تجھے چاند کے بہانے دیکھوں
چاند پر جانا یو ایس اور سوویت یونین کے مابین ایک سرد جنگ تھی جسے جیتنا یوایس کے لیے اولیت رکھتا تھا
ہیرو کئی طرح کے ہوتے ہیں، فلموں اور ٹی وی میں نظر آنے والے ہیرو کسی بھی قوم کو راہ دکھانے والے لیڈرز ہیرو؟
میدان میں کھیل کے ہنر دکھا کر اپنے ملک کو جتانے والے ہیرو،کالج اسکول آفس میں جنھیں مثال بناتے ہیں وہ ہیروز، رائٹرز ، پینٹرز، سنگر ہر دور میں ہر فیلڈ میں ہیروز آتے ہیں اور پھر کچھ عرصے بعد انھیں نئے ہیروز تبدیل کردیتے ہیں۔ دلیپ کمار کے بعد امیتابھ آجاتے ہیں اور ان کے بعد شاہ رخ خان لیکن کم ہیروز ایسے ہوتے ہیں جو تبدیل نہیں ہوتے وہ کوئی ایسا کام کرتے ہیں جو کسی اور نے نہیں کیا ہوتا۔
نیل آرم سٹرانگ ایک ایسے ہی ہیرو ہیں جسے کبھی کوئی Replaceنہیں کرسکتا۔ وہ ہیرو جس کے پاس اعزاز ہے چاند پر پہلی بار قدم رکھنے کا۔
''ایک چھوٹا سا قدم انسان کا ، ایک بہت بڑا قدم انسانیت کا'' یہی تھے وہ الفاظ جو انھوں نے چاند پر قدم رکھ کر کہے تھے۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ روس کی تحقیقات امریکا کے مقابلے میں بہت آگے تھیں۔ چاند پر انسان کو پہنچانے کے سلسلے میں لیکن آخر میں جیت امریکا کی ہوئی۔ بیس جولائی 1969 کو نیل آرمسٹرانگ نے پہلا قدم چاند پر رکھا جس کے فوراً بعد یہ خبریں آنے لگیں کہ چاند پر لینڈنگ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔ ایسا کبھی ہوا ہی نہیں۔
''ہم کبھی چاند پر گئے ہی نہیں، امریکا کا تیس بلین ڈالرز کا جھوٹ نامی کتاب 1974 میں امریکا میں ریلیز کی گئی جس میں ''ناسا'' پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے پورا ''اپولو'' پروجیکٹ جھوٹ کی بنیاد پر رکھا تھا۔ اس کے بعد ''فلیٹ ارتھ'' نامی سوسائٹی نے بھی ناسا پر الزام لگاتے ہوئے کہاکہ وہ پوری ویڈیو مون لینڈنگ کی جو لوگوں کو دکھائی گئی جھوٹ تھی جس میں پوری ویڈیو ایک فلم پروڈکشن کی طرح بنائی گئی تھی جس کو والٹ ڈزنی نے اسپانسر کیا۔
اینڈریوچیکن کی کتاب میں مون لینڈنگ کی طرف داری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مون لینڈنگ جھوٹ ہے۔ Rumoork انسان کے چاند پر جانے سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔
اپولو8 جو 1968ء میں اوپر بھیجا گیا تھا۔ صرف چاند کی تصویریں لے کر واپس آیا تھا اس وقت بھی خبروں اور عام پبلک میں یہی بات چل رہی تھی کہ یہ جھوٹی تصویریں ہیں اور اس طرح اپولو الیون کے بارے میں ایسا ہی سوچنا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔
