سندھ کے صوفی شاہ عنایت شہید

انہوں نے ’’جو بوئے وہ کھائے‘‘ کا فلسفہ نہ صرف پیش کیا بلکہ عملی طور پر نافذ کرکے بھی دکھایا

انہوں نے ’’جو بوئے وہ کھائے‘‘ کا فلسفہ نہ صرف پیش کیا بلکہ عملی طور پر نافذ کرکے بھی دکھایا

ٹھٹھہ، مزارات، مقابر، تاریخی مقامات، قدیمی آثار کا شہر، کینجھر اور ہالیجی کی جھیلوں، عبداللہ شاہ اصحابی ؒسے نسبت اور شاہ جہانی مسجد اسے مزید اہم بنا گئی لیکن اس کی وجہ شہرت صوفی شاہ عنایت بھی ہیں۔ انھیں سندھ کی تاریخ میں اہم مقام، مرتبہ اور حیثیت حاصل ہے۔

''جو بوئے وہ کھائے'' کا فلسفہ کمیونزم، مارکسزم سے بہت پہلے انھوں نے پیش کیا اور چین و روس سے قبل نافذ کرکے عملی طور پر ممکن کر دکھایا لیکن ان کی یہ کاوش ان قوتوں کو ایک آنکھ نہ بھائی جو کسانوں کا استحصال کرکے ان کی محنت کے بل پر عیش کیا کرتی تھیں۔ اسی ٹھٹھہ کے گاؤں جھوک شریف میں داخل ہوں تو صبا ہی نہیں عام ہوا بھی سرگوشیاں کرتی ہوئی بتاتی ہے کہ:

آہستہ خرام بلکہ مخرام کہ ہزار شہداء زیر زمیں است

شاہ عنایت جنھوں نے طاقت ور جاگیرداروں سے پنجہ آزمائی کی، نبرد آزما ہوئے اور سندھ میں پہلی بار ہاریوں کو مجتمع کرکے اجتماعی زراعت کا آغاز کیا وہ سندھ کے پہلے زرعی مصلح بھی تسلیم کیے جاتے ہیں جھوک شریف میں ان کا مرقد مقدس آج بھی ارادت مندوں کے لیے عقیدت گاہ ہے سن تھا 1718 اور جنوری کا مہینہ جب ٹھٹھہ کے مغل گورنر اعظم خان نے انھیں قتل کرا دیا اور قلم کیا گیا سر نیزے پر چڑھا کر دہلی روانہ کیا گیا جہاں فرخ سیر کی حکمرانی تھی شیخ ایاز جو ہرکس و ناکس کو خاطر میں نہ لاتے تھے، لکھنے پر مجبور ہوگئے:

میرے قدموں کی سمت

کئی سورما دیس کے

شاہ عنایت جھوک کا

سر کا میرے تاج

مفہوم تو اس قطعہ کا یہ ہے کہ نام اور نہاد سورماؤں کو اپنی پائنتی میں رکھنے والا شاعر خود کو شاہ عنایت کے قدموں میں لا ڈالتا ہے اور اس پر فخر بھی کرتا ہے۔ شاہ عنایت 1655 میں پیدا ہوئے، شہر تھا ملتان، پرورش لانگاہ میں ہوئی، کہتے ہیں ملتان کے لانگاہ خطے میں قومی استحصال اور غیروں کی یلغار کے خلاف جدوجہد کو قریب سے دیکھا تو اس کے اثرات بھی سمیٹے اور جبر و استبداد سے نفرت متاع حیات بن گئی اور کم عمری میں ہی مظلوموں، مقہوروں سے محبت اور ان کی مدد و اعانت کو اپنا شعار بنالیا۔

