وہ جو اپنے اصل نام سے شرماتا ہے
چنانچہ نہایت چالاکی، ہوشیاری اور کلاکاری سے ’’جمہوریت‘‘ کا شوشہ چھوڑا گیا۔
KARACHI:
اتنے زیادہ سقراطوں اور بزرجمہروں کے باوجود بھی آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو پایا کہ پاکستان، بلکہ ساری دنیا، کے اصل حکمران کون ہیں۔ پرانے زمانے میں تو بات سیدھی سادی ہوتی تھی کہ ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا اور اس کی رعیت ہوتی تھی۔ رعیت بادشاہ کو دعا دیتی تھی کہ ہمارا بادشاہ سلامت رہے، گاڈ سیو دی کنگ ۔۔۔ اور بادشاہ رعیت کو اپنے بچے اور ملک کو اپنی ملکیت سمجھ کر حفاظت کرتا تھا لیکن پھر انسان پڑھ لکھ کر ہوشیار ہو گیا تو اس نے سوچا یہ کیا انرت ہے کہ ایک بادشاہ اور اس کا صرف ایک ہی خاندان اس کھیت کو اکیلے اکیلے چرتے چُگتے رہیں۔ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں، ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے کھیت کلیان اور کسان و دہقان پر۔
اکیلے نہ ''کھانا'' ہمیں چھوڑ کر
کہ ''کھانے بنا'' ہم بھلا کیا جیئں گے
چنانچہ نہایت چالاکی، ہوشیاری اور کلاکاری سے ''جمہوریت'' کا شوشہ چھوڑا گیا۔ اس کی تعریف میں طرح طرح کے پروپیگنڈے ہوئے، بادشاہت میں کیڑے ڈالے گئے اور جمہوریت کو آزادی کی دیوی کا درجہ دیا گیا ۔۔۔ ہاتھی کے جو دکھانے کے دانت تھے وہ تو یہ تھے کہ ۔۔۔ عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام پر ۔۔۔ لیکن چھپے ہوئے دانت یہ ہیں کہ تم بھی چوپو اور مجھے بھی چوپنے دو ۔۔۔ عوام کو لوٹنا عوام کے ذریعے، عوام کے نام پر، ایک دو خاندانوں کی جگہ ۔۔۔ بے شمار شاہی خاندان اور ان کو عوام پر بے مہار چھوڑنا،
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری
جمہوریت کے اس دور میں اور تو جو کچھ ہے وہ تو اب عوام کو بھگتنا ہی پڑے گا اور بھگت رہے ہیں۔ اتنے سارے شاہی خاندانوں کے سفید ہاتھی پالنا کوئی خالہ جی کا گھر تو ہے نہیں، اس لیے جو حال عوام کا ہے وہ تو ہے ہی کہ خود کردہ را علاجے نیست لیکن اس میں سب سے زیادہ مزے بلکہ مزیدار المیے کی بات یہ ہے کہ کسی کو بھی پتہ نہیں کہ جمہوریت میں اصل حکمران کون ہوتا ہے۔ ملک لٹ جاتا ہے لیکن پتہ نہیں چلتا کہ کس نے لوٹا ہے۔ کیونکہ اس میں کمال ہی یہ ہے کہ ہر کوئی لٹ بھی رہا ہے اور ہر کوئی لوٹ بھی رہا ہے، تلواریں چلتی ہیں ،کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں لیکن تلوار چلانے والا ہاتھ دکھائی نہیں دیتا،
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
