ٹی وی ضرور دیکھیں مگر اعتدال کے ساتھ
چھوٹے بچوں کے زیادہ ٹی وی دیکھنے سے بولنا سیکھنے کا عمل اور فطری صلاحیتوں میں اضافے کا عمل رُک جاتا ہے
موثرابلاغ کی صلاحیتوں کے حوالے سے ایک ٹریننگ جاری تھی۔ شرکاء کچھ تھکے تھکے سے محسوس ہوئے تو ٹرینر نے کہا ''آپ سب کھڑے ہو جائیں اور بازوں کو اپنے سینے سے آگے کی جانب سیدھا متوازی اٹھا لیں''۔ سب شرکاء نے ایسا کر لیا تو ٹرینر نے یہ کہتے ہوئے جلدی سے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے بائیں بازو کی کہنی پکڑ لی کہ آپ اپنے دائیں ہاتھ سے اپنا بائیاں گُھٹنا پکڑ لیں۔
کسی نے بھی اُن کی اس بات پر دھیان نہ دیا کہ زبان سے کیا الفاظ ادا ہوئے ہیں اور تقریباً سب ہی نے گھٹنے کے بجائے اپنی کہنی پکڑ لی۔ ٹرینر نے جب شرکاء سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنا بائیاں گھٹنا پکڑ لیا ہے؟ تو تب شرکاء کو احساس ہوا کہ وہ تو گھٹنے کے بجائے ٹرینر کی طرح اپنی کہنی پکڑے ہوئے ہیں۔ اس ایکسرسائز کی مدد سے شرکاء کو یہ بتایا گیا کہ جب ہم ذہنی طور پر حاضر نہ ہوں تو ہم جو دیکھتے ہیں اُس کی کتنی جلدی پیروی کرتے ہیں بہ نسبت اس کے جوہم سنتے یا پڑھتے ہیں۔
یہ وہ عملی مظاہرہ تھا جو ہمیں یہ سوچنے کی دعوت دے رہا ہے کہ جب ہم اپنے سامنے ہونے والے اس معمولی سے عمل کی مکمل پیروی کر رہے ہیں تو ٹی وی پر روزانہ دیکھنے والے انگنت مناظر اور چیزوں کو شعوری اور لاشعوری طور پر کس قدر اپنا رہے ہوں گے؟۔
ٹیلی ویژن بیسویں صدی کی سب سے بڑی ایجاد ہے اور یہ عالمی سطح پر سب سے بڑے ابلاغی میڈیم کے طور پر اُبھرا ہے۔ اس کی موجودگی اور اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا یہ ایک بہت طاقتور چینج ایجنٹ ہے۔ ہم جو ٹی وی پر دیکھتے ہیں وہ ہمارے عقائد ،رویہ اور طرزعمل پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔آج ٹیلی ویژن نے دنیا کے ہر معاشرے میں گھر کے ایک فرد کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ اپنے مثبت اور منفی اثرات لیے ٹیلی ویژن سیٹ ہماری معاشرتی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ لوگ بڑے ذوق و شوق سے اسے دیکھتے ہیں۔
وہ ایساکیوں کرتے ہیں؟ یعنی اگر لوگ ٹی وی دیکھنے میں اتنا زیادہ وقت صرف کرتے ہیں تو وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ زیادہ اہم بات یہ ہے کیا یہ ان کے لیے اچھا ہے؟یہ دونوں سوالات ٹی وی کے انسان کی ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
میڈیا اسٹڈیز میں اگرچہ کئی ایک تھیوریز ان سوالات کے جواب دیتیں ہیں لیکن دو تھیوریز اس حوالے سے زیادہ وضاحت کرتی ہیں۔ اول uses and gratifications نامی تھیوری پہلے سوال کا یوں جواب دیتی ہے کہ لوگ میڈیا کا انتخاب اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور اس کا استعمال مخصوص تسکین حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ لہذا وہ میڈیم تب زیادہ استعما ل کیا جائے گا جب اس کے استعمال سے زیادہ اطمینان یا تسکین حاصل ہو۔ دوم Cultivation theory یہ تھیوری ٹی وی کے طویل المدتی اثرات کی چانچ پڑتال کرتی ہے۔ اس نظریہ کے مطابق ٹی وی کی دنیا میں لوگ جتنا زیادہ وقت گزارتے ہیں، اُتنا ہی زیادہ اس بات کا امکان ہو تا ہے کہ جو چیز ٹی وی پر پیش کی جارہی ہو وہ اُسے سماجی حقیقت کے طور پر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔
دنیا میں ایک ٹی وی ناظر کتنا ٹی وی دیکھتا ہے ؟
٭ یوروڈیٹا ٹی وی ورلڈ وائڈ کے مطابق دنیامیںاوسطً فی ناظر 2 گھنٹے 55 منٹ روازانہ ٹی وی دیکھتا ہے۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک مہینے میں ساڑھے تین دن متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت ٹی وی دیکھنے پر صرف کیا جاتا ہے۔یعنی سال میںتقریباً ڈیڑھ مہینہ متواتر کسی وقفے کے بغیر ٹی وی دیکھا جاتا ہے۔
٭ دنیامیں فی ناظر روزانہ اوسطاً175 منٹس ٹی وی دیکھتا ہے۔ یعنی ایک ہفتہ میں1225 منٹ ، ایک مہینے میں5250 منٹ اور ایک سال میں 63875 منٹ۔ اگرروزانہ کے 1440 منٹس میں سے رات کی نیند کے540 منٹس (9 گھنٹے)نکال لیے جائیں تو باقی بچنے والے 900 منٹس کا 19.4 فیصد ٹائم ٹی وی دیکھنے میں گزار ا جاتا ہے۔ یاں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں لوگ اپنے روزانہ فعال وقت (active time) کا 19 فیصد ٹی وی دیکھنے میں صرف کرتے ہیں۔
٭ دنیا میں ایک ٹی وی ناظر دن میں اوسطً 2 گھنٹے55 منٹ ٹی وی دیکھتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 1064 گھنٹے اور 35 منٹ ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق عالمی سطح پر ایک فرد کی اوسط عمر72 سال ہے۔ یوں ایک شخص اپنی تمام عمر میں اوسطً 76650گھنٹے ٹیلی ویژن دیکھتا ہے۔ 24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح دنیا میں ایک ٹی وی ناظر اپنی پوری زندگی میںپونے نو سال طوالت پر مشتمل عرصہ ٹی وی دیکھنے میں گزار دیتا ہے۔
ایک پاکستانی ٹی وی ناظر کتنا ٹی وی دیکھتا ہے؟
٭ گیلپ پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمارکے مطابق ملک میںاوسطً فی ناظر 117 منٹ روزانہ ٹی وی دیکھتا ہے۔یعنی ایک مہینے میں تقریباًاڑھائی دن اور ایک سال میں تقریباً ایک مہینہ متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت ٹی وی دیکھنے پر صرف کیا جاتا ہے۔
اگرروزانہ کے1440 منٹس میں سے رات کی نیند کے540 منٹس( 9 گھنٹے) نکال لیے جائیں تو باقی بچنے والے 900 منٹس کا 13فیصد ٹائم ہم ٹی وی دیکھنے میں گزار دیتے ہیں۔ یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک پاکستانی ناظراپنے روزانہ فعال وقت (active time) کا 13 فیصد ٹی وی دیکھنے میں صرف کرتا ہے۔
٭ ایک پاکستانی ٹی وی ناظر دن میں اوسطً ایک گھنٹہ 57 منٹ ٹی وی دیکھتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 711گھنٹے اور 45 منٹ ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔یوں ایک پاکستانی اپنی تمام عمر میں اوسطً 47687 گھنٹے 15 منٹ ٹیلی ویژن دیکھتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ایک پاکستانی کی اوسط عمر67 سال یعنی 586920 گھنٹے ہے۔24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح ملک میں ایک ٹی وی ناظر اپنی پوری زندگی میں تقریباًساڑھے پانچ سال طوالت پر مشتمل عرصہ ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔
ٹی وی کے انسانی ذ ہنی صحت پر اثرات
