آیئے ملالہ کی مذمت کریں
ملالہ اور اس کی کہانی میں ایک بھرپور ڈرامائی Narrative پیدا کرنے والے عناصر قدرتی طور پر موجود تھے۔
وزارتِ اطلاعات کو میں ہمیشہ Ministry of Thought کہتا رہا ہوں۔ جن ملکوں میں یہ وزارت نہ ہو وہاں کئی اور ادارے ہوتے ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر کچھ تصورات کو ''حقیقت'' کا روپ فراہم کرتے ہیں اور لوگوں کی اکثریت انھیں بلا چوں و چرا تسلیم کر لیتی ہے۔ حالیہ تاریخ میں اس حوالے سے سب سے بڑا واقعہ اس صدی کے آغاز میں ہوا جب بش انتظامیہ کے نظریہ سازوں نے عراق کے صدام حسین کو ایٹمی ہتھیار بنانے کا ملزم ٹھہرایا اور ان ہتھیاروں کی ''تلاش'' میں اس ملک پر قبضہ کر لیا۔ افغانستان کے بارے میں بھی 19 ویں صدی کے آغاز کے ساتھ برصغیر پر قابض برطانوی نوآباد کاروں نے کچھ مخصوص تصورات پھیلائے۔ دو صدیاں گزر گئیں۔ اس دوران مسلسل جنگوں اور اندرونی جھگڑوں کی وجہ سے یہ ملک تباہ و برباد ہو گیا۔ تقریباََ 50 لاکھ افغان اس وقت پوری دنیا میں پناہ گزینوں کی صورت پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی ایک بہت ہی قلیل تعداد اپنے حالات سے خوش اور مطمئن ہے۔
باقی سب ذلتوں اور مشقتوں کے مسلسل عذاب سے گزر رہے ہیں۔ مگر افغانستان اور اس کے باسیوں کے بارے میں گھڑ لیے گئے تصورات آج بھی اسی طرح موجود ہیں۔ اپنے اس کالم میں ان تصورات کا میں پوری طرح جائزہ نہیں لے سکتا۔ ایسا کرنے کے لیے ویسے بھی ایک اخباری کالم کی نہیں پوری تحقیق کے بعد ٹھوس تاریخی حوالوں سے ایک ضخیم کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ محض ایک رپورٹر ہوتے ہوئے میں یہ کام کرنے کا نہ تو حوصلہ رکھتا ہوں اور نہ اب اپنی بقیہ زندگی کے چند سال تحقیق کی نذر کر سکتا ہوں۔ ویسے بھی عرض تو صرف یہ کرنا مقصود ہے کہ جو چیزیں ''حقائق'' کی صورت ہمارے سامنے رکھی جائیں ان کے بارے میں وقتاََ فوقتاََ سوالات اٹھاتے رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ سوالات اٹھاتے رہنا نہ صرف ذہنوں کو کشادہ بنائے رکھتا ہے بلکہ ہمیں کچھ بہتر امکانات کی تلاش میں بھی مدد دیتا ہے۔ مجھے ان دنوں زیادہ دُکھ اس بات پر ہو رہا ہے کہ ہم نے اندھی عقیدت کے ساتھ کچھ ''حقائق'' کو من و عن تسلیم کر لیا ہے۔ کوئی ان کے بارے میں سوالات اٹھا دے تو ہم چراغ پا ہو جاتے ہیں۔ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔
ملالہ کا واقعہ لے لیجیے۔ وہ ایک بے تحاشہ ذہین بچی تھی۔ اس کے باپ نے اسے اپنے خیالات کو لوگوں تک پھیلانے کے عمل میں پوری طرح حوصلہ افزائی کی۔ جب وہ یہ خیالات ''گل مکئی'' کے نام سے آگے پھیلا رہی تھی تو سوات کے مخصوص حالات میں ابھرے مذہبی انتہاء پسند ناراض ہو گئے۔ وہ اسکول جا رہی تھی تو اس کو بھرے بازار میں روک کر گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کی خوش قسمتی کہ پاکستانی ریاست کے اعلیٰ ترین حکام نے اس کی جان بچانے کے لیے بہترین سہولتوں کا اہتمام کیا۔ پھر برطانوی حکومت آگے بڑھی اور اسے اپنے ملک میں فوجیوں کے لیے قائم ایک جدید ترین اسپتال میں لے گئی۔ جدید ترین طبی ایجادات اور آلات کی بدولت وہ بچی اب پوری توانائی سے زندہ ہے۔ خدا اسے مزید زندگی اور راحت پہنچائے۔
