پاکستان اسٹیل ریفرنڈم کے 8 لاکھ روپے کابوجھ اٹھائے گی
70کروڑکی سرکاری امدادسے ملازمین کو1ماہ کی تنخواہ ادا،2 ماہ کی سیلری باقی
حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ کی ضرب المثل پاکستان اسٹیل کی صورتحال پر صادق آتی ہے، اربوں روپے خسارے کا شکار پاکستان اسٹیل میں ہونے والے ریفرنڈم کا تمام خرچہ بھی انتظامیہ ہی برداشت کر رہی ہے۔
ریفرنڈم کے لیے 8لاکھ روپے سے زائد کے اخراجات کا بوجھ انتظامیہ برداشت کرے گی، ورکرز یونین کے نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن کے اجلاس میں شرکت کے لیے فضائی خرچ اور طعام و قیام کے اخراجات کا بوجھ بھی پاکستان اسٹیل کے حصے میں آیا ہے۔ پاکستان اسٹیل کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن کے احکام پر عمل درآمد کی پابند ہے۔
اس لیے ریفرنڈم کے اخراجات کا بوجھ خسارے کا شکار مل کو ہی برداشت کرنا پڑے گا، پاکستان اسٹیل کو گزشتہ حکومت کے 4 سال کے دوران 40ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج دیا جاچکا ہے، موجودہ حکومت نے 2 ارب 90کروڑ روپے کا بیل آؤٹ پیکیج منظور کیا جس کی پہلی قسط 1.5ارب روپے اور دوسری قسط 70کروڑ روپے ادا کی جاچکی ہے جس میں سے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے بعد محدود مقدار میں خام مال خریدا جارہا ہے، پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو اگست ستمبر اور اکتوبر کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئی تھیں۔
جبکہ 70کروڑ روپے وصول ہونے کے بعد جمعرات کے روز ایک ماہ کی پے سلپ جاری کردی گئی اور اب بھی 2 ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی باقی ہے، پاکستان اسٹیل میں ریفرنڈم کے نتائج کچھ بھی ہوں لیکن آنے والی سی بی اے، ورکرز کی فلاح وبہبود کے لیے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرے گی جسے پورا کرنے کے لیے انتظامیہ وسائل سے محروم ہے، اس سے قبل 2008 اور 2010 میں منظور ہونے والے چارٹرآف ڈیمانڈ کے ایگریمنٹ میں شامل متعدد اہم نکات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
پاکستان اسٹیل کے مستقبل بالخصوص نجکاری کے حوالے سے ورکرز اور افسران میں بے چینی پائی جاتی ہے، پاکستان اسٹیل کے مالی بحران کے حوالے سے ٹریڈ یونینز ایک دوسرے پر سنگین الزامات بھی عائد کرتی رہی ہیں، پاکستان اسٹیل کے افسران اور ورکرز کی مجموعی تعداد 15 ہزار 65 بتائی جاتی ہے جن میں تکنیکی افسران اور ورکرز کی تعداد 11ہزار 354 اور نان تکنیکی افسران اور ورکرز کی تعداد 3ہزار 711ہے، پاکستان اسٹیل کے ملازمین کے لیے تنخواہوں کے ساتھ طبی سہولتوں کا حصول بھی مشکل تر ہوگیا ہے۔
تمام بڑے اسپتالوں اور لیبارٹریز نے پاکستان اسٹیل پر کروڑوں روپے کے واجبات کی وجہ سے پینل پر مریضوں کا علاج معالجہ بند کردیا ہے جبکہ منظور شدہ اسٹورز سے دواؤں کی فراہمی بھی محدود کردی گئی ہے، زیادہ تر اسٹور تجویز کردہ دواؤں کی کم قیمت متبادل دوائیں دے رہے ہیں، پاکستان اسٹیل کے مالی بحران کے باعث سیکڑوں ریٹائر ملازمین اپنی گریجویٹی کے لیے دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب ریفرنڈم میں سرگرم یونین رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل کو بحران سے نکالنے اور نجکاری کا خدشہ ختم کرنے کے لیے ریفرنڈم ناگزیر ہے، مزدور اور افسران مل کر اس اہم قومی ادارے کو منافع بخش بناسکتے ہیں، پاکستان اسٹیل کی موجودہ پیدواری استعداد 1.1 ملین ٹن ہے جسے 3ملین ٹن تک بڑھانے کی گنجائش ہے۔
