سانحہ اے پی ایس پشاورمیں اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹراما سینٹر کے قیام کا وعدہ پورا نہ ہوسکا
اعصابی صدمے سے نکالنے کے وعدوں کے باوجود لواحقین اپنی مدد آپ کے تحت اس کوجھیل رہے ہیں، کئی صدمے سے باہر نہ آ سکے
لاہور:
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب خیبر پختونخوا دہشت گردوں کی سرگرمیوں کا گڑھ تھا، اور پھر 16 دسمبر 2014 ء میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کی ہولناکی نے گزشتہ تمام سانحات کو مات دے دی۔
سفاک دہشت گردوں کے ایک گروپ نے اسکول میں داخل ہو کر اساتذہ اور طلبا پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں 140 جانیں لقمہ اجل بنی، اس سانحہ کے صدمے نے نہ صرف کے پی کو بلکہ پورے پاکستان کو اپنی گرفت میں لے لیا،پشاوربھر کی مساجد سے چھوٹے تابوت میں جنازے اٹھنے اور لواحقین کو دلاسا دینے کے مناظر عام دکھائی دیتے تھے۔
پشاور کی تاریخ میں یہ ہولناک سانحہ تھا،تاہم سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد جلد ہی شہر اور ملک نے دہشتگردی کے خلاف جنگ جیت لی،مگر مذکورہ سانحہ کے زخم آج بھی تازہ اور جذبات مجرو ح ہیں،سانحہ اے پی ایس نہ صرف شہدا کے لواحقین کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا بلکہ ان تمام پاکستانیوں کے بھی جنہوں نے اس کی ہولناکی ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھی، اس اعصابی صدمے سے نکالنے کے حکومتی وعدوں کے باجود لواحقین اپنی مدد آپ کے تحت خاموشی سے اس کو سہہ رہے ہیں اور بعض تو تاحال صدمے سے باہر نہیں آ سکے۔
اے پی ایس حملے کے بعد حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ پشاور میں سٹیٹ آف دی آرٹ ٹراما سنٹر قائم کیا جائے گا،مگر دیگر وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی پورا نہ ہوا،صدمے سے دوچار لواحقین کیلئے مدد غیر متوقع اطراف سے آئی، صحافیوں، روحانی رہنما،اساتذہ اور ڈاکٹروں پر مشتمل رضاکاروں کی فوج اس حملے میں زندہ بچ جانے والوں، شہدا کے لواحقین اور ہر وہ شہری جو اس سانحہ سے جذباتی طور پر متاثر ہوا اسے نفسیاتی مدد فراہم کر رہی ہے۔
کنسلٹنٹ سکائٹرسٹ ڈاکٹر خالد مفتی نے بتایا کہ سانحہ اے پی ایس سے بلاواسطہ اور بالواسطہ 150متاثرہ افراد کا نفسیاتی علاج کر چکے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد پاک فوج نے ملک سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا مگر اے پی ایس حملے کی ہولناکی سے گزرنے والے پشاور کے باسیوں کو نفسیاتی مدد کی ضرورت ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب خیبر پختونخوا دہشت گردوں کی سرگرمیوں کا گڑھ تھا، اور پھر 16 دسمبر 2014 ء میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کی ہولناکی نے گزشتہ تمام سانحات کو مات دے دی۔
سفاک دہشت گردوں کے ایک گروپ نے اسکول میں داخل ہو کر اساتذہ اور طلبا پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں 140 جانیں لقمہ اجل بنی، اس سانحہ کے صدمے نے نہ صرف کے پی کو بلکہ پورے پاکستان کو اپنی گرفت میں لے لیا،پشاوربھر کی مساجد سے چھوٹے تابوت میں جنازے اٹھنے اور لواحقین کو دلاسا دینے کے مناظر عام دکھائی دیتے تھے۔
پشاور کی تاریخ میں یہ ہولناک سانحہ تھا،تاہم سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد جلد ہی شہر اور ملک نے دہشتگردی کے خلاف جنگ جیت لی،مگر مذکورہ سانحہ کے زخم آج بھی تازہ اور جذبات مجرو ح ہیں،سانحہ اے پی ایس نہ صرف شہدا کے لواحقین کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا بلکہ ان تمام پاکستانیوں کے بھی جنہوں نے اس کی ہولناکی ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھی، اس اعصابی صدمے سے نکالنے کے حکومتی وعدوں کے باجود لواحقین اپنی مدد آپ کے تحت خاموشی سے اس کو سہہ رہے ہیں اور بعض تو تاحال صدمے سے باہر نہیں آ سکے۔
اے پی ایس حملے کے بعد حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ پشاور میں سٹیٹ آف دی آرٹ ٹراما سنٹر قائم کیا جائے گا،مگر دیگر وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی پورا نہ ہوا،صدمے سے دوچار لواحقین کیلئے مدد غیر متوقع اطراف سے آئی، صحافیوں، روحانی رہنما،اساتذہ اور ڈاکٹروں پر مشتمل رضاکاروں کی فوج اس حملے میں زندہ بچ جانے والوں، شہدا کے لواحقین اور ہر وہ شہری جو اس سانحہ سے جذباتی طور پر متاثر ہوا اسے نفسیاتی مدد فراہم کر رہی ہے۔
کنسلٹنٹ سکائٹرسٹ ڈاکٹر خالد مفتی نے بتایا کہ سانحہ اے پی ایس سے بلاواسطہ اور بالواسطہ 150متاثرہ افراد کا نفسیاتی علاج کر چکے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد پاک فوج نے ملک سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا مگر اے پی ایس حملے کی ہولناکی سے گزرنے والے پشاور کے باسیوں کو نفسیاتی مدد کی ضرورت ہے۔