پروفیسر ڈاکٹر غلام رسول جو بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں شعبہ ذہنی صحت کے سربراہ اور پروفیسر آف سائیکاٹری ہیں ٹی وی کے ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ '' ٹیلی ویژن دیکھنا تفریح ہے۔اس سے آپ کو معلومات، اطلاعات ،تعلیمی مندرجات اور دوسرے کلچرز سے آگاہی ہوتی ہے اس لیے اس سے انکار ممکن نہیں۔درحقیقت یہ آپ کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ٹی وی کے ایسے پروگرام جو پرسکون، متاثر کن ،مزاحیہ ہوتے ہیں انھیں دیکھنے سے عارضی طور پردباؤ (سٹریس) اضطراب (انگزائٹی )اور افسردگی(ڈپریشن) کی کیفیت کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
لیکن یہ خیال رکھنا نہایت ہی ضروری ہے کے ٹی وی کتنا دیکھا جائے اور اس پرکیا دیکھا جائے؟ کیونکہ ہمارے ارد گرد ٹی وی نشریات کا ایک سیلاب ہے۔ مثبت اور منفی ہر طرح کا content ٹی وی اسکرین پر موجود ہے۔ اب تو اکثر گھروں میں یہ تمام دن چلتا رہتا ہے چاہے کوئی اسے دیکھے یا نہ دیکھے۔اس لیے اگر ہم نے کیا دیکھنا اور کتنا دیکھنا ہے جیسے پہلوؤں کا خیال نہیں رکھیں گے تو تحقیق یہ کہتی ہے کہ زیادہ ٹی وی دیکھنا قبل از وقت موت کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ آپ کو کئی طرح کے جسمانی عوارض میں مبتلا کر سکتا ہے۔
آپ کی ذہانت کی سطح کو کم کر سکتا ہے۔یاداشت میں کمی کا محرک ہو سکتا ہے۔ توجہ دینے اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کرسکتا ہے ۔ آپ کے تجزیہ کی صلاحیت کو کم کر دیتا ہے ۔یہ آپ کو معاشرتی زندگی سے کاٹ دیتا ہے۔یہ دباؤ(سٹریس) اضطراب (انگزائٹی )اور افسردگی(ڈپریشن) کی کیفیت کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ بچوں کی دماغی صحت پر تو اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بچوں کا بہت زیادہ ٹی وی دیکھنا اُن کی دماغی نشوونما کو متاثر کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے مطابق امریکن اکیڈمی برائے اطفال یہ مشورہ دیتی ہے کہ دو سال سے کم عمر کے بچے کو بالکل بھی ٹیلی ویژن نہ دکھائیں۔جبکہ دو سال سے زیادہ عمر کے بچے دن میںایک سے دو گھنٹے سے زائد ٹی وی نہ دیکھیں اور وہ بھی وقفوں سے۔ بڑے اپنی موجودگی میں انھیں ٹی وی دیکھنے دیں۔
کیونکہ ابتدائی بچپن کے سال دماغ کی نشوونما کے لئے اہم ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ان کے لیے اسے پروگرامز کا انتخاب کیا جائے جو انھیں دماغی طور پر متحرک رکھیں۔ کیونکہ زیادہ ٹی وی دیکھنے سے بچوں کے قدرتی طور پر سیکھنے کی سرگرمیوں جیسے کہ چیزوں کو دریافت کرنا ،کھیلنا ، لوگوں سے میل ملاپ اور ماحول سے سیکھنا رک سکتا ہے اور اُن کا بولنا سیکھنا بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ ان کی یاداشت میں کمی واقع ہو سکتی ہے اورپڑھنے کی صلاحیت بھی کم ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بچے فلموں اور ڈراموں سے سیکھتے ہیں اور حقیقی زندگی میں ان کرداروں کی نقل کرتے ہیں۔
لہذا ٹی وی زیادہ دیکھنا اور کسی بھی قسم کے منفی پیغامات حاصل کرنا خصوصاً پُر تشدد مناظرانھیں جارح بناسکتے ہیں ۔جو اُن کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ڈاکٹر غلام رسول نے ٹی وی کے ذہنی صحت پر اثرات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی ہم ٹی وی دیکھنا شروع کرتے ہیں تو ہمارا دماغ سیکنڈوں کے اندر Hypnotic State کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے۔ جس سیانسانی لاشعور تک آسانی سے رسائی فراہم ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹیلیویژن دیکھنے کے دوران سو جانا آسان ہے۔
hypnoticاثر بڑی حد تک اسکرین کی ٹمٹماہٹ کی وجہ سے ہوتا ہے جو آپ کی دماغی لہروں کو متاثر کرتے ہوئے اسے الفا کیفیت میں لے جاتا ہے۔یہ دماغ کی وہ کیفیت ہے جس کا تعلق عام طور پر محو خیال یا گہرے آرام و سکون کی حالت سے ہے ۔زیادہ تر ایسے لوگوں جو بہت کم یا پھر کبھی کبھار ٹی وی دیکھتے ہیں اس کیفیت کا شکار 30 سیکنڈ یا تین منٹ کے اندر ہوجاتا ہے ۔اس کے علاوہ ٹیلی ویژن تنقیدی انداز میں سوچنے کی آپ کی صلاحیت کو کم کرتا ہے۔
جب آپ ٹی وی دیکھتے ہیں تودماغ کی سرگرمی آپ کے دماغ کے بائیں حصہ ( جو کہ منطقی سوچ اور تنقیدی تجزیہ کے لئے ذمہ دار ہوتی) سے دائیں جانب سوئچ کر جاتی ہے۔ یہ بات اس لئے اہم ہے کہ دماغ کا دائیں طرف کا حصہ آنے والی معلومات کا تنقیدی تجزیہ نہیں کرتا ۔ اس کے بجائے یہ جذباتی ردعمل کا استعمال کرتا ہے جس کے نتیجے میں معلومات کا بہت کم یا کوئی تجزیہ نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ اس طرح ہے جیسے کوئی آپ کو کچھ بتائے اور آپ اس پر یقین کرلیں بغیر خود کوئی تحقیق کئے ہوئے۔ اس لیے جو لوگ بہت زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں۔
ان کا حقیقت کے بارے میں بہت ہی غلط اور غیر حقیقت پسندانہ نظریہ ہوتا ہے۔یعنی ٹی وی دیکھنے میں بنیادی پریشانی یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں آنے والی چیزوں پر آپ کا کوئی کنٹرول نہیں رہتا۔ ڈاکٹر صاحب ایک اور پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹی وی جسمانی اور نفسیاتی لت پیدا کرسکتا ہے۔کیونکہ ٹی وی دیکھنے سے جسم ایسا کیمیکلز خارج کرتا ہے جس کی وجہ سے ٹی وی دیکھنا آپ کو اچھا محسوس ہوتا ہے۔
یہ endorphins ہیں جو قدرتی طور پرہیروئن کی طرح کی خصوصیات کا حامل ہوتے ہیں۔ لہذا ٹی وی کا جسمانی طور پر عادی ہوجانا عین ممکن ہے۔ یہ روزانہ ٹی وی دیکھنے کو یقینی بناتے ہیں اور ذہن کواس حوالے سے پروگرام کرنے کے لئے ایک اہم عنصر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جو شخص اپنے من پسند ٹیلی ویژن پروگرام کو دیکھنے سے قاصر رہے تو وہ بعض ایسی علامات کا اظہار کرتا ہے جو کسی نشے کے عادی کو نشہ نہ ملنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ یعنی وہ ناراض اوربے چین ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ جب آپ سو رہے ہوں تو آپ کا دماغ اس وقت زیادہ فعال ہوتا ہے با نسبت جب آپ ٹی وی دیکھ رہے ہوں۔ چونکہ آپ کے دماغ کی صحت کا بڑی حد تک دار و مدار اس بات پر ہے کہ آپ اُسے کتنا فعال طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لہذا بہت زیادہ ٹیلی ویژن دیکھنا آپ کے دماغ کی صحت کے لیے اس طرح بھی نقصان دہ ہے کیونکہ ٹیلیویژن دیکھتے وقت دماغ کم سرگرم رہتا ہے کیونکہ آپ کو سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے برعکس جب آپ پڑھتے ہیںتو آپ کا دماغ مختلف طرح کی اشکال بناتا ہے جس کے لیے خصوصی دماغی طاقت کی ضرورت ہے۔