ریفرنڈم کے لیے 8لاکھ روپے سے زائد کے اخراجات کا بوجھ انتظامیہ برداشت کرے گی، ورکرز یونین کے نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن کے اجلاس میں شرکت کے لیے فضائی خرچ اور طعام و قیام کے اخراجات کا بوجھ بھی پاکستان اسٹیل کے حصے میں آیا ہے۔ پاکستان اسٹیل کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن کے احکام پر عمل درآمد کی پابند ہے۔
اس لیے ریفرنڈم کے اخراجات کا بوجھ خسارے کا شکار مل کو ہی برداشت کرنا پڑے گا، پاکستان اسٹیل کو گزشتہ حکومت کے 4 سال کے دوران 40ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج دیا جاچکا ہے، موجودہ حکومت نے 2 ارب 90کروڑ روپے کا بیل آؤٹ پیکیج منظور کیا جس کی پہلی قسط 1.5ارب روپے اور دوسری قسط 70کروڑ روپے ادا کی جاچکی ہے جس میں سے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے بعد محدود مقدار میں خام مال خریدا جارہا ہے، پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو اگست ستمبر اور اکتوبر کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئی تھیں۔
جبکہ 70کروڑ روپے وصول ہونے کے بعد جمعرات کے روز ایک ماہ کی پے سلپ جاری کردی گئی اور اب بھی 2 ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی باقی ہے، پاکستان اسٹیل میں ریفرنڈم کے نتائج کچھ بھی ہوں لیکن آنے والی سی بی اے، ورکرز کی فلاح وبہبود کے لیے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرے گی جسے پورا کرنے کے لیے انتظامیہ وسائل سے محروم ہے، اس سے قبل 2008 اور 2010 میں منظور ہونے والے چارٹرآف ڈیمانڈ کے ایگریمنٹ میں شامل متعدد اہم نکات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
پاکستان اسٹیل کے مستقبل بالخصوص نجکاری کے حوالے سے ورکرز اور افسران میں بے چینی پائی جاتی ہے، پاکستان اسٹیل کے مالی بحران کے حوالے سے ٹریڈ یونینز ایک دوسرے پر سنگین الزامات بھی عائد کرتی رہی ہیں، پاکستان اسٹیل کے افسران اور ورکرز کی مجموعی تعداد 15 ہزار 65 بتائی جاتی ہے جن میں تکنیکی افسران اور ورکرز کی تعداد 11ہزار 354 اور نان تکنیکی افسران اور ورکرز کی تعداد 3ہزار 711ہے، پاکستان اسٹیل کے ملازمین کے لیے تنخواہوں کے ساتھ طبی سہولتوں کا حصول بھی مشکل تر ہوگیا ہے۔
تمام بڑے اسپتالوں اور لیبارٹریز نے پاکستان اسٹیل پر کروڑوں روپے کے واجبات کی وجہ سے پینل پر مریضوں کا علاج معالجہ بند کردیا ہے جبکہ منظور شدہ اسٹورز سے دواؤں کی فراہمی بھی محدود کردی گئی ہے، زیادہ تر اسٹور تجویز کردہ دواؤں کی کم قیمت متبادل دوائیں دے رہے ہیں، پاکستان اسٹیل کے مالی بحران کے باعث سیکڑوں ریٹائر ملازمین اپنی گریجویٹی کے لیے دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب ریفرنڈم میں سرگرم یونین رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل کو بحران سے نکالنے اور نجکاری کا خدشہ ختم کرنے کے لیے ریفرنڈم ناگزیر ہے، مزدور اور افسران مل کر اس اہم قومی ادارے کو منافع بخش بناسکتے ہیں، پاکستان اسٹیل کی موجودہ پیدواری استعداد 1.1 ملین ٹن ہے جسے 3ملین ٹن تک بڑھانے کی گنجائش ہے۔