قومیں سانحات سے سیکھتی ہیں

ہمیں بھی سانحہ مشرقی پاکستان، سانحہ اے پی ایس اور دیگر سانحات کو اپنی ترقی کا زینہ بنانا ہوگا

16 دسمبر، سانحہ اے پی ایس قوم کے لیے سیاہ ترین دن ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سانحات یقینی طور پر کسی بھی معاشرے کو، ملک، ریاست یا خطے کو ایک لمحے کےلیے جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ 6 اگست کا دن اور سال 1945 جاپان کو ہلا کر رکھ گیا۔ 6 اور 9 اگست کو پے درپے ہونے والے ایٹمی حملوں کے بعد کسی کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ جاپان دنیا میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے راج کرے گا۔ آج بھی آپ کو مارکیٹ میں ایک ہی چیز مختلف کوالٹی کی میسر آتی ہے اور اگر وہی چیز جاپانی کوالٹی میں میسر آجائے تو خریدار خوشی سے چھلانگیں لگاتا ہے کہ اس کی کوالٹی سب سے بڑھ کر ہوگی۔ کمپوٹر ٹیکنالیوجی، کمپوٹر مصنوعات، الیکٹرانک مصنوعات، گاڑیوں کی صنعت، ہر لحاظ سے جاپان کے نام کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا ہے۔ چینی مصنوعات کی فراوانی کے باوجود جاپانی مصنوعات پائیداری میں ایک الگ مقام رکھتی ہیں۔

ایسا کیوں کر ممکن ہوا؟ 1945 کے سانحے کے بعد جاپان نے تمام تنازعات سے خود کو الگ تھلگ کرلیا اور اپنی معیشت کو دنیا میں مقام دلانے کا تہیہ کرلیا۔ اور آج ہم جاپان کو ایک صنعتی طاقت کے طور پرر جانتے ہیں۔ ایک سانحے سے ہی جاپانی قوم نے سبق سیکھا اور ایک سانحے کو ہی ترقی کا راستہ بنالیا۔ جرمنی لگژری گاڑیوں کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ لیکن کیا آپ اس سانحے کو جرمنی کی تاریخ سے نکال سکتے ہیں کہ جس نے مشرقی و مغربی جرمنی کو الگ کردیا؟ اور پھر دنیا میں ترقی کا استعارہ دیوارِ برلن کے ختم ہونے کے بعد بن گیا۔ دنیا کسی بھی رونما ہونے والے سانحے کے بعد اپنے لیے نئی راہیں متعین کرتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ وہ ترقی کی نئی منازل طے کرے۔

ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن اگر 16 دسمبر کو کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ کیوں کہ سقوط ڈھاکہ بھی اسی دن ہوا اور سانحہ اے پی ایس بھی اسی دن رونما ہوا۔ لکھاری تھکتے جارہے ہیں، نقاد کہتے ہیں کہ لکھا کم جانے لگا ہے ہمارے سانحات پر۔ عرض اتنی سی ہے کہ کیا لکھا جائے؟ کس قلم و روشنائی سے لکھا جائے کہ یہ قوم اس کو اپنا سفر بنا لے؟

سانحہ سقوط ڈھاکہ کو کئی دہائیاں گزر چکی ہیں۔ کیا ہم نے اس سانحے سے سبق سیکھا؟ کیا ہم نے یہ سوچنا گوارا کیا کہ سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش کیوں آیا؟ اس دور کے چشم دید گواہ بھی اس پر لکھتے رہے۔ اور سینہ بہ سینہ سنائی جانے والی داستانوں کے امین بھی اس پر لکھتے رہے۔ لیکن کیا ہمارے کانوں پر جوں تک بھی رینگی؟


