امریکا ایران کو جوہری حق دینے پر تیار

امریکا، ایران قربت کے بعد اہم اتحادی برطانیہ بھی ایران سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں دل چسپی لینے لگا ہے۔

ایرانی صدرحسن روحانی اور امریکی صدر سے براہ راست رابطہ ہوجانا ایک بڑی پیش رفت کہی جا رہی ہے ۔ فوٹو : فائل

1979ء خطے میں بڑی تبدیلیوں کا سال ثابت ہوا۔ اس سال نہ صرف ایران میں شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا، بلکہ عراق میں 16جولائی کو صدام حسین برسراقتدار آئے۔

پاکستان میں پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے علاوہ اسی برس 24 دسمبر کو روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ یہ چاروں تبدیلیاں خطے میں دیر پا تغیرات کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ ایران اور عراق کی تبدیلیوں کے بعد دونوں ممالک کے بیچ طویل عرصے تک محاذ جنگ گرم رہا تو دوسری طرف انہی تبدیلیوں کے بعد پاکستان اور افغانستان کے معاملات بھی طویل عرصے تک الجھے رہے۔

ایران میں انقلاب برپا کرنے والے آیت اﷲخمینی کی تحریک یوں تو1978ء میں اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی، جب معاملات ہاتھ سے نکلے تو شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی 16 جنوری 1979ء کو مصر چلے گئے۔ اس کے بعد ملک میں 30 مارچ کو اسلامی انقلاب کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد ہوا۔ اس سے پہلے یکم فروری کو آیت اﷲ خمینی ایران لوٹ چکے تھے۔ ریفرنڈم کے نتائج میں ایران میں آنے والی تبدیلی پر مہر ثبت کردی۔ اس سے جہاں ایران کے داخلی معاملات میں انقلاب برپا ہوا، وہیں اس کی خارجہ حکمت عملی بھی از سرنو مرتب ہوئی اور امریکا سے تعلقات میں شدید تناؤ آیا اور امریکا دشمنی عروج پر پہنچ گئی۔ امریکی سفارتی عملے کو یرغمال بنانے کے مشہور زمانہ واقعے کے علاوہ ملک بھر میں ''مرگ بر امریکا'' کا نعرہ انتہائی مشہور ہوا۔ مختلف عوامی مقامات سے لے کر اہم عمارتوں تک میں پائے دان پر امریکی پرچم بنا ہوتا اور اس پر ''مرگ بر امریکا'' لکھا ہوتا۔

اس کے علاوہ پڑوسی ملک عراق سے طویل ترین جنگ بھی چھڑی، جسے درپردہ عالمی بساط پر بچھائی گئی ایک چال کاہی نام دیا جاتا ہے۔ دراصل ایران کی سرحدیں اس عرب دنیا سے جڑی تھیں جہاں بادشاہت نافذ تھی، اس لیے وہاں بے چینی ہونا فطری امر تھا۔ پھر عرب و عجم کا ٹکراؤ بھی اسے مہمیز کر رہا تھا اور اگر کسی مصلحت سے کام نہ لیا جائے تو مکتبہ ہائے فکر کا فرق بھی اسے تیز تر کیے جا رہا تھا۔ بہ ظاہر عراق نے شط العرب پر اپنی عمل داری قبول کرنے اور آبنائے ہرمز کے قریب واقع جزائر خالی کرنے کے مطالبہ نہ ماننے پر ایران سے جنگ چھیڑی، لیکن اس کے پیچھے محرکات عالمی ہی تھے۔



پھر عراق کو خصوصیت کے ساتھ ایرانی انقلاب سے خطرہ یوں بھی زیادہ تھا کہ محرک انقلاب آیت اﷲ خمینی نے اپنی جلاوطنی کے ایام عراق میں بھی گزارے تھے اور ظاہر ہے کہ ان کے وہاں موجود عقیدت مندوں سے اب عراقی حکومت کو خطرہ تھا، لہٰذا انقلاب کے فوری بعد 23 ستمبر 1980ء کو اس جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے جو 20 اگست 1988ء میں جا کر بجھ سکے۔