لہذا جب آپ پڑھ رہے ہو تے ہیں تو آپ کا دماغ موثر انداز میں ورزش کرر ہا ہوتا ہے ۔توکیا پھر ہم ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں؟ اس سوال کے جواب میں اُنھوں نے فوراً کہا کہ میں نے شروع میں ہی کہا تھا کہ ٹی وی تفریح کا بہت بڑا ذریعہ ہے آپ اس سے منہ نہیں موڑ سکتے ۔میں خود ٹی وی پر خبریں، فلمیں ،ڈرامے ، ٹاک شوز دیکھتا ہوں لیکن اعتدال کے ساتھ کیونکہ جب تک آپ اعتدال پسندی کرتے ہو تو ٹی وی دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔تو پھر ٹی وی دیکھنے اور ذہنی صحت کو اکٹھے کیسے برقرار رکھا جا ئے؟ اس بارے میں اُنھوں نے کہا کہ اس حوالے سے جو ایک بہترین کام آپ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہر دن کم از کم 30سے60 منٹ تک پڑھیں۔
پڑھنا دماغ کے لئے ورزش ہے۔ اسی طرح جیسے دوڑنا جسم کے لئے ورزش ہے۔کوئی دوسری زبان سیکھنا بھی دماغ کو سرگرم رکھنے کے لیے بہترین ہے۔اس کے علاوہ آپ ہفتے میں ایک یا دو دن ٹی وی دیکھنے کے دورانیہ کو محدود کریں اور اپنا باقی وقت ایسی سرگرمیوں میں مشغول کریں جو آپ کی زندگی کو طویل المدتی فائدہ پہنچائے جیسے اپنے ذاتی اہداف کا حصول کے سلسلے میں کوشش وغیرہ۔
ٹی وی کے انسانی نفسیات پر اثرات
پروفیسر ڈاکٹر امجد طفیل ماہر نفسیات ہیں ۔اسلامیہ کالج ، ریلوے روڈلاہور میں شعبہ نفسیات کے سربراہ ہیں۔ دس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ٹی وی انسانی رویوں اور طرز عمل پر کس طرح اور کتنا اثر انداز ہوتا ہے؟ اس حوالے سے وہ کہتے ہیں۔ '' کہ علم نفسیات اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ہمارا کردار سیکھنے سے بنتا ہے۔ سیکھنے کے بہت سے طریقے ہیں۔اس حوالے سے جس طرز کو ہم سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں اُسے Imitation کہا جاتا ہے ۔جسے تقلید/ نقل کرنا بھی کہتے ہیں۔
اسے Observation learning کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہوتا ہے۔ اُسی کو ہم سیکھتے ہیں۔ اُسی کو ہم دوہراتے ہیں۔ اُسی سے ہمارا کردار تشکیل پاتا ہے۔ اس حوالے سے بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہر نفسیات Albert Bandura نے بہت بنیادی قسم کا کام کیا ہے۔
اُنھوں نے اُس طریقے کو سمجھنے کی کوشش کی جس سے مشاہدہ ہمارے سیکھنے کے عمل کو مکمل کرتا ہے۔اُن کے مطابق جس طرح کے حالات لوگوں کے سامنے رکھے جائیں ۔ جس طرح کے مناظر لوگ دیکھیں گے ۔ اُسی طرح کا اُن کا کردار تعمیر ہوتا چلا جائے گا۔ اس حوالے سے اُنھوں نے بچوں پر تحقیق کی اور اُنھیں مختلف طرح کے کارٹون وٹی وی پروگرامز دکھائے گئے ۔اس تحقیق میں Albert Bandura نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ جو جارحیت ہے ۔تشدد ہے ۔کیا یہ بھی کوئی سیکھا ہوا کردار ہے؟تو ایسے بچے جن کو تشدد پر مبنی کارٹونز دیکھا ئے گئے تھے۔
اُنھیں نے اسی طرح کے کردار کا زیادہ اظہار کیا بانسبت ان بچوں کے جنہیں مثبت باتوں پر مشتمل کارٹونز دکھائے گئے۔ اس تحقیق سے اُنھوں نے یہ ثابت کیا کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں ہمارا کردار اُس کے مطابق ڈھلتا چلا جاتا ہے۔
یہ بالکل درست بات ہے کہ ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی اُس پر اثر انداز ہوتی ہیں لیکن چھوٹے بچوں خصوصاً Teen agers جسے عہد شباب بھی کہا جاتا ہے ان پر Imitation بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ ڈاکٹر امجد طفیل کا کہنا ہے کہ جب ہم ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں تو ٹی وی کی اسکرین پر جو کچھ چل رہا ہوتا ہے وہ ہمارے لیے ایک رول ماڈل کی شکل اختیار کر جاتا ہے ۔
اور لوگ اسے اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ٹیلی ویژن ہو یا کوئی اور میڈیا نفسیات میں ہم ان کے لیے ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں کہ یہ Behavioral modification (رویوں میں ردوبدل)کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق انسانی ذہن لفظوں میں نہیں سوچتا بلکہ Images میںسوچتا ہے۔ اور جو کچھ آپ ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں وہ بنیادی طور Image ہوتا ہے اور جو Images ہیں وہ انسانی دماغ کو زیادہ اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔
اسی طرح جب ہم اپنی ایک حس (Sense)کو استعمال کر رہے ہوں تو اس کا اثر کم ہوتا ہے۔لیکن ایک ہی Process میں اگر زیادہ حسوں کا استعمال ہو تو اس کا اثر انسانی ذہن/ دماغ پر بڑھ جاتا ہے۔ مثلاً ٹی وی ہم دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان جو اپنی زندگی میں 95 فیصد تک جن دو بڑی حسوں یعنی دیکھنے اور سننے کا استعمال کر تا ہے۔ ٹی وی دیکھتے یہ دونوں استعمال ہوتی ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس مطالعہ میں دیکھنے اور ریڈیو میں سننے کی حس استعمال ہوتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مطالعہ اور ریڈیو سننے سے جو اثرات آتے ہیں ان دونوں کا مجموعہ ٹیلی ویژن پروگراموں کے ذریعے آتا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں جو ٹی وی کا میڈیم ہے اس کے اپنی ویورشپ پر اثرات بہت دیر پاء اور گہرے ہوتے ہیں اس لیے ٹی وی پروگرامز کو بناتے ہوئے ان کو چلانے سے پہلے ان کا بہت محتاط تجزیہ کرنا ضروری ہے ''۔
ٹی وی کے جسمانی صحت پر اثرات
ڈاکٹر وقاص اشرف جو ہڈیو ں اور درد شقیقہ (Consultant Interventional Orthopaedic & Pain Management) کے ماہر ہیں ۔ ٹی وی کے انسان کی جسمانی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات اور ان اثرات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے۔
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہو ئے انھوں نے کہا کہ ۔''ٹی وی دیکھنے میں قطعاً کو ئی مضائقہ نہیں ہاں مسئلہ ہے تو ضرورت سے زیادہ ٹی وی دیکھنے میں۔کیونکہ آپ جتنی زیادہ دیر تک ٹی وی کے آگے بیٹھے رہیں گے تو زیادہ طویل وقت کے لیے ایک ہی جگہ پر بیٹھنے سے آپ کے جسم میں خون کی گردش متاثر ہوتی ہے خاص کر ٹانگوں کو خون کی موزوں سپلائی متاثر ہوتی ہے۔ اور جب آپ اٹھتے ہیں تو ٹانگیں سن ہوئی محسوس ہوتی ہیں یا پھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گھٹنے آپس میں جڑ گئے ہیں اور اس کیفیت میں آپ سیدھا کھڑا نہیں ہوسکتے اور یہ حالت کچھ دیر لیتی ہے درست ہونے میں۔ اس کے علاوہ زیادہ عرصہ تک ایک جگہ بیٹھنے سے آپ کی ٹانگوں میں blood clot بھی بن سکتے ہیں ۔اور طویل بیٹھنا آپ کے پھیپھڑوں کی آکسیجن کھینچنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کرتا ہے۔