آخر کار ہم نے خود ہی تحقیق کا بِیڑا اٹھایا کہ لٹ تو سب رہے ہیں لیکن لوٹنے والا کون ہے، عوام کہتے ہیں کہ حکومت نے ہمیں لوٹ لیا، حکومت کہتی ہے کہ منتخب نمایندوں نے مجھے لوٹ لیا، منتخب نمایندے کہتے ہیں کہ الیکشنوں اور طرح طرح کے مطالبوں سے عوام ہمیں لوٹتے ہیں، ایک ایک وٹ کی بھاری قیمت وصول کرتے اور پھر کرتے ہی رہتے ہیں، اربوں کھربوں روپے کے ہندسے ادھر ادھر ہوتے ہیں، ٹیکس لگا لگا کر اور نرخ بڑھا بڑھا کر ایک ایک پیسہ کھینچ لیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی سودی قرضے لے لے کر گزارہ کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی بھوک ہے کہ مانتی نہیں جسے دیکھو رو رہا ہے کہ میں تو بھوک سے مر رہا ہوں، آخر یہ اتنا کھربوں کھرب روپیہ جاتا کہاں ہے۔
سبزہ و گل کہاں پہ ''جاتا'' ہے
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
بڑی تحقیق جستجو اور عرق ریزی کے بعد ہم نے پتہ چلا ہی لیا کہ جمہوریت میں اصل چور کون ہوتا ہے، ویسے تو اس چور کے بے شمار نام ہیں مڈل مین، بیچ کا آدمی، کمیشن ایجنٹ اور نہ جانے کیا کیا، لیکن اس کا اصل اور خاندانی نام ''دلال'' ہے، لیکن چونکہ اس نام کے پہلے تین حروف ملا کر ایک بڑا خطرناک مرکب بناتے ہیں جو اکثر دھماکے کا باعث بن جاتا ہے، مطلب یہ کہ ان سے ایک بڑی ہی کثیرالاستعمال اور ملٹی پرپز قسم کی گالی بنتی ہے اس لیے مناسب یہ سمجھا گیا کہ اسے بے شمار دوسرے القاب اور آداب سے یاد کیا جائے، چونکہ یہ ہمہ صفت موصوف ہے اس لیے اس کے ناموں اور عرفیتوں کا کوئی شمار ہی نہیں، حالانکہ اس کے بڑے بھائی کے نام صرف تین ہیں
مایا تیرے تین نام
پرسا، پرسو، پرس رام
تاریخ میں اس کا پہلا سراغ کسی تاریخ یا جغرافیے کی کتاب میں نہیں بلکہ ایک کہانی میں ملتا ہے، جب یہ ایک بادشاہ کا دربان ہوا کرتا تھا، وہ بادشاہ بڑا سخی تھا اور ہر کسی کو کچھ نہ کچھ دیتا رہتا تھا، یوں کہئے کہ مکمل طور پر پاکستانی عوام پر گیا تھا جس طرح تمام امیروں، کبیروں، وزیروں، فقیروں، سفیروں سب کو آج کل یہ دیتا ہے اسی طرح وہ بادشاہ بھی تھا بلکہ ایک مورخ کا تو کہنا ہے کہ پاکستانی عوام دراصل اسی بادشاہ کی نسل سے ہیں جو دینا جانتا تھا اور لینا جانتا ہی نہ تھا بلکہ پاکستانی عوام ہی کی طرح وہ بھی ٹنڈا تھا صرف ''اوپر والا'' ایک ہاتھ رکھتا تھا نیچے والا ہاتھ اس کے تھا ہی نہیں
ہم تو جانیں سیدھی بات
اوپر والا ایک ہی ہاتھ