یوں امریکا اور عالمی قوتوں نے درپردہ اپنے دو دشمنوں کو باہم بھڑا کر ایک تیر سے دو شکار کیے۔ ایران میں تبدیلی کے بعد امریکا کی اس سے مخاصمت کسی سے چھپی نہ تھی، لیکن مستقبل میں اس نے ایک طرف 1990ء میں صدام حسین کو ایران ہی نہیں خلیج کے لیے بھی ''خطرہ'' بنا کر تاراج کیا اور کویت اور سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ریاستوں میں اپنے فوجی اڈے قائم کر ڈالے، لیکن طویل المدتی سازش کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر صدام حسین کی حکومت برقرار رکھی گئی اور پھر 2003ء میں مہلک ہتھیاروں کو جواز بنا کر ایک بار پھر نہ صرف عراق پر چڑھائی کر کے صدام کی حکومت ختم کی بلکہ اسے گرفتار کر کے منطقی انجام تک بھی پہنچایا۔

ایران امریکا تعلقات میں شدید کشیدگی کا یہ عالم تھا کہ 22 جون 1998ء کو فٹ بال ورلڈ کپ میں دونوں ٹیموں کے درمیان ہونے والا میچ بھی کسی جنگ کی سی کیفیت اختیار کر گیا، اور اس اعصاب شکن معرکے میں ایران نے 2-1 سے کام یابی حاصل کی۔ عالمی سیاست میں دونوں ممالک کے درمیان شدید تناؤ کی وجہ سے عالمی ذرایع ابلاغ نے بھی اس میچ کو خاطر خواہ اہمیت دی۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے محاذوں پر ایران، امریکا سرد جنگ عروج پر رہی۔

بالخصوص 2006ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے موقع پر ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ کی جانب سے سخت مزاحمت سے واشنگٹن نے یہ بھانپ لیا کہ تہران کی فوجی قوت کے بارے میں کم زور اندازہ لگانا کسی طرح درست نہیں۔ یہی نہیں عراق میں بھی بعض اوقات امریکا کو واضح طور پر بالواسطہ یہی اشارے ملے۔ اس کے علاوہ بیش تر عرب ممالک کی امریکی قربت اور ایران سے دوری نمایاں رہی۔ خطے کے مسائل میں اکثر عرب ممالک اور امریکا ہم نوا، جب کہ ایران ان کے مدمقابل نظر آیا۔ بات چاہے ایران، سعودیہ تناؤ کی ہو، یا بحرین اور یمن میں شیعہ مکتبہ فکر کے معاملات، ہر دو جگہوں پر دونوں ممالک آمنے سامنے نظر آئے۔

اگرچہ 2007ء میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر خادم الحرمین شریفین سے ملاقات کے موقع پر غیرمعمولی گرم جوشی نظر آئی، مگر یہ زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوسکی۔ اس کے بعد مصر میں بغاوت کے بعد محمد مرسی صدر بنے، تو انہیں ایران اور عرب دنیا کے قریب لانے والے پل کی حیثیت سے دیکھا جا رہا تھا، لیکن مصر کی فوجی بغاوت سے ایک بار پھر سارا منظر تبدیل ہو گیا۔ یہی نہیں عرب اور فارس کے درمیان تیزی سے ابھرتا ہوا ترکی بھی یہی کردار ادا کر رہا تھا، لیکن شام کے بحران پر ایران اور ترکی کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ یوں امریکی کردار کے بغیر ایران اور خلیجی ممالک کے درمیان مفاہمت اور قربت کی تمام کوششیں اپنے انجام تک نہ پہنچ سکیں۔

اس کے بعد عرب ممالک میں حکم رانوں کے خلاف پیدا ہونے والی بغاوتوں کا سلسلہ تیونس، مصر اور لیبیا سے ہوتا ہوا جب شام تک پہنچا تو ایران نے خطے میں اپنی حلیف بشارالاسد حکومت کی ہر طرح سے حمایت کی، دوسری طرف امریکا شام کی حزب اختلاف کی حمایت کے لیے آموجود ہوا۔

الغرض ایران اور امریکا ایک اور محاذ پر بالواسطہ ایک دوسرے کے مقابل تھے، یہاں تک کہ اوباما نے شام پر حملے کی دھمکی بھی دے ڈالی، تاہم روس کی جانب سے سخت انتباہ کے باعث اس پر عمل درآمد ممکن نہ ہوا۔ اسی اثنا میں نومنتخب ایرانی صدرحسن روحانی اور امریکی صدر سے براہ راست رابطہ ہوجانا ایک بڑی پیش رفت کہی جا رہی ہے۔ دونوں ممالک میں گذشتہ 34 برس سے روابط منقطع تھے۔ ایرانی صدر نے امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں امریکیوں کو دوستی کا پیغام دیتے ہوئے یہاں تک کہا ماضی میں انسانیت کے خلاف کیے گئے ہر اقدام کی مذمت کی جانی چاہیے، چاہے وہ نازیوں کی جانب سے یہودیوں کا قتل عام ہو یا کسی اور مذہب کے ماننے والوں کا۔ اس کے بعد اوباما نے انہیں فون کرکے جلد ازجلد باہمی مسائل کے حل کا عزم کیا اور خصوصیت کے ساتھ ایرانی جوہری پروگرام کا بھی ذکر کیا۔


