’’عالمی سیاست میں انصاف نہیں طاقت کا راج ہے‘‘
مسلمان اب قرآن نہیں انسانوں کی پیروی کرتے ہیں
دنیا کے معمر ترین وزیراعظم، 94 سالہ مہاتیر محمد عالم اسلام کو درپیش مسائل پر کھل کر گفتگو کرتے ہیں۔ پچھلے دنوںانھوں نے ایک فکر انگیز مذاکرے ''اسلامو فوبیا کی تشریح'' (Demystifying Islamophobia: Towards a Deeper Understanding of Islam) سے خطاب کیا۔
یہ مذاکرہ ملائشیا کی ایک اسلامی تنظیم،انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک انڈرسٹیڈنگ نے منعقد کیا تھا۔ مذاکرے میں مہاتیر محمد سے سوال جواب بھی ہوئے جو عالم اسلام میں ''گرینڈ اولڈمین'' کہلاتے اور مغربی حکومتوں کی استعماری پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں۔چیدہ جوابات کا انتخاب قارئین ایکسپریس کے لیے پیش خدمت ہیں۔
٭٭
سوال: ایک بھارتی سفارت کار نے بیان دیا کہ جیسے فلسطین میں اسرائیل نے بستیاں بنائی ہیں،اسی طرح بھارت بھی مقبوضہ کشمیر میں ہندو بستیاں بسا سکتا ہے۔ اس بابت آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: اسرائیل مسلسل بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادیں پیروں تلے روند رہا ہے۔اس دوران عالمی قوتوں نے اسرائیلی حکومت کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، اسی لیے اس کی ہمت بڑھ گئی۔اب بھارت بھی اسرائیل کی دیکھا دیکھی مقبوضہ کشمیر میں نو آبادیاں قائم کرسکتا ہے۔
ہمارے فلسطینی اور کشمیری بھائی بہت مشکل میں ہیں مگر عالمی برادری ان کی کوئی مدد نہیں کررہی۔اسرائیل کے چلن نے اس عالمی اصول کو جنم دے ڈالاکہ طاقتور ملک نہتے لوگوں پر ظلم و ستم بھی کرے تو جائز ہے۔مگر کمزور ملک اپنا دفاع بھی کرے تو یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور اعلان جنگ قرار پاتا ہے۔اسرائیل کے نقش قدم پر اب دوسرے ممالک بھی گامزن ہوچکے۔اگر دنیا کو امن پسند اور پیار و محبت کی جگہ بنانا ہے تو ہمیں طاقتور کا ظلم و جبر روکنا ہوگا۔
سوال: آپ کا دعویٰ ہے کہ عالم اسلام میں کئی مسائل کو مغربی استعمار نے جنم دیا۔اس کی وضاحت کیجیے۔
جواب: مسئلہ کشمیر ہی کو لیجیے۔ یہ برطانوی راج کی نشانی ہے۔دراصل دوسری جنگ عظیم میں کامیابی نے مغربی طاقتوں کو مزید طاقتور بنا دیا۔ وہ پھر اپنی مرضی کے فیصلے دوسروں پر تھوپنے لگیں۔اسی طرز فکر نے ان کا سویت یونین سے تصادم کرایا اور سرد جنگ نے جنم لیا۔آج بھی مغربی استعمار کی سوچ یہی ہے کہ چونکہ وہ ہر لحاظ سے طاقت ور ہے لہٰذا وہ جو فیصلہ کرلے، باقی دنیا والوں کو بھی اسے تسلیم کرنا چاہیے ۔جو فیصلہ نہیں مانتا، وہ اس کی نظر میں دشمن قرار پاتا ہے۔
مغرب نہ صرف مطلق العانینت سے فیصلے کرتا بلکہ عموماً کمزور اقوام کو نقصان پہنچاتا ہے۔انہی وجوہ کی بنا پر میں مغربی استعمار پر تنقید کرتا ہوں۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا کا بین الاقوامی سیاسی نظام غیر منصفانہ اور استبدادانہ ہے۔اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل غیر جمہوری ادارہ ہے۔ وہاں پانچ ملک بیٹھے دوسرے ملکوں کی تقدیر کے من مانے فیصلے کرتے ہیں۔ بظاہر عدل و انصاف اور انسانی حقوق کی بلند و بالا باتیں ہوتی ہیں لیکن عالمی سیاسی نظام میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ طاقتور ممالک جو چاہے کر ڈالتے ہیں۔ کمزور ملکوں کو ناچار ان کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔
سوال: عالمی میڈیااسلام اور دہشت گردی کا تعلق جوڑنے کی سعی کرتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: عالم اسلام میں سامنے آنے والی شدت پسندی مغربی استعمار کے مظالم کا ردعمل ہے۔مغربی میڈیا اس ردعمل کی وجوہ بہت کم بیان کرتا ہے۔جبکہ مسلمانوں کی جنگجوئی بہت نمایاں کی جاتی ہے۔مثلاً کچھ عرصہ قبل لندن میں ایک شدت پسند نے دو لوگ مار ڈالے۔یہ خلاف اسلام فعل تھا۔اس خبر کو مغربی میڈیا کی ویب سائٹس نے کئی گھنٹوں تک شہ سرخی بنائے رکھا۔
لیکن پچھلے ایک ہفتے سے فلسطین اور کشمیر میں اسرائیلی وبھارتی فوجیوں نے کئی فلسطینی اور کشمیری مار ڈالے تھے مگر ان کی خبروں کامغربی میڈیا میں نشان نہ تھا۔مغربی میڈیا بہت جانب دار اورمتعصب ہے۔وہ مخصوص زاویہ نظر کی خبریں نمایاں کرتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگجویانہ ردعمل سے بعض اسلامی ممالک کو بہت نقصان پہنچا۔ خانہ جنگیوں نے ان کی معیشت تباہ کردی۔ وہاں کے باشندوں کی اکثریت عسرت زدہ زندگی بسر کررہی ہے۔ گویا طویل المیعاد لحاظ سے شدت پسندی اور جنگجوئی مسلم معاشروں کے لیے مفید ثابت نہیں ہوئی۔
سوال: ناروے میں توہین قران کا سانحہ کیا پیغام دے گیا؟
جواب: یہ واقعہ کئی پہلو نمایاں کرتا ہے۔مثلاً مغرب میں بڑھتا اسلاموفوبیا، وہاں انتہا پسند لیڈروں کی نمو، یہ پہلو کہ عام مسلمان قرآن سے شدید لگاؤ رکھتے ہیں مگر بیشتر اسلامی حکمران قرآنی تعلیمات سے دور ہوچکے۔ میرے نزدیک دور جدید میں امت کے پست ہونے کی بنیادی وجہ ہی قرآن پاک سے کٹ جانا ہے۔ اس خرابی سے اول مسلمان اخلاقیات کھو بیٹھے، دوم علم و حکمت (سائنس و ٹیکالوجی) پر بھی ان کے دسترس نہیں رہی۔ ماضی میں بہترین اخلاقیات اور علم و حکمت کے سہارے ہی مسلمان سپرپاور بنے تھے۔
یہ اہم ترین خوبیاں قرآنی تعلیمات کی دین تھیں۔ آج کے بیشتر مسلمان قرآن نہیں مخصوص لیڈروں کی پیروی کرتے ہیں مگر یہ لیڈر اسلام یا مسلم عوام کی کوئی خدمت انجام نہیں دیتے بلکہ اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔دنیا کے بعض ممالک (سرائیل، بھارت، امریکا وغیرہ) عالم اسلام میں جنگ و فساد کا باعث بنے مگر کئی اسلامی ملکوں (شام، عراق، لیبیا، یمن، نائیجیریا، صومالیہ) میں مسلم لیڈروں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے ہی تباہی و بربادی نے جنم لیا۔حضور اکرمﷺؐ کے دور میں فرقہ وارانہ یا مذہبی اختلافات کا کوئی وجود نہیں تھا۔ کیونکہ سبھی مسلمان متحد تھے۔دشمنوں کی چالیس اور سازشیں اپنی جگہ مگر مسلم حکمرانوں اور لیڈروں کو اپنی خامیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، جو قوم اپنی خرابیوں و خامیوں پر قابو پالے، وہی ترقی کرتی ہے۔
قرآن و سنت کی رو سے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔لیکن دور جدید کے ہمارے لیڈروں نے اسی بنیادی اسلامی اصول پر عمل نہیں کیا۔ وہ اپنے پیروکاروں کے ذریعے غیر مسلموں ہی نہیں مسلمان شہریوں کو بھی نشانہ بنانے لگے۔ ان کے قتل و غارت نے دنیا میں اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کردیا۔اس عجوبے سے اسلام دشمن قوتوں نے فائدہ اٹھایا۔ وہ اب عالم اسلام میں مسلم فرقوں کے مابین مذہبی، سیاسی و معاشی اختلافات کی آگ بڑھکانے کی بھرپور سعی کررہی ہیں تاکہ اپنے مفادات پورے کرسکیں۔