لیکن اس کا دربان صرف نیچے والے ہاتھ کا مالک تھا چنانچہ وہ کسی کو بادشاہ تک پہنچنے سے پہلے ہی یہ منوا لیتا تھا کہ آدھا انعام اسے دینا ہو گا لیکن ایک دن سیر کو سوا سیر مل گیا ایک سیدھا سادا پاکستانی عوام کی طرح لگنے والا شخص بادشاہ سے ملنا چاہتا تھا، دراصل وہ بادشاہ کو اپنے کھیت کا خربوزہ پیش کرنا چاہتا تھا۔ دربان نے سوچا، اس سادہ لوح دیہاتی کو ذرا جم کر لوٹنا چاہیے چنانچہ شرط رکھی کہ جو بھی انعام بادشاہ کی طرف ملے گا، اس کا 2/3 مجھے دینا ہو گا، دیہاتی مان گیا بادشاہ نے دیکھا کہ ایک شخص کتنی دور سے چل کر اس کے لیے خربوزہ لایا ہے تو خوش ہو کر بولا ۔۔۔ مانگ کیا مانگتا ہے ۔۔۔ دیہاتی نے کہا حضور مجھے دو سو گھونسے اور ایک سو لاتیں نقد عطا فرما دیجیے، بادشاہ نے بہت سمجھایا لیکن دیہاتی نہیں مانا اور یہی انعام لینے پر مصر رہا، بادشاہ نے کہا ٹھیک ہے اور ملازم کو حکم دیا کہ اسے دو سو گھونسے اور ایک سو لاتیں سکہ رائج الوقت میں فوری طور پر ادا کر دیے جائیں، اس کام کے لیے مخصوص ملازم نے جب آستیں چڑھا کر تعمیل کی تیاری شروع کی تو دیہاتی بولا ، حضور ذرا ٹھہریئے، اس انعام میں میرا ایک اور حصہ دار بھی ہے اور دربان کو بلانے کے لیے کہا۔
اگر غم لشکر انگیزد کہ خون عاشقاں ریزد
من و ساقی بہم سازیم و بنیادی بر اندازیم
بادشاہ کے پوچھنے پر دیہاتی نے جب سارا ماجرا بتا دیا تو بادشاہ نے انعام کی ''رقم'' بڑھا کر دگنی کر دی اور ساری کی ساری دربان کو ادا کرنے کا حکم دیا، دیہاتی کو اس کے حصے کے بدلے میں ایک تگڑی سی رقم دلائی، ظاہر ہے کہ اس دربان جس کا نام دلال تھا کا اب دربار میں رہنا ممکن نہیں تھا اس لیے دربار کے ساتھ ساتھ اس ملک کو بھی لات مار کر عازم سفر ہوا۔ پھرتا پھراتا آخر کار وہ پاکستان پہنچا، یہ ملک اتنا پسند آیا کہ یہیں کا ہو لیا ۔۔۔ شادی کی جلوہ کثرت اولاد دکھانے لگا، اور اپنی نسل سے اس سرزمین کو بھرنے لگا، اب یہاں یہ جو ایجنٹ آڑھتی، سودا کار کمیشن ایجنٹ اور اتنے پرسنٹ والے لوگ پائے جاتے ہیں، یہ اسی کی اولاد میں سے ہیں اور اپنے اسی پرانے کاروبار سے منسلک ہیں جس کا بنیادی اصول ہے کہ نہ کچھ کرو نہ کچھ لگاؤ اور سب سے زیادہ کھاؤ، بیچنے والا کوئی اور ہوتا ہے خریدنے والا بھی کوئی اور ہوتا ہے لیکن بیچ میں یہ ان دونوں سے زیادہ کما لیتا ہے کاشت کار کھیت میں اگاتا ہے عوام خرید کر کھاتے ہیں لیکن دونوں روتے ہیں کیوں کہ سب کچھ یہ بیچ والا کھا جاتا ہے،
گویا منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے، لیکن یہ بات بہت کم لوگ کو معلوم ہو گی کہ ایجنٹ کمپنی، دلال، آڑھتی کہلانے والے تو ظاہر ہیں لیکن ایسے بھی بہت سارے لوگ یہ دھندہ کرتے ہیں جن کا ان میں سے کوئی نام نہیں ہوتا، مثلاً لیڈر بھی عوام اور حکومت کے درمیان یہی کام کرتا ہے اور بہت سارا فنڈ کماتا ہے لیکن اسے دلال یا ایجنٹ کے بجائے رہبر و رہنماء کا نام دیا جاتا ہے ایک اور لوگ ہیں جن کا نام تو ہم نہیں لے سکتے کیوں کہ دین و دل دونوں کا خطرہ ہے لیکن کام بتا سکتے ہیں اور کام ہے جنت دلانا،
