غداری کیس اور متنازعہ فیصلے
ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فرد کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دے دیا گیا ہے
ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فرد کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ عدالتی فیصلہ ایک ایسے شخص کے بارے میں آیا ہے جو وطن عزیز کےلیے دو جنگیں لڑچکا ہے، جس نے 40 سال سے زیادہ اپنے آپ کو دفاع وطن کےلیے وقف کیے رکھا۔ اگر اس واقعے کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو آپ کو اس معاملے میں عدلیہ بے قصور نظر آئے گی۔ مگر کیسے؟ آئیے تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جس قانون کے تحت عدلیہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو غدار قرار دیا ہے، یہ قانون 1973 میں بنا اور اسے 18 ویں ترمیم میں موجودہ شکل میں ڈھالا گیا۔
تو گویا آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ عدلیہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو غدار قرارنہیں دیا بلکہ اس پارلیمنٹ نے غدار قرار دیا ہے جس نے یہ قانون پاس کیا تھا۔ عدالت تو قانون کے مطابق فیصلہ کرتی ہے، اور قانون عوام کے منتخب نمائندے بناتے ہیں۔ اور عوام کے منتخب نمائندے جس طرح منتخب ہوکر قانون ساز اسمبلی تک پہنچتے ہیں یہ کوئی سربستہ راز نہیں ہے۔ ہر شخص بخوبی اس طریقے کار سے واقف ہے۔
اس لیے میری ان تمام حلقوں سے، جو اس فیصلے کے بعد عدلیہ پر طعن و تشنیع میں مصروف ہیں، سے گزارش ہے کہ عدلیہ کو لعن طعن کرنے کے بجائے انصاف کی علمبردار موجودہ حکومت سے اس قانون میں ترمیم کی درخواست کیجئے، تاکہ آنے والے دنوں میں قوم اس طرح کے سیاہ دن نہ دیکھے اور عدلیہ کو بھی اس طرح کے متنازعہ فیصلوں کا بار نہ اٹھانا پڑے۔ کیونکہ 1973 کے آئین میں غداری کی موجودہ تعریف کو اس لیے شامل کیا گیا تاکہ آنے والے دنوں میں فوجی حکومتوں کا راستہ روکا جاسکے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ غداری کا یہ تصور اس ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت نے آئین میں شامل کروایا جو خود فوجی حکومت کے زیر سایہ پروان چڑھا تھا۔ اور اس تصور کو اسی بھٹو کے جانشینوں نے، اس نوازشریف کی حمایت سے، جو خود کو فخریہ طور پر ضیا الحق کا جانشین کہا کرتے تھے، موجودہ شکل دی۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ''غداری کا موجودہ تصور ترتیب دینا ذاتی مفادات کا تحفظ کرنا ہے''۔ کیونکہ موجودہ تعریف کے مطابق صرف فوجی آمر کو ہی غدار قرار دیا جاسکتا ہے۔ غداری کی موجودہ تعریف کے مطابق ''ہر وہ شخص غدار ہے جو طاقت کے استعمال یا کسی بھی غیر آئینی طریقے سے آئینِ پاکستان کو منسوخ، تحلیل، معطل یا عارضی طور پر بھی معطل کرتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش بھی کرتا یا ایسا کرنے کی سازش میں شریک ہوتا ہے۔''
اٹھارہویں ترمیم میں اس قانون میں یہ اضافہ کیا گیا کہ ''آئین کو معطل یا عارضی طور پر بھی معطل کرنے والا شخص یا ایسے شخص کی امداد کرنے والا شخص غدار ہوگا''۔
اگر ہم گزشتہ ستر سال کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ماضی میں فیض احمد فیض کو وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں غداری کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ خان عبدالولی خان، ملیحہ لودھی اور جاوید ہاشمی کو بھی غداری کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر موجودہ غداری کا قانون صرف فوجی حکمران ہی کو غدار قرار دیتا ہے۔
