امور ریاست پر وسیع تر ادارہ جاتی اتفاق رائے کی ضرورت
اداروں کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی ملک وقوم کیلئے نقصان دہ ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں گزشتہ چند ہفتے سب سے زیادہ طلاطم خیز ثابت ہوئے ہیں ،72 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع کے معاملے پر فیصلہ دیا جبکہ گزشتہ روز خصوصی عدالت نے ایک سابق چیف آف آرمی سٹاف اور صدر مملکت جنرل(ر) پرویز مشرف کو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے جرم میں سزائے موت سنا دی ہے۔
یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ کیس میں بھی حکومت انہیں توسیع دینے کے حق میں تھی اورجنرل(ر) پرویز مشرف کے مقدمہ میں بھی حکومت نے فیصلہ موخر کرنے کی درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ وہ نئی پراسیکیوشن ٹیم کے ساتھ اس مقدمے میں مزید سماعت چاہتی ہے لیکن عدالتوں نے حکومت کی درخواست کو مسترد کیا۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری متعدد مرتبہ یہ بیان دے چکے ہیں کہ اداروں کے درمیان طاقت و اختیار کی رسہ کشی ملک و قوم کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔عوام اور قانون دانوں کی اکثریتی رائے یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مشترکہ طور پر قانون ساز ی کر کے آرمی چیف کے عہدے سے متعلقہ معاملات کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے اطمینان کے مطابق حل کر لیں گی اور سابق صدر پرویز مشرف کے فیصلے کی نظر ثانی اپیل میں بھی مثبت نتائج آنے کی توقع ہے۔ ویسے بھی پرویز مشرف کی طبیعت شدید ناساز ہے اور وہ زندگی و موت کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔
سیاسی حلقوں کو عدالتی فیصلوں کے قانونی اثرات سے کہیں زیادہ خوف سیاسی اثرات سے محسوس ہورہا ہے۔ دنیا بھر کی افواج میں ایک روایت ہمیشہ قائم رہی ہے کہ ''آرمی چیف ،چیف ہی رہتا ہے خواہ ریٹائر ہوجائے'' کیونکہ یہ عہدہ فوج کے ڈسپلن، اتحاد اور طاقت کی علامت ہوتا ہے اور اگر کوئی ریٹائرڈ آرمی چیف کچھ غلط کرے تو فوج اپنے طور پر معاملہ ہینڈل کرتی ہے ۔تحریک انصاف کی حکومت گزشتہ چند ماہ سے عدلیہ سے روٹھی ہوئی معلوم ہوتی ہے جس کی وجہ بہت سے حکومتی معاملات پر عدلیہ کے ریمارکس اور فیصلے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان خود بھی اس حوالے سے بیان دے چکے ہیں جبکہ وفاقی وزراء اور حکومتی ترجمان بھی بیانات دیتے ہیں ۔
اداروں کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی ملک وقوم کیلئے نقصان دہ ہے۔ عوام کی خواہش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ ایسی حکومت آئے جو ان کی فلاح وبہبود کیلئے بڑھ چڑھ کر کام کرے لیکن گزشتہ چار دہائیوں کے دوران عوام کو مایوسی ہی ملی ہے۔ پاکستان کی معاشی تاریخ کا جائزہ لیں تو آج ملک میں جو صنعتی ڈھانچہ دکھائی دیتا ہے اس کی بنیاد جنرل ایوب نے اپنے دورا قتدار میں رکھی تھی اور تمام معاشی ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جس قدر تیز رفتار صنعتی ترقی ایوب دور میں ہوئی اس کے بعد سے اب تک ایسی ترقی دوبارہ نہیں ہو سکی۔ جنرل(ر) ضیاء الحق کے دور میں صنعتی ترقی تو اتنی نہیں ہوئی لیکن انہوں نے اس ملک کو مذہبی جماعتوں ، ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کا ''تحفہ'' ضرور دیا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی پاکستان میں بہت معاشی ترقی ہوئی بالخصوص رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی ترقی نے معیشت کو بہت سہارا دیا۔ عوام کا مزاج بھی عجب ہے، یہ جس کے آنے پر مٹھائی بانٹتے ہیں اس کے جانے پر بھی بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ جس شام پرویز مشرف نے میاں نواز شریف حکومت کا تختہ اُلٹا تھا اس روز لاہور سمیت تمام شہروں میں مٹھائی کی دوکانیں خالی ہو گئی تھیں اور جب سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو نا اہل کر کے سزا سنائی تو اس روز بھی تحریک انصاف والوں نے مٹھائی کی دوکانوں پر یلغار کردی تھی۔
