سیاسی ڈیڈلاک ختم کرنے کیلئے قومی ڈائیلاگ کرنا ہوں گے

ماہرین امور خارجہ و سیاسی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

ماہرین امور خارجہ و سیاسی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

ملک کو اس وقت بے شمار چیلنجز درپیش ہیں جن میں ایک بڑا مسئلہ سیاسی صورتحال ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتی جارہی ہے بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ اس وقت ملک سیاسی بحران سے دوچار ہے اور سیاسی جماعتوں و اداروں کے درمیان ایک ڈیڈلاک موجود ہے جس کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے بصورت دیگر خدانخواستہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔

ملکی معاملات کو دیکھتے ہوئے ''موجودہ سیاسی صورتحال'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات
(ماہر امور خارجہ و سیاسی تجزیہ نگار )

ہم چاروں ایک بات پر متفق ہیں کہ ملک میں ایک سیاسی ڈھانچہ ہونا چاہیے جو واقعی سیاسی ہو۔ اس سیاسی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے سیاسی عمل ہونا چاہیے جسے سیاسی جماعتیں چلاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں ہر چیز کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر لگا دیا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کمزور ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں موروثی لمیٹڈ کمپنیاں ہیں جن کی وجہ سے سیاسی نظام میں خلاء پیدا ہوا ہے جس کا فائدہ دوسری منظم قوتیں اٹھاتی ہیں اور اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ترکی میں بھی اسی قسم کے مسائل تھے مگر جب وہاں کی ایک سیاسی حکومت نے اچھی کارکردگی دکھائی تو اس نے فوج کے لیے راستہ بند کردیا اور پھر عوام نے فوجی بغاوت کی کوشش بھی ناکام بنا دی۔ ہمارے لیے 1973ء کا آئین اسٹیبلشمنٹ ہے لہٰذا اس کے گرد ہی سب کچھ گھومنا چاہیے اور کسی ادارے کو الزام نہیں دینا چاہیے۔ عدم اعتماد کی باتیں ہورہی ہیں ، یہ آسان نہیں ہے۔

آئین کہتا ہے کہ اس کے لیے ایک تہائی اکثریت اور متبادل امیدوار چاہیے۔ میرے نزدیک اس پر اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق مشکل ہے لیکن اگر اتفاق ہو بھی جائے تو اراکین اسمبلی جن کے آپس میں اختلافات ہیں وہ کیسے ایک ہی امیدوار کو ووٹ دیں گے لہٰذا مجھے عدم اعتماد کی تحریک ناممکن نظر آرہی ہے۔

حکومت 5 برس کیلئے منتخب ہوئی ہے لہٰذا اسے وقت پورا کرنے دیں ، عوام خود ہی فیصلہ کر لیں گے۔ حکومت کو ہٹانے یا قومی اسمبلی میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں مگر صوبائی اسمبلیوں کی کوئی بات نہیں کر رہا، سوال یہ ہے کہ ان کا کیا ہوگا؟ کیا وہاں بھی ایسا ہی کیا جائے گا یا انہیں چلنے دیا جائے گا؟پاکستان اپنے اندرونی معاملات میں جکڑا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بھارت نے کشمیر کے حوالے سے قانون سازی کی تو ہم اس پر ویسا ردعمل نہیں دے سکے۔ آج کل ایک مطالبہ یہ بھی آرہا ہے کہ طلبہ تنظیموں کو بحال کیا جائے۔

اس کے پیچھے سوچ یہ ہے کہ اگر واقعی سیاسی جماعتیں بنانی ہیں تو نوجوانوں کو لیڈرشپ کا تجربہ ہوگا۔ ماضی میں طلبہ تنظیموں کو سیاسی جماعتوں نے قابو کرلیا جس سے تعلیم ختم ہوگئی اور وہ پریشر گروپ بن گئے۔ امریکا میں کوئی طلبہ یونین نہیں بلکہ وہاں نوجوانوں کی مختلف سوسائٹیز ہیں جن کے صدر و دیگر عہدیدار منتخب کیے جاتے ہیں اور وہ مختلف کام کرتے ہیں۔ میرے نزدیک ہمیں بھی اسی طرز پر آگے چلنا چاہیے، اس سے نئی قیادت بھی پیدا ہوگی۔ معاشرے میں تصادم و تضاد ہوتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ مسائل حل کرلیے جاتے ہیں۔

