اسلامی یونیورسٹی طالب علم کے قتل کیس میں گرفتار 16 طلبہ کا جسمانی ریمانڈ منظور
پولیس کی بھاری نفری کا یونیورسٹی کے تمام ہاسٹلز میں سرچ آپریشن، ہتھیار برآمد نہیں ہوئے
عدالت نے اسلامی یونیورسٹی کے طالب علم کے قتل کے مقدمے میں گرفتار 16 طلبہ کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
تھانہ سبزی منڈی پولیس نے اسلامی یونیورسٹی میں گزشتہ روز فائرنگ سے جاں بحق طالب علم کا مقدمہ درج کرتے ہوئے 16 طلبہ کو گرفتار کر لیا ہے۔
طالب علم فہد خان کی مدعیت میں درج مقدمے میں قتل، اقدام قتل سمیت چار دفعات شامل کی گئی ہیں اور ایمل خان، اظہر لاشاری، درمحمد لنڈ سمیت 20 سے زائد ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے اسلامی جمعیت طلبہ کی تعلیمی نمائش پر حملہ کیا جس میں شیشے کی بوتل، خنجر، آہنی راڈز اور آتشیں اسلحہ کا استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک طالب علم جاں بحق جب کہ درجنوں زخمی ہوئے۔
پولیس نے گرفتار 16 طلبہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا اور ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ جوڈیشل مجسٹریٹ نے تمام سولہ طلبہ کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے 17 دسمبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلامک یونیورسٹی میں پروگرام پر طلبا تنظیم کا حملہ، ایک طالب علم جاں بحق اور 8 زخمی
علاوہ ازیں پولیس کی بھاری نفری نے اسلامی یونیورسٹی کے تمام ہاسٹلز کو طلبا سے خالی کراکر سرچ آپریشن کیا تاہم کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوئے۔
اسلامی یونیورسٹی میں جاں بحق طالب علم کی نماز جنازہ ادا کردی گئی جو امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے پڑھائی۔
اس موقع پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برہان وانی سے لے کر طفیل کی شہادت کے بدلے اسلام زندہ ہوگا اور دنیا سے شر ختم ہوگا، جمعیت کا قصور ہے کہ پاکستان کی خدمت کی اور آفات میں لوگوں کی مدد کی، یونیورسٹی کی انتظامیہ کی ناک کے نیچے یہ سازش رچائی گئی۔
سراج الحق نے کہا کہ کچھ دن پہلے لاہور میں واقعہ پیش آیا، 7 دسمبرکو کامونکی میں جماعت اسلامی کے 3 کارکنان کو شہید کیا گیا اور واقعہ کے بعد انتظامیہ سامنے آئی، اب اسلام آباد میں بھی قتل کا واقعہ ہوا اور انتظامیہ بعد میں میدان میں آئی، حکومت سے امن و امان کی صورتحال کنٹرول نہیں کی جا رہی، لیکن طفیل کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا کہ طلبا یونین بحالی کی طرف قدم چل پڑے تھے لیکن پھر اچانک امریکی چھتری تلے لال لال کے نعرے لگنا شروع ہوگئے جس کے پیچھے وہ ذہن ہے جو طلبا کی لسانی و علاقائی تقسیم کرنا چاہتا ہے۔
تھانہ سبزی منڈی پولیس نے اسلامی یونیورسٹی میں گزشتہ روز فائرنگ سے جاں بحق طالب علم کا مقدمہ درج کرتے ہوئے 16 طلبہ کو گرفتار کر لیا ہے۔
طالب علم فہد خان کی مدعیت میں درج مقدمے میں قتل، اقدام قتل سمیت چار دفعات شامل کی گئی ہیں اور ایمل خان، اظہر لاشاری، درمحمد لنڈ سمیت 20 سے زائد ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے اسلامی جمعیت طلبہ کی تعلیمی نمائش پر حملہ کیا جس میں شیشے کی بوتل، خنجر، آہنی راڈز اور آتشیں اسلحہ کا استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک طالب علم جاں بحق جب کہ درجنوں زخمی ہوئے۔
پولیس نے گرفتار 16 طلبہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا اور ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ جوڈیشل مجسٹریٹ نے تمام سولہ طلبہ کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے 17 دسمبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلامک یونیورسٹی میں پروگرام پر طلبا تنظیم کا حملہ، ایک طالب علم جاں بحق اور 8 زخمی
علاوہ ازیں پولیس کی بھاری نفری نے اسلامی یونیورسٹی کے تمام ہاسٹلز کو طلبا سے خالی کراکر سرچ آپریشن کیا تاہم کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوئے۔
اسلامی یونیورسٹی میں جاں بحق طالب علم کی نماز جنازہ ادا کردی گئی جو امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے پڑھائی۔
اس موقع پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برہان وانی سے لے کر طفیل کی شہادت کے بدلے اسلام زندہ ہوگا اور دنیا سے شر ختم ہوگا، جمعیت کا قصور ہے کہ پاکستان کی خدمت کی اور آفات میں لوگوں کی مدد کی، یونیورسٹی کی انتظامیہ کی ناک کے نیچے یہ سازش رچائی گئی۔
سراج الحق نے کہا کہ کچھ دن پہلے لاہور میں واقعہ پیش آیا، 7 دسمبرکو کامونکی میں جماعت اسلامی کے 3 کارکنان کو شہید کیا گیا اور واقعہ کے بعد انتظامیہ سامنے آئی، اب اسلام آباد میں بھی قتل کا واقعہ ہوا اور انتظامیہ بعد میں میدان میں آئی، حکومت سے امن و امان کی صورتحال کنٹرول نہیں کی جا رہی، لیکن طفیل کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا کہ طلبا یونین بحالی کی طرف قدم چل پڑے تھے لیکن پھر اچانک امریکی چھتری تلے لال لال کے نعرے لگنا شروع ہوگئے جس کے پیچھے وہ ذہن ہے جو طلبا کی لسانی و علاقائی تقسیم کرنا چاہتا ہے۔