میری عمران خان اور تمام اہل بصیرت سے عاجزانہ گزارش ہے کہ آئین کے ''آرٹیکل 6'' کی موجودہ شکل کو قانون ساز اسمبلی میں زیر بحث لاکر ملک کے وسیع ترمفاد میں (وہ تمام عوامل جو فوج کی آمد کا باعث بنتے ہیں، ان کو مدنظر رکھتے ہوئے) ضروری ترامیم کی جائیں۔ تاکہ آئندہ قوم کو اس قسم کے سانحات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کیونکہ یہ قوم اب مزید ایسے متنازعہ فیصلوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس سے نہ صرف ایسے متنازعہ فیصلوں کا راستہ رکے گا بلکہ معزز عدلیہ پر تنقید کا بھی خاتمہ ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جس قانون کے تحت عدلیہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو غدار قرار دیا ہے، یہ قانون 1973 میں بنا اور اسے 18 ویں ترمیم میں موجودہ شکل میں ڈھالا گیا۔
تو گویا آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ عدلیہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو غدار قرارنہیں دیا بلکہ اس پارلیمنٹ نے غدار قرار دیا ہے جس نے یہ قانون پاس کیا تھا۔ عدالت تو قانون کے مطابق فیصلہ کرتی ہے، اور قانون عوام کے منتخب نمائندے بناتے ہیں۔ اور عوام کے منتخب نمائندے جس طرح منتخب ہوکر قانون ساز اسمبلی تک پہنچتے ہیں یہ کوئی سربستہ راز نہیں ہے۔ ہر شخص بخوبی اس طریقے کار سے واقف ہے۔
اس لیے میری ان تمام حلقوں سے، جو اس فیصلے کے بعد عدلیہ پر طعن و تشنیع میں مصروف ہیں، سے گزارش ہے کہ عدلیہ کو لعن طعن کرنے کے بجائے انصاف کی علمبردار موجودہ حکومت سے اس قانون میں ترمیم کی درخواست کیجئے، تاکہ آنے والے دنوں میں قوم اس طرح کے سیاہ دن نہ دیکھے اور عدلیہ کو بھی اس طرح کے متنازعہ فیصلوں کا بار نہ اٹھانا پڑے۔ کیونکہ 1973 کے آئین میں غداری کی موجودہ تعریف کو اس لیے شامل کیا گیا تاکہ آنے والے دنوں میں فوجی حکومتوں کا راستہ روکا جاسکے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ غداری کا یہ تصور اس ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت نے آئین میں شامل کروایا جو خود فوجی حکومت کے زیر سایہ پروان چڑھا تھا۔ اور اس تصور کو اسی بھٹو کے جانشینوں نے، اس نوازشریف کی حمایت سے، جو خود کو فخریہ طور پر ضیا الحق کا جانشین کہا کرتے تھے، موجودہ شکل دی۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ''غداری کا موجودہ تصور ترتیب دینا ذاتی مفادات کا تحفظ کرنا ہے''۔ کیونکہ موجودہ تعریف کے مطابق صرف فوجی آمر کو ہی غدار قرار دیا جاسکتا ہے۔ غداری کی موجودہ تعریف کے مطابق ''ہر وہ شخص غدار ہے جو طاقت کے استعمال یا کسی بھی غیر آئینی طریقے سے آئینِ پاکستان کو منسوخ، تحلیل، معطل یا عارضی طور پر بھی معطل کرتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش بھی کرتا یا ایسا کرنے کی سازش میں شریک ہوتا ہے۔''
اٹھارہویں ترمیم میں اس قانون میں یہ اضافہ کیا گیا کہ ''آئین کو معطل یا عارضی طور پر بھی معطل کرنے والا شخص یا ایسے شخص کی امداد کرنے والا شخص غدار ہوگا''۔
اگر ہم گزشتہ ستر سال کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ماضی میں فیض احمد فیض کو وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں غداری کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ خان عبدالولی خان، ملیحہ لودھی اور جاوید ہاشمی کو بھی غداری کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر موجودہ غداری کا قانون صرف فوجی حکمران ہی کو غدار قرار دیتا ہے۔
میری عمران خان اور تمام اہل بصیرت سے عاجزانہ گزارش ہے کہ آئین کے ''آرٹیکل 6'' کی موجودہ شکل کو قانون ساز اسمبلی میں زیر بحث لاکر ملک کے وسیع ترمفاد میں (وہ تمام عوامل جو فوج کی آمد کا باعث بنتے ہیں، ان کو مدنظر رکھتے ہوئے) ضروری ترامیم کی جائیں۔ تاکہ آئندہ قوم کو اس قسم کے سانحات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کیونکہ یہ قوم اب مزید ایسے متنازعہ فیصلوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس سے نہ صرف ایسے متنازعہ فیصلوں کا راستہ رکے گا بلکہ معزز عدلیہ پر تنقید کا بھی خاتمہ ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