بعض لوگ ایسے بیٹھتے ہیں کہ اُنکی ریڈھ کی ہڈی انگلش کے حرف C کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اور اس صورت میں طویل عرصہ تک بیٹھنا پیٹ اور پیٹھ کے دبے اور کچھے ہوئے پٹھوںمیں اکڑن اور درد کا باعث بنتا ہے۔ زیادہ ٹی وی دیکھنے سے چونکہ آپ کاجسم زیادہ وقت کے لیے غیر متحرک ہو جاتا ہے۔اس وجہ سے آپ موٹاپے کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ذیابیطس میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور دل کے امراض کے شکنجے میں بھی پھنس سکتے ہیں۔ایک امریکی تحقیق کے مطابق روزانہ دو گھنٹے مسلسل ٹی وی دیکھنے کی وجہ سے آپ میں موٹاپے کے امکان میں 23 فیصد اور ذیابیطس کے امکان میں 14 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ ٹی وی دیکھنے سے آپ کی بینائی متاثر ہوتی ہے۔
آپ کے سننے کی صلاحیت پر اثر پڑتا ہے۔ پٹھوں کی کمزوری اور کھچاؤ کی شکایت ہوتی ہے۔اور اگر ٹی وی دیکھتے ہوئے آپ کا جسم درست حالت میں نہیں تو آپ کو گردن اور کمر کے مہروں کے علاوہ کولہے کی ہڈی کے مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔آپ نیند کی کمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔اس کے علاوہ جو مندرجات ا ٓ پ ٹی وی پر دیکھتے ہیں ان میں سے کچھ آپ کو بلڈ پریشر میںاضافہ کا بھی محرک بنتے ہیں۔اور ایسے شخص کو جو بہت کم یا بالکل ورزش نہ کرے اور بہت زیادہ ٹی وی دیکھے اُسے مغرب میںCouch Potato(نشستی آلو) کہا جاتا ہے۔
لہذا ٹی وی دیکھیں لیکن اعتدال اور احتیاط کے ساتھ۔ یعنی ٹی وی دیکھنے کے حوالے سے اپنی روز کی ایک حد مقرر کرلیں ۔ٹی وی کو مسلسل طویل دورانیہ کی بجائے چھوٹے چھوٹے پیریڈز میں دیکھیں۔ اور جب آپ کے پسندیدہ پروگرام میں وقفہ آجائے تو اس دوران اپنی جگہ سے اٹھیں اور اپنا کوئی اور کام کر لیں۔ اور اگر بریک نہیں ہے تو کچھ وقت کے لیے کھڑے ہوکر بھی ٹی وی دیکھ لیں۔
30 منٹ کی نشست کے بعد جسم کو ضرور حرکت دیں ۔ٹی وی اپنی فیملی کے ساتھ مل کر دیکھیں اور ایک دوسرے سے گفتگو کریں ۔ ٹی وی اسکرین اور جہاں سے آپ ٹی وی دیکھنا چاہتے ہیں ان دونوں کے مابین مناسب فاصلہ رکھیں۔
ٹی وی کو روشی میں دیکھیں۔ ٹی وی دیکھنے کے دوران اپنی body posture کو درست انداز میں رکھیں۔ لیٹ کر تو ٹی وی بالکل بھی نا دیکھیں۔ کوشش کریں کے ہمیشہ ٹی وی کو سیدھی گردن رکھ کر دیں سامنے کی جانب سے دیکھیں گردن موڑ کر نا دیکھیں۔ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانے سے اجتناب کریں کیونکہ اکثر جنک فوڈ کا استعمال ٹی وی دیکھتے ہوئے کیا جاتا ہے اور بعض اوقات ٹی وی دیکھنے میں لوگ اتنا محو ہوجاتے ہیں کہ اُنھیں اندازہ نہیں رہتا کہ وہ کتنا کھانا کھاچکے ہیں۔
ٹی وی دیکھنے کے لیے کرسی پر بیٹھتے وقت اپنی پیٹھ کے پیچھے تکیہ رکھ کر بیٹھیں ایسا کرنے سے آپ کے پھیپھڑے کھل جائیں گے اور سانس لینے میں آسانی ہوگی۔سونے سے چند گھنٹے قبل یا کم از کم ایک دو گھنٹے قبل ٹی وی نہ دیکھیں ۔ بچوں کے لیے ٹی وی دیکھنا ایک سرگرمی بنائیں نا کہ عادت اور اپنی موجودگی میں انھیں ٹی وی دیکھائیں۔ بچوں کے لیے زیادہ سے زیادہ کھیلوں اور دیگر مثبت سرگرمیوں میں مصروف رہنے کے مواقع پیدا کریں''۔
ٹی وی کیسے دیکھیں؟
ٹی وی چونکہ بصری میڈیم ہے اور ہمارے جسم کے جس عضو کا اس سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے وہ آنکھیں ہیں۔ہم جس انداز سے اور جتنا زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں اس سے ہماری آنکھوں کے متاثر ہونے کا قوی امکان رہتا ہے ۔ ڈاکٹر شہزاد سعید جو کہ ماہر امراضِ چشم ہیں جب اُن کے سامنے یہ سوال رکھا گیا کہ ہمیں ٹی وی کیسے دیکھنا چاہئے تو اُن کا کہنا تھا کہ '' ماہرین ٹی وی دیکھتے وقت اس سے کم از کم آٹھ سے دس فٹ دور بیٹھنا تجویز کرتے ہیں۔
اس حوالے سے دنیا بھر میں جو ایک اسٹینڈرڈ اصول موجود ہے وہ یہ کہ آپ کے گھر میں موجود ٹی وی کی اسکرین جتنی بڑی ہے آپ اُس سائز کے پانچ گنا فاصلہ پر بیٹھ کر ٹیلی ویژن دیکھیں۔ مثال کے طور پراگر آپ کے ٹی وی کی اسکرین32 انچ کی ہے تو اسے دیکھنے کا فاصلہ 150 انچ یا تقریباً 13 فٹ ہونا چاہئے۔اس کے علاوہ آنکھوں کے عمودی پٹھوں کو زیادہ تھکاوٹ سے بچانے کے لئے ٹی وی کو آنکھوں کی سطح کے متوازی یا اس سے کم پر رکھیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کمرے میں مناسب لائٹنگ ہو۔
اندھیرے میں ٹی وی دیکھنے سے آپ کی آنکھیں تھک جاتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں آنکھوں کے ماہرین ٹی وی دیکھنے کے حوالے سے 20,20,20 کا ایک قاعدہ تجویز کرتے ہیں کہ ہر 20 منٹ ٹی وی دیکھنے کے بعد 20 سیکنڈ تک 20 فٹ دور کسی چیز کو غور سے دیکھا جائے۔اس سے آپ کی آنکھ کو نزدیک اور دور کی چیزیں فوکس کرنے میں دشواری نہیں ہو گی اور اُس کی ورزش ہوتی رہے گی اور آنکھوں کو وقفہ بھی ملے گا۔اس کے علاوہ باقاعدگی سے پلک جھپکانا یاد رکھیں۔
اوسطا ًایک عام فرد ہر 5 سیکنڈ میں پلک جھپکتا ہے۔ جب آپ ٹی وی دیکھ رہے ہوں یا آپ کمپیوٹرکے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں تو 12 سیکنڈ میں ایک بار پلک جھپکنے تک یہ وقت چلا جاتا ہے ۔ پلک جھپکانے کے عمل کو باقاعدگی سے دہرانے سے آپ کی آنکھیں ٹی وی دیکھتے وقت خشک ہونے سے بچیں گی۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ٹی وی دیکھنے سے آنکھوں پر دباؤ آرہا ہے تو آنکھ کی آہستہ سے مالش کریں یا کپڑے کو گرم پانی سے گیلا کرنے کے بعد اسے نچوڑیں اور آنکھوں پر لگا کر ہلکی ٹکور کریں۔ اٹھ کر گھوم پھریں اور آنکھوں کو اسکرین فری وقت دیں۔ ایسا کرنا آپ کے جسم کو خارش اور کمر کی پریشانیوں سے بھی بچاتا ہے۔
اپنی آنکھوں کو آرام دینے اور ٹی وی دیکھنے کے بعددوبارہ نارمل کرنے کے لیے رات میں کم ازکم 8 گھنٹے کی نیند حاصل کریں۔اس کے علاوہ اپنے روایتی ٹی وی کو ایک فلیٹ اسکرین ٹی وی میں اپ گریڈ کریں جو کم چکاچوند دیتا ہے۔ اسی طرح بڑی سکرین والے ٹی وی کا انتخاب بھی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس پر آپ کی آنکھوں کو توجہ دینے کے لئے زیادہ زور نہیں دینا پڑتا ہے۔
