اہل خانہ کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈینگی مچھر ایک سے دوسری جگہ اور ایک سے دوسرے شہر میں بھی منتقل ہوتا ہے۔ ملک کے دیگر صوبوں میں ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں مچھروں اورڈینگی وائرس کا سبب بننے والی مادہ مچھر ایڈیزایجپٹی کی افزائش نسل سرد موسم میں نسبتاً ماند پڑجاتی ہے۔ ڈینگی وائرس کی علامات میں تیز بخار، جسم میں شدید درد اور قے کا ہونا شامل ہیں۔ اس میں متاثرہ مریض کے جسم کے پلیٹ لیٹس انتہائی کم ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے جسم سے خون جاری رہنے کا احتمال ہوتا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق نارمل انسان میں خون جمانے والے عناصر، یعنی پلیٹ لیٹس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ ہوتی ہے۔ ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے مریضوں میں پلیٹ لیٹس کی تعداد کم ہوکر 30 ہزار رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں مریض کی زندگی بچانے کے لیے فوری پلیٹ لیٹس منتقل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈینگی وائرس کا شکار افراد غیرضروری اینٹی بایوٹک ادویات کا استعمال نہ کریں کیوں کہ اس سے مریضوں میں پلیٹ لیٹس کی تعداد مزید کم ہوجاتی اور زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ مسلسل تین دن بخار رہنے کی صورت میں خون کا ٹیسٹ (سی بی سی) کراناچاہیے۔
اس ٹیسٹ میں پلیٹ لیٹس کی تعداد معلوم کی جاتی ہے۔ بچوں میں بھی ڈینگی وائرس کی تصدیق سی بی سی ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ڈینگی وائرس میں اینٹی بایوٹک کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ ماہرامراض خون ڈاکٹر طاہر ایس شمسی کا کہنا ہے کہ مچھر ایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک سے دوسرے شہر میں بھی منتقل ہوتا ہے، لہٰذا گھروں،گلی، محلوں کی صفائی رکھیں اورگھروں کے اطراف پانی جمع نہ ہونے دیں، کیوںکہ جمع ہونے والے پانی میں مچھروں کی افزائش نسل تیزی سے ہوتی ہے۔ پانی میں معمولی سا مٹی کا تیل چھڑک دیاجائے تو مچھروں کی افزائش نسل رک جاتی ہے، کیوںکہ پانی کی سطح پر مٹی کا تیل ہوتا ہے اور آکسیجن پانی کے اندر نہیں پہنچ پاتی، جس کی وجہ سے مچھروں کی افزائش نسل رک جاتی ہے ۔گھروں میں جرا ثیم کش اسپرے روزانہ کی بنیاد پرکیاجائے اور گھروں میں جمع ہونے والے پانی کو فوری صاف کیا جائے، گھروں کی چھتوں پرکھلے ہوئے پانی کے ٹینکوں کو بھی ڈھانپ کر رکھا جائے۔ برتنوں کوالٹا کرکے رکھا جائے، تاکہ مادہ مچھرانڈے نہ دے سکے۔
ڈینگی وائرس کے ساتھ ملیریا کا مرض بھی رپورٹ ہوتا ہے اور دونوں امراض کی علامات یک ساں ہوتی ہیں۔ ڈینگی بخارکی ابتدائی علامات میں ہڈی اور جوڑوں میں درد ہونا شامل ہے۔ اس کے علاوہ متلی اور قے ہوتی ہے۔ سردرد جِلد پر دھبے جوڑوں اور پٹھوں میں درد سمیت دیگرعلامات شامل ہیں۔ ڈینگی وائرس کی شدت ہونے پر پلیٹ لیٹس کم ہوجانے کی وجہ سے خون جمانے والے اجزا اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے خون جاری ہونے لگتا ہے، ماہرین نے بتایا کہ ڈینگی بخارکا شبہہ ہونے پر اس کی تصدیق کے لیے فوری طور پر ٹیسٹ کرانا چاہیے۔ ڈینگی بخارکی تصدیق بہت ضروری ہے کیوںکہ اس سے ملیریا اور دوسری ملتی جلتی بیماریوں کے لیے بھی غیر ضروری علاج سے بچا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 5کروڑ سے زاید افراد ڈینگی وائرس کا شکار ہوجاتے ہیں جن میں 22 ہزار افرادہلاک ہوجاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق صوبۂ سندھ میں ڈینگی وائرس کے خاتمے کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی تجویز پر ڈینگی سیل میں دیگر پروگرامزکو شامل کرکے علیحدہ سے پروجیکٹ بھی بنایا جائے گا۔ یہ پہلا موقع ہے، جب صوبے میں اس وائرس کے خاتمے کے لیے ڈینگی ریڈی کیشن پروینشن اینڈ ریگولیشن قانون بنایا جارہا ہے۔ اس قانون کے ذریعے مچھروں کی افزائش نسل کا باعث بننے یا مچھروں کی افزائش نسل میں معاونت پیدا کرنے والے اداروںکو ضابطے میں لایا جائے گا۔ ان میں سوئمنگ پولز کے مالکان، ٹائر شاپس، پانی کے کھلے پائپ اورکھلے نالے کے ذمے دار شامل ہیں۔
قانون کی منظوری کے بعدان مالکان یا ذمے داروں کومتنبہ کیاجائے گا کہ مچھروں کی افزائش نسل کو روکنے کے لیے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، بہ صورتِ دیگر انہیں قانون کی خلاف ورزی پر سزا دی جائے گی۔ سیکریٹری صحت جام انعام اﷲ دھاریجوکا کہنا ہے کہ ڈینگی وائرس کے خاتمے کے لیے ایک کور کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے جس میں ڈائریکٹر ملیریا، ڈائریکٹر میونسپل سروسز، سیکریٹری فشریزاینڈ ایگریکلچر پر مشتمل ہوگی، جو ہر ہفتے انسدادِ ڈینگی مہم کا جائزہ لے گی اور مہم ان اداروں کے اشتراک سے چلائی جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے ملیریا کنٹرول پروگرام کو مزید توسیع دی جارہی ہے۔ جام انعام اﷲ دھاریجو نے کہاکہ صوبائی سطح پر عالمی ادارہ صحت کی تجویز پرتمام وبائی امراض کے خاتمے کے لیے علیحدہ سے پروگرام تشکیل دیاجارہا ہے۔
شہریوں کے جان اور صحت کے تحفظ کے لیے ڈینگی مخالف قانون بنانا اور کور کمیٹی کا قیام ایک اچھا اور بروقت اقدام ہے، تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قانون کو موثر انداز میں نافذ کیا جائے، ورنہ اس اقدام کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