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لیے
اتنے زیادہ سقراطوں اور بزرجمہروں کے باوجود بھی آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو پایا کہ پاکستان، بلکہ ساری دنیا، کے اصل حکمران کون ہیں۔ پرانے زمانے میں تو بات سیدھی سادی ہوتی تھی کہ ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا اور اس کی رعیت ہوتی تھی۔ رعیت بادشاہ کو دعا دیتی تھی کہ ہمارا بادشاہ سلامت رہے، گاڈ سیو دی کنگ ۔۔۔ اور بادشاہ رعیت کو اپنے بچے اور ملک کو اپنی ملکیت سمجھ کر حفاظت کرتا تھا لیکن پھر انسان پڑھ لکھ کر ہوشیار ہو گیا تو اس نے سوچا یہ کیا انرت ہے کہ ایک بادشاہ اور اس کا صرف ایک ہی خاندان اس کھیت کو اکیلے اکیلے چرتے چُگتے رہیں۔ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں، ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے کھیت کلیان اور کسان و دہقان پر۔
اکیلے نہ ''کھانا'' ہمیں چھوڑ کر
کہ ''کھانے بنا'' ہم بھلا کیا جیئں گے
چنانچہ نہایت چالاکی، ہوشیاری اور کلاکاری سے ''جمہوریت'' کا شوشہ چھوڑا گیا۔ اس کی تعریف میں طرح طرح کے پروپیگنڈے ہوئے، بادشاہت میں کیڑے ڈالے گئے اور جمہوریت کو آزادی کی دیوی کا درجہ دیا گیا ۔۔۔ ہاتھی کے جو دکھانے کے دانت تھے وہ تو یہ تھے کہ ۔۔۔ عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام پر ۔۔۔ لیکن چھپے ہوئے دانت یہ ہیں کہ تم بھی چوپو اور مجھے بھی چوپنے دو ۔۔۔ عوام کو لوٹنا عوام کے ذریعے، عوام کے نام پر، ایک دو خاندانوں کی جگہ ۔۔۔ بے شمار شاہی خاندان اور ان کو عوام پر بے مہار چھوڑنا،
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری
جمہوریت کے اس دور میں اور تو جو کچھ ہے وہ تو اب عوام کو بھگتنا ہی پڑے گا اور بھگت رہے ہیں۔ اتنے سارے شاہی خاندانوں کے سفید ہاتھی پالنا کوئی خالہ جی کا گھر تو ہے نہیں، اس لیے جو حال عوام کا ہے وہ تو ہے ہی کہ خود کردہ را علاجے نیست لیکن اس میں سب سے زیادہ مزے بلکہ مزیدار المیے کی بات یہ ہے کہ کسی کو بھی پتہ نہیں کہ جمہوریت میں اصل حکمران کون ہوتا ہے۔ ملک لٹ جاتا ہے لیکن پتہ نہیں چلتا کہ کس نے لوٹا ہے۔ کیونکہ اس میں کمال ہی یہ ہے کہ ہر کوئی لٹ بھی رہا ہے اور ہر کوئی لوٹ بھی رہا ہے، تلواریں چلتی ہیں ،کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں لیکن تلوار چلانے والا ہاتھ دکھائی نہیں دیتا،
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