نور احمد میمن نے سندھ کے سپوت میں لکھا ہے کہ ملتان ہی میں شاہ شمس کی صحبت انھیں زندگی کے قرینے سکھا گئی اور درویشوں کی ایک جماعت کے ہمراہ ایران، عراق و دیگر بلاد عرب کی زیارات اور سفر پر نکل گئے واپسی پر ہندوستان پہنچے کم و بیش 10 برس اس سیر و سیاحت میں گزارے اور گھومتے پھرتے ٹھٹھہ پہنچے تو اسے اپنا مسکن بنالیا یہ خطہ اس زمانے میں بٹھورہ پرگنہ کہلاتا تھا جیسے نوشہرو فیروز اور ملحقہ علاقوں کو ساہتیہ پرگنہ اور جیکب آباد و اطراف کے علاقے جتوئی پرگنہ اور لاڑکانہ چانڈکے نام سے معروف تھا دیگر بزرگان دین و شخصیات کی طرح شاہ عنایت کی جائے پیدائش پر بھی اختلافات ہیں لطافت علی جوہر لکھتے ہیں کہ وہ 1065ھ میں جھوک شریف ہی میں تولد ہوئے جو اس عہد میں میران پور کہلاتا تھا، مدیحہ جبیں نے اپنے ایک مضمون میں جائے پیدائش میرپور بٹھورو اور سنہ 1653 تحریر کیا ہے۔

پیر حسام الدین راشدی مرحوم نے تحریر کیا ہے کہ ''بلڑی کے پیر اور اطراف کے پلیجو جاگیردار اور کلہوڑا حکمران جو بصورت درویش سندھ میں وارد ہوئے تھے اب بہت بڑے حصے پر قابض تھے اور باقی سندھ پر نگاہیں تھیں وہ صوفی شاہ عنایت کو خطرہ سمجھتے تھے کہ حیدرآباد دکن میں تصوف اور طریقت کی تعلیم حاصل کرکے بزرگوں کی خانقاہ سنبھالنے والے صوفی عنایت نے خدمت خلق کے ساتھ ساتھ طریقت کے اسباق سے بھی ارادت مندوں کو آگاہ کیا دکن کی تعلیم و تدریس میں انھوں نے اورنگ زیب عالمگیر کے حملوں قتل و غارت گری اور ان کے اثرات کو بھی براہ راست دیکھا۔

اس لیے غلبہ، قوت اور تشددسے نفرت نیز مظلوموں سے محبت ان کے خمیر اور ضمیر کا حصہ بن گئی۔ عزیز کینجھرائیکے الفاظ میں شاہ عنایت کی جدوجہد اٹھارہویں صدی کا وہ انقلاب تھی جو جاگیرداروں، سجادہ نشینوں اور ان کے حاشیہ نشیں مولویوں کی نیند حرام کرچکی تھی۔ اس انقلاب نے معاشرے میں تحرک پیدا کیا نتیجتاً اس کے مخالف بھی متحد ہوگئے۔

یہ وہی طبقات تھے جو میران پور کے وطن دوست عوامی انقلاب کو خطرہ تصور کرتے تھے خود صوفی شاہ عنایت آگاہ تھے کہ مغلوں کی کمزوری کے باعث ہندوستان پر یلغار کرنے والے ولندیزی، پرتگیزی، فرانسیسی، اسپینی اور انھیں شکست دے کر راج کرنے والے انگریز بلاشبہ غاصب ہیں لیکن ان غیر مقامی حکمرانوں کی اصل قوت جاگیردار طبقہ ہے جو ان کو تقویت دے کر کمزور اور مفلوک الحال طبقات بالخصوص کسانوں کو زندگی کی سہولتوں سے محروم رکھے ہوئے ہے۔


اس لیے صوفی شاہ عنایت نے صوفی تحریک کو پروان چڑھایا جس کا مرکز جھوک شریف بھی تھا آپ محض درویش طریقت نہ تھے آپ نے مریدین کی فکری رہنمائی بھی کی انھیں دوران تربیت سماجی، ثقافتی اور سیاسی شعور دیا، اجتماعی کاشت کاری کی سمت راغب کیا اور ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کی تربیت دی۔ یہی کچھ ہمیں سورہیہ بادشاہ پیر صبغت اللہ شاہ ثانی کے یہاں بھی نظر آتا ہے جو غازی تحریک کے وابستگان کو تمباکو نوشی نہ کرنے، منکرات سے بچنے اور ہتھیار چلانے اور گوریلا وار کا طریقہ سکھاتے اور بتاتے تھے جو انھوں نے احمد پور اور رتنا گیری کی جیلوں میں بنگالی و دیگر حریت پسندوں سے سنے دیکھے اور سیکھے تھے۔