اسلامی حکومتوں کے درمیان غلط فہمیاں جنم دینے کی خاطر وسیع پیمانے پر جھوٹی (فیک) خبریں پھیلائی جاتی ہیں تاکہ عالم اسلام مسلسل خانہ جنگیوں کی آگ میں جلتا رہے اور وہاں امن وامان جنم نہ لے۔ ایک مملکت میں ترقی و خوشحالی لانے کے لیے امن و امان ہونا شرط اولیّں ہے۔ مگر اسلامی ممالک میں خانہ جنگیوں نے لاکھوں مسلمانوں کی زندگیاں تباہ کرڈالیں اور انہیں دربدر کردیا۔آپ یہ دیکھیے کہ جن اسلامی ممالک میں مغربی استعمار کے مخالف حکمران حکومت کررہے تھے، وہ اب خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ وہ باہمی جنگوں کے سبب کھنڈر بن چکے۔
غرض لیڈروں کی خود غرضی، ذات مفادات اور نااہلی کے سبب کئی اسلامی ملک تباہ ہوگئے۔ستم ظریفی ہے کہ اس تباہی سے عالم اسلام کے نئے لیڈروں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ اب بھی نااتفاقی و انتشار پھیلانے والی باتیں و عمل کرتے ہیں۔ یوں تو امت مسلمہ کبھی پستی و زوال سے نہیں نکل سکتی۔قرآن پاک میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے آپ کو فرقوں میں تقسیم نہ کرو۔ لیکن قرآنی تعلیمات سے دوری کے باعث ہم کئی گروہوں میں بٹ چکے اور مسلمانوں میں اتحاد نہیں رہا۔ اس نااتفاقی سے اسلام دشمن قوتوں کو اصل فائدہ ہوتا ہے۔
اس وقت یہ امر سب سے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک کے مابین اتحاد و یک جہتی جنم لے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہمارے لیڈر اور حکمران دوبارہ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں۔ عالم اسلام کی تمام خرابیوں کی جڑ یہ معاملہ ہے۔قرآن سے دوری نے مسلمان کو آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا دیا ۔ کبھی وہ سادگی، قناعت اور ایمان داری کا جیتا جاگتا نمونہ تھا۔ آج وہ مغربی اقتدار کے زیر اثر دنیاوی خواہشات کا اسیر ہوچکا۔ حتیٰ کہ حرام و حلال کی تمیز بھی کھو بیٹھا۔
سوال: مغرب میں بڑھتے اسلاموفوبیا پر قابو پانے کی خاطر امت مسلمہ کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟
جواب: پچھلے ساٹھ ستر سال کی تاریخ عیاں کرتی ہے کہ اسلامی لیڈر جنگجوئی سے اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکے۔ فلسطین، کشمیر، برما اور دیگر ممالک میں مسلمان بدستور ظلم کا شکار ہیں۔ اب ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ ہم امن کا راستہ اختیار کریں۔
اس طرح پوری دنیا کو پتا چلے گا کہ ظلم و جنگجوئی کے مرتکب کون ہیں۔تب مسلمانوں کو دنیا بھر میں عام لوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہوں گی۔ پھر اسلام اور مسلمانوں کا دہشت گردی سے جو تعلق جوڑا جاتا ہے،یہ تاثر بھی بتدریج ختم ہوگا۔ اس تاثر نے ہماری مسلح کارروائیوں کے باعث ہی جنم لیا۔ عالمی رائے عامہ کی حمایت حاصل ہونے کے بعد سفارت کاری، گفت و شنید اور دیگر پُر امن طریقوں سے عالم اسلام کو درپیش مسائل حل کرنا آسان ہوسکتا ہے۔
سوال: عالم اسلام میں ترقی و خوشحالی لانے کا بہترین طریق کار کیا ہے؟
جواب: عوام و خواص تک اسلام کی حقیقی تعلیمات پہنچائی جائیں۔ اسلام فساد اور شر پسند نہیں کرتا۔ دور حاضر کے مسلمان اسلامی تعلیمات فراموش کرچکے، اسی لیے وہ ہر قسم کی برائی میں مبتلا ہیں۔
سوال:آپ پہلے سرمایہ داری اور عالمگیریت (گلوبلائزیشن) کے خلاف تھے۔ مگر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ انہی دونوں نے ملائشیا کو ترقی دینے اور خوشحال بنانے میں بھی کردار ادا کیا۔ ایسا کیونکر ہوا؟
جواب:دراصل ہماری حکومت نے سرمایہ داری اور عالمگیریت، دونوں کو اصول و قوانین کے تابع بنادیا اور انہیں آپے سے باہر نہیںہونے دیا۔ اسی لیے وہ ہمارے لیے مفید اور فائدہ مند عمل بن گئے۔ ہم نے بیرونی سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہا۔ وہ آئے، فیکٹریاں لگائیں، اپنا مال باہر بھجوایا، ہمارے لوگوں کو ملازمتیں دیں اور ہماری معیشت ترقی کرنے لگی۔ اس قسم کی سرمایہ داری اور عالمگیریت یقیناً خوش آئند ہے جو قانون کے مطابق چلے اور ملکی کاروبار و صنعت و تجارت کو نقصان نہ پہنچائے۔ لیکن انھیں کسی ملک کی معیشت تباہ یا قبضہ کرنے کا ہتھیار بنالیا جائے، تو انہیں اپنانے سے توبہ ہی بھلی۔
سوال: دور جدید کی عالمی سیاست میں تجارت بھی ایک ہتھیار بن چکی۔اس بابت آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔جب میں1981ء میں وزیراعظم بنا، تو چند ماہ بعد امریکی وزیر خارجہ الیگزینڈر ہیگ ایک تجارتی وفد کے ساتھ تشریف لائے۔ انہوں نے ہم پر بہت زور ڈالا کہ امریکی بینکوں کو ملائشیا میں کام کرنے کی اجازت دیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے بینک بہت چھوٹے جبکہ امریکی بینک دیو کے مانند ہیں۔اگر وہ یہاں کام کرنے لگے تو مقامی بینکوں کو کھا جائیں گے۔
یہ ہر حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ مقامی اداروں، کمپنیوں، کاروبار اور صنعت و حرفت کو تحفظ دے، خاص طور پر جب وہ کمزور ہوں۔اگر وہ مالیاتی لحاظ سے مضبوط ہوجائیں، تب بے شک غیر ملکی اداروں کو ملک میں کام کرنے دیا جائے۔ اسی طرح صحت مند مسابقت جنم لیتی ہے اور یوں عوام کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن ملکی ادارے کمزور ہوں، تو عموماً غیر ملکی طاقتور ادارے انہیں تباہ کر ڈالتے ہیں۔ یہ عمل قومی معیشت کے لیے مفید نہیں، اسی لیے میں نے امریکی بینکوں کو ملائشیا میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی، حالانکہ ہماری حکومت پر کافی دباؤ تھا۔ مغربی استعمار چھوٹے ممالک کو اپنے جال میں پھنسانے کی خاطر ایسا حربہ بھی اختیار کرتا ہے۔
سوال: لیکن عالمی تجارت کے فوائد بھی ہیں۔اسی کے ذریعے ملائشیا بھی ربڑ بنانے والے غریب ملک سے دنیا کی 25 ویں بڑی معاشی قوت بن گیا۔
جواب:آپ نے درست کہا مگر اس کامیابی کے پیچھے ہماری محنت و ذہانت پوشیدہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہم نے دیکھا کہ مغربی اقوام سامان تیار کرکے عالمی منڈیوں میں فروخت کرتی ہیں۔ ہم نے بھی یہی طریقہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ سب سے پہلے ہم نے اپنے لوگوں کو مختلف اشیا بنانے کا ہنر سکھایا۔ پھر ہم وہ اشیا تیار کرنے لگے۔
ہمارے ہاں افرادی قوت سستی تھی۔ پھر ہم نے منافع کا تناسب کم رکھا لہٰذا عالمی منڈیوں میں وہ سستی ہوگئیں۔ ان کا معیار بھی مغربی اشیا کے ہم پلّہ تھا۔ اسی لیے صارفین ہماری اشیا خریدنے لگے اور مغربی سامان کی فروخت کم ہوگئی۔ اس کمی کی اہم وجہ یہ ہے کہ لالچی مغربی کمپنیاں اپنا منافع زیادہ رکھتی تھیں، اسی لیے اشیا مہنگی بھی ہوجاتیں۔ ہمارے معاشی طریق کار کو کئی ممالک نے اپنایا۔ مثلاً جاپان نے عالمی منڈیوں میں سستے داموں معیاری گاڑیاں فراہم کیں تو جلد ہی وہاں سے مغربی گاڑیوں کا صفایا ہوگیا۔ حتیٰ کہ امریکا اور برطانیہ میں عام لوگ جاپانی گاڑیوں کو ترجیح دینے لگے۔
