غزل کے سب رنگ غالبؔ کے نفیس آہنگ

غالبؔ کی مقبولیت کا راز ان کی دور بینی اور آہنگ ہے۔

anisbaqar@hotmail.com

قارئین کرام اور احباب کے کہے کو ٹالنا بڑا ہی مشکل ہے۔ جن کا اصرار ہے کہ میں غالبؔ کی ڈیڑھ سو سالہ برسی پر ضرور اپنے انداز میں کچھ تحریرکروں ، کیونکہ شہرکراچی میں غالبؔ کی شاعری پر مختلف سیمینار اور مذاکرے چل رہے ہیں۔

میری نظر میں غالبؔ کی مقبولیت کا راز ان کی دور بینی اور آہنگ ہے۔ شاید ہی دنیا کا کوئی شاعر ہو جس کے منظوم کلام کے دو ڈھائی ہزار اشعار آسمان سے زمین تک رقص کر رہے ہوں۔ حال ہی میں جب مجھے یہ خبر ملی کہ غالبؔ کے کلام کا بنگالی زبان میں جو ترجمہ شایع ہوا ہے ، اس نے کتبی رقص و سرود کی ایک نئی شمع جلا دی ہے۔

انٹرنیٹ کے اس دور میں جب کتابوں کی خرید و فروخت نصف رہ گئی ہے۔ ایسے میں ابھی چند ماہ گزرے کہ غالبؔ کا بنگالی زبان میں ترجمہ ڈھائی لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوا ہے اور طباعت کے لیے مزید راہ میں ہے۔ اگر غور کیا جائے تو غالبؔ کی مقبولیت کا راز ان کے ہر شعری مفہوم میں پوشیدہ ہے۔ دراصل غالبؔ نے ایسا لگتا ہے کہ خود ایڈیٹنگ کی ہے اور غیر ضروری اشعارکو حذف کیا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غالبؔ انٹرنیشنل کہکشانی دور کو ڈیڑھ سو سال قبل دیکھ رہے تھے اور وہ وقت اور رفتار کے رہوار پر سوار تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ وقت کا پہیہ جس تیزی سے گھوم رہا ہے وہ طوالت پسندی کے ہر لباس کو تار تار کر دے گا۔ غالبؔ کسی سے مستعار شدہ افکار کے خالق نہ تھے بلکہ اسد اللہ خود اپنے ہی افکار کے غالبؔ تھے جس پر کسی اور نقاد کا نہیں بلکہ خود اسد اللہ غالبؔ کا کہنا ہے:

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں:

غالب جس ہولناک دور میں زندگی کے پل پر سفرکر رہے تھے وہ جابجا شکستہ تھا۔ شاہراہوں پر حریت پسندوں کی خاموش لاشیں ان کو تاکید کر رہی تھیں کہ تم برصغیر کا اثاثہ ہو۔ کچھ بولے بغیر زندگی کے پل سے گزرتے جاؤ۔ ورنہ قزاق تمہارے دل و جگر کو چاک کر کے ان پر تمہارا کلام رکھ کے نذر آتش کر دیں گے۔ اسی لیے غالبؔ کے کلام پر اس دور کے حالات کا کوئی پرتو نظر نہیں آتا۔ ورنہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شاعر اپنے دور کی سماجی اٹھا پٹخ ، قتل و غارت اور دہشتگردی پر کوئی شعر نہ لکھے۔ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے حالات کو دیکھتے ہوئے بڑے ضبط و قرار کا مظاہرہ کیا ہے اور ناقدین کو بتایا ہے کہ:

قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

شہنشاہِ ہند کے پرسکون محلات کا یہ شاعر دلی سے کلکتہ تک کے چکر کاٹنے پر مجبور تھا۔ انھوں نے نامساعد حالات پر کوئی نوحہ زنی نہ کی۔اردو کے اس شاعر پر ایک صدی سے لکھا اور بولا جا رہا ہے۔ روز فکر و خیال کی وہ محفل جو غالبؔ نے سجائی تھی آج بھی اتنے ہی پرتکلف انداز میں رچی بسی چل رہی ہے۔ ان کی دنیا سے رخصتی پر کوئی بڑی آہ و زاری اور محفلیں منعقد نہ ہوئیں، مگر ان کی روانگی کے ڈیڑھ سو سال بعد بھی ان کی غزلیں رقص و سرود کا عنوان بنی ہوئی ہیں۔

غالبؔ کے کلام پر اردو ادب کے نقادوں ، ادیبوں اور دانشوروں نے طبع آزمائی کی ہے اور ہر ایک قلم کار نے اپنے انداز میں ان کے کلام پر روشنی ڈالی ہے۔ غالبؔ نے چونکہ غزل کے عنوان میں جن ردیفوں اور قافیوں کا چناؤ کیا ہے وہ اوزان کے لحاظ سے ہلکے پھلکے اور ادائیگی میں نغمگی اور سرود کا آہنگ رکھتے ہیں۔

اس لیے اردو کے گلوکاروں نے ان کی غزلوں کا انتخاب کیا جس کی بدولت گلوکار بام عروج پر پہنچے۔ ظاہر ہے اسی وجہ سے غالبؔ عام لوگوں میں بھی مقبول ہوئے ورنہ غالبؔ زبان کے اعتبار سے اکثر مواقع پر مقبول خواص الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اور فارسی زبان کی شستگی سے بھی فائدہ اٹھاتے رہے ہیں جس کی وجہ سے بعض لوگوں کی نظر میں نہ صرف وہ فلسفیانہ انداز رکھتے ہیں بلکہ ان کے اشعار کو سمجھنے میں عام لوگوں کو دقت محسوس ہوتی ہے۔ حالانکہ ان کے آہنگ سے لوگوں کو سکون ملتا ہے۔ ان کا یہ شعر:

عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب


دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک

اس شعر کا پہلا مصرعہ ایک قول کے مانند ہے جس میں وہ عشق کی تشریح کر رہے ہیں۔ اور اس کے راستے کو مشکل گردانتے ہیں اور اسی مصرعے میں تمنا اور عشق کی مسافت میں کسی قدر فاصلے ہیں۔ اس کا انکشاف کرتے ہیں۔ ظاہر ہے عشق کا پُر پیچ پُرتکلف سفر کوئی عام سفر نہیں۔ اس سفر کی مسافت اس قدر ہیجانی، طوفانی ہے کہ انسان فشار خون کا مریض بن جاتا ہے اسی لیے خون جگر کا اشارہ غالبؔ کا جدید طبی نکتہ نظر کو ظاہر کرتا ہے کہ دل و جگر پر اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔ غالبؔ اپنے قاری کو عشق کے اس نقصان سے قبل ازوقت آگاہ کر رہے ہیں۔ غالبؔ عاشق کو عجلت کے طوفان میں گھرا دیکھتے ہیں جب کہ عشق کی مسافت طویل ہے۔

ہر شاعر کی طرح غالبؔ بھی کائنات کے مشاہدوں پر تکیہ کیے نظر آتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ابر کیا چیز ہے اور ہوا کیا ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر ان کے مشاہدے میں مرد و زن کی متضاد نفسیات کا ایک خاکہ بھی موجود ہے۔ یہ تضاد ہی قطبین کی طرح متضاد اور متصل ہونے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ غالبؔ ہی ہیں جو عورت کی تصویر کشی میں غمزہ و عشوہ و ادا کے عنصر کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہاں ایسا لگتا ہے کہ غالبؔ نفسیاتی اعتبار سے نسوانی رموز کا خاکہ کھینچ رہے ہیں۔