صوفی شاہ عنایت نے اجتماعی کاشت کاری اور منصفانہ طریقے سے تقسیم کا عمل شروع کیا تو ان کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا آپ کے مرید اور عزیز و اقارب نیز اطراف کے پیروں کے مرید بھی اس تحریک کا حصہ بن گئے کہتے ہیں فصل اترنے پر سب کو ضرورت کے مطابق وافر فصل تقسیم کی جاتی بچ جانے والا مال اجتماعی ملکیت قرار پاتا زمین، زرعی آلات اور مویشی کسی کی نجی ملکیت نہ تھے سب صوفی جماعت کی مشترکہ ملکیت کہلاتے تھے۔

یہ سارا نظام مشترکہ پنچایت چلاتی تھی جسے صوفی شاہ عنایت کی سرپرستی، اعانت میسر تھی میران پور یا جھوک شریف کی یہی ادا قرب و جوار کے جاگیرداروں، پیروں اور طاقت وروں کو چوکنا کر گئی انھوں نے ٹھٹھہ کے مغل گورنر اعظم خان کو وسیلہ بنایا جس نے مغل دربار کو دہلی میں متوجہ کیا کہ یہ طریقہ کاشت اور صوفی تحریک آگے چل کر خطرہ بن جائے گی پھر یہ ہوا کہ درگاہ شریف سے ملحقہ اراضی جو مغل شہنشاہوں ہی نے سجادہ نشینوں کو ڈھل یا آبیانہ کی معافی کے ساتھ عطا کی تھی چھین لینے کا حکم جاری ہوا، مغل گورنر اعظم خان نے اطراف کے جاگیرداروں، پیروں، علمائے سو کو جمع کیا اور اجتماعی لشکر کے ساتھ دھاوا بول دیا یہ سندھ میں کلہوڑوں کی حکمرانی کا عہد تھا۔ پیر حسام الدین راشدی کے الفاظ میں سبی، سندھ اور لاڑ کے تمام طاقتور طبقات اکٹھے تھے اس لشکر کا مقابلہ جھوک کے درویشوں نے ''الارض اللہ'' زمین اللہ کی ہے کا نعرہ لگا کر کیا اور سرفروشی کی تمنا لے کر مقابلہ کیا یہ اکتوبر کا مہینہ اور سنہء1717 تھا تین ماہ تک جھڑپیں ہوتی رہیں۔

عزیز کینجھرائی لکھتے ہیں کہ دوبدو مقابلے میں ناکامی کے بعد مقتدر حلقوں نے دھوکے بازی، چالبازی اور حیلہ سازی سے کام لیا سید مہدی شاہ نے اپنے مضمون میں بیان کیا ہے کہ اس عہد کے دستور کے مطابق قرآن کریم پر الحمد لکھ کر جو قسم ہی کی ایک شکل تصور ہوتی تھی شاہ عنایت کے ہم زلف میر شہدا تالپور کے ذریعے صوفی صاحب تک بھجوائی شاہ عنایت اور شہداتالپور دونوں ہی ہم زلف تھے کہ ان کی شادی سوڈھو قبیلے میں ہوئی تھی۔

کئی سردار اور قبائلی عمائد بھی ہمراہ تھے ایک روایت میں اپنی ریش کے چند بال بھی بھیجے کہ آپ میرے پاس تشریف لائیں ہمارے آپ کے درمیان اب قرآن کریم اور اس پر لکھی الحمد موجود ہے صوفی عنایت اس قول و قرار کو سچ سمجھے اور اس کے خیمے کی سمت چلے گئے یہ بھی روایت مہدی شاہ ہی کی ہے کہ یار محمد کلہوڑو المعروف خدایار خان اور شاہ صوفی عنایت پیر بھائی بھی تھے البتہ ممتاز مورخ مولانا غلام رسول مہر نے تاریخ سندھ میں یار محمد کلہوڑو کو صوفی شاہ عنایت کی شہادت سے بری الذمہ قرار دیا ہے اور صرف مغل گورنر برائے ٹھٹھہ ہی کو مورد الزام ٹھہرایا ہے کلہوڑہ عہد کے مورخ میر علی شیر قانع نے تحفتۂ الکرام میں لکھا ہے کہ اعظم خان کی فتح یابی مشکل تھی۔