1977ء میں نیویارک سے نکلنے والے رسالے ''ہرے کرشنا'' میں باقاعدہ سائنسی وضاحتوں کے ساتھ ثابت کیاگیا تھا کہ انسان کا چاند پر جانا بالکل جھوٹ ہے کیوں کہ سورج زمین سے 93,00000 میل دور ہے اور چاند اس سے بھی 800000 میل آگے ہے چاند تقریباً 94,000000 میل دور ہے اپولو گیارہ نے چاند تک کا سفر 91 گھنٹے میں کیا تھا یعنی اپولو گیارہ کی اسپیڈ ایک ملین میل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ تھی جو کسی بھی سائنسی اعداد و شمار سے ممکن نہیں۔
یو ایس۔ انفارمیشن ایجنسی کے مطابق لاطینی امریکا، ایشیا اور افریقہ میں بیشتر لوگوں کو مون لینڈنگ کے بارے میں پتہ ہی نہیں ان ملکوں میں بیشتر لوگ یہ جانتے ہیں کہ چاند پر جانے والی سب باتیں فکشن ہیں جیسے کئی لوگ Alienدیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ویسے ہی چاند پر جانا بھی صرف کہانیوں کی حد تک ہے، یہ لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ چاند پر امریکن نہیں روسی گئے تھے۔
آکیوبن میں بچوں کو باقاعدہ اسکول میں ٹیکسٹ بکس میں پڑھایا جاتا ہے کہ چاند پر جانا بالکل جھوٹ ہے انسان کبھی چاند پر نہیں گیا۔
2001ء امریکن ٹی وی چینل فاکس نے ایک ڈاکو مینٹری دکھائی تھی جس کا عنوان تھا۔"Conspiracy Theory,Did we land on moon" جس میں کئی حقائق کو سامنے لایاگیا تھا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان چاند پر نہیں گیا۔
ڈاکو مینٹری نشر ہونے سے پہلے پانچ فیصد امریکنز کو چاند پر جانا جھوٹ لگتا تھا لیکن ڈاکو مینٹری نشر ہونے کے بعد اس میں اضافہ ہوا اور یہ بیس فیصد ہوگئی 2000 ء میں ہوئے ایک سروے کے مطابق 28 فیصد لوگوں کو لگتا ہے کہ امریکن خلا نورد کبھی چاند پر نہیں گئے اس طرح یو کے میں بھی انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میگزین کے سروے کے مطابق 25فیصد لوگوں کو لگتا ہے یہ لینڈنگ جھوٹ تھی اسی طرح ایک نوجوانوں کے سروے کے مطابق پچیس سال سے کم عمر تیس فیصد لوگ مخمصے میں ہیں کہ ایسا کبھی ہوا بھی تھا یا نہیں۔
پچھلے چالیس سال میں کی گئی تحقیقات ایک ہی طرح کے دعوے دائرکرتی نظر آتی ہیں اور سوال اٹھاتی ہیں کہ کیوں ناسا نے یہ جھوٹی لینڈنگ کی سب سے پہلے تو یہ کہ ساٹھ کی دہائی میں ایک ''فضائی دوڑ'' تھی جس میں یو ایس اے کو روس سے جیت کر دکھانا تھا یہ سب جانتے تھے کہ چاند پر جانا نہ صرف بے حد مہنگا ہے بلکہ خطرناک بھی اسی لیے امریکا سوویت یونین کو اس ریس میں ہرانا چاہتا تھا جان ایف کینڈی کا مشہور قول تھا کہ وہ امریکا کو اس لیے چاند پر بھیجنا چاہتا ہیں کہ یہ کام آسان نہیں مشکل ہے۔
چاند پر جانا یو ایس اور سوویت یونین کے مابین ایک سرد جنگ تھی جسے جیتنا یوایس کے لیے اولیت رکھتا تھا۔
یو ۔ ایس کا پروگرام درمیان میں ہی فیل ہوگیا جس کے بعد تین بلین ڈالر خرچ ہوجانے کی وجہ سے انھیں جھوٹی لینڈنگ دکھانی ہی تھی۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ سویت یونین کے پاس دور تک اسپیس کرافٹ کو ٹریک کرنے والی سہولت 1972ء تک نہیں تھی جیسے ہی سوویت یونین کے پاس یہ سہولت آئیں۔ امریکا نے اپنے آخری تین اپولومشن منسوخ کردیے۔