غرض ہماری حکمت عملی کامیاب رہی اور ہم نے کئی عالمی منڈیاں مغربی ممالک سے چھین لیں۔صنعتی دور شروع ہونے سے قبل ملائشیا زرعی ملک تھا۔ مگر کھیت ہماری بڑھتی آبادی کو روزگار دینے سے قاصر تھے۔ مثلاً ایک ایکڑ رقبے کا کھیت بہ مشکل کسان کی ضرورتیں پوری کرتا تھا لیکن اسی ایکڑ پر فیکٹری لگی، تو ایک سو لوگوں کو روزگار میسر آگیا۔ چناں چہ ہماری حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ صنعت و حرفت و تجارت کو ترقی دی جائے تاکہ لاکھوں بے روزگاروں کو ملازمت مل سکے۔ یہ پالیسی بہت کامیاب رہی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ملک میں افرادی قوت دستیاب نہ رہی، اب ہم بیرون ممالک سے افراد بلاتے اور انہیں ملازمتیں دیتے ہیں۔
سوال: 1998ء میں ملائشیا کرنسی کے بحران میں مبتلا تھا تو آپ کی حکومت آئی ایم ایف سے مدد لینے کا سوچنے لگی۔ لیکن پھر یہ خیال ترک کردیا گیا۔ کیا وجہ تھی؟
جواب: ایک ملک معاشی بحران کا شکار ہو تو آئی ایم ایف اسے تندرست کرنے کے لیے''ڈالروں کی دوا'' دیتا ہے۔ لیکن یہ دوا خصوصاً عوام پر کئی سنگین ضمنی اثرات مرتب کرتی ہے۔ مثلاً آئی ایم ایف کی ہدایت پر مقروض حکومت کو ٹیکس اور ایندھن کی قیمتیں بڑھانی پڑتی ہیں۔ اس طرح مہنگائی بڑھ کر عوام کے لیے مالی مشکلات پیدا کرتی ہے۔
اسی لیے ہم نے آئی ایم ایف سے ''دوا'' نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ پھر ہم یہ بھی جانتے تھے کہ جو ملک اس مالیاتی ادارے سے قرضہ لے، وہ مزید مقروض ہوجاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک ملک معاشی مسائل میں مبتلا ہے، تو حکومت کو گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے کہ کن وجوہ کی بنا پر قومی معیشت زوال پذیر ہے۔ محض کرپشن اور بدانتظامی (بیڈگورنس) کو الزام دینا بچکانہ بات ہے۔ مغرب کے کئی ممالک بھی ان دو مسائل میں گرفتار ہیں مگر ان کی معیشت ترقی کررہی ہے۔ معاشی زوال کی معین وجوہ سامنے آنے پر انہیں دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔ تبھی ایک حکومت اپنے ملک کو معاشی مسائل سے نجات دلوا سکے گی۔
سوال: دنیا میں بعض ممالک امیر ہیں اور بعض غریب۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب:ایک اہم وجہ سوچ کا انداز ہے۔ مثلاً ایشیا اور افریقہ میں کئی ممالک قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن وہاں کے لیڈر اور عوام بھی ان وسائل سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ اکثر ممالک میں لوگ یہی نہیں جانتے کہ وسائل کی مددسے کیونکر ترقی کی جائے، ان سے کیے دولت کمائی جائے لہٰذا وہ بدستور غریب رہتے ہیں۔
بنیادی طور پر یہ حکمران طبقے کی ذمے داری ہے کہ وہ باشعور و فرض شناس ہو اور بخوبی جانتا ہو کہ کاروبار مملکت کیونکر چلانا ہے تاکہ ملک ترقی یافتہ اور خوشحال بن سکے۔معیشت کو ترقی دینے کی بنیادی اور اولیّں ضرورت یہ ہے کہ ملک میں امن و امان ہو۔ اگر کوئی ملک مسلسل لڑائی جھگڑوں اور تنازعات میں الجھا رہے، تو وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اگر ایک ملک میں امن ہے، تو وہ باہر سے خام مال درآمد کرکے بھی ملکی معیشت کو ترقی دے اور کارآمد بنا سکتا ہے۔
سوال: آپ مغرب مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: میں وہاں کے لوگوں نہیں بلکہ مغرب سے آنے والے منفی اور گمراہ کن نظریات اور مغربی حکومتوں کی بداعمالیوں کا مخالف ہوں۔ اگر مغرب سے کوئی اچھا نظریہ آیا، تو میں نے ہمیشہ اس کی حمایت کی اور اسے سراہا۔ میں سمجھتا ہوں، اہل مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی طرف سے آنے والا ہر نظریہ عمدہ اور خیر پر مبنی نہیں ہوتا۔ اسی طرح ان کی حکومتیں بھی ہمیشہ اچھے کام نہیں کرتیں بلکہ اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر شرانگیز سرگرمیوں میں بھی ملوث رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی کامل (پرفیکٹ) نہیں ہوتا، ہرکسی میں کوئی تہ کوئی خامی مل جاتی ہے۔
سوال: کیا آج کی دنیا میں کوئی ملک دوسرے ممالک سے کٹ کر رہ سکتا ہے؟ جیسا کہ بعض اسلامی ملکوں میں شدت پسند لیڈر مغربی ممالک سے کسی قسم کے تعلقات نہیں چاہتے۔
جواب: اب ایسا کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ایک ملک کے عوام مغربی ممالک سے آنے والے نظریات ضرور رد کردیں مگر اس کی حکومت دیگر ملکوں سے معاشی تعلقات منقطع نہیں کرسکتی۔ کٹ کررہنے سے اس ملک کے عوام ہی کو نقصان پہنچے گا اور وہ غربت کے جال میں جکڑے رہیں گے۔ قومی معیشت کو ترقی دینے کے لیے بیرون ممالک سے تجارتی تعلقات قائم کرنا لازمی ہیں۔
سوال: سننے میں آچکا کہ چینی حکومت نے مشرقی ترکستان میں ایغوروں کو محبوس کررکھا ہے۔اس بابت آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: ہم نے چینی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ایغوروں کو مملکت کا شہری سمجھے، کسی مختلف مذہب کا پیروکار نہیں۔ اس طرح ایغوروں کو انصاف مل سکے گا۔ چین کا دعویٰ ہے کہ بعض ایغور گروہوں نے جنگجوئی شروع کررکھی ہے، اسی لیے حکومت کو ردعمل دکھانا پڑا۔ بات پھر وہی ہے کہ جنگ جوئی اور لڑائی سے منزل تک پہنچنا مشکل مرحلہ بن جاتا ہے۔ مذاکرات اور پُرامن احتجاج زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے۔
سوال: حکومت چین پر الزام ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو قرضے دے کر انہیں اپنے جال میں پھانس رہی ہے۔ اس الزام میں کتنی صداقت ہے؟
جواب: چینی حکومت کے پاس وافر سرمایہ موجود ہے۔ وہ یہ سرمایہ ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں لگارہی ہے۔ چینی فطرتاً اچھے کاروباری ہیں۔ وہ جہاں ترقی کے مواقع دیکھیں، سرمایہ لگانے کو تیار رہتے ہیں۔ ماضی میں یورپی استعمار بھی تجارت کے بہانے تیسری دنیا میں آیا تھا۔ لیکن اس نے ہمیں غلام بنالیا اور ہمارے وسائل جی بھر کر لوٹے ۔ چین کبھی استعماری طاقت نہیں رہا۔ لہٰذا ہمیں امید ہے کہ چینی حکمران نو آبادیاتی طاقت بننے کی حماقت کبھی نہیں کریں گے۔ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ چین ایک بڑی معاشی و عسکری قوت ہے۔
لہٰذا ہمیں ایسی پالیسیاں اور حکمت عملی بنانی چاہیے کہ چین سے فوائد حاصل کرسکیں۔ چین کی مخالفت کرنے سے الٹا ہمیں نقصان ہوگا۔ تاہم ہر ملک کی قیادت یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ چین سے دوستی کس حد تک کی جائے۔ ظاہر ہے، ہر شے کی زیادتی بھی مفید ثابت نہیں ہوتی۔اپنی ضروریات مدنظر رکھ کر ہی چین سے دوستی رکھنا چاہیے۔ اسی لیے حکومت سنبھال کر جب میں نے دیکھا کہ چینی سرمائے سے وجود میں آنے والے سرکاری منصوبے خسارے کا سودا ہیں، تو انہیں میں نے منسوخ کردیا۔
سوال: آپ بنیادی طور پر ڈاکٹر تھے۔ پھر میدان سیاست میں کیونکر آنا ہوا؟