اس لیے اس نے دھوکہ بازی کی اور 9 صفر 1130 ھ کو جو کرنا تھا وہ کرکے ٹھٹھہ واپس آیا اور جنگی اخراجات تاجروں پر دباؤ ڈال کر بصورت جبری چندہ وصول کیے۔ یہی بات سائیں ابراہیم جویو نے تحریر کی ہے کہ سندھ کی نجات اور بحالی کی تحریک کا دوسرا دائرہ جنوبی سندھ یعنی لاڑ تھا جس کا مرکز و محور اور روح بٹھورو پرگنہ جھوک (نصریہ۔ میران پور) کے لانگاہ قبیلے والے صوفی بزرگ تھے پیر حسام الدین راشدی نے بھی بیان کیا ہے کہ 1130ھ تک سندھ کا ٹھٹھہ والا علاقہ کلہوڑوں کی عملداری میں نہ تھا سیہون تک میاں یار محمد کا قبضہ ہو چکا تھا اور ٹھٹھہ کے حصے پر اس کی نگاہ تھی مغل کمزور ہوچکے تھے اور دہلی سلطنت کے مختلف صوبے خودمختاری کا اعلان کر رہے تھے۔

پروفیسر ڈاکٹر غلام محمد لاکھو نے بھی اپنے تحقیقی مقالے کلہوڑو دور حکومت میں شاہ عنایت کو دھوکے سے بلوانے اور شہید کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔ پیر حسام الدین راشدی کے مطابق 9 صفر 1130 ھ بمطابق یکم جنوری 1718 صوفی شاہ عنایت کو نواب اعظم کے پاس لایا گیا اور 15 صفر 1130ھ یعنی 7 جنوری 1718ء کو شہید کیا گیا۔ مولانا غلام رسول مہر نے بھی یہی تاریخ شہادت بیان کی ہے لیکن آپ کا عرس ہر سال 17-16 صفر کو جھوک شریف میں عقیدت مند مناتے ہیں اس لیے کچھ حلقے تاریخ شہادت 16 صفر گردانتے ہیں جائے شہادت بھی ٹھٹھہ تھی یا جھوک اس پر اختلاف ہے۔

پروفیسر ریاض صدیقی کے الفاظ میں ''جب شاہ عنایت شہید نے تاریخ سندھ میں پہلی بار کسانوں کو اجتماعی زراعت کا تصور دیا تو اس انقلاب کو اطراف کے جاگیرداروں نے صدیوں سے رائج سسٹم کے خلاف سنگین خطرہ تصور کیا کیوںکہ اس فرسودہ نظام سے بادشاہ، امرا، جاگیردار، علمائے سو، تاجر غرض یہ کہ تمام طبقات جڑے ہوئے تھے اور ان کے روابط دلی کے مغل حکمرانوں سے مضبوط تھے اور یہ سسٹم ہی ان کے مفادات کا تحفظ کرتا تھا۔ پروفیسر سبط حسن نے اپنی تصنیف نوید فکر میں شاہ عنایت شہید کی صوفی فکر اور فلسفہ زراعت پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ شاہ عنایت کی شہادت نے سندھ کی معیشت، معاشرت اور سماج پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ شاہ لطیف بھٹائی نے سُر ''رام کلی'' میں اس ظالمانہ کارروائی پر احتجاج کیا ہے جب کہ اس عہد کی بزرگ شخصیات حضرت جان اللہ شاہ رضوی، میر معین ٹھٹھوی نے بھی قلم اٹھایا اور اسے الم ناک واقعہ قرار دیا ''آہ مظلوم حق'' سے آپ کا سن وفات 1130 ھ برآمد ہوتا ہے واقعتاً آپ مظلوم بھی تھے اور حق پر بھی۔