جان۔ ایف کینڈی کا اس دہائی کو ختم ہونے سے پہلے انسان کو چاند پر پہنچ کر واپس آنے کا خواب پورا کرتے ناسا نے تیس بلین ڈالرز خرچ کردیے تھے اور اس مشن کے فیل ہوجانے پر انھیں چاند کی جھوٹی لینڈنگ کرنی ہی پڑی ساتھ ہی امریکا ویت نام کی جنگ سے نکلنا چاہتا تھا اور عوام کا دھیان چاند پر لگاکر جنگ سے نکلنا آسان تھا۔
انسان چاند پرگیایا نہیں اس کی بحث چلتی رہے گی لیکن کچھ دن پہلے ہمارے بیچ سے وہ شخص چلاگیا جو بیس جولائی 1969ء کو پوری دنیا کا ہیرو تھا۔ نیل آرمسٹرانگ 25اگست 2012ء کو انتقال کرگئے چاہے وہ چاند پر گئے یا نہیں لیکن نیل نے انسان کو یقین دلایا کہ وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔
نیل کے چاند پر پہنچ کر پہلے الفاظ لائیو ٹرانسمیشن پر سننے والے ہر شخص کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی ہر ایک کو یقین تھا آنے والا کل بہتر ہوگا کیوں کہ انسان نے تاریخ کا ایک بڑا قدم لیا ہے نیل کا چاند پر امریکن جھنڈا لگانا ناسا کی ہی نہیں پوری انسانی نسل کی کامیابی تھی چاہے ہمیں کوئی بھی فیکٹ کوئی بھی تھیوری کیوں نہ دے دی جائے کہ یہ جھوٹ تھا۔ ہم پھر بھی یقین رکھنا چاہتے ہیں کہ انسان چاند پر گیا تھا تاکہ جب بھی ہم سر اٹھاکر چاند کو دیکھیں تو احساس ہو کہ انسان کے لیے کچھ بھی حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے۔
میدان میں کھیل کے ہنر دکھا کر اپنے ملک کو جتانے والے ہیرو،کالج اسکول آفس میں جنھیں مثال بناتے ہیں وہ ہیروز، رائٹرز ، پینٹرز، سنگر ہر دور میں ہر فیلڈ میں ہیروز آتے ہیں اور پھر کچھ عرصے بعد انھیں نئے ہیروز تبدیل کردیتے ہیں۔ دلیپ کمار کے بعد امیتابھ آجاتے ہیں اور ان کے بعد شاہ رخ خان لیکن کم ہیروز ایسے ہوتے ہیں جو تبدیل نہیں ہوتے وہ کوئی ایسا کام کرتے ہیں جو کسی اور نے نہیں کیا ہوتا۔
نیل آرم سٹرانگ ایک ایسے ہی ہیرو ہیں جسے کبھی کوئی Replaceنہیں کرسکتا۔ وہ ہیرو جس کے پاس اعزاز ہے چاند پر پہلی بار قدم رکھنے کا۔
''ایک چھوٹا سا قدم انسان کا ، ایک بہت بڑا قدم انسانیت کا'' یہی تھے وہ الفاظ جو انھوں نے چاند پر قدم رکھ کر کہے تھے۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ روس کی تحقیقات امریکا کے مقابلے میں بہت آگے تھیں۔ چاند پر انسان کو پہنچانے کے سلسلے میں لیکن آخر میں جیت امریکا کی ہوئی۔ بیس جولائی 1969 کو نیل آرمسٹرانگ نے پہلا قدم چاند پر رکھا جس کے فوراً بعد یہ خبریں آنے لگیں کہ چاند پر لینڈنگ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔ ایسا کبھی ہوا ہی نہیں۔