آخری اور سب سے اہم بات جو ڈاکٹر شہزاد سعید نے بتائی وہ یہ ہے کہ ٹی وی اور کمپیوٹر دیکھتے وقت زیادہ سے زیادہ پانی پیئیں۔ایسا کرنے سے آپ کو بار بار ٹوائلٹ جانا پڑے گا جس سے آپ کی آنکھوں کو بھی وقفہ ملے گا اور جسم کو حرکت بھی۔
کسی نے بھی اُن کی اس بات پر دھیان نہ دیا کہ زبان سے کیا الفاظ ادا ہوئے ہیں اور تقریباً سب ہی نے گھٹنے کے بجائے اپنی کہنی پکڑ لی۔ ٹرینر نے جب شرکاء سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنا بائیاں گھٹنا پکڑ لیا ہے؟ تو تب شرکاء کو احساس ہوا کہ وہ تو گھٹنے کے بجائے ٹرینر کی طرح اپنی کہنی پکڑے ہوئے ہیں۔ اس ایکسرسائز کی مدد سے شرکاء کو یہ بتایا گیا کہ جب ہم ذہنی طور پر حاضر نہ ہوں تو ہم جو دیکھتے ہیں اُس کی کتنی جلدی پیروی کرتے ہیں بہ نسبت اس کے جوہم سنتے یا پڑھتے ہیں۔
یہ وہ عملی مظاہرہ تھا جو ہمیں یہ سوچنے کی دعوت دے رہا ہے کہ جب ہم اپنے سامنے ہونے والے اس معمولی سے عمل کی مکمل پیروی کر رہے ہیں تو ٹی وی پر روزانہ دیکھنے والے انگنت مناظر اور چیزوں کو شعوری اور لاشعوری طور پر کس قدر اپنا رہے ہوں گے؟۔
ٹیلی ویژن بیسویں صدی کی سب سے بڑی ایجاد ہے اور یہ عالمی سطح پر سب سے بڑے ابلاغی میڈیم کے طور پر اُبھرا ہے۔ اس کی موجودگی اور اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا یہ ایک بہت طاقتور چینج ایجنٹ ہے۔ ہم جو ٹی وی پر دیکھتے ہیں وہ ہمارے عقائد ،رویہ اور طرزعمل پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔آج ٹیلی ویژن نے دنیا کے ہر معاشرے میں گھر کے ایک فرد کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ اپنے مثبت اور منفی اثرات لیے ٹیلی ویژن سیٹ ہماری معاشرتی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ لوگ بڑے ذوق و شوق سے اسے دیکھتے ہیں۔
وہ ایساکیوں کرتے ہیں؟ یعنی اگر لوگ ٹی وی دیکھنے میں اتنا زیادہ وقت صرف کرتے ہیں تو وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ زیادہ اہم بات یہ ہے کیا یہ ان کے لیے اچھا ہے؟یہ دونوں سوالات ٹی وی کے انسان کی ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
میڈیا اسٹڈیز میں اگرچہ کئی ایک تھیوریز ان سوالات کے جواب دیتیں ہیں لیکن دو تھیوریز اس حوالے سے زیادہ وضاحت کرتی ہیں۔ اول uses and gratifications نامی تھیوری پہلے سوال کا یوں جواب دیتی ہے کہ لوگ میڈیا کا انتخاب اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور اس کا استعمال مخصوص تسکین حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ لہذا وہ میڈیم تب زیادہ استعما ل کیا جائے گا جب اس کے استعمال سے زیادہ اطمینان یا تسکین حاصل ہو۔ دوم Cultivation theory یہ تھیوری ٹی وی کے طویل المدتی اثرات کی چانچ پڑتال کرتی ہے۔ اس نظریہ کے مطابق ٹی وی کی دنیا میں لوگ جتنا زیادہ وقت گزارتے ہیں، اُتنا ہی زیادہ اس بات کا امکان ہو تا ہے کہ جو چیز ٹی وی پر پیش کی جارہی ہو وہ اُسے سماجی حقیقت کے طور پر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔
دنیا میں ایک ٹی وی ناظر کتنا ٹی وی دیکھتا ہے ؟
٭ یوروڈیٹا ٹی وی ورلڈ وائڈ کے مطابق دنیامیںاوسطً فی ناظر 2 گھنٹے 55 منٹ روازانہ ٹی وی دیکھتا ہے۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک مہینے میں ساڑھے تین دن متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت ٹی وی دیکھنے پر صرف کیا جاتا ہے۔یعنی سال میںتقریباً ڈیڑھ مہینہ متواتر کسی وقفے کے بغیر ٹی وی دیکھا جاتا ہے۔
٭ دنیامیں فی ناظر روزانہ اوسطاً175 منٹس ٹی وی دیکھتا ہے۔ یعنی ایک ہفتہ میں1225 منٹ ، ایک مہینے میں5250 منٹ اور ایک سال میں 63875 منٹ۔ اگرروزانہ کے 1440 منٹس میں سے رات کی نیند کے540 منٹس (9 گھنٹے)نکال لیے جائیں تو باقی بچنے والے 900 منٹس کا 19.4 فیصد ٹائم ٹی وی دیکھنے میں گزار ا جاتا ہے۔ یاں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں لوگ اپنے روزانہ فعال وقت (active time) کا 19 فیصد ٹی وی دیکھنے میں صرف کرتے ہیں۔
٭ دنیا میں ایک ٹی وی ناظر دن میں اوسطً 2 گھنٹے55 منٹ ٹی وی دیکھتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 1064 گھنٹے اور 35 منٹ ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق عالمی سطح پر ایک فرد کی اوسط عمر72 سال ہے۔ یوں ایک شخص اپنی تمام عمر میں اوسطً 76650گھنٹے ٹیلی ویژن دیکھتا ہے۔ 24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح دنیا میں ایک ٹی وی ناظر اپنی پوری زندگی میںپونے نو سال طوالت پر مشتمل عرصہ ٹی وی دیکھنے میں گزار دیتا ہے۔
ایک پاکستانی ٹی وی ناظر کتنا ٹی وی دیکھتا ہے؟
٭ گیلپ پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمارکے مطابق ملک میںاوسطً فی ناظر 117 منٹ روزانہ ٹی وی دیکھتا ہے۔یعنی ایک مہینے میں تقریباًاڑھائی دن اور ایک سال میں تقریباً ایک مہینہ متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت ٹی وی دیکھنے پر صرف کیا جاتا ہے۔
اگرروزانہ کے1440 منٹس میں سے رات کی نیند کے540 منٹس( 9 گھنٹے) نکال لیے جائیں تو باقی بچنے والے 900 منٹس کا 13فیصد ٹائم ہم ٹی وی دیکھنے میں گزار دیتے ہیں۔ یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک پاکستانی ناظراپنے روزانہ فعال وقت (active time) کا 13 فیصد ٹی وی دیکھنے میں صرف کرتا ہے۔
٭ ایک پاکستانی ٹی وی ناظر دن میں اوسطً ایک گھنٹہ 57 منٹ ٹی وی دیکھتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 711گھنٹے اور 45 منٹ ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔یوں ایک پاکستانی اپنی تمام عمر میں اوسطً 47687 گھنٹے 15 منٹ ٹیلی ویژن دیکھتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ایک پاکستانی کی اوسط عمر67 سال یعنی 586920 گھنٹے ہے۔24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح ملک میں ایک ٹی وی ناظر اپنی پوری زندگی میں تقریباًساڑھے پانچ سال طوالت پر مشتمل عرصہ ٹی وی دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔
ٹی وی کے انسانی ذ ہنی صحت پر اثرات