آخر کار ہم نے خود ہی تحقیق کا بِیڑا اٹھایا کہ لٹ تو سب رہے ہیں لیکن لوٹنے والا کون ہے، عوام کہتے ہیں کہ حکومت نے ہمیں لوٹ لیا، حکومت کہتی ہے کہ منتخب نمایندوں نے مجھے لوٹ لیا، منتخب نمایندے کہتے ہیں کہ الیکشنوں اور طرح طرح کے مطالبوں سے عوام ہمیں لوٹتے ہیں، ایک ایک وٹ کی بھاری قیمت وصول کرتے اور پھر کرتے ہی رہتے ہیں، اربوں کھربوں روپے کے ہندسے ادھر ادھر ہوتے ہیں، ٹیکس لگا لگا کر اور نرخ بڑھا بڑھا کر ایک ایک پیسہ کھینچ لیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی سودی قرضے لے لے کر گزارہ کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی بھوک ہے کہ مانتی نہیں جسے دیکھو رو رہا ہے کہ میں تو بھوک سے مر رہا ہوں، آخر یہ اتنا کھربوں کھرب روپیہ جاتا کہاں ہے۔
سبزہ و گل کہاں پہ ''جاتا'' ہے
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
بڑی تحقیق جستجو اور عرق ریزی کے بعد ہم نے پتہ چلا ہی لیا کہ جمہوریت میں اصل چور کون ہوتا ہے، ویسے تو اس چور کے بے شمار نام ہیں مڈل مین، بیچ کا آدمی، کمیشن ایجنٹ اور نہ جانے کیا کیا، لیکن اس کا اصل اور خاندانی نام ''دلال'' ہے، لیکن چونکہ اس نام کے پہلے تین حروف ملا کر ایک بڑا خطرناک مرکب بناتے ہیں جو اکثر دھماکے کا باعث بن جاتا ہے، مطلب یہ کہ ان سے ایک بڑی ہی کثیرالاستعمال اور ملٹی پرپز قسم کی گالی بنتی ہے اس لیے مناسب یہ سمجھا گیا کہ اسے بے شمار دوسرے القاب اور آداب سے یاد کیا جائے، چونکہ یہ ہمہ صفت موصوف ہے اس لیے اس کے ناموں اور عرفیتوں کا کوئی شمار ہی نہیں، حالانکہ اس کے بڑے بھائی کے نام صرف تین ہیں
مایا تیرے تین نام
پرسا، پرسو، پرس رام
تاریخ میں اس کا پہلا سراغ کسی تاریخ یا جغرافیے کی کتاب میں نہیں بلکہ ایک کہانی میں ملتا ہے، جب یہ ایک بادشاہ کا دربان ہوا کرتا تھا، وہ بادشاہ بڑا سخی تھا اور ہر کسی کو کچھ نہ کچھ دیتا رہتا تھا، یوں کہئے کہ مکمل طور پر پاکستانی عوام پر گیا تھا جس طرح تمام امیروں، کبیروں، وزیروں، فقیروں، سفیروں سب کو آج کل یہ دیتا ہے اسی طرح وہ بادشاہ بھی تھا بلکہ ایک مورخ کا تو کہنا ہے کہ پاکستانی عوام دراصل اسی بادشاہ کی نسل سے ہیں جو دینا جانتا تھا اور لینا جانتا ہی نہ تھا بلکہ پاکستانی عوام ہی کی طرح وہ بھی ٹنڈا تھا صرف ''اوپر والا'' ایک ہاتھ رکھتا تھا نیچے والا ہاتھ اس کے تھا ہی نہیں
ہم تو جانیں سیدھی بات
اوپر والا ایک ہی ہاتھ
لیکن اس کا دربان صرف نیچے والے ہاتھ کا مالک تھا چنانچہ وہ کسی کو بادشاہ تک پہنچنے سے پہلے ہی یہ منوا لیتا تھا کہ آدھا انعام اسے دینا ہو گا لیکن ایک دن سیر کو سوا سیر مل گیا ایک سیدھا سادا پاکستانی عوام کی طرح لگنے والا شخص بادشاہ سے ملنا چاہتا تھا، دراصل وہ بادشاہ کو اپنے کھیت کا خربوزہ پیش کرنا چاہتا تھا۔ دربان نے سوچا، اس سادہ لوح دیہاتی کو ذرا جم کر لوٹنا چاہیے چنانچہ شرط رکھی کہ جو بھی انعام بادشاہ کی طرف ملے گا، اس کا 2/3 مجھے دینا ہو گا، دیہاتی مان گیا بادشاہ نے دیکھا کہ ایک شخص کتنی دور سے چل کر اس کے لیے خربوزہ لایا ہے تو خوش ہو کر بولا ۔۔۔ مانگ کیا مانگتا ہے ۔۔۔ دیہاتی نے کہا حضور مجھے دو سو گھونسے اور ایک سو لاتیں نقد عطا فرما دیجیے، بادشاہ نے بہت سمجھایا لیکن دیہاتی نہیں مانا اور یہی انعام لینے پر مصر رہا، بادشاہ نے کہا ٹھیک ہے اور ملازم کو حکم دیا کہ اسے دو سو گھونسے اور ایک سو لاتیں سکہ رائج الوقت میں فوری طور پر ادا کر دیے جائیں، اس کام کے لیے مخصوص ملازم نے جب آستیں چڑھا کر تعمیل کی تیاری شروع کی تو دیہاتی بولا ، حضور ذرا ٹھہریئے، اس انعام میں میرا ایک اور حصہ دار بھی ہے اور دربان کو بلانے کے لیے کہا۔
اگر غم لشکر انگیزد کہ خون عاشقاں ریزد
من و ساقی بہم سازیم و بنیادی بر اندازیم
بادشاہ کے پوچھنے پر دیہاتی نے جب سارا ماجرا بتا دیا تو بادشاہ نے انعام کی ''رقم'' بڑھا کر دگنی کر دی اور ساری کی ساری دربان کو ادا کرنے کا حکم دیا، دیہاتی کو اس کے حصے کے بدلے میں ایک تگڑی سی رقم دلائی، ظاہر ہے کہ اس دربان جس کا نام دلال تھا کا اب دربار میں رہنا ممکن نہیں تھا اس لیے دربار کے ساتھ ساتھ اس ملک کو بھی لات مار کر عازم سفر ہوا۔ پھرتا پھراتا آخر کار وہ پاکستان پہنچا، یہ ملک اتنا پسند آیا کہ یہیں کا ہو لیا ۔۔۔ شادی کی جلوہ کثرت اولاد دکھانے لگا، اور اپنی نسل سے اس سرزمین کو بھرنے لگا، اب یہاں یہ جو ایجنٹ آڑھتی، سودا کار کمیشن ایجنٹ اور اتنے پرسنٹ والے لوگ پائے جاتے ہیں، یہ اسی کی اولاد میں سے ہیں اور اپنے اسی پرانے کاروبار سے منسلک ہیں جس کا بنیادی اصول ہے کہ نہ کچھ کرو نہ کچھ لگاؤ اور سب سے زیادہ کھاؤ، بیچنے والا کوئی اور ہوتا ہے خریدنے والا بھی کوئی اور ہوتا ہے لیکن بیچ میں یہ ان دونوں سے زیادہ کما لیتا ہے کاشت کار کھیت میں اگاتا ہے عوام خرید کر کھاتے ہیں لیکن دونوں روتے ہیں کیوں کہ سب کچھ یہ بیچ والا کھا جاتا ہے،
گویا منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے، لیکن یہ بات بہت کم لوگ کو معلوم ہو گی کہ ایجنٹ کمپنی، دلال، آڑھتی کہلانے والے تو ظاہر ہیں لیکن ایسے بھی بہت سارے لوگ یہ دھندہ کرتے ہیں جن کا ان میں سے کوئی نام نہیں ہوتا، مثلاً لیڈر بھی عوام اور حکومت کے درمیان یہی کام کرتا ہے اور بہت سارا فنڈ کماتا ہے لیکن اسے دلال یا ایجنٹ کے بجائے رہبر و رہنماء کا نام دیا جاتا ہے ایک اور لوگ ہیں جن کا نام تو ہم نہیں لے سکتے کیوں کہ دین و دل دونوں کا خطرہ ہے لیکن کام بتا سکتے ہیں اور کام ہے جنت دلانا،
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لیے