''ہم کبھی چاند پر گئے ہی نہیں، امریکا کا تیس بلین ڈالرز کا جھوٹ نامی کتاب 1974 میں امریکا میں ریلیز کی گئی جس میں ''ناسا'' پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے پورا ''اپولو'' پروجیکٹ جھوٹ کی بنیاد پر رکھا تھا۔ اس کے بعد ''فلیٹ ارتھ'' نامی سوسائٹی نے بھی ناسا پر الزام لگاتے ہوئے کہاکہ وہ پوری ویڈیو مون لینڈنگ کی جو لوگوں کو دکھائی گئی جھوٹ تھی جس میں پوری ویڈیو ایک فلم پروڈکشن کی طرح بنائی گئی تھی جس کو والٹ ڈزنی نے اسپانسر کیا۔
اینڈریوچیکن کی کتاب میں مون لینڈنگ کی طرف داری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مون لینڈنگ جھوٹ ہے۔ Rumoork انسان کے چاند پر جانے سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔
اپولو8 جو 1968ء میں اوپر بھیجا گیا تھا۔ صرف چاند کی تصویریں لے کر واپس آیا تھا اس وقت بھی خبروں اور عام پبلک میں یہی بات چل رہی تھی کہ یہ جھوٹی تصویریں ہیں اور اس طرح اپولو الیون کے بارے میں ایسا ہی سوچنا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔
1977ء میں نیویارک سے نکلنے والے رسالے ''ہرے کرشنا'' میں باقاعدہ سائنسی وضاحتوں کے ساتھ ثابت کیاگیا تھا کہ انسان کا چاند پر جانا بالکل جھوٹ ہے کیوں کہ سورج زمین سے 93,00000 میل دور ہے اور چاند اس سے بھی 800000 میل آگے ہے چاند تقریباً 94,000000 میل دور ہے اپولو گیارہ نے چاند تک کا سفر 91 گھنٹے میں کیا تھا یعنی اپولو گیارہ کی اسپیڈ ایک ملین میل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ تھی جو کسی بھی سائنسی اعداد و شمار سے ممکن نہیں۔
یو ایس۔ انفارمیشن ایجنسی کے مطابق لاطینی امریکا، ایشیا اور افریقہ میں بیشتر لوگوں کو مون لینڈنگ کے بارے میں پتہ ہی نہیں ان ملکوں میں بیشتر لوگ یہ جانتے ہیں کہ چاند پر جانے والی سب باتیں فکشن ہیں جیسے کئی لوگ Alienدیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ویسے ہی چاند پر جانا بھی صرف کہانیوں کی حد تک ہے، یہ لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ چاند پر امریکن نہیں روسی گئے تھے۔
آکیوبن میں بچوں کو باقاعدہ اسکول میں ٹیکسٹ بکس میں پڑھایا جاتا ہے کہ چاند پر جانا بالکل جھوٹ ہے انسان کبھی چاند پر نہیں گیا۔
2001ء امریکن ٹی وی چینل فاکس نے ایک ڈاکو مینٹری دکھائی تھی جس کا عنوان تھا۔"Conspiracy Theory,Did we land on moon" جس میں کئی حقائق کو سامنے لایاگیا تھا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان چاند پر نہیں گیا۔
ڈاکو مینٹری نشر ہونے سے پہلے پانچ فیصد امریکنز کو چاند پر جانا جھوٹ لگتا تھا لیکن ڈاکو مینٹری نشر ہونے کے بعد اس میں اضافہ ہوا اور یہ بیس فیصد ہوگئی 2000 ء میں ہوئے ایک سروے کے مطابق 28 فیصد لوگوں کو لگتا ہے کہ امریکن خلا نورد کبھی چاند پر نہیں گئے اس طرح یو کے میں بھی انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میگزین کے سروے کے مطابق 25فیصد لوگوں کو لگتا ہے یہ لینڈنگ جھوٹ تھی اسی طرح ایک نوجوانوں کے سروے کے مطابق پچیس سال سے کم عمر تیس فیصد لوگ مخمصے میں ہیں کہ ایسا کبھی ہوا بھی تھا یا نہیں۔