جواب: جب میں پیدا ہو تو ملایا پر انگریز نے قبضہ کررکھا تھا۔ پھر جاپانی آگئے، وہ جاتے ہوئے ہمیں تھائی قوم کے حوالے کرگئے۔ گویا ہم ملائی باشندے انسان نہیں فٹ بال بن بیٹھے کہ جو آتا، ہمیں ٹھوکر مار دیتا۔ ہماری کوئی عزت ہی نہیں رہی۔ تب میں نے سوچا کہ قوم کو عزت و احترام دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ حکومت میں پہنچ کر کام کیے جائیں تاکہ ملک ترقی کرے اور خوشحال ہوسکے۔
سوال: آپ پر الزام لگتا ہے کہ اپنے دور حکمرانی میں آپ ڈکٹیٹر بنے رہے۔ یہ بتائیے کیا ایک طاقت ور حکمران ہی اپنے ترقی پذیر ملک کو ترقی یافتہ مملکت میں بدل سکتا ہے؟
جواب: میں کبھی ڈکٹیٹر نہیں رہا۔ مجھے عوام نے پانچ مرتبہ منتخب کیا اور پھر کوئی ڈکٹیٹر ازخود اقتدار کو خیرباد نہیں کہتا۔ دراصل بعض اوقات کام کرانے کے لیے قوت استعمال کرنی پڑتی ہے۔ اسی لیے مخالفین نے مجھ پر آمر ہونے کا ٹھپہ لگادیا۔ ایک ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے طاقت نہیں ذہانت، محنت اور اہلیت درکار ہوتی ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی کہ وہی فیصلے کروں جو ملک و قوم کے لیے مفید ہوں اور انہیں فائدہ پہنچائیں۔ دیانت داری سے اپنا فرض انجام دینے پر انسان کو جو اطمینان و سکون ملتا ہے، وہ پیسا کبھی نہیں دے سکتا۔
طویل عمر کا راز
ہمارے ہاں ساٹھ سال کا ہوتے ہی بیشتر مرد و زن ریٹائرڈ زندگی گزارنے لگتے ہیں مگر مہاتیر محمد 94 سال کے ہوکر تین کروڑ باشندوں کا پورا ملک چلا رہے ہیں۔ آخر ان کی زبردست تندرستی اور طویل عمری کا راز کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں ''میری عمدہ صحت کوئی راز نہیں رکھتی۔ بس میں ہر معاملے میں اعتدال پسندی اپناتا ہوں۔ کم کھاتا اور سادہ زندگی گزارتا ہوں۔ ورزش بھی کرتا اور سائیکل چلاتا ہوں۔ سب سے بڑھ کر اپنے دماغ کو متحرک رکھتا ہوں۔ میں کتب و رسائل کا مطالعہ کرتا ،بحث و مباحثے میں حصہ لیتا اور خوب سوچتا ہوں۔ انسان اپنے دماغ کو متحرک نہ رکھے تو اس کے جسمانی و روحانی قوی کو زنگ لگ جاتا ہے۔ یہی خرابی بڑھاپا چمٹنے کا سبب بنتی ہے۔''
ایک لیڈر کی خوبیاں
دنیا کے معمر ترین اور دلیر حکمران ایک لیڈر کی خوبیاں یوں بیان کرتے ہیں :''اکثر حکمران لیڈر شپ کی ایک اہم خوبی نظر انداز کردیتے ہیں... وہ ہے عوام کے دکھ درد کا احساس! اگر حکمران شاہی خاندان یا طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھے، تو وہ عموماً عوام کی مشکلات سے ناواقف ہوتا ہے۔ لیکن نچلے طبقے کے کئی حکمران اقتدار میں پہنچیںتو وہ بھی عوامی مسائل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ خرابی بے حسی اور غرور کی بدولت جنم لیتی ہے۔ میں زمانہ طالب علمی میں پھل بیچتا رہا ہوں تاکہ اپنی فیس کا بندوبست کرسکوں۔
جب میں نے حکومت سنبھال لی، تو مجھے احساس ہوا کہ کئی غریب لوگ سخت محنت کے باوجود غربت سے پیچھا نہیں چھڑا پاتے۔ وجہ یہ کہ وہ ترقی کے مواقع تلاش نہ کرپاتے۔ ایسے موقع پر حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان کی مدد کرے تاکہ غریب اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔
میں غریبوں کو مچھلی کھلانے نہیں بلکہ انھیں شکار کی تربیت دینے پر یقین رکھتا ہوں۔دوم لیڈر کو نظم و ضبط کا پابند ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں میرے والد بہت سخت تھے۔ انہوں نے ہی مجھے بھی ڈسپلن سکھایا ۔اسی خوبی سے مجھے وقت کی اہمیت کا بھی احساس ہوا۔ اگر ایک حکمران دوسرے سے محنت کرانا چاہتا ہے تو اسے بھی کم از کم اتنی ہی محنت کرنا ہو گی۔ اسی طرح وہ سب کام وقت پر کرانے کا خواہش مند ہے تو اسے بھی پابندی وقت کرنا ہوگی۔نئی نسل کے لیے میرا پیغام ہے کہ اپنے آپ کو جدید سائنس و ٹیکنالوجی کا ماہر بنائیں۔ اس وقت کاروبار سے لے کر قومی سلامتی کے امور تک، ہر شعبے میں سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت ہی ایک قوم ترقی کی معراج پاسکتی ہے۔ کامیابی و کامرانی کا زینہ جدید علوم وفنون کی بنیادوں پر ہی استوار ہے۔ اسی کے ذریعے ایک قوم اپنی آزادی و عزت برقرار رکھ سکے گی۔
باتھ روم میں مطالعہ
1947ء میں جب بائیس سالہ مہاتیر محمد کا داخلہ سنگاپور کے ایک میڈیکل کالج میں ہوا تو وہیں ان کی ملاقات اکیس سالہ حازمہ بنت علی سے ہوئی۔وہ کالج میں ملایا سے آئیں اکلوتی طالبہ تھیں۔جبکہ ملایا کے سات طلبہ میں مہاتیر ہی سب سے زیادہ ذہین وقابل تھے۔یہی وجہ ہے،دونوں جلد قریب آ گئے۔یہ قربت اس وقت بڑھی جب مہاتیر اپنی ہم جماعت کو انگریزی کی ٹیوشن دینے لگے۔حازمہ کو ان کی حسِ مزاح اور دیانت داری پسند آئی۔مہاتیر کو حازمہ کا مضبوط کردار بھا گیا۔
وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھیں۔اپنی محنت کے بل بوتے پر انھوں نے ترقی کی اور اب ڈاکٹر بن رہی تھیں۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1956ء میں دونوں نے شادی کر لی۔پچھلے تریسٹھ برس سے یہ مثالی جوڑا خوش وخرم زندگی گذار رہا ہے۔ڈاکٹر حازمہ طویل عرصہ سرکاری ملازمت کرتی رہیں۔اس دوران انھوں نے تعلیم وصحت کے اہم شعبوں میں سماجی خدمات بھی انجام دیں۔تاہم سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیا۔یہ مہاتیر محمد کے اصولوں کے منافی تھا کہ بیگم کو سیاسی سرگرمیوں میں لے آتے۔انھوں نے بچوں کو بھی اپنے اعلی سیاسی مقا م سے کوئی فائدہ اٹھانے نہیں دیا۔بچوں نے اپنے زور بازو سے دنیا میں نام و مال کمایا۔
حازمہ گانے بجانے کی شوقین ہیں۔آج بھی پیانو بجاتی اور مشہور گانے گنگنا لیتی ہیں۔میاں بیوی گاہے بگاہے فلم دیکھتے اور یوں ''ڈیٹ''پر جاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے ''ہماری خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز برداشت اور دوسرے کو احترام دینے میں پوشیدہ ہے۔ہم نے ایک دوسرے کو تمام خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کیا۔ہم جھگڑتے بھی ہیں مگر لڑائی تین دن سے پہلے ختم ہوجاتی ہے۔''دونوں سات بیٹے بیٹیوں کے فخرمند والدین ہیں۔حازمہ بتاتی ہیں:''نوجوانی میں میرے شوہر کافی شرمیلے تھے۔رفتہ رفتہ میں نے ان میں تین خوبیاں پائیں۔پہلی یہ کہ وہ ہر حال میں پُرسکون رہتے ہیں،گھبراتے نہیں۔
دوسری یہ کہ بہت ذہین ہیں۔دوسروں کو ذہانت ہی ان کی جانب کھینچتی ہے۔تیسرے وہ معلومات کا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔وجہ یہ کہ بہت پڑھاکو ہیں۔میرے گھر میں آپ کو ہر جگہ کتابیں رسالے نظر آئیں گے۔حتی کہ وہ باتھ روم میں بھی مطالعہ کرتے ہیں۔مطالعے کی عادت کے باعث ہر چیز کا علم رکھتے ہیں۔'' مہاتیر محمد کے طرز ِزندگی کی بابت کہتی ہیں:''جوانی میں وہ 8 تا 5 کام کرتے تھے۔آج کل کام زیادہ ہے ،اسی لیے 8.30 تا 6مصروف رہتے ہیں۔شام کو گھر آ کر ٹی وی دیکھتے ہیں۔الجزیرہ ان کا پسندیدہ چینل ہے۔ایک گھنٹے بعد غسل کر کے نماز پڑھتے ہیں۔رات ساڑھے نو بجے ہم کھانا کھاتے اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔''