پروفیسر ڈاکٹر غلام رسول جو بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں شعبہ ذہنی صحت کے سربراہ اور پروفیسر آف سائیکاٹری ہیں ٹی وی کے ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ '' ٹیلی ویژن دیکھنا تفریح ہے۔اس سے آپ کو معلومات، اطلاعات ،تعلیمی مندرجات اور دوسرے کلچرز سے آگاہی ہوتی ہے اس لیے اس سے انکار ممکن نہیں۔درحقیقت یہ آپ کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ٹی وی کے ایسے پروگرام جو پرسکون، متاثر کن ،مزاحیہ ہوتے ہیں انھیں دیکھنے سے عارضی طور پردباؤ (سٹریس) اضطراب (انگزائٹی )اور افسردگی(ڈپریشن) کی کیفیت کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
لیکن یہ خیال رکھنا نہایت ہی ضروری ہے کے ٹی وی کتنا دیکھا جائے اور اس پرکیا دیکھا جائے؟ کیونکہ ہمارے ارد گرد ٹی وی نشریات کا ایک سیلاب ہے۔ مثبت اور منفی ہر طرح کا content ٹی وی اسکرین پر موجود ہے۔ اب تو اکثر گھروں میں یہ تمام دن چلتا رہتا ہے چاہے کوئی اسے دیکھے یا نہ دیکھے۔اس لیے اگر ہم نے کیا دیکھنا اور کتنا دیکھنا ہے جیسے پہلوؤں کا خیال نہیں رکھیں گے تو تحقیق یہ کہتی ہے کہ زیادہ ٹی وی دیکھنا قبل از وقت موت کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ آپ کو کئی طرح کے جسمانی عوارض میں مبتلا کر سکتا ہے۔
آپ کی ذہانت کی سطح کو کم کر سکتا ہے۔یاداشت میں کمی کا محرک ہو سکتا ہے۔ توجہ دینے اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کرسکتا ہے ۔ آپ کے تجزیہ کی صلاحیت کو کم کر دیتا ہے ۔یہ آپ کو معاشرتی زندگی سے کاٹ دیتا ہے۔یہ دباؤ(سٹریس) اضطراب (انگزائٹی )اور افسردگی(ڈپریشن) کی کیفیت کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ بچوں کی دماغی صحت پر تو اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بچوں کا بہت زیادہ ٹی وی دیکھنا اُن کی دماغی نشوونما کو متاثر کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے مطابق امریکن اکیڈمی برائے اطفال یہ مشورہ دیتی ہے کہ دو سال سے کم عمر کے بچے کو بالکل بھی ٹیلی ویژن نہ دکھائیں۔جبکہ دو سال سے زیادہ عمر کے بچے دن میںایک سے دو گھنٹے سے زائد ٹی وی نہ دیکھیں اور وہ بھی وقفوں سے۔ بڑے اپنی موجودگی میں انھیں ٹی وی دیکھنے دیں۔
کیونکہ ابتدائی بچپن کے سال دماغ کی نشوونما کے لئے اہم ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ان کے لیے اسے پروگرامز کا انتخاب کیا جائے جو انھیں دماغی طور پر متحرک رکھیں۔ کیونکہ زیادہ ٹی وی دیکھنے سے بچوں کے قدرتی طور پر سیکھنے کی سرگرمیوں جیسے کہ چیزوں کو دریافت کرنا ،کھیلنا ، لوگوں سے میل ملاپ اور ماحول سے سیکھنا رک سکتا ہے اور اُن کا بولنا سیکھنا بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ ان کی یاداشت میں کمی واقع ہو سکتی ہے اورپڑھنے کی صلاحیت بھی کم ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بچے فلموں اور ڈراموں سے سیکھتے ہیں اور حقیقی زندگی میں ان کرداروں کی نقل کرتے ہیں۔
لہذا ٹی وی زیادہ دیکھنا اور کسی بھی قسم کے منفی پیغامات حاصل کرنا خصوصاً پُر تشدد مناظرانھیں جارح بناسکتے ہیں ۔جو اُن کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ڈاکٹر غلام رسول نے ٹی وی کے ذہنی صحت پر اثرات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی ہم ٹی وی دیکھنا شروع کرتے ہیں تو ہمارا دماغ سیکنڈوں کے اندر Hypnotic State کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے۔ جس سیانسانی لاشعور تک آسانی سے رسائی فراہم ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹیلیویژن دیکھنے کے دوران سو جانا آسان ہے۔
hypnoticاثر بڑی حد تک اسکرین کی ٹمٹماہٹ کی وجہ سے ہوتا ہے جو آپ کی دماغی لہروں کو متاثر کرتے ہوئے اسے الفا کیفیت میں لے جاتا ہے۔یہ دماغ کی وہ کیفیت ہے جس کا تعلق عام طور پر محو خیال یا گہرے آرام و سکون کی حالت سے ہے ۔زیادہ تر ایسے لوگوں جو بہت کم یا پھر کبھی کبھار ٹی وی دیکھتے ہیں اس کیفیت کا شکار 30 سیکنڈ یا تین منٹ کے اندر ہوجاتا ہے ۔اس کے علاوہ ٹیلی ویژن تنقیدی انداز میں سوچنے کی آپ کی صلاحیت کو کم کرتا ہے۔
جب آپ ٹی وی دیکھتے ہیں تودماغ کی سرگرمی آپ کے دماغ کے بائیں حصہ ( جو کہ منطقی سوچ اور تنقیدی تجزیہ کے لئے ذمہ دار ہوتی) سے دائیں جانب سوئچ کر جاتی ہے۔ یہ بات اس لئے اہم ہے کہ دماغ کا دائیں طرف کا حصہ آنے والی معلومات کا تنقیدی تجزیہ نہیں کرتا ۔ اس کے بجائے یہ جذباتی ردعمل کا استعمال کرتا ہے جس کے نتیجے میں معلومات کا بہت کم یا کوئی تجزیہ نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ اس طرح ہے جیسے کوئی آپ کو کچھ بتائے اور آپ اس پر یقین کرلیں بغیر خود کوئی تحقیق کئے ہوئے۔ اس لیے جو لوگ بہت زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں۔
ان کا حقیقت کے بارے میں بہت ہی غلط اور غیر حقیقت پسندانہ نظریہ ہوتا ہے۔یعنی ٹی وی دیکھنے میں بنیادی پریشانی یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں آنے والی چیزوں پر آپ کا کوئی کنٹرول نہیں رہتا۔ ڈاکٹر صاحب ایک اور پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹی وی جسمانی اور نفسیاتی لت پیدا کرسکتا ہے۔کیونکہ ٹی وی دیکھنے سے جسم ایسا کیمیکلز خارج کرتا ہے جس کی وجہ سے ٹی وی دیکھنا آپ کو اچھا محسوس ہوتا ہے۔
یہ endorphins ہیں جو قدرتی طور پرہیروئن کی طرح کی خصوصیات کا حامل ہوتے ہیں۔ لہذا ٹی وی کا جسمانی طور پر عادی ہوجانا عین ممکن ہے۔ یہ روزانہ ٹی وی دیکھنے کو یقینی بناتے ہیں اور ذہن کواس حوالے سے پروگرام کرنے کے لئے ایک اہم عنصر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جو شخص اپنے من پسند ٹیلی ویژن پروگرام کو دیکھنے سے قاصر رہے تو وہ بعض ایسی علامات کا اظہار کرتا ہے جو کسی نشے کے عادی کو نشہ نہ ملنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ یعنی وہ ناراض اوربے چین ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ جب آپ سو رہے ہوں تو آپ کا دماغ اس وقت زیادہ فعال ہوتا ہے با نسبت جب آپ ٹی وی دیکھ رہے ہوں۔ چونکہ آپ کے دماغ کی صحت کا بڑی حد تک دار و مدار اس بات پر ہے کہ آپ اُسے کتنا فعال طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لہذا بہت زیادہ ٹیلی ویژن دیکھنا آپ کے دماغ کی صحت کے لیے اس طرح بھی نقصان دہ ہے کیونکہ ٹیلیویژن دیکھتے وقت دماغ کم سرگرم رہتا ہے کیونکہ آپ کو سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے برعکس جب آپ پڑھتے ہیںتو آپ کا دماغ مختلف طرح کی اشکال بناتا ہے جس کے لیے خصوصی دماغی طاقت کی ضرورت ہے۔