جھوک کے محاصرے کے لیے آنے والے لشکر کی اطلاع ملی تو فقرا چاہتے تھے کہ پیش قدمی کرکے راستہ روکیں مگر شاہ عنایت شہید نے پہل کرنے سے منع کیا۔ لشکر نے محاصرہ کیا اور توپیں نصب کردیں۔ حملے کی ابتدا کی تو ایک شب شاہ عنایت نے فقرا کے ہمراہ شب خون مارنا چاہا۔ فقیروں کی جماعت کو خاموشی کی تاکید تھی لیکن اندھیرے میں ایک فقیر کو ٹھوکر لگی تو زبان سے اللہ نکلا اس کی تقلید میں سب اللہ اللہ پکارنے لگے۔ شب خون سے حملہ آور لشکر میں بھگدڑ مچ چکی تھی مگر اللہ اللہ کے ورد سے انھیں شاہ عنایت کے ساتھیوں کی سمت معلوم ہوگئی اور انھوں نے مجتمع ہوکر جواب دیا اور شاہ عنایت کے ساتھی واپس آگئے۔ کئی ماہ کے محاصرے کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو صلح کی پیش کش کی گئی اور صوفی شاہ عنایت مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ آپ کے سامنے آپ کے بھائی شاہ رحمت اللہ اور بھتیجے محمد یوسف کو لایا گیا جلاد نے تلوار اٹھائی تو آپ نے انھیں نماز کی تلقین کی اور حالت نماز میں انھیں شہادت کا درجہ ملا۔

سید سبط حسن نے نوید فکر میں صوفی شاہ عنایت کو دنیا کا پہلا سوشلسٹ قرار دیا ہے نواز خان زنٹور نے درست لکھا ہے کہ ''زمین خدا کی ہے جو کاشت کرے وہ کھائے'' کا مطلب ہے تم بھی محنت کرو بوائی کرو اور میں بھی کروں اور خدا کے دیئے گئے رزق سے اپنے بچوں کا پیٹ پالیں۔ کسی ایک دانے کا بھی کوئی تنہا مالک نہ ہو سب برابر کے شریک ہوں بلاشبہ شاہ عنایت جاگیردارانہ سماج میں مظلوموں کی موثر اور گونجتی آواز تھے جسے سر قلم کرکے مخالفین نے خموش کرناچاہا مگر یہ آواز دبائی نہ جاسکی آج بھی گونج رہی ہے اور مساوات انسانی کا تصور جب تک موجود ہے شاہ عنایت زندہ رہیں گے۔

تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ سندھ سے شاہ عنایت کا سر نیزے پر لگا کر دہلی لے جایا گیا اور فرخ سیر کے دربار میں پیش ہوا لیکن ایک برس ہی گزرا ہوگا کہ اس کے خلاف بغاوت ہوئی اور اسے بینائی کی نعمت سے محروم کرکے تخت چھینا گیا اور زندگی کے آخری ایام اس نے قید خانے میں گزارے۔ شاہ عنایت کی شہادت کے بعد ان کی قیام گاہیں نذر آتش کی گئیں اور سیکڑوں عقیدت مندوں کو تہ تیغ کرکے کنوؤں میں اجتماعی قبریں بناکر دفنایا گیا ان کنوؤں کی تعداد صوفی غلام مصطفی مورائی نے سات بتائی ہے۔ اس مقام کو گنج شہیداں کہا جاتا ہے۔

شاہ عنایت 1718 میں جنوری کی سات تاریخ کو شہید کردیے گئے لیکن ان کا نام زندہ ہے اور مدفن بھی جہاں ہزاروں افراد گزشتہ 3 صدیوں سے عقیدت کے پھول نچھاور کر رہے ہیں، لیکن مغل گورنر اعظم خان اور اس کے حواریوں کے مقابر ویرانی کی تصویر ہیں اور بہت سوں کا تو اتا پتا کسی کو معلوم نہیں۔ شاہ عنایت شہید کے جھوک میں سندھ کا ایک اور سورما بھی دفن ہے یعنی نواب احمد خان لغاری جو تالپوروں کے وزیراعظم تھے میانی اور دبہ کی جنگوں میں شکست کے بعد ازخود جلاوطن ہوگئے تھے اور شکست کے غم کو بھلا نہ سکے تھے۔ وفات کے بعد انھیں حسب وصیت یہاں دھرتی ماں کے حوالے کیا گیا۔ گنج شہیداں اور شاہ عنایت شہید کی صوفی تحریک تاریخ کا ایسا تذکرہ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔

''رفتید وے از نہ دل ما''
Load Next Story