یہ مذاکرہ ملائشیا کی ایک اسلامی تنظیم،انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک انڈرسٹیڈنگ نے منعقد کیا تھا۔ مذاکرے میں مہاتیر محمد سے سوال جواب بھی ہوئے جو عالم اسلام میں ''گرینڈ اولڈمین'' کہلاتے اور مغربی حکومتوں کی استعماری پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں۔چیدہ جوابات کا انتخاب قارئین ایکسپریس کے لیے پیش خدمت ہیں۔
٭٭
سوال: ایک بھارتی سفارت کار نے بیان دیا کہ جیسے فلسطین میں اسرائیل نے بستیاں بنائی ہیں،اسی طرح بھارت بھی مقبوضہ کشمیر میں ہندو بستیاں بسا سکتا ہے۔ اس بابت آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: اسرائیل مسلسل بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادیں پیروں تلے روند رہا ہے۔اس دوران عالمی قوتوں نے اسرائیلی حکومت کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، اسی لیے اس کی ہمت بڑھ گئی۔اب بھارت بھی اسرائیل کی دیکھا دیکھی مقبوضہ کشمیر میں نو آبادیاں قائم کرسکتا ہے۔
ہمارے فلسطینی اور کشمیری بھائی بہت مشکل میں ہیں مگر عالمی برادری ان کی کوئی مدد نہیں کررہی۔اسرائیل کے چلن نے اس عالمی اصول کو جنم دے ڈالاکہ طاقتور ملک نہتے لوگوں پر ظلم و ستم بھی کرے تو جائز ہے۔مگر کمزور ملک اپنا دفاع بھی کرے تو یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور اعلان جنگ قرار پاتا ہے۔اسرائیل کے نقش قدم پر اب دوسرے ممالک بھی گامزن ہوچکے۔اگر دنیا کو امن پسند اور پیار و محبت کی جگہ بنانا ہے تو ہمیں طاقتور کا ظلم و جبر روکنا ہوگا۔
سوال: آپ کا دعویٰ ہے کہ عالم اسلام میں کئی مسائل کو مغربی استعمار نے جنم دیا۔اس کی وضاحت کیجیے۔
جواب: مسئلہ کشمیر ہی کو لیجیے۔ یہ برطانوی راج کی نشانی ہے۔دراصل دوسری جنگ عظیم میں کامیابی نے مغربی طاقتوں کو مزید طاقتور بنا دیا۔ وہ پھر اپنی مرضی کے فیصلے دوسروں پر تھوپنے لگیں۔اسی طرز فکر نے ان کا سویت یونین سے تصادم کرایا اور سرد جنگ نے جنم لیا۔آج بھی مغربی استعمار کی سوچ یہی ہے کہ چونکہ وہ ہر لحاظ سے طاقت ور ہے لہٰذا وہ جو فیصلہ کرلے، باقی دنیا والوں کو بھی اسے تسلیم کرنا چاہیے ۔جو فیصلہ نہیں مانتا، وہ اس کی نظر میں دشمن قرار پاتا ہے۔
مغرب نہ صرف مطلق العانینت سے فیصلے کرتا بلکہ عموماً کمزور اقوام کو نقصان پہنچاتا ہے۔انہی وجوہ کی بنا پر میں مغربی استعمار پر تنقید کرتا ہوں۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا کا بین الاقوامی سیاسی نظام غیر منصفانہ اور استبدادانہ ہے۔اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل غیر جمہوری ادارہ ہے۔ وہاں پانچ ملک بیٹھے دوسرے ملکوں کی تقدیر کے من مانے فیصلے کرتے ہیں۔ بظاہر عدل و انصاف اور انسانی حقوق کی بلند و بالا باتیں ہوتی ہیں لیکن عالمی سیاسی نظام میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ طاقتور ممالک جو چاہے کر ڈالتے ہیں۔ کمزور ملکوں کو ناچار ان کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔
سوال: عالمی میڈیااسلام اور دہشت گردی کا تعلق جوڑنے کی سعی کرتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: عالم اسلام میں سامنے آنے والی شدت پسندی مغربی استعمار کے مظالم کا ردعمل ہے۔مغربی میڈیا اس ردعمل کی وجوہ بہت کم بیان کرتا ہے۔جبکہ مسلمانوں کی جنگجوئی بہت نمایاں کی جاتی ہے۔مثلاً کچھ عرصہ قبل لندن میں ایک شدت پسند نے دو لوگ مار ڈالے۔یہ خلاف اسلام فعل تھا۔اس خبر کو مغربی میڈیا کی ویب سائٹس نے کئی گھنٹوں تک شہ سرخی بنائے رکھا۔
لیکن پچھلے ایک ہفتے سے فلسطین اور کشمیر میں اسرائیلی وبھارتی فوجیوں نے کئی فلسطینی اور کشمیری مار ڈالے تھے مگر ان کی خبروں کامغربی میڈیا میں نشان نہ تھا۔مغربی میڈیا بہت جانب دار اورمتعصب ہے۔وہ مخصوص زاویہ نظر کی خبریں نمایاں کرتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگجویانہ ردعمل سے بعض اسلامی ممالک کو بہت نقصان پہنچا۔ خانہ جنگیوں نے ان کی معیشت تباہ کردی۔ وہاں کے باشندوں کی اکثریت عسرت زدہ زندگی بسر کررہی ہے۔ گویا طویل المیعاد لحاظ سے شدت پسندی اور جنگجوئی مسلم معاشروں کے لیے مفید ثابت نہیں ہوئی۔
سوال: ناروے میں توہین قران کا سانحہ کیا پیغام دے گیا؟
جواب: یہ واقعہ کئی پہلو نمایاں کرتا ہے۔مثلاً مغرب میں بڑھتا اسلاموفوبیا، وہاں انتہا پسند لیڈروں کی نمو، یہ پہلو کہ عام مسلمان قرآن سے شدید لگاؤ رکھتے ہیں مگر بیشتر اسلامی حکمران قرآنی تعلیمات سے دور ہوچکے۔ میرے نزدیک دور جدید میں امت کے پست ہونے کی بنیادی وجہ ہی قرآن پاک سے کٹ جانا ہے۔ اس خرابی سے اول مسلمان اخلاقیات کھو بیٹھے، دوم علم و حکمت (سائنس و ٹیکالوجی) پر بھی ان کے دسترس نہیں رہی۔ ماضی میں بہترین اخلاقیات اور علم و حکمت کے سہارے ہی مسلمان سپرپاور بنے تھے۔
یہ اہم ترین خوبیاں قرآنی تعلیمات کی دین تھیں۔ آج کے بیشتر مسلمان قرآن نہیں مخصوص لیڈروں کی پیروی کرتے ہیں مگر یہ لیڈر اسلام یا مسلم عوام کی کوئی خدمت انجام نہیں دیتے بلکہ اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔دنیا کے بعض ممالک (سرائیل، بھارت، امریکا وغیرہ) عالم اسلام میں جنگ و فساد کا باعث بنے مگر کئی اسلامی ملکوں (شام، عراق، لیبیا، یمن، نائیجیریا، صومالیہ) میں مسلم لیڈروں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے ہی تباہی و بربادی نے جنم لیا۔حضور اکرمﷺؐ کے دور میں فرقہ وارانہ یا مذہبی اختلافات کا کوئی وجود نہیں تھا۔ کیونکہ سبھی مسلمان متحد تھے۔دشمنوں کی چالیس اور سازشیں اپنی جگہ مگر مسلم حکمرانوں اور لیڈروں کو اپنی خامیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، جو قوم اپنی خرابیوں و خامیوں پر قابو پالے، وہی ترقی کرتی ہے۔
قرآن و سنت کی رو سے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔لیکن دور جدید کے ہمارے لیڈروں نے اسی بنیادی اسلامی اصول پر عمل نہیں کیا۔ وہ اپنے پیروکاروں کے ذریعے غیر مسلموں ہی نہیں مسلمان شہریوں کو بھی نشانہ بنانے لگے۔ ان کے قتل و غارت نے دنیا میں اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کردیا۔اس عجوبے سے اسلام دشمن قوتوں نے فائدہ اٹھایا۔ وہ اب عالم اسلام میں مسلم فرقوں کے مابین مذہبی، سیاسی و معاشی اختلافات کی آگ بڑھکانے کی بھرپور سعی کررہی ہیں تاکہ اپنے مفادات پورے کرسکیں۔