جدید دُنیا کا مگر یہ مسئلہ ہے کہ وہ آپ کو ایک گوشے میں چین سے رہنے نہیں دیتی۔ میڈیا ایک بہت بڑی صنعت ہے۔ اس پر اربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ یہ دھندا چلتا ہی کسی بڑی خبر کو Event بنانے کی وجہ سے ہے اورEvent جاندار صرف اسی صورت بنتا ہے اگر اس میں کلاسیکی ڈراموں میں موجود Tension والے لوازمات موجود ہوں۔ یہTension بالآخر نیکی اور بدی کے درمیان ازلی کشمکش کے تناظر میں رکھنا پڑتی ہے اور اسے مزید جاندار بنانے کے لیے آپ کو سچ مچ کے ہیرو اور وِلن درکار ہوتے ہیں۔
ملالہ اور اس کی کہانی میں ایک بھرپور ڈرامائی Narrative پیدا کرنے والے عناصر قدرتی طور پر موجود تھے۔ کرسٹینا لیمب ایک برطانوی صحافی ہے۔ میں اسے 1980ء کی دہائی سے ذاتی طور پر خوب جانتا ہوں۔ افغانستان میں جب ''جہاد'' برپا تھا تو وہ ابھی پورے 20 سال کی بھی نہیں ہوئی تھی۔ برطانیہ کے ایک مشہور اخبار ''فنانشل ٹائمز'' کے ساتھ یہ معاملہ طے کر کے پاکستان آ گئی کہ وہ افغانستان کے بارے میں لکھا کرے گی۔ اس اخبار نے اسے یہاں آنے کا کرایہ تک نہ دیا تھا۔ وعدہ بس یہ کیا کہ اس کی جو خبر چھپے گی اس کے چھپے ہوئے الفاظ کا فی لفظ معاوضہ ادا کر دیا جائے گا۔ قصہ مختصر کرسٹینا نے دیوانوں کی طرح کام کیا اور برطانوی صحافت میں بالآخر ایک مقام بنا لیا۔ جب اس کا ایک مستند صحافی ہونا مان لیا گیا تو اس نے کتابیں لکھنا بھی شروع کر دیں۔ آپ اس خاتون کے بارے میں جو چاہے کہہ لیں، برطانیہ اور امریکا کے موثر حلقوں نے پاکستان یا افغانستان کے بارے میں جب بھی کوئی اہم فیصلے کرنا ہوتے ہیں تو وہ اس کی تحریروں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اسے Think Tanks وغیرہ بھی بڑے اہتمام سے بلوا کر سنتے ہیں۔ ملالہ کے برطانیہ پہنچ جانے کے بعد کرسٹینا نے سوات کی اس بچی میں ایک بھرپور کتاب کے امکانات جبلی طور پر دریافت کر لیے۔ اس کا اپنا نام پہلے ہی سے افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے کافی مشہور تھا۔ وسائل فوراََ میسر ہو گئے اور بالآخر ایک کتاب میدان میں آ گئی۔
میں پوری دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب آیندہ چند روز تک امریکا اور یورپ میں کافی مقبول رہے گی۔ پھر کوئی اور کتاب آ جائے گی۔ لوگ ملالہ کو بھی بھول جائیں گے اور اس سے متعلقہ I AM MALALA والی کہانی کو بھی۔ اس کتاب سے متعلقہ Hype کا ہم پاکستانی افتادگانِ خاک پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہو گا۔ ہمارے ہاں مسائل بہت گھمبیر ہیں۔ ان کا حل صرف پرخلوص علمی اور تحقیقی کاوشوں، زوردار فکری مکالموں اور بالآخر ٹھوس سیاسی بنیادوں پر چلائی تحاریک کی صورت ہی نکالا جا سکتا ہے۔ Ratings کے مارے ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے اس ضمن میں کام کی کوئی بات نہیں نکالی جا سکتی۔ بس پنجابی محاورے والا پانی ہے اس میں مدھانیاں چلاتے رہو۔