آج بلوچستان کے حالات کیا ہیں؟ بظاہر بہتری کی نوید ہے لیکن کچھ پتا نہیں کہ یہ آتش فشاں پھر کب لاوا اگلنے لگے۔ پنجاب کو بڑا بھائی کہہ کہہ کر دیگر صوبوں کی نظر میں اس کا مقام کیا کردیا گیا ہے؟ یہ ایک ایسا کھلا راز ہے جو آج زباں زدِ عام ہے۔ صوبہ سندھ کے حوالے سے صورت حال کو حوصلہ افزا کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہاں کے حاکم، جن کے الفاظ نعرے بن جاتے ہیں، تعصب کی عینک اتارنے کو تیار نہیں ہیں۔ خیبرپختونخوا کے حالات کسی طور بہتری کا اشارہ دے رہے ہیں۔ لیکن بطور مجموعی دیکھیے، کیا ہم نے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے سبق سیکھتے ہوئے صوبائی اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کےلیے مناسب اقدامات کیے؟ وسائل کی تقسیم پر اٹھنے والے سوالات پر کیا ہم خاطر خواہ جواب دے پائے۔ چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم کرنے کےلیے ہم وقتاً فوقتاً امدادی پیکیج کے اعلانات تو کرتے رہتے ہیں لیکن کیا ان صوبوں کے عوام کے دل حقیقی معنوں میں ہم مطمئن کرپائے ہیں؟ کیا آج ہم پاکستان میں کہہ سکتے ہیں کہ وفاق مضبوط ہے؟ کوئی شک نہیں کہ پاکستان قیامت تک قائم رہنے کےلیے بنا ہے۔ لیکن ہم تو 16 دسمبر 1971 سے پہلے بھی یہی کہتے تھے کہ کوئی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ ہم فقط نعرے لگاتے رہے اور دشمن ایسا وار کرگیا کہ جس کا زخم ناسور بن کر آج تک رِس رہا ہے۔ سانحہ درپیش ہوا، لیکن اس سانحے کو ترقی کی منزل تک پہنچنے تک کا راستہ بنانے سے ہم آج تک قاصر ہیں۔

سانحہ اے پی ایس، یہ بھی 16 دسمبر، یعنی یوم سیاہ بھی سیاہ ترین ہوگیا۔ کچھ لمحے کےلیے محسوس ہوا کہ پوری قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہوگئی ہے۔ اور شکر ادا کیا جانے لگا کہ اب تمام قومی معاملات باہمی اتفاق رائے سے طے کیے جانے لگیں گے۔ باہمی اختلافات، دلوں کا بغض، اجتماعی نفاق کو پس پشت ڈال کر ملک کی ترقی اہم جان لی جائے گی۔ لیکن اس سانحے سے بھی ہم سبق نہ سیکھ سکے۔ اور کچھ وقت کے بعد وہی بیانات، وہی بیانیے، وہی 'تو چور، میں چور' کی گردان، 'نہیں چھوڑوں گا، جانے نہ پائے' کی پکار۔ 'تم کرپٹ میں ایماندار' کے نعرے سنائی دینے لگے۔ جس سیاسی بصیرت کی توقع ہم سے سانحہ اے پی ایس کررہا تھا، وہ ہم نے وقتی اُبال کے طور پر دکھائی لیکن طویل المدتی پلان کے مطابق ہم اس پر نہیں چل سکے۔ اور آج حالات آپ کے سامنے ہیں۔ ملکی ترقی کے بجائے کہیں ایک دوسرے کو چور ثابت کرنے کی کوششیں ہیں تو کسی جگہ اپنی ایمانداری کی تاویلیں دی جارہی ہیں۔ کوئی راگ الاپ رہا ہے ملک سے اپنے خلوص کا اور کسی کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان اٹھائے جارہے ہیں۔

ہم نے بطور قوم سانحات پر صرف آنسو بہائے ہیں۔ کسی بھی سانحہ پر وقتی بین ڈالے ہیں اور کچھ ساعتوں بعد ہم نے ان سانحات سے حاصل ہونے والے اسباق ایسے بھلا دیے جیسے یہ سانحات کبھی ہوئے ہی نہیں۔ ہماری تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے ہر سانحے کو چاہے وہ 16 دسمبر کا ہو یا 8 اکتوبر کا، سقوط ڈھاکہ کا ہو یا سانحہ اے پی ایس، ہم نے ہر سانحے کو وقتی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش ضرور کیا اور عارضی فیصلے بھی کیے۔ لیکن ہم مستقبل کو سنوارنے کےلیے فیصلہ سازی نہیں کرپائے۔ اور کیسے مستقبل میں عالمی دنیا میں اپنا مقام پیدا کرپائیں، یہ کسی سانحے کے بعد ہم نے مستقل بنیادوں پر اپنی پالیسی کا حصہ نہیں بنایا۔

قومیں سانحات سے سیکھتی ہیں۔ جاپان ہو یا ترکی، سانحات کے بعد قومیں اپنی ترقی کا راستہ خود طے کرتی ہیں۔ وہ دنیا کو بتاتی ہیں کہ ہم نے ایک لڑکھڑا جانے والے قدم کے بعد ترقی کی وہ رفتار حاصل کرلی ہے کہ اب حقیقی معنوں میں کوئی میلی آنکھ اٹھا کر ہمیں نہیں دیکھ سکتا۔ ہمیں بھی سانحہ مشرقی پاکستان، سانحہ اے پی ایس اور دیگر سانحات کو اپنی ترقی کا زینہ بنانا ہوگا۔ ورنہ آنے والا دور بہت کٹھن ہوجائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story