اسلامی حکومتوں کے درمیان غلط فہمیاں جنم دینے کی خاطر وسیع پیمانے پر جھوٹی (فیک) خبریں پھیلائی جاتی ہیں تاکہ عالم اسلام مسلسل خانہ جنگیوں کی آگ میں جلتا رہے اور وہاں امن وامان جنم نہ لے۔ ایک مملکت میں ترقی و خوشحالی لانے کے لیے امن و امان ہونا شرط اولیّں ہے۔ مگر اسلامی ممالک میں خانہ جنگیوں نے لاکھوں مسلمانوں کی زندگیاں تباہ کرڈالیں اور انہیں دربدر کردیا۔آپ یہ دیکھیے کہ جن اسلامی ممالک میں مغربی استعمار کے مخالف حکمران حکومت کررہے تھے، وہ اب خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ وہ باہمی جنگوں کے سبب کھنڈر بن چکے۔
غرض لیڈروں کی خود غرضی، ذات مفادات اور نااہلی کے سبب کئی اسلامی ملک تباہ ہوگئے۔ستم ظریفی ہے کہ اس تباہی سے عالم اسلام کے نئے لیڈروں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ اب بھی نااتفاقی و انتشار پھیلانے والی باتیں و عمل کرتے ہیں۔ یوں تو امت مسلمہ کبھی پستی و زوال سے نہیں نکل سکتی۔قرآن پاک میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے آپ کو فرقوں میں تقسیم نہ کرو۔ لیکن قرآنی تعلیمات سے دوری کے باعث ہم کئی گروہوں میں بٹ چکے اور مسلمانوں میں اتحاد نہیں رہا۔ اس نااتفاقی سے اسلام دشمن قوتوں کو اصل فائدہ ہوتا ہے۔
اس وقت یہ امر سب سے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک کے مابین اتحاد و یک جہتی جنم لے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہمارے لیڈر اور حکمران دوبارہ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں۔ عالم اسلام کی تمام خرابیوں کی جڑ یہ معاملہ ہے۔قرآن سے دوری نے مسلمان کو آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا دیا ۔ کبھی وہ سادگی، قناعت اور ایمان داری کا جیتا جاگتا نمونہ تھا۔ آج وہ مغربی اقتدار کے زیر اثر دنیاوی خواہشات کا اسیر ہوچکا۔ حتیٰ کہ حرام و حلال کی تمیز بھی کھو بیٹھا۔
سوال: مغرب میں بڑھتے اسلاموفوبیا پر قابو پانے کی خاطر امت مسلمہ کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟
جواب: پچھلے ساٹھ ستر سال کی تاریخ عیاں کرتی ہے کہ اسلامی لیڈر جنگجوئی سے اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکے۔ فلسطین، کشمیر، برما اور دیگر ممالک میں مسلمان بدستور ظلم کا شکار ہیں۔ اب ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ ہم امن کا راستہ اختیار کریں۔
اس طرح پوری دنیا کو پتا چلے گا کہ ظلم و جنگجوئی کے مرتکب کون ہیں۔تب مسلمانوں کو دنیا بھر میں عام لوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہوں گی۔ پھر اسلام اور مسلمانوں کا دہشت گردی سے جو تعلق جوڑا جاتا ہے،یہ تاثر بھی بتدریج ختم ہوگا۔ اس تاثر نے ہماری مسلح کارروائیوں کے باعث ہی جنم لیا۔ عالمی رائے عامہ کی حمایت حاصل ہونے کے بعد سفارت کاری، گفت و شنید اور دیگر پُر امن طریقوں سے عالم اسلام کو درپیش مسائل حل کرنا آسان ہوسکتا ہے۔
سوال: عالم اسلام میں ترقی و خوشحالی لانے کا بہترین طریق کار کیا ہے؟
جواب: عوام و خواص تک اسلام کی حقیقی تعلیمات پہنچائی جائیں۔ اسلام فساد اور شر پسند نہیں کرتا۔ دور حاضر کے مسلمان اسلامی تعلیمات فراموش کرچکے، اسی لیے وہ ہر قسم کی برائی میں مبتلا ہیں۔
سوال:آپ پہلے سرمایہ داری اور عالمگیریت (گلوبلائزیشن) کے خلاف تھے۔ مگر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ انہی دونوں نے ملائشیا کو ترقی دینے اور خوشحال بنانے میں بھی کردار ادا کیا۔ ایسا کیونکر ہوا؟
جواب:دراصل ہماری حکومت نے سرمایہ داری اور عالمگیریت، دونوں کو اصول و قوانین کے تابع بنادیا اور انہیں آپے سے باہر نہیںہونے دیا۔ اسی لیے وہ ہمارے لیے مفید اور فائدہ مند عمل بن گئے۔ ہم نے بیرونی سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہا۔ وہ آئے، فیکٹریاں لگائیں، اپنا مال باہر بھجوایا، ہمارے لوگوں کو ملازمتیں دیں اور ہماری معیشت ترقی کرنے لگی۔ اس قسم کی سرمایہ داری اور عالمگیریت یقیناً خوش آئند ہے جو قانون کے مطابق چلے اور ملکی کاروبار و صنعت و تجارت کو نقصان نہ پہنچائے۔ لیکن انھیں کسی ملک کی معیشت تباہ یا قبضہ کرنے کا ہتھیار بنالیا جائے، تو انہیں اپنانے سے توبہ ہی بھلی۔
سوال: دور جدید کی عالمی سیاست میں تجارت بھی ایک ہتھیار بن چکی۔اس بابت آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔جب میں1981ء میں وزیراعظم بنا، تو چند ماہ بعد امریکی وزیر خارجہ الیگزینڈر ہیگ ایک تجارتی وفد کے ساتھ تشریف لائے۔ انہوں نے ہم پر بہت زور ڈالا کہ امریکی بینکوں کو ملائشیا میں کام کرنے کی اجازت دیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے بینک بہت چھوٹے جبکہ امریکی بینک دیو کے مانند ہیں۔اگر وہ یہاں کام کرنے لگے تو مقامی بینکوں کو کھا جائیں گے۔
یہ ہر حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ مقامی اداروں، کمپنیوں، کاروبار اور صنعت و حرفت کو تحفظ دے، خاص طور پر جب وہ کمزور ہوں۔اگر وہ مالیاتی لحاظ سے مضبوط ہوجائیں، تب بے شک غیر ملکی اداروں کو ملک میں کام کرنے دیا جائے۔ اسی طرح صحت مند مسابقت جنم لیتی ہے اور یوں عوام کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن ملکی ادارے کمزور ہوں، تو عموماً غیر ملکی طاقتور ادارے انہیں تباہ کر ڈالتے ہیں۔ یہ عمل قومی معیشت کے لیے مفید نہیں، اسی لیے میں نے امریکی بینکوں کو ملائشیا میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی، حالانکہ ہماری حکومت پر کافی دباؤ تھا۔ مغربی استعمار چھوٹے ممالک کو اپنے جال میں پھنسانے کی خاطر ایسا حربہ بھی اختیار کرتا ہے۔
سوال: لیکن عالمی تجارت کے فوائد بھی ہیں۔اسی کے ذریعے ملائشیا بھی ربڑ بنانے والے غریب ملک سے دنیا کی 25 ویں بڑی معاشی قوت بن گیا۔
جواب:آپ نے درست کہا مگر اس کامیابی کے پیچھے ہماری محنت و ذہانت پوشیدہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہم نے دیکھا کہ مغربی اقوام سامان تیار کرکے عالمی منڈیوں میں فروخت کرتی ہیں۔ ہم نے بھی یہی طریقہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ سب سے پہلے ہم نے اپنے لوگوں کو مختلف اشیا بنانے کا ہنر سکھایا۔ پھر ہم وہ اشیا تیار کرنے لگے۔
ہمارے ہاں افرادی قوت سستی تھی۔ پھر ہم نے منافع کا تناسب کم رکھا لہٰذا عالمی منڈیوں میں وہ سستی ہوگئیں۔ ان کا معیار بھی مغربی اشیا کے ہم پلّہ تھا۔ اسی لیے صارفین ہماری اشیا خریدنے لگے اور مغربی سامان کی فروخت کم ہوگئی۔ اس کمی کی اہم وجہ یہ ہے کہ لالچی مغربی کمپنیاں اپنا منافع زیادہ رکھتی تھیں، اسی لیے اشیا مہنگی بھی ہوجاتیں۔ ہمارے معاشی طریق کار کو کئی ممالک نے اپنایا۔ مثلاً جاپان نے عالمی منڈیوں میں سستے داموں معیاری گاڑیاں فراہم کیں تو جلد ہی وہاں سے مغربی گاڑیوں کا صفایا ہوگیا۔ حتیٰ کہ امریکا اور برطانیہ میں عام لوگ جاپانی گاڑیوں کو ترجیح دینے لگے۔