دو بندے ملالہ کو برا بھلا کہیں اور اسی ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھے دو تین افراد اس کا ڈرتے ڈرتے دفاع کرتے رہیں اور اتنی دیر میں پروگرام کا وقت ختم ہو جائے۔ جو بھی کر لو فی الحال خلقِ خدا اس نتیجے پر پہنچے گی کہ ''مسلمانوں کے دشمنوں نے ملالہ کی زبان میں رشدی جیسے شاتم اسلام کا دفاع کیا ہے''۔ وہ اس سازش کی آلہ کار ہے جس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو رسوا کرنا ہے۔ 1970ء میں مشرقی پاکستان کو خالصتاََ اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے کھو دینے کے بعد ہم نے اپنے تمام مسائل کا ذمے دار امریکا، یورپ، اسرائیل اور بھارت میں بیٹھے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو ٹھہرانا شروع کر دیا ہے۔ دوسروں کے سر پر ذمے داری ڈال دینا ہمارے نفسیاتی بوجھ کو کم کر دیتا ہے اور ہمیں کسی احساسِ جرم میں مبتلا ہونے سے بچا لیتا ہے۔ آئیے ملالہ کی مذمت کریں اور خود پر کوئی دوش نہ آنے دیں۔
باقی سب ذلتوں اور مشقتوں کے مسلسل عذاب سے گزر رہے ہیں۔ مگر افغانستان اور اس کے باسیوں کے بارے میں گھڑ لیے گئے تصورات آج بھی اسی طرح موجود ہیں۔ اپنے اس کالم میں ان تصورات کا میں پوری طرح جائزہ نہیں لے سکتا۔ ایسا کرنے کے لیے ویسے بھی ایک اخباری کالم کی نہیں پوری تحقیق کے بعد ٹھوس تاریخی حوالوں سے ایک ضخیم کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ محض ایک رپورٹر ہوتے ہوئے میں یہ کام کرنے کا نہ تو حوصلہ رکھتا ہوں اور نہ اب اپنی بقیہ زندگی کے چند سال تحقیق کی نذر کر سکتا ہوں۔ ویسے بھی عرض تو صرف یہ کرنا مقصود ہے کہ جو چیزیں ''حقائق'' کی صورت ہمارے سامنے رکھی جائیں ان کے بارے میں وقتاََ فوقتاََ سوالات اٹھاتے رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ سوالات اٹھاتے رہنا نہ صرف ذہنوں کو کشادہ بنائے رکھتا ہے بلکہ ہمیں کچھ بہتر امکانات کی تلاش میں بھی مدد دیتا ہے۔ مجھے ان دنوں زیادہ دُکھ اس بات پر ہو رہا ہے کہ ہم نے اندھی عقیدت کے ساتھ کچھ ''حقائق'' کو من و عن تسلیم کر لیا ہے۔ کوئی ان کے بارے میں سوالات اٹھا دے تو ہم چراغ پا ہو جاتے ہیں۔ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔
ملالہ کا واقعہ لے لیجیے۔ وہ ایک بے تحاشہ ذہین بچی تھی۔ اس کے باپ نے اسے اپنے خیالات کو لوگوں تک پھیلانے کے عمل میں پوری طرح حوصلہ افزائی کی۔ جب وہ یہ خیالات ''گل مکئی'' کے نام سے آگے پھیلا رہی تھی تو سوات کے مخصوص حالات میں ابھرے مذہبی انتہاء پسند ناراض ہو گئے۔ وہ اسکول جا رہی تھی تو اس کو بھرے بازار میں روک کر گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کی خوش قسمتی کہ پاکستانی ریاست کے اعلیٰ ترین حکام نے اس کی جان بچانے کے لیے بہترین سہولتوں کا اہتمام کیا۔ پھر برطانوی حکومت آگے بڑھی اور اسے اپنے ملک میں فوجیوں کے لیے قائم ایک جدید ترین اسپتال میں لے گئی۔ جدید ترین طبی ایجادات اور آلات کی بدولت وہ بچی اب پوری توانائی سے زندہ ہے۔ خدا اسے مزید زندگی اور راحت پہنچائے۔
جدید دُنیا کا مگر یہ مسئلہ ہے کہ وہ آپ کو ایک گوشے میں چین سے رہنے نہیں دیتی۔ میڈیا ایک بہت بڑی صنعت ہے۔ اس پر اربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ یہ دھندا چلتا ہی کسی بڑی خبر کو Event بنانے کی وجہ سے ہے اورEvent جاندار صرف اسی صورت بنتا ہے اگر اس میں کلاسیکی ڈراموں میں موجود Tension والے لوازمات موجود ہوں۔ یہTension بالآخر نیکی اور بدی کے درمیان ازلی کشمکش کے تناظر میں رکھنا پڑتی ہے اور اسے مزید جاندار بنانے کے لیے آپ کو سچ مچ کے ہیرو اور وِلن درکار ہوتے ہیں۔
