مسٹر کم سے ملاقات نے امیر بنا دیا

میں نے بہت لمبے عرصے کے بعد کسی خوبصورت شخص کو اتنے اچھے کپڑے پہنے دیکھا تھا.

خوبصورت شخص کانپ رہا تھا اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہہ رہا تھا کہ میری بیوی مجھے پہلے ہی کہہ رہی تھی کہ مت جاؤ پاکستان میں لوگوں کو کوڑے پڑتے ہیں اور تم الکحولک ہو۔ فوٹو: فائل

کراچی ایئرپورٹ پر امیگریشن میں میرے کلاس فیلو شاہ جی سب انسپکٹر تھے میں ان کو ملنے گیا تو دیکھتا ہوں کہ ایک خوبصورت نوجوان خوبصورت کپڑوں میں ملبوس پاکستان میں داخل ہورہا ہے۔

اس نوجوان کو ایک حوالدار نے پکڑلیا۔ پکڑے جانے سے پہلے میری نظر اس پر جمی ہوئی تھی۔ میں نے بہت لمبے عرصے کے بعد کسی خوبصورت شخص کو اتنے اچھے کپڑے پہنے دیکھا تھا اس کے پکڑے جانے پر مجھے حیرت ہوئی میں قریب گیا تو پتہ چلا کہ غیر ملکی کو صرف ایک بوتل شراب کی اجازت ہے اس کے پاس دو بوتلیں تھیں۔ میں نے حوالدار کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔ وہ خوبصورت شخص کانپ رہا تھا اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہہ رہا تھا کہ میری بیوی مجھے پہلے ہی کہہ رہی تھی کہ مت جاؤ پاکستان میں لوگوں کو کوڑے پڑتے ہیں اور تم الکحولک ہو۔

میں نے شاہ صاحب سے اس کو چھڑانے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ بڑی سختی ہے۔ آخر میں نے اپنا دیسی نسخہ استعمال کیا۔ میرے پاس کل اڑھائی سو روپے تھے۔ میں نے دو سو روپے حوالدار صاحب کی مٹھی میں تھما دیئے۔ اس نے کہا کہ میں اس طرف دیکھتا ہوں آپ اس کو نکال کر لے جائیں۔ یہ خوبصورت شخص مسٹر کم اتنا خوفزدہ تھا کہ اگلی فلائٹ پر واپس جانا چاہتا تھا لیکن اس شرط پر پاکستان میں داخل ہونے پر تیار ہوگیا کہ میں اس کو انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل تک چھوڑ کر آؤں۔ جب وہ باہر نکلا تو اس کو لینے کیلئے کئی بزنس مین آئے ہوئے تھے لیکن اس نے اصرار کیا کہ میں اس کے ساتھ انٹر کانٹی نینٹل تک چلوں۔

میں اس کے ساتھ گیا اور اسے ہوٹل چھوڑ کر آیا۔ اس نے مجھے اپنا کارڈ دیا جس پر مسٹر کم نائب صدر فوکی اینڈ لو کمپنی تحریر تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ جب کبھی میں کوریا یا جاپان آؤں تو اسے ضرور ملوں۔ میں نے وہ کارڈ جیب میں ڈال لیا اب مجھے جس بات کی فکر تھی وہ یہ تھی کہ میرے پاس ٹرین کے ٹکٹ کیلئے پیسے نہیں تھے۔ میں کراچی کے ایک بازار گیا انعام بھائی سے ایک ہزار روپے اپنے بھائی کے نام پر ادھار لیے اور پنڈی واپس پہنچ گیا۔ لوگ پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ جس طرح میں صبح و شام محنت کررہا تھا ضرور کامیاب ہوں گا۔ میرے بھائیوں کو بھی یقین تھا کوئی نہ کوئی پارٹی پکڑلوں گا۔