پیپلز پارٹی ہمیشہ سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہی ہے اور انہوں نے اس کی بھاری قیمت بھی چکائی ہے لیکن مسلم لیگ(ن) جو کہ گزشتہ روز سے جوشیلے بیان دے رہی ہے اس کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ اس نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے زور پر حکومتیں گرائی اور بنائی ہیں لیکن پہلی مرتبہ پرویز مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹا دیا۔ ،2013 ء کے الیکشن میں ن لیگ کو پھر سے ''سہارا'' ملا تو انہوں نے حکومت بنا لی لیکن پھرڈان لیکس اور پانامہ کیس نے تمام سہارے چھین لئے اور ن لیگ کو ''راندہ درگاہ'' قرار دے دیا گیا۔
پاکستان کی سیاست میں ''اسٹیبلشمنٹ'' ایک حقیقت اور طاقت کا محور ہے۔ اداروں کی محاذ آرائی جمہوریت کیلئے خطرناک ہوتی جا رہی ہے اورسب سے اہم یہ تاثر بھی خوف کو بڑھا رہا ہے کہ حکومت اور اسٹیبشلمنٹ کے درمیان بھی ''سب اچھا'' نہیں ہے جیسا ظاہر کیا جا رہا ہے۔گزشتہ روز کا فیصلہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس کے سیاسی اثرات بہت گہرے ہوں گے۔
عوام بھی آمریت سے نفرت کرتے ہیں لیکن انہیں جمہوریت سے بہت شکوے شکایات بھی ہیں۔ اگر سیاستدان حقیقی معنوں میں عوام کے مسائل کے حل اور ملک کی ترقی کیلئے نیک نیتی اور سنجیدگی سے کام کریں تو پھر نہ تو آمر آئیں گے اور نہ ہی عوام انہیں ویلکم کریں گے۔
بدقسمتی سے گزشتہ تین یا چار دہائیوں کے دوران برسر اقتدار آنے والی جمہوری حکومتیں ڈیلیور کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔موجودہ حکومت کی صورت میں عوام کو ایک نئے جمہوری آپشن کی صورت میں اُمید دکھائی دے تھی لیکن 16 ماہ کے دوران یہ حکومت بھی ناکام ثابت ہوئی ہے اور عوام حکومت سے شدید نالاں ہیں کیونکہ ریڑھی والے سے لیکر صنعتکار تک ہر ایک ''الامان،الامان''پکار رہا ہے اور عوام شدید ترین معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاور گیم کے تمام کھلاڑی مل بیٹھ کر''گریٹ ڈائیلاگ'' کریں اور نئے سرے سے اداروں کی حدود کا تعین کیا جائے اور جب کسی معاملے پر اتفاق رائے ہو جائے تو اس کے بعد کوئی ادارہ دوسرے ادارے کی حدود میں مداخلت نہ کرے اور اداروں کے اقدامات پر شکوک وشبہات بھی پیدا نہ ہوں۔
یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ کیس میں بھی حکومت انہیں توسیع دینے کے حق میں تھی اورجنرل(ر) پرویز مشرف کے مقدمہ میں بھی حکومت نے فیصلہ موخر کرنے کی درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ وہ نئی پراسیکیوشن ٹیم کے ساتھ اس مقدمے میں مزید سماعت چاہتی ہے لیکن عدالتوں نے حکومت کی درخواست کو مسترد کیا۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری متعدد مرتبہ یہ بیان دے چکے ہیں کہ اداروں کے درمیان طاقت و اختیار کی رسہ کشی ملک و قوم کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔عوام اور قانون دانوں کی اکثریتی رائے یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مشترکہ طور پر قانون ساز ی کر کے آرمی چیف کے عہدے سے متعلقہ معاملات کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے اطمینان کے مطابق حل کر لیں گی اور سابق صدر پرویز مشرف کے فیصلے کی نظر ثانی اپیل میں بھی مثبت نتائج آنے کی توقع ہے۔ ویسے بھی پرویز مشرف کی طبیعت شدید ناساز ہے اور وہ زندگی و موت کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔
سیاسی حلقوں کو عدالتی فیصلوں کے قانونی اثرات سے کہیں زیادہ خوف سیاسی اثرات سے محسوس ہورہا ہے۔ دنیا بھر کی افواج میں ایک روایت ہمیشہ قائم رہی ہے کہ ''آرمی چیف ،چیف ہی رہتا ہے خواہ ریٹائر ہوجائے'' کیونکہ یہ عہدہ فوج کے ڈسپلن، اتحاد اور طاقت کی علامت ہوتا ہے اور اگر کوئی ریٹائرڈ آرمی چیف کچھ غلط کرے تو فوج اپنے طور پر معاملہ ہینڈل کرتی ہے ۔تحریک انصاف کی حکومت گزشتہ چند ماہ سے عدلیہ سے روٹھی ہوئی معلوم ہوتی ہے جس کی وجہ بہت سے حکومتی معاملات پر عدلیہ کے ریمارکس اور فیصلے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان خود بھی اس حوالے سے بیان دے چکے ہیں جبکہ وفاقی وزراء اور حکومتی ترجمان بھی بیانات دیتے ہیں ۔