لہذا جب آپ پڑھ رہے ہو تے ہیں تو آپ کا دماغ موثر انداز میں ورزش کرر ہا ہوتا ہے ۔توکیا پھر ہم ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں؟ اس سوال کے جواب میں اُنھوں نے فوراً کہا کہ میں نے شروع میں ہی کہا تھا کہ ٹی وی تفریح کا بہت بڑا ذریعہ ہے آپ اس سے منہ نہیں موڑ سکتے ۔میں خود ٹی وی پر خبریں، فلمیں ،ڈرامے ، ٹاک شوز دیکھتا ہوں لیکن اعتدال کے ساتھ کیونکہ جب تک آپ اعتدال پسندی کرتے ہو تو ٹی وی دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔تو پھر ٹی وی دیکھنے اور ذہنی صحت کو اکٹھے کیسے برقرار رکھا جا ئے؟ اس بارے میں اُنھوں نے کہا کہ اس حوالے سے جو ایک بہترین کام آپ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہر دن کم از کم 30سے60 منٹ تک پڑھیں۔
پڑھنا دماغ کے لئے ورزش ہے۔ اسی طرح جیسے دوڑنا جسم کے لئے ورزش ہے۔کوئی دوسری زبان سیکھنا بھی دماغ کو سرگرم رکھنے کے لیے بہترین ہے۔اس کے علاوہ آپ ہفتے میں ایک یا دو دن ٹی وی دیکھنے کے دورانیہ کو محدود کریں اور اپنا باقی وقت ایسی سرگرمیوں میں مشغول کریں جو آپ کی زندگی کو طویل المدتی فائدہ پہنچائے جیسے اپنے ذاتی اہداف کا حصول کے سلسلے میں کوشش وغیرہ۔
ٹی وی کے انسانی نفسیات پر اثرات
پروفیسر ڈاکٹر امجد طفیل ماہر نفسیات ہیں ۔اسلامیہ کالج ، ریلوے روڈلاہور میں شعبہ نفسیات کے سربراہ ہیں۔ دس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ٹی وی انسانی رویوں اور طرز عمل پر کس طرح اور کتنا اثر انداز ہوتا ہے؟ اس حوالے سے وہ کہتے ہیں۔ '' کہ علم نفسیات اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ہمارا کردار سیکھنے سے بنتا ہے۔ سیکھنے کے بہت سے طریقے ہیں۔اس حوالے سے جس طرز کو ہم سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں اُسے Imitation کہا جاتا ہے ۔جسے تقلید/ نقل کرنا بھی کہتے ہیں۔
اسے Observation learning کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہوتا ہے۔ اُسی کو ہم سیکھتے ہیں۔ اُسی کو ہم دوہراتے ہیں۔ اُسی سے ہمارا کردار تشکیل پاتا ہے۔ اس حوالے سے بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہر نفسیات Albert Bandura نے بہت بنیادی قسم کا کام کیا ہے۔
اُنھوں نے اُس طریقے کو سمجھنے کی کوشش کی جس سے مشاہدہ ہمارے سیکھنے کے عمل کو مکمل کرتا ہے۔اُن کے مطابق جس طرح کے حالات لوگوں کے سامنے رکھے جائیں ۔ جس طرح کے مناظر لوگ دیکھیں گے ۔ اُسی طرح کا اُن کا کردار تعمیر ہوتا چلا جائے گا۔ اس حوالے سے اُنھوں نے بچوں پر تحقیق کی اور اُنھیں مختلف طرح کے کارٹون وٹی وی پروگرامز دکھائے گئے ۔اس تحقیق میں Albert Bandura نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ جو جارحیت ہے ۔تشدد ہے ۔کیا یہ بھی کوئی سیکھا ہوا کردار ہے؟تو ایسے بچے جن کو تشدد پر مبنی کارٹونز دیکھا ئے گئے تھے۔
اُنھیں نے اسی طرح کے کردار کا زیادہ اظہار کیا بانسبت ان بچوں کے جنہیں مثبت باتوں پر مشتمل کارٹونز دکھائے گئے۔ اس تحقیق سے اُنھوں نے یہ ثابت کیا کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں ہمارا کردار اُس کے مطابق ڈھلتا چلا جاتا ہے۔
یہ بالکل درست بات ہے کہ ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی اُس پر اثر انداز ہوتی ہیں لیکن چھوٹے بچوں خصوصاً Teen agers جسے عہد شباب بھی کہا جاتا ہے ان پر Imitation بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ ڈاکٹر امجد طفیل کا کہنا ہے کہ جب ہم ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں تو ٹی وی کی اسکرین پر جو کچھ چل رہا ہوتا ہے وہ ہمارے لیے ایک رول ماڈل کی شکل اختیار کر جاتا ہے ۔
اور لوگ اسے اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ٹیلی ویژن ہو یا کوئی اور میڈیا نفسیات میں ہم ان کے لیے ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں کہ یہ Behavioral modification (رویوں میں ردوبدل)کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق انسانی ذہن لفظوں میں نہیں سوچتا بلکہ Images میںسوچتا ہے۔ اور جو کچھ آپ ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں وہ بنیادی طور Image ہوتا ہے اور جو Images ہیں وہ انسانی دماغ کو زیادہ اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔
اسی طرح جب ہم اپنی ایک حس (Sense)کو استعمال کر رہے ہوں تو اس کا اثر کم ہوتا ہے۔لیکن ایک ہی Process میں اگر زیادہ حسوں کا استعمال ہو تو اس کا اثر انسانی ذہن/ دماغ پر بڑھ جاتا ہے۔ مثلاً ٹی وی ہم دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان جو اپنی زندگی میں 95 فیصد تک جن دو بڑی حسوں یعنی دیکھنے اور سننے کا استعمال کر تا ہے۔ ٹی وی دیکھتے یہ دونوں استعمال ہوتی ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس مطالعہ میں دیکھنے اور ریڈیو میں سننے کی حس استعمال ہوتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مطالعہ اور ریڈیو سننے سے جو اثرات آتے ہیں ان دونوں کا مجموعہ ٹیلی ویژن پروگراموں کے ذریعے آتا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں جو ٹی وی کا میڈیم ہے اس کے اپنی ویورشپ پر اثرات بہت دیر پاء اور گہرے ہوتے ہیں اس لیے ٹی وی پروگرامز کو بناتے ہوئے ان کو چلانے سے پہلے ان کا بہت محتاط تجزیہ کرنا ضروری ہے ''۔
ٹی وی کے جسمانی صحت پر اثرات
ڈاکٹر وقاص اشرف جو ہڈیو ں اور درد شقیقہ (Consultant Interventional Orthopaedic & Pain Management) کے ماہر ہیں ۔ ٹی وی کے انسان کی جسمانی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات اور ان اثرات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے۔
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہو ئے انھوں نے کہا کہ ۔''ٹی وی دیکھنے میں قطعاً کو ئی مضائقہ نہیں ہاں مسئلہ ہے تو ضرورت سے زیادہ ٹی وی دیکھنے میں۔کیونکہ آپ جتنی زیادہ دیر تک ٹی وی کے آگے بیٹھے رہیں گے تو زیادہ طویل وقت کے لیے ایک ہی جگہ پر بیٹھنے سے آپ کے جسم میں خون کی گردش متاثر ہوتی ہے خاص کر ٹانگوں کو خون کی موزوں سپلائی متاثر ہوتی ہے۔ اور جب آپ اٹھتے ہیں تو ٹانگیں سن ہوئی محسوس ہوتی ہیں یا پھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گھٹنے آپس میں جڑ گئے ہیں اور اس کیفیت میں آپ سیدھا کھڑا نہیں ہوسکتے اور یہ حالت کچھ دیر لیتی ہے درست ہونے میں۔ اس کے علاوہ زیادہ عرصہ تک ایک جگہ بیٹھنے سے آپ کی ٹانگوں میں blood clot بھی بن سکتے ہیں ۔اور طویل بیٹھنا آپ کے پھیپھڑوں کی آکسیجن کھینچنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کرتا ہے۔