ایسا کوئی معاشرہ نہیں ہے جس میں مسائل نہیں رہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں پہلے بھی اختلاف رہا ہے مگر اس کے باوجود 18 ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ منظور ہوئے۔ صوبوں کو اختیارات دیے گئے اور تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر کام کیا۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے بھی بے شمار مسائل تھے۔

وسائل کی تقسیم آبادی کے لحاظ سے تھی، بلوچستان کا مطالبہ تھا کہ یہ تقسیم غربت کی بناء پر ہو، سندھ ریونیو جبکہ خیبرپختونخوا توانائی کی بنیاد پر تقسیم چاہتا تھا لہٰذا سیاسی جماعتوں نے اس پر اتفاق رائے قائم کیا اور پنجاب نے سمجھوتہ کیا کہ آبادی کے بجائے تمام مطالبات کو مان کر ان کے مطابق وسائل کی تقسیم کر دی جائے۔ موجودہ تناؤ کی وجہ سے ملک کو شدید نقصان ہورہا ہے۔ افسوس ہے کہ آج جتنا تناؤ ہے ماضی میں کبھی نہیں رہا۔ کشمیر کے معاملے پر ہمارے اندرونی مسائل کی وجہ سے نقصان ہوالہٰذا بھارت کوجو مضبوط ردعمل دینا چاہیے تھا ہم وہ نہیں دے سکے۔

حکومت کو چاہیے کہ سیاسی درجہ حرارت کم کرے، احتساب کا کام اداروں کو کرنے دے اور خود گورننس پر توجہ دے۔ اگر عمران خان ناکام ہوئے تو ملک کا نقصان ہوگا کیونکہ اس ملک میں کوئی متبادل نہیں ہے بلکہ قیادت کا فقدان ہے۔ یہ نظام جیسا بھی ہے اس کو چلنے دیں اور 5 برس بعد سوال کریں۔

بیگم مہناز رفیع
( سابق رکن قومی اسمبلی ومعروف سماجی رہنما)

قائد اعظمؒایک الگ وطن کے قیام میں کامیاب تو گئے مگر آزادی سے کچھ دیر پہلے ہی یونینسٹ پارٹی مسلم لیگ میں ضم ہوگئی کیونکہ سب کو نظر آرہا تھا کہ پاکستان بن جائے گا۔ اس طرح مسلم لیگ کی اصل سوچ جس بنیاد پر وہ پاکستان بنانا چاہتے تھے، دب کر رہ گئی۔ یونینسٹ پارٹی کا مقصد تو اقتدار حاصل کرنا تھا نہ کہ سیاست کرنا یا ملک کو آگے لے کر چلنا تھا۔ آج بھی کچھ اسی قسم کے حالات ہیں۔ بدقسمتی سے اس جمہوری ملک میں سب کچھ ہورہا ہے مگر صرف سیاست نہیں ہورہی۔

ہر شخص اختیار حاصل کرکے کمانا چاہتا ہے، مفاد پرستی غالب آگئی ہے اور ان کیلئے پاکستان معنی نہیں رکھتا بلکہ یہ تو ایک زمین کا ٹکڑا ہے جہاں مفاد پرستوں کے درمیان لڑائیاں ہورہی ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہی رہی ہے کہ ہم نہ تو سیاست کر سکے اور نہ ہی سیاست سمجھ سکے۔ عمران خان سے لوگوں کو امید تھی کہ یہ اقتدار میں آکر ملکی سیاست تبدیل کردیں گے، اسی لیے پڑھے لکھے طبقے اور تبدیلی کی سوچ رکھنے والوں نے انہیں سپورٹ کیا۔ وہ 2018ء کے انتخابات کے بعد اقتدار میں آ توگئے مگر ان کے ساتھ تو وہی لوگ ہیں جو ماضی میں اقتدار کا حصہ رہے ہیں۔

انہوں نے جب یہ محسوس کیا کہ تحریک انصاف آجائے گی تو وہ اس میں شامل ہوگئے۔ ان کے ساتھ زیادہ لوگ خوش آمدی ہیں اور جو سیاسی بصیرت رکھتے ہیں وہ ان سے کوسوں دور ہیں۔ سیاسی جماعت حکومت کی مضبوطی ہوتی ہے۔جب کسی جماعت کی حکومت بنتی ہے تو وہ جماعت عوام میں جاکر ، ان کے مسائل دیکھتی ہے اور حکومت کو بتاتی ہے کہ انہیں حل کیا جائے مگر افسوس ہے کہ یہاں حکومت ہی حکومت نظر آرہی ہے اور جماعت کہیں نہیں ہے۔ مجھے حکومت اور پارٹی کے درمیان کوئی رشتہ نظر نہیں آرہا ، یہی وجہ ہے کہ نچلی سطح تک عوام سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔

ان مسائل کی وجہ سے سسٹم کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ عمران خان میں سسٹم ٹھیک کرنے کی اہلیت ہے مگر انہیں اس کے لیے ابھی تک وہ مضبوطی نہیں ملی جو چاہیے تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سلیکٹڈ و دیگر طعنوںسے عمران خان کا غصہ بڑھ گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی ادراک ہے کہ وہ ویسا پرفارم نہیں کر پائے جیسا کرنا چاہتے تھے۔

اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ صحیح معنوں میں نہ تو حکومت کام کر پا رہی ہے اور نہ ہی ان کی جماعت۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کی سخت ضرورت تھی جو نہیں ہورہی۔ اپوزیشن کا بھی کام ہے کہ اس عمل میں شامل ہو اور قانون سازی کروائے۔ حکومت اور اپوزیشن کے ذاتی مفادات کی لڑائی سے ملک اور عوام کا نقصان ہورہا ہے۔ ہمیشہ حکومت اور اپوزیشن بیٹھ کر یہ دیکھتے ہیں کہ ملک اور عوام کیلئے کیا بہتری کر سکتے ہیں مگر یہاں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دوقبیلوں کی آپس میں جنگ چل رہی ہے۔ نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا معاملہ بھی لٹکا ہوا ہے۔

اب اگر حکومت ٹوٹ جائے تو سوال یہ ہے کہ کیا ہوگا؟ میرے نزدیک انتخابات موجودہ مسائل کا حل نہیں ہیں بلکہ اس سے مزید نقصان ہوسکتا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کمزور ہو، افغانستان کے ساتھ بھی ہمارا دوستانہ ماحول نہیں ہے۔ ہمارے چیلنجز بے شمار ہیں لہٰذا ہمیں سنجیدہ سیاست کرنی چاہیے۔

اس کیلئے حکومت اور اپوزیشن اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں اور مل کر کام کریں۔ انہیں چاہیے کہ قانون سازی کریں اور ادارے مضبوط بنائیں۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ غصہ چھوڑ دیں اور بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو ایک میز پر لائیں۔پاکستان میں کسی بھی مرکزی و صوبائی حکومت نے عوام کیلئے کام نہیں کیا۔ صوبے ختم کرکے ان کی جگہ مقامی حکومتیں قائم کی جائیں اوربلدیاتی اداروں کو مضبوط کیا جائے تو بہترنتائج آسکتے ہیں۔ میرے نزدیک صوبائی نظام کے بجائے بلدیاتی نظام بنایا جائے اور اوپر صرف مرکزی حکومت موجود ہو۔ بلدیاتی نظام کو مضبوط کرنے سے مسائل موثر طریقے سے حل کیے جاسکتے ہیں۔

سلمان عابد
(دانشور)


اس وقت بنیادی مسئلہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بداعتمادی کی فضا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں بلکہ ذاتیات کی سیاست ہورہی ہے۔ اس حکومت کو منتخب ہوئے تقریباََ 16ماہ گزر چکے ہیں اور پہلے دن سے ہی اپوزیشن نے یہ کہہ کر حکومت کو تسلیم نہیں کیا کہ یہ جعلی مینڈیٹ سے آئی ہے اور سلیکٹڈ ہے۔ دوسری جانب جب حکومت یہ کہتی ہے کہ ہم کڑا احتساب کریں گے اور ان سب کو شکنجے میں جکڑا جائے گاتو اس کا بھی ردعمل نظر آتا ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے ابتداء میں ہی اس حکومت کوقبول نہ کرنے اور اسمبلیوںمیں نہ جانے کا کہا مگر اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میچورٹی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو قائل کیا کہ اسمبلیوں میں جانا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کیا جس کے پیچھے متضاد خبریں تھیں اور یہ بھی تصور کیا جا رہا تھا کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے لیکن اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔

ان کے بعد بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم اس حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے جنوری سے ملک گیر احتجاج کریں گے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) نے ایک نیا نعرہ دیا کہ ہم نئے انتخابات کی طرف جائیں گے اور موجودہ بحران سے نکلنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ اس سے پہلے یہ بھی بات سامنے آئی کہ اگر عمران خان استعفیٰ دے دیں اور اپنی جگہ کسی اور کو وزیراعظم بنا دیں تو یہ فارمولا بھی قابل قبول ہے، جسے وہ 'مائنس وَن' کہتے تھے۔ اس کے بعد اب یہ کہا گیا کہ ہم اِن ہاؤس تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے۔