اداروں کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی ملک وقوم کیلئے نقصان دہ ہے۔ عوام کی خواہش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ ایسی حکومت آئے جو ان کی فلاح وبہبود کیلئے بڑھ چڑھ کر کام کرے لیکن گزشتہ چار دہائیوں کے دوران عوام کو مایوسی ہی ملی ہے۔ پاکستان کی معاشی تاریخ کا جائزہ لیں تو آج ملک میں جو صنعتی ڈھانچہ دکھائی دیتا ہے اس کی بنیاد جنرل ایوب نے اپنے دورا قتدار میں رکھی تھی اور تمام معاشی ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جس قدر تیز رفتار صنعتی ترقی ایوب دور میں ہوئی اس کے بعد سے اب تک ایسی ترقی دوبارہ نہیں ہو سکی۔ جنرل(ر) ضیاء الحق کے دور میں صنعتی ترقی تو اتنی نہیں ہوئی لیکن انہوں نے اس ملک کو مذہبی جماعتوں ، ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کا ''تحفہ'' ضرور دیا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی پاکستان میں بہت معاشی ترقی ہوئی بالخصوص رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی ترقی نے معیشت کو بہت سہارا دیا۔ عوام کا مزاج بھی عجب ہے، یہ جس کے آنے پر مٹھائی بانٹتے ہیں اس کے جانے پر بھی بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ جس شام پرویز مشرف نے میاں نواز شریف حکومت کا تختہ اُلٹا تھا اس روز لاہور سمیت تمام شہروں میں مٹھائی کی دوکانیں خالی ہو گئی تھیں اور جب سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو نا اہل کر کے سزا سنائی تو اس روز بھی تحریک انصاف والوں نے مٹھائی کی دوکانوں پر یلغار کردی تھی۔
پیپلز پارٹی ہمیشہ سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہی ہے اور انہوں نے اس کی بھاری قیمت بھی چکائی ہے لیکن مسلم لیگ(ن) جو کہ گزشتہ روز سے جوشیلے بیان دے رہی ہے اس کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ اس نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے زور پر حکومتیں گرائی اور بنائی ہیں لیکن پہلی مرتبہ پرویز مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹا دیا۔ ،2013 ء کے الیکشن میں ن لیگ کو پھر سے ''سہارا'' ملا تو انہوں نے حکومت بنا لی لیکن پھرڈان لیکس اور پانامہ کیس نے تمام سہارے چھین لئے اور ن لیگ کو ''راندہ درگاہ'' قرار دے دیا گیا۔
پاکستان کی سیاست میں ''اسٹیبلشمنٹ'' ایک حقیقت اور طاقت کا محور ہے۔ اداروں کی محاذ آرائی جمہوریت کیلئے خطرناک ہوتی جا رہی ہے اورسب سے اہم یہ تاثر بھی خوف کو بڑھا رہا ہے کہ حکومت اور اسٹیبشلمنٹ کے درمیان بھی ''سب اچھا'' نہیں ہے جیسا ظاہر کیا جا رہا ہے۔گزشتہ روز کا فیصلہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس کے سیاسی اثرات بہت گہرے ہوں گے۔
عوام بھی آمریت سے نفرت کرتے ہیں لیکن انہیں جمہوریت سے بہت شکوے شکایات بھی ہیں۔ اگر سیاستدان حقیقی معنوں میں عوام کے مسائل کے حل اور ملک کی ترقی کیلئے نیک نیتی اور سنجیدگی سے کام کریں تو پھر نہ تو آمر آئیں گے اور نہ ہی عوام انہیں ویلکم کریں گے۔
بدقسمتی سے گزشتہ تین یا چار دہائیوں کے دوران برسر اقتدار آنے والی جمہوری حکومتیں ڈیلیور کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔موجودہ حکومت کی صورت میں عوام کو ایک نئے جمہوری آپشن کی صورت میں اُمید دکھائی دے تھی لیکن 16 ماہ کے دوران یہ حکومت بھی ناکام ثابت ہوئی ہے اور عوام حکومت سے شدید نالاں ہیں کیونکہ ریڑھی والے سے لیکر صنعتکار تک ہر ایک ''الامان،الامان''پکار رہا ہے اور عوام شدید ترین معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاور گیم کے تمام کھلاڑی مل بیٹھ کر''گریٹ ڈائیلاگ'' کریں اور نئے سرے سے اداروں کی حدود کا تعین کیا جائے اور جب کسی معاملے پر اتفاق رائے ہو جائے تو اس کے بعد کوئی ادارہ دوسرے ادارے کی حدود میں مداخلت نہ کرے اور اداروں کے اقدامات پر شکوک وشبہات بھی پیدا نہ ہوں۔