غمزہ و عشوہ و ادا کے پہلوؤں کی فلم انڈسٹری نے اور ماڈلنگ کی دنیا نے اپنے اپنے انداز میں کاروباری مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا ہے جب کہ غالبؔ کی حیات میں ان بولتی اور خاموش تصویروں کا رواج نہ تھا۔ جبھی تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ غالبؔ گزشتہ صدیوں کا شاعر نہ تھا بلکہ بیسویں صدی کے بعد آنے والے دن غالبؔ کے آہنگ کو زیادہ بہتر انداز میں پیش کریں گے۔

آج کے دور میں غالبؔ کی نغمگی کو جس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے ان میں راگ و رنگ کے آلات کے استعمال کا بھی خاصا دخل ہے۔ غالبؔ نے صرف اپنی شاعری سے نہ صرف اپنے کلام کو جلا بخشی بلکہ اردو ادب کی اس صنف سخن کو بات میں آسان کر دیا۔ جس سے آنے والے دور کے شعرا بھی استفادہ کرتے رہے اور اس بات کی قوی امید ہے کہ آنے والے دور میں اردو غزل کا دائرہ وسیع تر ہوتا جائے گا۔

اس مضمون میں غالبؔ کے کلام پر تفصیلی جائزے کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا ان کی ایک غزل کے چند اشعار پر گفتگو کر کے ان کی وسیع النظری اور قادر الکلامی کا جلوہ نمایاں ہے کہا جا سکتا ہے:

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

غالبؔ کا یہ مشہور شعر ہر وعدہ فروش کی تصویر کشی کرتا ہے۔ ہمارے گرد و نواح میں جو کلچر ہے اس پر ایفائے عہد کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ لوگ ہر روز کل کی تصویر کشی میں مبتلا ہیں۔ اس پہلو کو یہاں شاعر کی قدرت الکلامی کا شاہکار کہیں تو بھی کم ہے۔

غزل کے اشعار نظم کی طرح کسی ایک موضوع پر محیط نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ ایک مختلف الخیال کہکشاں کا عکس ہوتے ہیں۔ غار کے دور سے انٹرنیٹ کے اوج تک جو مسافت انسانی تہذیب نے طے کی ہے اس پر غالبؔ کی خیال آفرینی کا کمال یہ ہے کہ آپ جو چاہیں شعر کا مطلب نکال لیں۔ یعنی کہہ سکتے ہیں کہ انسانی ترقی ایسے ہی مشکل ہے جیسے سیکڑوں مگرمچھوں کے مونہوں سے بچ کر قطرے کا صدف تک پہنچنا اور موتی بن جانا۔ اس سفر کی منزل ہے۔

غالبؔ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ جب تک انسان فنا کی منزل پر فائز نہیں ہوتا اس وقت تک مشکلات کا دائرہ بنتا رہتا ہے صرف موت کے بعد ہی انسانی تکالیف کا خاتمہ ممکن ہے۔ مگر یہاں غالبؔ کسی خود سوزی کی تعلیم نہیں دے رہے۔ وہ فطری تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے گفتگو کر رہے ہیں کہ جس طرح ایک شمع اپنی زندگی پوری کرتی ہے بالکل اسی طرح انسان پیدائش سے لے کر موت تک کا سفر طے کرتا ہے اور تکلیف و آرام کے ہر دور سے گزرتا ہے۔

آپ نے دیکھا کہ غالبؔ نے غزل کے سارے رنگ اپنے کلام میں بکھیر دیے ہیں جو آنے والے ادوار میں مزید رنگین ہو جائیں گے۔ گو کہ اسد اللہ خاں غالبؔ نے جابجا غم ہستی میں موت کو ہی سکون کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ لیکن انھوں نے موتیوں کے سفر کو نہنگ کے حلقوں میں جکڑ جانے کے باوجود گوہر نایاب کی منزل کو پا لینا ہی اصل مقصد قرار دیا ہے۔ گویا جدوجہد کی منزلوں کو طے کرنا ہی انسان کی منزل ہے۔
Load Next Story