راولپنڈی میں ٹیسٹ کیوں رکھا

سری لنکا سے سیریز کے دونوں ٹیسٹ اگر کراچی میں کرا دیتے تو اچھا رہتا، یہاں اب تک موسم خاصا خوشگوار ہے

سری لنکا سے سیریز کے دونوں ٹیسٹ اگر کراچی میں کرا دیتے تو اچھا رہتا، یہاں اب تک موسم خاصا خوشگوار ہے۔ فوٹو: ٹوئٹر

''ہیلو سر کہاں ہیں آپ بڑی دیر سے فون ملا رہا ہوں مگر کال ریسیو نہیں کر رہے''، چند برس پہلے کی بات ہے جب میں نے بینک میں نائب صدر کے عہدے پر فائز ایک صاحب کوکسی کام سے فون کر کے یہ جملہ کہا، انھوں نے جواب دیاکہ ''میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بینک کے باہر پارکنگ میں گاڑیاں صاف کر رہا ہوں''۔

میں یہ سن کر حیران رہ گیا اور کہا آپ اپنے بڑے آفیسر اور یہ کام کر رہے ہیں تو انھوں نے زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ''مینجمنٹ کی طرف سے کبھی کبھی ہم سے ایسے کام لیے جاتے ہیں تاکہ ہم ایگو (انا) کو خود پر سوار کرتے ہوئے بڑی پوسٹ کے زعم میں دوسروں کو خود سے حقیر نہ سمجھنے لگیں کیونکہ اس سے ہمارا کام متاثر ہو سکتا ہے''۔

یہ جان کر میں بڑا متاثر ہوا تھا کہ بڑے لوگوں (عہدے کے لحاظ سے)کے قدم زمین پر رکھنے کیلیے واقعی یہ زبردست حکمت عملی ہے، اب مجھے سنجیدگی سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پی سی بی والوں کی بھی ایگو ختم کرنے کیلیے کچھ اقدامات کی ضرورت ہے، چاہے وہ چیئرمین، سی ای او یا ڈائریکٹرز کوئی بھی ہوں وہ اپنے آگے کسی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں، میڈیا سچ بتائے تو اس پر مخالف ہونے کا الزام لگا دینا، سابق کرکٹرز کچھ کہیں تو عہدے کی لالچ میں ایسا کرنے کا تاثر دینا۔

، کھلاڑی اپنے حق کیلیے آواز اٹھائیں تو ڈرا دھمکا کر خاموش کرا دینا،پی ایس ایل فرنچائزز کچھ کہیں تو مراعات واپس لینے اور معاہدے کی شرائط یاد دلا کر چپ کرا دینا، بورڈ کے اندر سے آواز اٹھے تو یہ تعاون نہیں کر رہا فارغ کر دو، ایسے کام انا پرست لوگ ہی کرتے ہیں جو اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے، اب آپ سری لنکا سے سیریز کی ہی مثال لے لیں پہلا ٹیسٹ راولپنڈی میں رکھ دیا،سوچنے کی بات ہے کہ کیا پی سی بی کو علم نہیں تھا کہ اس سے کیا مسائل ہوں گے، آج کل کے دور میں ایک 5 سال کا بچہ بھی موبائل فون پر دنیا بھر کے موسم کی تفصیل جان سکتا ہے کیا بورڈ نے ایسا نہیں کیا؟

دسمبر میں پنجاب میں 80 سے 90 فیصد ٹیسٹ میچز غیرفیصلہ کن رہے ہیں کیا حکام کو یہ پتا نہیں تھا؟ سال کے ان دنوں میں پنجاب کے سخت سردی اور بارش کی لپیٹ میں ہونے کیے سبب وہاں کرکٹ کا انعقاد بڑا دشوار ہے، اسی لیے پی سی بی نے کچھ عرصے قبل قائد اعظم ٹرافی کے میچز کراچی منتقل کر دیے تھے، مگر حیران کن طور پر ٹیسٹ میچ کے میزبان کا سوچتے ہوئے اس پہلو کو نظرانداز کر دیا گیا، کتنی شرم کی بات ہے کہ 10 سال بعد پاکستان میں کسی ٹیسٹ میچ کا انعقاد ہوا اور4 دن میں 91.5اوورز ہی ہو سکے، پلاننگ کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ یادگار مقابلے کیلیے کسی تقریب کا انعقاد نہیں کیا گیا۔