غرض ہماری حکمت عملی کامیاب رہی اور ہم نے کئی عالمی منڈیاں مغربی ممالک سے چھین لیں۔صنعتی دور شروع ہونے سے قبل ملائشیا زرعی ملک تھا۔ مگر کھیت ہماری بڑھتی آبادی کو روزگار دینے سے قاصر تھے۔ مثلاً ایک ایکڑ رقبے کا کھیت بہ مشکل کسان کی ضرورتیں پوری کرتا تھا لیکن اسی ایکڑ پر فیکٹری لگی، تو ایک سو لوگوں کو روزگار میسر آگیا۔ چناں چہ ہماری حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ صنعت و حرفت و تجارت کو ترقی دی جائے تاکہ لاکھوں بے روزگاروں کو ملازمت مل سکے۔ یہ پالیسی بہت کامیاب رہی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ملک میں افرادی قوت دستیاب نہ رہی، اب ہم بیرون ممالک سے افراد بلاتے اور انہیں ملازمتیں دیتے ہیں۔
سوال: 1998ء میں ملائشیا کرنسی کے بحران میں مبتلا تھا تو آپ کی حکومت آئی ایم ایف سے مدد لینے کا سوچنے لگی۔ لیکن پھر یہ خیال ترک کردیا گیا۔ کیا وجہ تھی؟
جواب: ایک ملک معاشی بحران کا شکار ہو تو آئی ایم ایف اسے تندرست کرنے کے لیے''ڈالروں کی دوا'' دیتا ہے۔ لیکن یہ دوا خصوصاً عوام پر کئی سنگین ضمنی اثرات مرتب کرتی ہے۔ مثلاً آئی ایم ایف کی ہدایت پر مقروض حکومت کو ٹیکس اور ایندھن کی قیمتیں بڑھانی پڑتی ہیں۔ اس طرح مہنگائی بڑھ کر عوام کے لیے مالی مشکلات پیدا کرتی ہے۔
اسی لیے ہم نے آئی ایم ایف سے ''دوا'' نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ پھر ہم یہ بھی جانتے تھے کہ جو ملک اس مالیاتی ادارے سے قرضہ لے، وہ مزید مقروض ہوجاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک ملک معاشی مسائل میں مبتلا ہے، تو حکومت کو گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے کہ کن وجوہ کی بنا پر قومی معیشت زوال پذیر ہے۔ محض کرپشن اور بدانتظامی (بیڈگورنس) کو الزام دینا بچکانہ بات ہے۔ مغرب کے کئی ممالک بھی ان دو مسائل میں گرفتار ہیں مگر ان کی معیشت ترقی کررہی ہے۔ معاشی زوال کی معین وجوہ سامنے آنے پر انہیں دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔ تبھی ایک حکومت اپنے ملک کو معاشی مسائل سے نجات دلوا سکے گی۔
سوال: دنیا میں بعض ممالک امیر ہیں اور بعض غریب۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب:ایک اہم وجہ سوچ کا انداز ہے۔ مثلاً ایشیا اور افریقہ میں کئی ممالک قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن وہاں کے لیڈر اور عوام بھی ان وسائل سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ اکثر ممالک میں لوگ یہی نہیں جانتے کہ وسائل کی مددسے کیونکر ترقی کی جائے، ان سے کیے دولت کمائی جائے لہٰذا وہ بدستور غریب رہتے ہیں۔
بنیادی طور پر یہ حکمران طبقے کی ذمے داری ہے کہ وہ باشعور و فرض شناس ہو اور بخوبی جانتا ہو کہ کاروبار مملکت کیونکر چلانا ہے تاکہ ملک ترقی یافتہ اور خوشحال بن سکے۔معیشت کو ترقی دینے کی بنیادی اور اولیّں ضرورت یہ ہے کہ ملک میں امن و امان ہو۔ اگر کوئی ملک مسلسل لڑائی جھگڑوں اور تنازعات میں الجھا رہے، تو وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اگر ایک ملک میں امن ہے، تو وہ باہر سے خام مال درآمد کرکے بھی ملکی معیشت کو ترقی دے اور کارآمد بنا سکتا ہے۔
سوال: آپ مغرب مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: میں وہاں کے لوگوں نہیں بلکہ مغرب سے آنے والے منفی اور گمراہ کن نظریات اور مغربی حکومتوں کی بداعمالیوں کا مخالف ہوں۔ اگر مغرب سے کوئی اچھا نظریہ آیا، تو میں نے ہمیشہ اس کی حمایت کی اور اسے سراہا۔ میں سمجھتا ہوں، اہل مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی طرف سے آنے والا ہر نظریہ عمدہ اور خیر پر مبنی نہیں ہوتا۔ اسی طرح ان کی حکومتیں بھی ہمیشہ اچھے کام نہیں کرتیں بلکہ اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر شرانگیز سرگرمیوں میں بھی ملوث رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی کامل (پرفیکٹ) نہیں ہوتا، ہرکسی میں کوئی تہ کوئی خامی مل جاتی ہے۔
سوال: کیا آج کی دنیا میں کوئی ملک دوسرے ممالک سے کٹ کر رہ سکتا ہے؟ جیسا کہ بعض اسلامی ملکوں میں شدت پسند لیڈر مغربی ممالک سے کسی قسم کے تعلقات نہیں چاہتے۔
جواب: اب ایسا کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ایک ملک کے عوام مغربی ممالک سے آنے والے نظریات ضرور رد کردیں مگر اس کی حکومت دیگر ملکوں سے معاشی تعلقات منقطع نہیں کرسکتی۔ کٹ کررہنے سے اس ملک کے عوام ہی کو نقصان پہنچے گا اور وہ غربت کے جال میں جکڑے رہیں گے۔ قومی معیشت کو ترقی دینے کے لیے بیرون ممالک سے تجارتی تعلقات قائم کرنا لازمی ہیں۔
سوال: سننے میں آچکا کہ چینی حکومت نے مشرقی ترکستان میں ایغوروں کو محبوس کررکھا ہے۔اس بابت آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: ہم نے چینی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ایغوروں کو مملکت کا شہری سمجھے، کسی مختلف مذہب کا پیروکار نہیں۔ اس طرح ایغوروں کو انصاف مل سکے گا۔ چین کا دعویٰ ہے کہ بعض ایغور گروہوں نے جنگجوئی شروع کررکھی ہے، اسی لیے حکومت کو ردعمل دکھانا پڑا۔ بات پھر وہی ہے کہ جنگ جوئی اور لڑائی سے منزل تک پہنچنا مشکل مرحلہ بن جاتا ہے۔ مذاکرات اور پُرامن احتجاج زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے۔
سوال: حکومت چین پر الزام ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو قرضے دے کر انہیں اپنے جال میں پھانس رہی ہے۔ اس الزام میں کتنی صداقت ہے؟
جواب: چینی حکومت کے پاس وافر سرمایہ موجود ہے۔ وہ یہ سرمایہ ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں لگارہی ہے۔ چینی فطرتاً اچھے کاروباری ہیں۔ وہ جہاں ترقی کے مواقع دیکھیں، سرمایہ لگانے کو تیار رہتے ہیں۔ ماضی میں یورپی استعمار بھی تجارت کے بہانے تیسری دنیا میں آیا تھا۔ لیکن اس نے ہمیں غلام بنالیا اور ہمارے وسائل جی بھر کر لوٹے ۔ چین کبھی استعماری طاقت نہیں رہا۔ لہٰذا ہمیں امید ہے کہ چینی حکمران نو آبادیاتی طاقت بننے کی حماقت کبھی نہیں کریں گے۔ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ چین ایک بڑی معاشی و عسکری قوت ہے۔
لہٰذا ہمیں ایسی پالیسیاں اور حکمت عملی بنانی چاہیے کہ چین سے فوائد حاصل کرسکیں۔ چین کی مخالفت کرنے سے الٹا ہمیں نقصان ہوگا۔ تاہم ہر ملک کی قیادت یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ چین سے دوستی کس حد تک کی جائے۔ ظاہر ہے، ہر شے کی زیادتی بھی مفید ثابت نہیں ہوتی۔اپنی ضروریات مدنظر رکھ کر ہی چین سے دوستی رکھنا چاہیے۔ اسی لیے حکومت سنبھال کر جب میں نے دیکھا کہ چینی سرمائے سے وجود میں آنے والے سرکاری منصوبے خسارے کا سودا ہیں، تو انہیں میں نے منسوخ کردیا۔
سوال: آپ بنیادی طور پر ڈاکٹر تھے۔ پھر میدان سیاست میں کیونکر آنا ہوا؟