اِن ہاؤس تبدیلی ایک جمہوری عمل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہم 15 ماہ میں حکومت کو بزور طاقت بھیجنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے سیاستدانوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔اتنی جلدی حکومت کو گھر بھیجنے کے منفی نتائج سیاسی و معاشی عدم استحکام کی صورت میں آئیں گے۔ بات نئے اور شفاف انتخابات کی ہورہی ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ اس کی ضمانت کون دے گا کہ آئندہ انتخابات شفاف ہونگے؟ نئے انتخابات کی باتیں تو کی جارہی ہیں مگر اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم اِن ہاؤس تبدیلی لائی جاسکتی ہے،ا س کے لیے حکومتی اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملانا ہوگا۔

جو لوگ عمران خان کے مزاج کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جس دن انہیں ایسا لگا کہ وہ اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکیں گے وہ اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کی طرف چلے جائیں گے اور کہیں گے کہ میرے خلاف سازش کی جا رہی تھی لہٰذا میں نے ایک راستہ نکال لیا ہے۔ مائنس وَن کی کوششیں نئی نہیں ہیں۔ ماضی میں جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی سے بے نظیر جبکہ جنرل(ر) پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن) سے نواز شریف کو مائنس کرنے کی کوشش کی مگر اس سے فائدہ ان شخصیات کو ہوا۔

آج بھی سیاسی جماعتیں فرد واحد پر کھڑی ہیں لہٰذا اگر عمران خان کو ہٹا کر کسی اور کو لایا گیا تو جماعت ختم ہوجائے گی لہٰذا میرے نزدیک 'مائنس ون' کے امکانات بھی نہیں ہیں۔ حالیہ ڈیڈلاک کی وجہ سے پاکستان کے انتہائی حساس معاملات کو نقصان پہنچا ہے۔ بدقسمتی سے مسئلہ کشمیر پس پست چلا گیا۔ اقوام متحدہ میں تقریر سے ہمیں تقویت ملی تھی مگر اب ہم داخلی بحران میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اگرچہ موڈیز کی رپورٹ میں معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں مگر نچلی سطح کی معیشت میں کوئی فرق نہیں آرہا اور نہ ہی عام آدمی کو کوئی ریلیف مل رہا ہے۔

بھارت نے حال ہی میں مسلمانوں کے حوالے سے جو قانون سازی کی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کس قسم کی سوچ پنپ رہی ہے۔ سی پیک کے معاملے پر امریکا، چین اور پاکستان کے درمیان مسائل نظر آتے ہیں۔ اسی طرح آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ملک میں قانون سازی نہیں ہو پا رہی اور آرڈیننس کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ اس وقت جو داخلی بحران ہے اس میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ سیاسی جماعتیں سرجوڑ کر بیٹھتی اور اپنی داخلی سیاست کو پس پشت ڈالتے ہوئے عالمی و قومی مسائل پر اتفاق رائے قائم کرتی مگر بدقسمتی سے ایسا نہیںہوا۔ حکومتیں تدبر اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرتی ہیں اور محاذ آرائی کی صورتحال پیدا نہیں ہونے دیتی مگر ہمارے ہاں اس کا الٹ ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں جارحانہ سیاست کرنا چاہتے ہیں، اس سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔ احتساب کا عمل بھی متنازعہ بنا ہوا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ بے لاگ احتساب ہوگا، وہ نظر نہیں آرہا ہے بلکہ احتساب صرف اپوزیشن کے گرد گھوم رہا ہے، عدالتیں بھی وہ فیصلے نہیں کر پارہی جس طرح کے فیصلے نیب کے ذریعے آنا چاہیے تھے۔ اس ساری صورتحال میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذاتیات کی سیاست غالب آگئی ہے۔ اپوزیشن کے سامنے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان کے لوگوں کو ریلیف دیا جائے۔ حکومت کا مسئلہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ گرفتاریاں کی جائیں اور اپوزیشن کو دیوار سے لگایا جائے۔ نواز شریف کا بیانیہ گم ہوکر رہ گیا ہے جبکہ شہباز شریف کا بیانیہ غالب ہے۔ اس وقت شہاز شریف لیڈنگ پوزیشن پر ہیں، مریم نواز باہر جانا چاہتی ہیں جس کے بارے میں حکومتی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ باہر جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس وقت ملکی سیاست میں پولرائزیشن نظر آرہی ہے اور یہ پاکستان کی سیاست ، معیشت اور سکیورٹی کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔

اس صورتحال سے فائدہ ہمارے دشمنوں کو ہوگا جو ہمیں کمزور کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کو پس پشت رکھ کر اپنے مفادات کو تقویت دینا چاہتے ہیں، جو کشمیر کے مسئلے پر ہمیں خاموش رکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مسائل گھمبیر ہوتے جارہے ہیں اور اب قیادت کا بحران پیدا ہوتا ہوا بھی نظر آرہا ہے۔ بلاول بھٹو ، احسن اقبال، خواجہ آصف، مریم اورنگزیب اور خود حکومتی وزراء جس قسم کی گفتگو کر رہے ہیںا س سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے نہیں سیکھا بلکہ اب انہیں زیادہ شدت کے ساتھ دوہرا رہے ہیں جس کا ہمیں نقصان ہوگا۔ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ عمران خان کی حکومت ڈیلور نہیں کر رہی تو میرے نزدیک یہ تو اپوزیشن کے لیے اچھا ہے کہ لوگ خود ہی 5 برس بعد ان کو خراب کارکردگی کی بنیاد پر رد کر دیں گے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی 30 برس سے اقتدار کی سیاست میں ہیں، اگر عمران خان کو اتنی جلدی اقتدار سے الگ کر دیا جائے گا تو یہ ان کے ووٹرز میں اشتعال پیدا کرے گا۔

میرے نزدیک عمران خان کو 5 سالہ کارکردگی کی بنیادی پر منتخب یا رد کرنے کا حق عوام کو دیا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست نان ایشوز میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ وزیراعظم ضرورت سے زیادہ بولتے ہیں حالانکہ حکومت کو بولنا کم اور پرفارم زیادہ کرنا چاہیے۔ ان کی گفتگو سے سیاست میں اشتعال پھیلتا ہے لہٰذا وزیراعظم کو اپنی سٹرٹیجی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ انہیں گورننس اور معیشت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ احتساب ضرور کریں، یہ ان کا حق ہے مگر ان لوگوں کو بھی اس میں شامل کریں جو حکومتی کیمپ بھی موجود ہیں تاکہ احتساب کی ساکھ بہتر کی جاسکے۔

اداروں کو ٹارگٹ کرنے سے پاکستان کی سیاست کو فائدہ نہیں ہوگا، ہمیں اچھی روایات قائم کرنی چاہئیں اور جمہوریت کو چلنے دینا چاہیے۔ اس وقت سڑکوں کی سیاست ملکی مفاد میں نہیں اور نہ ہی کسی جماعت میں اتنا دم خم ہے۔ ملک میں بحرانی کیفیت ہے۔ پاکستان کو عالمی و علاقائی چیلنجز کے حوالے سے جس بحث کی ضرورت ہے وہ پارلیمنٹ کے فلور پر نہیں ہورہی بلکہ سیاستدان داخلی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات کے پیش نظر ایک سنجیدہ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس میں تمام ادارے و سیاسی جماعتیں شامل ہوں اور نئے رولز آف بزنس قائم کیے جائیں۔

ڈاکٹر امجد مگسی
(سیاسی تجزیہ نگار )

اس وقت ملک میں مایوس کن صورتحال ہے جس کا خمیازہ عام آدمی سے لے کر پورا ملک اندرونی وبیرونی طور پر بھگت رہا ہے۔ ملکی معیشت و بھارت سے درپیش چیلنجز کے ادراک کے باجود کوئی پالیسی نہیں بنائی جاسکی جس کی زیادہ ذمہ دار موجودہ حکومت ہے کیونکہ اس نے سب کو ساتھ لے کر چلنا تھا۔

احتساب سے کوئی منع نہیں کرتا مگر اس کے بارے میں یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ شاید یہ اپنے مخالفین کو کچلنے کیلئے ہورہا ہے مگر بدقسمتی سے یہ تاثر بن گیا جس کی وجہ سے ہم اس کی آفادیت سے محروم ہوگئے۔ ہمارے سیاسی ماحول میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی اور اس احتساب کے منفی اثرات زیادہ ہوگئے۔

حکومتی وزراء کا رویہ دیکھتے ہوئے ان میں سیاسی سمجھ بوجھ کی کمی محسوس ہورہی ہے۔ سیاسی جماعتیں جس طرح چلنی چاہئیں تھی وہ نہیں چل سکی بلکہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت بھی شخصیت کے گرد گھوم گئی۔ اس کا اثر عام آدمی سے لے کر خارجہ پالیسی تک ہوا۔ پارلیمنٹ سے تمام مسائل کا حل آنا تھا اور سیاسی قوتوں نے طاقت پکڑنی تھی مگر بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے خود اپنا میدان دوسروں کے حوالے کردیا۔ پارلیمنٹ کو تو قانون سازی کرنی چاہیے تھی، اسے خارجہ پالیسی بھی بنانی تھی مگر اس حوالے سے کوئی سنجیدگی نظر نہیں آئی۔

بھارت میں مودی کے خلاف بہت ساری آوازیں ہیں مگر وہ سب کو نظر انداز کرکے قانون سازی کرتے جارہے ہیں اور اپوزیشن ہونے کے باوجود انہوں نے کشمیر و مسلمانوں کے حوالے سے بل منظور کیے ہیں۔ ہمارے لیے اہم یہ تھا کہ کس طرح ہم نے سیاسی عمل کو جار رکھنا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ماضی میں بھی جب اس طرح نظام چلانے کی کوشش کی گئی تو ہماری سلامتی پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اب بھی اگر سیاسی عمل کو مصنوعی طریقے سے چلانے کی کوشش کی گئی تو منفی نتائج آئیں گے لہٰذا سیاسی جماعتوں کو تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے قربانی کے جذبے سے آگے بڑھنا ہوگا۔جمہوریت پسند حکومت اور پارلیمنٹ ہونے کے باوجود آرڈیننس سے کام چلایا جارہا ہے، ایک دن میں 11 آرڈیننس کاسیاسی قوتوں کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے۔

چیف الیکشن کمشنرکے معاملے پر اتفاق نہیں ہوسکا بلکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں بلوچستان کا ایک بھی رکن شامل نہیں ہے ۔ وہ پہلے ہی احساس محرومی کا شکار ہیں اور اب اسمبلی کے فلور پر بلوچستان کے نمائندے یہ بات کر رہے ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہ کیا ہم اس کا حصہ نہیں ہیں؟ موجودہ حکومت کی پالیسیوں میں تسلسل نظر نہیں آرہا۔ وزیراعظم کا دورہ امریکا اور اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد کوئی 'فالو اپ' نظر نہیںآیا۔ اسی طرح کشمیر کے معاملے پر بھی جس سفارتکاری کی بات کی گئی تھی وہ نہیں ہورہی بلکہ حکومت تو اس مسئلے پر ملکی سیاسی جماعتوں کو بھی ایک پیج پر نہیں لاسکی۔اگرچہ اس حوالے سے اپوزیشن کی بھی ذمہ داری بنتی ہے مگر قدم حکومت نے اٹھانا ہوتا ہے، اسے چاہیے کہ اپوزیشن جماعتوں کو بلائے اور اتفاق رائے پیدا کرے۔

اگر اپوزیشن جماعتیں حکومتی دعوت کے بعد نہیں آئیں گی تو پھر انہیں مورد الزام ٹہرایا جاسکتا ہے۔ اس وقت نئے انتخابات کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اگر اپوزیشن کو تحفظات ہیںتو ان ہاؤس تبدیلی کی طرف جانا چاہیے۔ حکومتی وزراء کی طرف سے پارلیمنٹ میں کوئی سنجیدگی نظر آرہی، حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ جب تک پارلیمان کو مضبوط نہیں کریں گے تب تک مسائل حل نہیں ہونگے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے۔ اب پارلیمان، فوج، عدلیہ سب ہی سیاسی ماحول سے اثرانداز ہورہے ہیں۔

مودی کشمیر و دیگر حوالے سے آگے بڑھتا جا رہا ہے مگر ہم پھنسے ہوئے ہیں اور تنزلی کا شکار ہیں۔ اگست کی نسبت دسمبر میں ہمارا سیاسی ماحول زیادہ کشیدہ ہے اور سیاستدانوں میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آرہی۔اس وقت ملکی سیاست میں سموگ چھائی ہوئی ہے اور سب اس کی لپیٹ میں ہیں، سیاسی قیادت کو چاہیے کہ بیرونی و اندرونی معاملات کا ادراک کرتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، ورنہ خدانخواستہ ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔
Load Next Story