بعض لوگ ایسے بیٹھتے ہیں کہ اُنکی ریڈھ کی ہڈی انگلش کے حرف C کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اور اس صورت میں طویل عرصہ تک بیٹھنا پیٹ اور پیٹھ کے دبے اور کچھے ہوئے پٹھوںمیں اکڑن اور درد کا باعث بنتا ہے۔ زیادہ ٹی وی دیکھنے سے چونکہ آپ کاجسم زیادہ وقت کے لیے غیر متحرک ہو جاتا ہے۔اس وجہ سے آپ موٹاپے کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ذیابیطس میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور دل کے امراض کے شکنجے میں بھی پھنس سکتے ہیں۔ایک امریکی تحقیق کے مطابق روزانہ دو گھنٹے مسلسل ٹی وی دیکھنے کی وجہ سے آپ میں موٹاپے کے امکان میں 23 فیصد اور ذیابیطس کے امکان میں 14 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ ٹی وی دیکھنے سے آپ کی بینائی متاثر ہوتی ہے۔
آپ کے سننے کی صلاحیت پر اثر پڑتا ہے۔ پٹھوں کی کمزوری اور کھچاؤ کی شکایت ہوتی ہے۔اور اگر ٹی وی دیکھتے ہوئے آپ کا جسم درست حالت میں نہیں تو آپ کو گردن اور کمر کے مہروں کے علاوہ کولہے کی ہڈی کے مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔آپ نیند کی کمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔اس کے علاوہ جو مندرجات ا ٓ پ ٹی وی پر دیکھتے ہیں ان میں سے کچھ آپ کو بلڈ پریشر میںاضافہ کا بھی محرک بنتے ہیں۔اور ایسے شخص کو جو بہت کم یا بالکل ورزش نہ کرے اور بہت زیادہ ٹی وی دیکھے اُسے مغرب میںCouch Potato(نشستی آلو) کہا جاتا ہے۔
لہذا ٹی وی دیکھیں لیکن اعتدال اور احتیاط کے ساتھ۔ یعنی ٹی وی دیکھنے کے حوالے سے اپنی روز کی ایک حد مقرر کرلیں ۔ٹی وی کو مسلسل طویل دورانیہ کی بجائے چھوٹے چھوٹے پیریڈز میں دیکھیں۔ اور جب آپ کے پسندیدہ پروگرام میں وقفہ آجائے تو اس دوران اپنی جگہ سے اٹھیں اور اپنا کوئی اور کام کر لیں۔ اور اگر بریک نہیں ہے تو کچھ وقت کے لیے کھڑے ہوکر بھی ٹی وی دیکھ لیں۔
30 منٹ کی نشست کے بعد جسم کو ضرور حرکت دیں ۔ٹی وی اپنی فیملی کے ساتھ مل کر دیکھیں اور ایک دوسرے سے گفتگو کریں ۔ ٹی وی اسکرین اور جہاں سے آپ ٹی وی دیکھنا چاہتے ہیں ان دونوں کے مابین مناسب فاصلہ رکھیں۔
ٹی وی کو روشی میں دیکھیں۔ ٹی وی دیکھنے کے دوران اپنی body posture کو درست انداز میں رکھیں۔ لیٹ کر تو ٹی وی بالکل بھی نا دیکھیں۔ کوشش کریں کے ہمیشہ ٹی وی کو سیدھی گردن رکھ کر دیں سامنے کی جانب سے دیکھیں گردن موڑ کر نا دیکھیں۔ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانے سے اجتناب کریں کیونکہ اکثر جنک فوڈ کا استعمال ٹی وی دیکھتے ہوئے کیا جاتا ہے اور بعض اوقات ٹی وی دیکھنے میں لوگ اتنا محو ہوجاتے ہیں کہ اُنھیں اندازہ نہیں رہتا کہ وہ کتنا کھانا کھاچکے ہیں۔
ٹی وی دیکھنے کے لیے کرسی پر بیٹھتے وقت اپنی پیٹھ کے پیچھے تکیہ رکھ کر بیٹھیں ایسا کرنے سے آپ کے پھیپھڑے کھل جائیں گے اور سانس لینے میں آسانی ہوگی۔سونے سے چند گھنٹے قبل یا کم از کم ایک دو گھنٹے قبل ٹی وی نہ دیکھیں ۔ بچوں کے لیے ٹی وی دیکھنا ایک سرگرمی بنائیں نا کہ عادت اور اپنی موجودگی میں انھیں ٹی وی دیکھائیں۔ بچوں کے لیے زیادہ سے زیادہ کھیلوں اور دیگر مثبت سرگرمیوں میں مصروف رہنے کے مواقع پیدا کریں''۔
ٹی وی کیسے دیکھیں؟
ٹی وی چونکہ بصری میڈیم ہے اور ہمارے جسم کے جس عضو کا اس سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے وہ آنکھیں ہیں۔ہم جس انداز سے اور جتنا زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں اس سے ہماری آنکھوں کے متاثر ہونے کا قوی امکان رہتا ہے ۔ ڈاکٹر شہزاد سعید جو کہ ماہر امراضِ چشم ہیں جب اُن کے سامنے یہ سوال رکھا گیا کہ ہمیں ٹی وی کیسے دیکھنا چاہئے تو اُن کا کہنا تھا کہ '' ماہرین ٹی وی دیکھتے وقت اس سے کم از کم آٹھ سے دس فٹ دور بیٹھنا تجویز کرتے ہیں۔
اس حوالے سے دنیا بھر میں جو ایک اسٹینڈرڈ اصول موجود ہے وہ یہ کہ آپ کے گھر میں موجود ٹی وی کی اسکرین جتنی بڑی ہے آپ اُس سائز کے پانچ گنا فاصلہ پر بیٹھ کر ٹیلی ویژن دیکھیں۔ مثال کے طور پراگر آپ کے ٹی وی کی اسکرین32 انچ کی ہے تو اسے دیکھنے کا فاصلہ 150 انچ یا تقریباً 13 فٹ ہونا چاہئے۔اس کے علاوہ آنکھوں کے عمودی پٹھوں کو زیادہ تھکاوٹ سے بچانے کے لئے ٹی وی کو آنکھوں کی سطح کے متوازی یا اس سے کم پر رکھیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کمرے میں مناسب لائٹنگ ہو۔
اندھیرے میں ٹی وی دیکھنے سے آپ کی آنکھیں تھک جاتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں آنکھوں کے ماہرین ٹی وی دیکھنے کے حوالے سے 20,20,20 کا ایک قاعدہ تجویز کرتے ہیں کہ ہر 20 منٹ ٹی وی دیکھنے کے بعد 20 سیکنڈ تک 20 فٹ دور کسی چیز کو غور سے دیکھا جائے۔اس سے آپ کی آنکھ کو نزدیک اور دور کی چیزیں فوکس کرنے میں دشواری نہیں ہو گی اور اُس کی ورزش ہوتی رہے گی اور آنکھوں کو وقفہ بھی ملے گا۔اس کے علاوہ باقاعدگی سے پلک جھپکانا یاد رکھیں۔
اوسطا ًایک عام فرد ہر 5 سیکنڈ میں پلک جھپکتا ہے۔ جب آپ ٹی وی دیکھ رہے ہوں یا آپ کمپیوٹرکے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں تو 12 سیکنڈ میں ایک بار پلک جھپکنے تک یہ وقت چلا جاتا ہے ۔ پلک جھپکانے کے عمل کو باقاعدگی سے دہرانے سے آپ کی آنکھیں ٹی وی دیکھتے وقت خشک ہونے سے بچیں گی۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ٹی وی دیکھنے سے آنکھوں پر دباؤ آرہا ہے تو آنکھ کی آہستہ سے مالش کریں یا کپڑے کو گرم پانی سے گیلا کرنے کے بعد اسے نچوڑیں اور آنکھوں پر لگا کر ہلکی ٹکور کریں۔ اٹھ کر گھوم پھریں اور آنکھوں کو اسکرین فری وقت دیں۔ ایسا کرنا آپ کے جسم کو خارش اور کمر کی پریشانیوں سے بھی بچاتا ہے۔
اپنی آنکھوں کو آرام دینے اور ٹی وی دیکھنے کے بعددوبارہ نارمل کرنے کے لیے رات میں کم ازکم 8 گھنٹے کی نیند حاصل کریں۔اس کے علاوہ اپنے روایتی ٹی وی کو ایک فلیٹ اسکرین ٹی وی میں اپ گریڈ کریں جو کم چکاچوند دیتا ہے۔ اسی طرح بڑی سکرین والے ٹی وی کا انتخاب بھی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس پر آپ کی آنکھوں کو توجہ دینے کے لئے زیادہ زور نہیں دینا پڑتا ہے۔
آخری اور سب سے اہم بات جو ڈاکٹر شہزاد سعید نے بتائی وہ یہ ہے کہ ٹی وی اور کمپیوٹر دیکھتے وقت زیادہ سے زیادہ پانی پیئیں۔ایسا کرنے سے آپ کو بار بار ٹوائلٹ جانا پڑے گا جس سے آپ کی آنکھوں کو بھی وقفہ ملے گا اور جسم کو حرکت بھی۔