بلند دیوارکے ’’ لال قیدی‘‘

ہماری انقلابی اور سماج کی تبدیلی کے دھاروں نے ہمارا رخ کمیونسٹ نکتہ نظرکی جانب کردیا

Warza10@hotmail.com

بیتے زمانے کا ذکر ہے جب سیاسی شعور اور سیاست کو سمجھنے کی عمر ہر گز نہ تھی ، لڑکپن کا یہ وہ دور تھا جب ہم سندھ کے ترقی پذیرگاؤں دادو سے ترقی یافتہ کراچی اس امید کے ساتھ اسکول کی چھٹیاں گزارنے آیا کرتے تھے کہ ہم کراچی ایسے بڑے شہر کی رنگینیاں دیکھیں گے یا اپنے سے بڑے ترقی یافتہ شہر میں تفریح طبع کے نئے زاویئے تلاش کریں گے، مگر آپ یہ ہماری مجبوری سمجھیں یا ہمارے نانا کی سادگی کہ وہ اپنی معاشی حالت کو چھپانے سے کبھی دریغ نہ کرتے تھے۔

اسی بنا جب ہم دادو کے لق دق محل نما مکان سے لالو کھیت کی جھونپڑی میں جایا کرتے تھے تو ایک احساس ندامت کے برعکس ایک تروتازہ زندگی اور آزاد فضا کے اس پنچھی کا احساس ہوتا تھا جو اپنی مرضی سے اپنی اڑان بھرنے کے لیے مکمل آزاد ہو۔

نانا کی جھونپڑی میں ہمہ وقت چائے کی کیتلی چولہے پر چڑھی رہتی تھی اور جھونپڑی کے دوسرے کونے پر ہم اپنے ماموں علی مختار رضوی کے دوستوں کو چائے پلانے پر مامورکردیے جاتے تھے اور طلبہ سیاست کی سرگرمیوں سے نا بلد ہو کر ہم ماموں کے دوستوں کی حکومت خلاف منصوبہ بندیاں اچٹتے کانوں سے سن لیا کرتے تھے، چونکہ ہم ماموں کے با رعب طرز عمل سے خائف اس محفل میں زیادہ ٹہرتے نہ تھے مگر ان کی طلبہ تحریک میں تیزی لانے کی منصوبہ بندی والی شدھ بدھ کانوں میں خاموشی سے صرف انڈیل لیا کرتے تھے۔ اسی دوران ماموں کی طلبہ جدوجہد پر مبنی ایک تصویر ہمیشہ ایک چھوٹی سی تپائی پر کونے میں پڑی رہتی تھی کہ جس کی پیشانی پر یہ شعر درج تھا کہ

بلند اور ابھی دیوار قید خانہ کرو کہ

یہاں سے مجھے گلستاں دکھائی دیتے ہیں

ہم اس زمانے میں اس شعرکے مطلب اور غرض سے بالکل نا واقف تھے مگر جوں جوں تعلیمی سر گرمیوں کے ساتھ طلبہ سیاست میں ہماری دلچسپی بڑھی تو مذکورہ شعرکی افادیت اور اس میں چھپا احتجاج ہم پر کھلا، وقت کے دھارے ہمیں طلبہ سیاست کی طرف لے گئے اور ہم دادو ایسے پسماندہ شہر کی طلبہ سیاست کا ایک اہم حصہ بن گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بھٹو صاحب کی طلبہ سیاست اندرون سندھ ''سپاف''کے نام سے کافی متحرک اور ہماری انقلابی سوچ کا سہارا تھی۔

اسی زمانے میں جب بھٹو صاحب دادو کے سرکٹ ہاؤس میں تشریف لائے تو ان دنوں میں ''سپاف '' میں متحرک ہونے کے ناتے بہت با اعتماد ساتھی سمجھا جاتا تھا۔ اسی بنا بھٹو صاحب کی سرکٹ آمد پر ان کی تحفظ باڈی کا حصہ سمجھ کر مجھے بھٹو صاحب کے حفاظتی گارڈ میں شامل کیا گیا۔ اس طورمیں بھٹو صاحب کی پشت پرکھڑا کیا گیا،جس پر میں نے بھٹو صاحب کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کمشنر کے خلاف شکایت کی جسے تہذیب کے خلاف سمجھا گیا جس کا احساس ساتھیوں نے بعد میں دلایا کہ بھٹو صاحب ملک کے وزیراعظم بھی تھے، مگر اس موقع پر بھٹو صاحب ایک مکمل سیاسی فرد کے طور پر مجھ سے نہایت شفقت سے پیش آئے اور میری شکایت پر کمشنر کی فوری سرزنش کی اور حکم دیا کہ بچوں کا مسئلہ فوری حل کرو۔ اس موقعے پر وزیر اعلیٰ سندھ غلام مصطفیٰ جتوئی مکمل خاموش رہے۔


ہماری انقلابی اور سماج کی تبدیلی کے دھاروں نے ہمارا رخ کمیونسٹ نکتہ نظرکی جانب کردیا اور ہم ڈی ایس ایف میں متحرک طلبہ سیاست کا جزو بن گئے، جس کے بعد ہم کمیونسٹ پارٹی کے جید استادکامریڈ امام علی نازش کے مرتے دم تک ساتھ رہے، اس دوران کمیونسٹ سیاست کے نظریے نے ہمیں سماجی شعورکا وہ روشن راستہ دکھایا جس سے سماج کی روشن خیالی کے در وا ہوئے اور پھر ہمیں اپنے ماموں علی مختار کے اس شعر کا ادراک ہوا جو تشدد انھوں نے طلبہ کی سیاسی آزادیوں کی وجہ سے لاہور کے شاہی قلعے میں فوجی جنرل ایوب خان کی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے سہا تھا۔