پچھلے چالیس سال میں کی گئی تحقیقات ایک ہی طرح کے دعوے دائرکرتی نظر آتی ہیں اور سوال اٹھاتی ہیں کہ کیوں ناسا نے یہ جھوٹی لینڈنگ کی سب سے پہلے تو یہ کہ ساٹھ کی دہائی میں ایک ''فضائی دوڑ'' تھی جس میں یو ایس اے کو روس سے جیت کر دکھانا تھا یہ سب جانتے تھے کہ چاند پر جانا نہ صرف بے حد مہنگا ہے بلکہ خطرناک بھی اسی لیے امریکا سوویت یونین کو اس ریس میں ہرانا چاہتا تھا جان ایف کینڈی کا مشہور قول تھا کہ وہ امریکا کو اس لیے چاند پر بھیجنا چاہتا ہیں کہ یہ کام آسان نہیں مشکل ہے۔
چاند پر جانا یو ایس اور سوویت یونین کے مابین ایک سرد جنگ تھی جسے جیتنا یوایس کے لیے اولیت رکھتا تھا۔
یو ۔ ایس کا پروگرام درمیان میں ہی فیل ہوگیا جس کے بعد تین بلین ڈالر خرچ ہوجانے کی وجہ سے انھیں جھوٹی لینڈنگ دکھانی ہی تھی۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ سویت یونین کے پاس دور تک اسپیس کرافٹ کو ٹریک کرنے والی سہولت 1972ء تک نہیں تھی جیسے ہی سوویت یونین کے پاس یہ سہولت آئیں۔ امریکا نے اپنے آخری تین اپولومشن منسوخ کردیے۔
جان۔ ایف کینڈی کا اس دہائی کو ختم ہونے سے پہلے انسان کو چاند پر پہنچ کر واپس آنے کا خواب پورا کرتے ناسا نے تیس بلین ڈالرز خرچ کردیے تھے اور اس مشن کے فیل ہوجانے پر انھیں چاند کی جھوٹی لینڈنگ کرنی ہی پڑی ساتھ ہی امریکا ویت نام کی جنگ سے نکلنا چاہتا تھا اور عوام کا دھیان چاند پر لگاکر جنگ سے نکلنا آسان تھا۔
انسان چاند پرگیایا نہیں اس کی بحث چلتی رہے گی لیکن کچھ دن پہلے ہمارے بیچ سے وہ شخص چلاگیا جو بیس جولائی 1969ء کو پوری دنیا کا ہیرو تھا۔ نیل آرمسٹرانگ 25اگست 2012ء کو انتقال کرگئے چاہے وہ چاند پر گئے یا نہیں لیکن نیل نے انسان کو یقین دلایا کہ وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔
نیل کے چاند پر پہنچ کر پہلے الفاظ لائیو ٹرانسمیشن پر سننے والے ہر شخص کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی ہر ایک کو یقین تھا آنے والا کل بہتر ہوگا کیوں کہ انسان نے تاریخ کا ایک بڑا قدم لیا ہے نیل کا چاند پر امریکن جھنڈا لگانا ناسا کی ہی نہیں پوری انسانی نسل کی کامیابی تھی چاہے ہمیں کوئی بھی فیکٹ کوئی بھی تھیوری کیوں نہ دے دی جائے کہ یہ جھوٹ تھا۔ ہم پھر بھی یقین رکھنا چاہتے ہیں کہ انسان چاند پر گیا تھا تاکہ جب بھی ہم سر اٹھاکر چاند کو دیکھیں تو احساس ہو کہ انسان کے لیے کچھ بھی حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے۔