میں جاپان جانے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ میں جاپان پہنچا تو مسٹر کم کو فون کیا کو چلو دیکھتا ہوں کیا ہوتا ہے۔ مسٹر کم کوریا میں تھے۔ میں نے رہائش پہلے یوتھ ہوسٹل میں رکھی تھی لیکن میں نے اندازہ لگایا کہ اس طرح بزنس مین حضرات سے میرا رابطہ نہیں ہوسکے گا۔ جب وہ رابطے کا پوچھتے تو یوتھ ہوسٹل سے سارا امیج خراب ہوتا۔ لہٰذا میں ہوسٹل سے شم باشمی ڈائچی ہوٹل شفٹ ہوگیا یہ ایک سستا اور نسبتاً بہتر ہوٹل تھا۔ مسٹر کم کوریا میں تھے جب میں نے ان کے دفتر رابطہ کیا تو مسٹر کم نے فوراً انہیں ہدایت کی کہ مجھے کمپنی گیسٹ بنایا جائے۔ میری دو سو روپے کی سخاوت کام آگئی۔


اس دن میری زندگی کی کایا پلٹ گئی۔ مجھے فوری طور پر رائل ہوٹل میں شفٹ کردیا گیا اور کمپنی کی گاڑی میری خدمت کیلئے میرے پاس بھیج دی۔ دو دن کے بعد مسٹر کم نے ایک ڈنر دیا جس میں اس نے جاپان کی مختلف پارٹیوں کو جو میرے کاروبار سے منسلک تھیں مدعو کیا۔ ان میں سے بعض کے دفتر یوکوہاما اور کوبے میں بھی تھے۔ اس طرح کوئی دس آدمیوں کے ڈنر میں میرا ان سے تعارف کرایا۔ مجھے اس رات تقریباً 30 لاکھ روپے کے ایکسپورٹ آرڈرز ملے۔

انہوں نے مجھے بتیں، تیس نکون کا ایک کیمرا تحفے میں دیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میرا سوٹ کیس کچھ پرانا اور بوسیدہ ہے لیکن اس حقیقت کا اندازہ کمپنی کے ڈرائیور کو بھی ہوچکا تھا جب میں اپنے ہوٹل پہنچا تو کمپنی کی طرف سے دو سوٹ کیس بھی تحفے میں ملے جومیری اگلی زندگی میں سفر کے دوران میرے بہت کام آئے۔ اب میرا دل ٹوکیو میں نہیں لگ رہا تھا۔ اگلے ہی دن میں پاکستان روانہ ہوگیا۔ فون پر اپنے بھائی کو ابریشم کی خریداری کی ہدایت دے چکا تھا۔

اس طرح تیسری مرتبہ میری کوشش کامیاب ہوئی اور میں نے دونوں عام کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اب میرا شمار چوٹی کے ایکسپورٹ کمپنیوں میں ہونے لگا۔ بالآخر وہ دن آیا کہ ریشم کی امپورٹ ایکسپورٹ 90 فیصد میری کمپنی کرتی تھی۔ صرف میری کمپنی ہی پاکستان کی واحد کمپنی تھی جسے انٹرنیشنل کمیٹی کا ممبر بنایا گیا۔ اس طرح میں نے خوب دل گا کر محنت کی تاکہ لوگ مجھے چندہ مانگنے والا لیڈر نہ سمجھیں بلکہ دینے والا۔

اب میں سکوٹر کے بجائے گاڑی پر سوار ہوچکا تھا اور ٹرین کے دھکوں کے بجائے جہاز کی فرسٹ کلاس میں سفر کرتا تھا۔ نیا نیا امیر ہوا تھا لیکن میں پہلے دن سے ہی شاہ خرچ تھا اچھا ہوٹل، اچھا لباس اور اچھا کھانا میری کمزوری تھا۔ چاہے میرے پاس واپسی کا کرایہ نہ بچے لیکن اس کے باوجود میں کوشش کرتا تھا کہ فرسٹ کلاس میں سفر کروں کیونکہ میں جلد سے جلد لوگوں کو بتانا چاہتا تھا کہ میں عملی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوچکا ہوں۔ میرا یہ سیاسی تجزیہ تھا کہ غریب کی باتیں تو لوگ بہت کرتے ہیں لیکن غریب کو غریب بھی ووٹ کوئی نہیں دیتا اور اس معاشرے میں ہی نہیں دیکھا جاتا کہ کیا کہا جارہا ہے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ کون کہہ رہا ہے اور اس کا کیا مقام ہے۔

(خود نوشت ''فرزند پاکستان'' سے)
Load Next Story