جواب: جب میں پیدا ہو تو ملایا پر انگریز نے قبضہ کررکھا تھا۔ پھر جاپانی آگئے، وہ جاتے ہوئے ہمیں تھائی قوم کے حوالے کرگئے۔ گویا ہم ملائی باشندے انسان نہیں فٹ بال بن بیٹھے کہ جو آتا، ہمیں ٹھوکر مار دیتا۔ ہماری کوئی عزت ہی نہیں رہی۔ تب میں نے سوچا کہ قوم کو عزت و احترام دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ حکومت میں پہنچ کر کام کیے جائیں تاکہ ملک ترقی کرے اور خوشحال ہوسکے۔
سوال: آپ پر الزام لگتا ہے کہ اپنے دور حکمرانی میں آپ ڈکٹیٹر بنے رہے۔ یہ بتائیے کیا ایک طاقت ور حکمران ہی اپنے ترقی پذیر ملک کو ترقی یافتہ مملکت میں بدل سکتا ہے؟
جواب: میں کبھی ڈکٹیٹر نہیں رہا۔ مجھے عوام نے پانچ مرتبہ منتخب کیا اور پھر کوئی ڈکٹیٹر ازخود اقتدار کو خیرباد نہیں کہتا۔ دراصل بعض اوقات کام کرانے کے لیے قوت استعمال کرنی پڑتی ہے۔ اسی لیے مخالفین نے مجھ پر آمر ہونے کا ٹھپہ لگادیا۔ ایک ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے طاقت نہیں ذہانت، محنت اور اہلیت درکار ہوتی ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی کہ وہی فیصلے کروں جو ملک و قوم کے لیے مفید ہوں اور انہیں فائدہ پہنچائیں۔ دیانت داری سے اپنا فرض انجام دینے پر انسان کو جو اطمینان و سکون ملتا ہے، وہ پیسا کبھی نہیں دے سکتا۔
طویل عمر کا راز
ہمارے ہاں ساٹھ سال کا ہوتے ہی بیشتر مرد و زن ریٹائرڈ زندگی گزارنے لگتے ہیں مگر مہاتیر محمد 94 سال کے ہوکر تین کروڑ باشندوں کا پورا ملک چلا رہے ہیں۔ آخر ان کی زبردست تندرستی اور طویل عمری کا راز کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں ''میری عمدہ صحت کوئی راز نہیں رکھتی۔ بس میں ہر معاملے میں اعتدال پسندی اپناتا ہوں۔ کم کھاتا اور سادہ زندگی گزارتا ہوں۔ ورزش بھی کرتا اور سائیکل چلاتا ہوں۔ سب سے بڑھ کر اپنے دماغ کو متحرک رکھتا ہوں۔ میں کتب و رسائل کا مطالعہ کرتا ،بحث و مباحثے میں حصہ لیتا اور خوب سوچتا ہوں۔ انسان اپنے دماغ کو متحرک نہ رکھے تو اس کے جسمانی و روحانی قوی کو زنگ لگ جاتا ہے۔ یہی خرابی بڑھاپا چمٹنے کا سبب بنتی ہے۔''
ایک لیڈر کی خوبیاں
دنیا کے معمر ترین اور دلیر حکمران ایک لیڈر کی خوبیاں یوں بیان کرتے ہیں :''اکثر حکمران لیڈر شپ کی ایک اہم خوبی نظر انداز کردیتے ہیں... وہ ہے عوام کے دکھ درد کا احساس! اگر حکمران شاہی خاندان یا طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھے، تو وہ عموماً عوام کی مشکلات سے ناواقف ہوتا ہے۔ لیکن نچلے طبقے کے کئی حکمران اقتدار میں پہنچیںتو وہ بھی عوامی مسائل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ خرابی بے حسی اور غرور کی بدولت جنم لیتی ہے۔ میں زمانہ طالب علمی میں پھل بیچتا رہا ہوں تاکہ اپنی فیس کا بندوبست کرسکوں۔
جب میں نے حکومت سنبھال لی، تو مجھے احساس ہوا کہ کئی غریب لوگ سخت محنت کے باوجود غربت سے پیچھا نہیں چھڑا پاتے۔ وجہ یہ کہ وہ ترقی کے مواقع تلاش نہ کرپاتے۔ ایسے موقع پر حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان کی مدد کرے تاکہ غریب اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔
میں غریبوں کو مچھلی کھلانے نہیں بلکہ انھیں شکار کی تربیت دینے پر یقین رکھتا ہوں۔دوم لیڈر کو نظم و ضبط کا پابند ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں میرے والد بہت سخت تھے۔ انہوں نے ہی مجھے بھی ڈسپلن سکھایا ۔اسی خوبی سے مجھے وقت کی اہمیت کا بھی احساس ہوا۔ اگر ایک حکمران دوسرے سے محنت کرانا چاہتا ہے تو اسے بھی کم از کم اتنی ہی محنت کرنا ہو گی۔ اسی طرح وہ سب کام وقت پر کرانے کا خواہش مند ہے تو اسے بھی پابندی وقت کرنا ہوگی۔نئی نسل کے لیے میرا پیغام ہے کہ اپنے آپ کو جدید سائنس و ٹیکنالوجی کا ماہر بنائیں۔ اس وقت کاروبار سے لے کر قومی سلامتی کے امور تک، ہر شعبے میں سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت ہی ایک قوم ترقی کی معراج پاسکتی ہے۔ کامیابی و کامرانی کا زینہ جدید علوم وفنون کی بنیادوں پر ہی استوار ہے۔ اسی کے ذریعے ایک قوم اپنی آزادی و عزت برقرار رکھ سکے گی۔
باتھ روم میں مطالعہ
1947ء میں جب بائیس سالہ مہاتیر محمد کا داخلہ سنگاپور کے ایک میڈیکل کالج میں ہوا تو وہیں ان کی ملاقات اکیس سالہ حازمہ بنت علی سے ہوئی۔وہ کالج میں ملایا سے آئیں اکلوتی طالبہ تھیں۔جبکہ ملایا کے سات طلبہ میں مہاتیر ہی سب سے زیادہ ذہین وقابل تھے۔یہی وجہ ہے،دونوں جلد قریب آ گئے۔یہ قربت اس وقت بڑھی جب مہاتیر اپنی ہم جماعت کو انگریزی کی ٹیوشن دینے لگے۔حازمہ کو ان کی حسِ مزاح اور دیانت داری پسند آئی۔مہاتیر کو حازمہ کا مضبوط کردار بھا گیا۔
وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھیں۔اپنی محنت کے بل بوتے پر انھوں نے ترقی کی اور اب ڈاکٹر بن رہی تھیں۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1956ء میں دونوں نے شادی کر لی۔پچھلے تریسٹھ برس سے یہ مثالی جوڑا خوش وخرم زندگی گذار رہا ہے۔ڈاکٹر حازمہ طویل عرصہ سرکاری ملازمت کرتی رہیں۔اس دوران انھوں نے تعلیم وصحت کے اہم شعبوں میں سماجی خدمات بھی انجام دیں۔تاہم سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیا۔یہ مہاتیر محمد کے اصولوں کے منافی تھا کہ بیگم کو سیاسی سرگرمیوں میں لے آتے۔انھوں نے بچوں کو بھی اپنے اعلی سیاسی مقا م سے کوئی فائدہ اٹھانے نہیں دیا۔بچوں نے اپنے زور بازو سے دنیا میں نام و مال کمایا۔
حازمہ گانے بجانے کی شوقین ہیں۔آج بھی پیانو بجاتی اور مشہور گانے گنگنا لیتی ہیں۔میاں بیوی گاہے بگاہے فلم دیکھتے اور یوں ''ڈیٹ''پر جاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے ''ہماری خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز برداشت اور دوسرے کو احترام دینے میں پوشیدہ ہے۔ہم نے ایک دوسرے کو تمام خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کیا۔ہم جھگڑتے بھی ہیں مگر لڑائی تین دن سے پہلے ختم ہوجاتی ہے۔''دونوں سات بیٹے بیٹیوں کے فخرمند والدین ہیں۔حازمہ بتاتی ہیں:''نوجوانی میں میرے شوہر کافی شرمیلے تھے۔رفتہ رفتہ میں نے ان میں تین خوبیاں پائیں۔پہلی یہ کہ وہ ہر حال میں پُرسکون رہتے ہیں،گھبراتے نہیں۔
دوسری یہ کہ بہت ذہین ہیں۔دوسروں کو ذہانت ہی ان کی جانب کھینچتی ہے۔تیسرے وہ معلومات کا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔وجہ یہ کہ بہت پڑھاکو ہیں۔میرے گھر میں آپ کو ہر جگہ کتابیں رسالے نظر آئیں گے۔حتی کہ وہ باتھ روم میں بھی مطالعہ کرتے ہیں۔مطالعے کی عادت کے باعث ہر چیز کا علم رکھتے ہیں۔'' مہاتیر محمد کے طرز ِزندگی کی بابت کہتی ہیں:''جوانی میں وہ 8 تا 5 کام کرتے تھے۔آج کل کام زیادہ ہے ،اسی لیے 8.30 تا 6مصروف رہتے ہیں۔شام کو گھر آ کر ٹی وی دیکھتے ہیں۔الجزیرہ ان کا پسندیدہ چینل ہے۔ایک گھنٹے بعد غسل کر کے نماز پڑھتے ہیں۔رات ساڑھے نو بجے ہم کھانا کھاتے اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔''