افغانستان سے 4 ہزار امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان
امریکی فوجیوں کے انخلا اور ان کی تعداد میں کمی ہونے کے باعث القاعدہ اور داعش خراساں جیسے گروپس دوبارہ سر اٹھاسکتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ افغانستان سے چار ہزار امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان جلدکرنے والی ہے۔ افغانستان کی جنگ برسہا برس سے جاری ہے جس میں اب تک فریقین کا بہت زیادہ جانی ومالی نقصان ہوچکا ہے۔اس جنگ میں تقریباً ایک لاکھ ستاون ہزار افراد کی ہلاکت اور نہ ختم ہونے والی جنگ کی دلدل سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نکلنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے 2016 کی صدارتی مہم کے دوران افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا وعدہ کیا تھا اور اس وعدے کو ایفا کرنے کے لیے وہ طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا ڈول بھی ڈال چکے ہیں۔ طویل عرصے سے مذاکرات ہورہے ہیں جن میں بار بار رخنہ بھی پڑ جاتا ہے اور یہ تعطل کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جب کہ امریکی صدر اسی تناظر میں حکومت پاکستان کی مدد بھی لے رہے ہیں۔
ایک خیال یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکی فوجیوں کے انخلا اور ان کی تعداد میں کمی ہونے کے باعث القاعدہ اور داعش خراساں جیسے گروپس دوبارہ سر اٹھا سکتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ مقامی افغان فورسز دہشتگردی کے عفریت پر قابو پاسکیں گے؟ نیویارک ٹائمز نے اس سے قبل اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ افغانستان میں امریکا کے بڑے اہداف میں سے ایک ہزاروں افغان فوجیوں کو تربیت دینا تھا اور اس ہدف کے حصول کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں۔
پاکستان چاہتا ہے کہ خطے میں امن کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے امریکا کو سنجیدگی سے کوششیں کرنی چاہیئیں تاکہ طالبان جنگ بندی کے معاہدے پر راضی ہوجائیں تو پاکستان بھی ایک محفوظ ملک بن جائے گا اور خطے میں دہشتگردی بھی ختم ہوجائے گی۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خلاف مواخذے کی منظوری کو ناانصافی قرار دیتے ہوئے ڈیموکریٹ پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
امریکی ایوان نمایندگان کی جوڈیشری کمیٹی نے جمعہ کو صدر ٹرمپ پر لگائے گئے دو الزامات کی منظوری دی تھی، جن میں طاقت کا غلط استعمال اورکانگریس کی راہ میں رکاوٹ بننا شامل ہے۔ ان الزامات کے تحت صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک پر ایوان نمایندگان میں اگلے ہفتے ووٹنگ ہوگی۔ ٹرمپ کو ایک طرف افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کا معاملہ درپیش ہے تو دوسری طرف مواخذے کی تحریک، ان دونوں چیلنجزسے وہ کیسے نمٹتے ہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
انھوں نے 2016 کی صدارتی مہم کے دوران افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا وعدہ کیا تھا اور اس وعدے کو ایفا کرنے کے لیے وہ طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا ڈول بھی ڈال چکے ہیں۔ طویل عرصے سے مذاکرات ہورہے ہیں جن میں بار بار رخنہ بھی پڑ جاتا ہے اور یہ تعطل کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جب کہ امریکی صدر اسی تناظر میں حکومت پاکستان کی مدد بھی لے رہے ہیں۔
ایک خیال یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکی فوجیوں کے انخلا اور ان کی تعداد میں کمی ہونے کے باعث القاعدہ اور داعش خراساں جیسے گروپس دوبارہ سر اٹھا سکتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ مقامی افغان فورسز دہشتگردی کے عفریت پر قابو پاسکیں گے؟ نیویارک ٹائمز نے اس سے قبل اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ افغانستان میں امریکا کے بڑے اہداف میں سے ایک ہزاروں افغان فوجیوں کو تربیت دینا تھا اور اس ہدف کے حصول کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں۔
پاکستان چاہتا ہے کہ خطے میں امن کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے امریکا کو سنجیدگی سے کوششیں کرنی چاہیئیں تاکہ طالبان جنگ بندی کے معاہدے پر راضی ہوجائیں تو پاکستان بھی ایک محفوظ ملک بن جائے گا اور خطے میں دہشتگردی بھی ختم ہوجائے گی۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خلاف مواخذے کی منظوری کو ناانصافی قرار دیتے ہوئے ڈیموکریٹ پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
امریکی ایوان نمایندگان کی جوڈیشری کمیٹی نے جمعہ کو صدر ٹرمپ پر لگائے گئے دو الزامات کی منظوری دی تھی، جن میں طاقت کا غلط استعمال اورکانگریس کی راہ میں رکاوٹ بننا شامل ہے۔ ان الزامات کے تحت صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک پر ایوان نمایندگان میں اگلے ہفتے ووٹنگ ہوگی۔ ٹرمپ کو ایک طرف افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کا معاملہ درپیش ہے تو دوسری طرف مواخذے کی تحریک، ان دونوں چیلنجزسے وہ کیسے نمٹتے ہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