ملالہ اور اس کی کہانی میں ایک بھرپور ڈرامائی Narrative پیدا کرنے والے عناصر قدرتی طور پر موجود تھے۔ کرسٹینا لیمب ایک برطانوی صحافی ہے۔ میں اسے 1980ء کی دہائی سے ذاتی طور پر خوب جانتا ہوں۔ افغانستان میں جب ''جہاد'' برپا تھا تو وہ ابھی پورے 20 سال کی بھی نہیں ہوئی تھی۔ برطانیہ کے ایک مشہور اخبار ''فنانشل ٹائمز'' کے ساتھ یہ معاملہ طے کر کے پاکستان آ گئی کہ وہ افغانستان کے بارے میں لکھا کرے گی۔ اس اخبار نے اسے یہاں آنے کا کرایہ تک نہ دیا تھا۔ وعدہ بس یہ کیا کہ اس کی جو خبر چھپے گی اس کے چھپے ہوئے الفاظ کا فی لفظ معاوضہ ادا کر دیا جائے گا۔ قصہ مختصر کرسٹینا نے دیوانوں کی طرح کام کیا اور برطانوی صحافت میں بالآخر ایک مقام بنا لیا۔ جب اس کا ایک مستند صحافی ہونا مان لیا گیا تو اس نے کتابیں لکھنا بھی شروع کر دیں۔ آپ اس خاتون کے بارے میں جو چاہے کہہ لیں، برطانیہ اور امریکا کے موثر حلقوں نے پاکستان یا افغانستان کے بارے میں جب بھی کوئی اہم فیصلے کرنا ہوتے ہیں تو وہ اس کی تحریروں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اسے Think Tanks وغیرہ بھی بڑے اہتمام سے بلوا کر سنتے ہیں۔ ملالہ کے برطانیہ پہنچ جانے کے بعد کرسٹینا نے سوات کی اس بچی میں ایک بھرپور کتاب کے امکانات جبلی طور پر دریافت کر لیے۔ اس کا اپنا نام پہلے ہی سے افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے کافی مشہور تھا۔ وسائل فوراََ میسر ہو گئے اور بالآخر ایک کتاب میدان میں آ گئی۔
میں پوری دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب آیندہ چند روز تک امریکا اور یورپ میں کافی مقبول رہے گی۔ پھر کوئی اور کتاب آ جائے گی۔ لوگ ملالہ کو بھی بھول جائیں گے اور اس سے متعلقہ I AM MALALA والی کہانی کو بھی۔ اس کتاب سے متعلقہ Hype کا ہم پاکستانی افتادگانِ خاک پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہو گا۔ ہمارے ہاں مسائل بہت گھمبیر ہیں۔ ان کا حل صرف پرخلوص علمی اور تحقیقی کاوشوں، زوردار فکری مکالموں اور بالآخر ٹھوس سیاسی بنیادوں پر چلائی تحاریک کی صورت ہی نکالا جا سکتا ہے۔ Ratings کے مارے ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے اس ضمن میں کام کی کوئی بات نہیں نکالی جا سکتی۔ بس پنجابی محاورے والا پانی ہے اس میں مدھانیاں چلاتے رہو۔
دو بندے ملالہ کو برا بھلا کہیں اور اسی ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھے دو تین افراد اس کا ڈرتے ڈرتے دفاع کرتے رہیں اور اتنی دیر میں پروگرام کا وقت ختم ہو جائے۔ جو بھی کر لو فی الحال خلقِ خدا اس نتیجے پر پہنچے گی کہ ''مسلمانوں کے دشمنوں نے ملالہ کی زبان میں رشدی جیسے شاتم اسلام کا دفاع کیا ہے''۔ وہ اس سازش کی آلہ کار ہے جس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو رسوا کرنا ہے۔ 1970ء میں مشرقی پاکستان کو خالصتاََ اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے کھو دینے کے بعد ہم نے اپنے تمام مسائل کا ذمے دار امریکا، یورپ، اسرائیل اور بھارت میں بیٹھے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو ٹھہرانا شروع کر دیا ہے۔ دوسروں کے سر پر ذمے داری ڈال دینا ہمارے نفسیاتی بوجھ کو کم کر دیتا ہے اور ہمیں کسی احساسِ جرم میں مبتلا ہونے سے بچا لیتا ہے۔ آئیے ملالہ کی مذمت کریں اور خود پر کوئی دوش نہ آنے دیں۔