آج جب میںکراچی سندھ کی طلبہ تحریک میں ترقی پسندانہ سوچ و فکرکے تحت ہر اول کا کردار ادا کرنے والی اپنی بیٹی لیلی رضا ، وقاص ، زہوبیا فواد حسن کے ساتھیوں اور لاہورکی بیٹی عروج سمیت کامریڈ فرخ سہیل گویندی کے پرجوش انداز اور نعرے کی گھن گرج کرتی طلبہ تحریک اور سیاست کو دوبارہ سے سرخ پھریرے کے ساتھ انقلابی نعروں میں سنتا ہوں تو پاکستان میں طلبہ تحریک کے تر وتازہ ہونے اور گھنے درخت بننے کا گمان ہوتا ہے۔

مجھے قلبی سکون ہے کہ میں نے پاکستان کی طلبہ تحریک میں صعوبتیں جھیلنے والے علی مختار رضوی کی روشن خیال فکرکو آگے بڑھایا اور جس کا شعوری علم میری بیٹی لیلی رضا نے اپنے ہاتھوں میں لے کر میرا ترقی پسند تحریک کا قرض اتار کر اپنے کاندھوں پہ لے لیا، فاخر ہیں ہم لیلی رضا ایسی بیٹیوں کے جنم پرکہ جو ہمارے مشن کو اپنے تجربے کا حصہ بنا رہے ہیں اور اس سماج کو روشن خیال فکر سے تبدیل کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں فوجی آمرانہ اقتدار نے عوام کی سیاسی اور جمہوری آزادی کو ہمیشہ بندوق کی طاقت ذریعے کچلنے کی کوشش کی اور بڑی چابک دستی سے طلبہ سیاست میں بندوق بردار اسلامی جمیعت طلبہ ذریعے تشدد داخل کرکے ایک منصوبہ بندی کے تحت کالجز اور یو نیورسٹیوں میں تشدد متعارف کروا کر فوجی جنرل ضیا کے ذریعے طلبہ سیاست کے تازہ ذہن کو قید کیا تاکہ سماج میں طلبہ سیاست پر الزام لگایا جائے کہ طلبہ سیاست جھگڑے اور تشدد کی وجہ ہے۔ ریاست کے اس جبر پرست بیانیے کو آگے بڑھانے میں فوجی آمروں کا ساتھ دینے میں قوم پرست طلبہ تنظیمیں اور مذہبی طلبہ تنظیموں نے فوجی آمروں کا بھرپور ساتھ دے کر کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کی فیسوں اور سہولیات فراہم کرنے کے اربوں روپے کے فنڈزکو امن و امان کے نام پر خرچ کیا جو آج تک طلبہ حقوق کو ختم کرکے رینجرز کو دیے جا رہے ہیں۔

طویل عرصے بعد نئی نسل نے جبرکی قوتوں کو ترقی پسند بیانیے کے ساتھ للکارا ہے جس میںآج سرخ پھریرے اور ترقی پسند خیالات پورے ملک کے طلبہ کی پہہچان اورجبر سے نجات کی علامت بن چکے ہیں۔ نئی نسل کے طلبہ نے اس جدوجہد کو منظم کیا اور پورے ملک میں 29 نومبر کو یہ طلبہ ایکتا کے ساتھ پھیل کر اپنی طلبہ یونین کی بحالی کے عزم کو دہراتے رہے۔ یہ طلبہ کی طاقت اور وقت کا جبر ہی ہے کہ سندھ کابینہ نے سب سے پہلے طلبہ یونین کی بحالی کو باضابطہ طور سے کابینہ میں منظورکیا جب کہ قومی اسمبلی کے ارکان نے طلبہ سیاست کی بحالی کے لیے قومی اسمبلی میں بحث کے بعد باضابطہ بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا۔

مگر اس اثناء ان بلوں میں طلبہ سیاست کے پرکاٹنے کی جو ریاستی کوشش ہو رہی ہے یا چالاکی سے کی جا رہی ہے وہ فوجی جنرل مشرف کی طلبہ دشمنی کے متبادل'' یوتھ پارلیمنٹ '' کی طرح ہے جس میں طلبہ کو سوشل اور تعلیمی شعبوں کی سر گرمیاں بحال کرکے ان کو سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کو کسی طور قبول نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ طلبہ سیاست ملکی سیاست کی وہ نرسری ہے جہاں سے ملکی سیاست میں روشن خیال قدروں اور جمہوری رویوں کی شناخت ہوگی۔

لہذا جمہوری حکومت اور ارکان اسمبلی کو اس سلسلے میں طلبہ کے نصابی اور سیاسی حقوق کا دفاع کر کے طلبہ کو ریاست کی تماتر سہولیات اور کالج یونیورسٹی کی اہم باڈیوں میں طلبہ کی جمہوری نمایندگی کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ آج کے طلبہ حقوق کا قرض خوش اسلوبی سے اتارا جا سکے، وگرنہ ریاست کے والی اور طلبہ دشمن اساتذہ اس بات کو نہ بھولیں کہ نئی نسل میں طلبہ حقوق کی یہ چنگاری60ء کی دہائی سے زیادہ بھڑکے گی اور یہ جوشیلے طلبہ اپنے پرانے پیش رو ترقی پسند اکابرین کی جدوجہد کو مزید تیز کر سکتے ہیں ، پھر نہ جیل کی بلند دیواریں اور نہ ہی ریاستی جبر ان لال قیدیوں کے قدم روک پائیں گے۔
Load Next Story