شہر میں خیرمقدمی بینرز لگے نہ میڈیا میں کوئی ہائپ بنائی گئی، مفت انٹری کے بجائے 50روپے کا ٹکٹ رکھ دیا، اس کے باوجود پہلے دن مناسب تعداد میں شائقین اسٹیڈیم آئے، سخت سیکیورٹی انتظامات کرنا ضروری اور یہ بات سب جانتے ہیں اسی لیے میچ دیکھنے کیلیے آنے والوں نے بار بار کی تلاشی پر کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن بورڈ نے انھیں کیا سہولتیں فراہم کیں، اسٹیڈیم کے بیشتر اسٹینڈز میں چھتیں موجود نہیں، آپ تصور کریں راولپنڈی کے سخت سرد موسم میں جب بارش میں بھیگنا پڑے تو کیا حال ہوگا، بورڈ کی پلاننگ صرف وی آئی پیز کو سہولتیں فراہم کرنے پر مرکوز رہیں عام شائقین کا کچھ نہیں سوچا۔


سری لنکا سے سیریز کے دونوں ٹیسٹ اگر کراچی میں کرا دیتے تو اچھا رہتا، یہاں اب تک موسم خاصا خوشگوار ہے، اس سے پہلے تینوں ون ڈے میچز بھی تو یہیں ہوئے، پی سی بی پر یہ تنقید ہوتی رہی ہے کہ کرکٹ کی واپسی صرف 2 شہروں کراچی اور لاہور تک محدود تھی شاید اس تاثر کو دور کرنے کیلیے عجلت میں راولپنڈی کو ٹیسٹ کی میزبانی سونپی گئی مگر اس نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا، اب ترجمان وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں، ساتھ یہ بھی کہا کہ دسمبر کے اواخر سے راولپنڈی میں کرکٹ کا انعقاد ناممکن ہو جائے گا، وہ یہ بھول گئے کہ ان کے اپنے چیئرمین یہ اعلان کر چکے کہ آئندہ برس بنگلہ دیش سے پہلا ٹیسٹ بھی راولپنڈی میں ہوگا۔

افسوس کی بات ہے کہ ان دنوں ہر فیصلے سے پی سی بی کی نااہلی واضح ہو رہی ہے لیکن اعلیٰ آفیشلز جانتے ہیں کہ ارباب اختیار کی مکمل سپورٹ کی وجہ سے انھیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا،میری ان سے درخواست ہے کہ اناپرستی کا خول توڑیں اور جو غلطیاں ہوئیں انھیں سدھاریں، میڈیا، سابق کرکٹرز یا کوئی اور جو بھی ہو سب یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ مزید ترقی کرے، کوئی آپ کے خلاف ہے نہ کسی کا ایجنڈہ ہے، سب کو پتا ہے کہ جب تک حکومت ہے آپ سب عہدوں پر براجمان رہیں گے، اس بات کو تکبر کی وجہ بنانے کے بجائے اپنی طاقت سمجھتے ہوئے مثبت اقدامات کریں۔

2022میں ٹور ہونا ہے اور اسے آڑ بنا کر وسیم خان نے 2019میں ہی آسٹریلیا میں تین ہفتے کی ''پیڈ ہالی ڈیز'' گذاریں کوئی بات نہیں بورڈ میں جو آتا ہے ایسا ہی کرتا ہے، مگر جب راولپنڈی گئے تو دیکھا نہیں کہ میچ کے انتظامات کیسے ہیں؟

ہمیں ملک میں کرکٹ واپس لانی ہے اور شہریارخان، نجم سیٹھی یا احسان مانی جو بھی تھے یا ہیں یہ کام اچھے انداز میں کرتے رہے مگر اس کیلیے بھرپور پلاننگ بھی ضروری ہے، جلدی کس بات کی ہے، آہستہ آہستہ یہ سفر آگے بڑھائیں، کراچی میں میچ رکھتے تو کم از کم کرکٹ تو ہو جاتی،10سال بعد ملک میں ٹیسٹ کرکٹ واپس آئی مگر افسوس شائقین کوپہلے ٹیسٹ میں تاحال کھیل سے زیادہ لطف اندوز ہونے کا موقع ہی نہیں مل سکا،خیر امید ہے کہ بورڈ حکام غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آئندہ اس حوالے سے سوچ سمجھ کر فیصلے کریں گے تاکہ پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کا سفر مثبت انداز میں آگے بڑھ سکے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 
Load Next Story