اس بات چیت سے اوباما نے بھی تہران سے معطل تعلقات بحال کرنے کی امید ظاہر کی۔ دوسری طرف ایرانی صدر کا بھی کہنا ہے کہ اوباما نے کہا ہے کہ وہ جوہری توانائی تک دست یابی کے ایرانی حق کا احترام کرتے ہیں۔ یہی نہیں تبدیل شدہ صورت حال کے بعد امریکی وزیرخارجہ جان کیری بھی تہران سے تعلقات کے حوالے سے ڈرامائی اور تیز رفتار تبدیلی کی باتیں کرتے نظر آرہے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ چاہے کوئی بہت بڑی تبدیلی آئے یا نہ آئے، لیکن دونوں ممالک کے درمیان مسلسل تین عشروں سے جاری رہنے والی تلخی میں واضح کمی ضرور آرہی ہے۔ امریکی وزیرخارجہ نے معاملات حل ہونے کے لیے 3 سے 6 ماہ کی مدت کا ذکر کرتے ہوئے ایرانی جوہری پروگرام کے پرامن ہونے سے متعلق مشروط طور پر قائل ہونے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

حالیہ دنوں میں باراک اوباما کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ہدف یہ ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا جائے۔ اگرچہ تہران پر پابندیاں عاید کرنے والے امریکی اراکین کانگریس اب بھی ایران سے شاکی ہیں، تاہم امریکی صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کانگریس کی اجازت کے بغیر ایران کے خلاف پابندیوں کو 120 روز کے لیے معطّل کر سکتے ہیں۔ امریکی صدر اپنا یہ اختیار دو مرتبہ استعمال کر سکتے ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کے سابق عہدے دار آرون ڈیوڈ ملِر اس حوالے سے کہتے ہیں،''اس میں کوئی حرج نہیں امریکی کانگریس ایران کو شک کا فایدہ دے کر عارضی آسانی دے اور اگر وہ ایران کی جانب سے کوئی ایسا اقدام دیکھیں جس پر انہیں شک ہو تو وہ یہ سہولت واپس بھی لے سکتے ہیں۔''

امریکا، ایران قربت کے بعد اہم اتحادی برطانیہ بھی ایران سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں دل چسپی لینے لگا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کی طرح برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ بھی پُرامید ہیں کہ وہ آنے والے دنوں میں تہران سے بہتر تعلقات قائم کر لیں گے۔ یاد رہے کہ2011ء میں ایران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ حملے کے پیش نظر تہران میں برطانوی سفارت خانے کو بند کر دیا گیا تھا، اس پر مشتعل ایرانیوں کے ہجوم نے دھاوا بول دیا تھا۔ ایران نے بھی لندن میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا، اس کے بعد سے تعلقات کشیدگی کا شکار رہے۔



شام کے بحران پر زبردست تناؤ کی کیفیت سے دوچار ہونے والے ایران امریکا تعلقات کی بہتری کے حوالے سے اچانک پیش رفت یوں ہی نہیں ہے۔ تین دہائیوں کی مسلسل کشیدگی کے بعد امریکی صدر کا ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے نرم موقف اختیار کرنا خطے میں یقیناً امریکی مفادات کے حوالے سے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ امریکا جوہری حق کے بدلے خطے میں تہران کی طرف سے اپنے لیے خطرات کم کرنے کی جستجو میں ہے۔ اس کے علاوہ امریکا خطے میں ایران، ترکی اور عرب دنیا کے درمیان فاصلوں کو کسی طور کم نہیں ہونے دینا چاہتا۔ یوں بہ یک وقت کئی محاذوں کو گرم رکھ کر خطے میں اپنی آیندہ حکمت عملیاں ترتیب دی جائیں گی۔ ان تبدیلیوں میں اپنی حلیف عرب حکومتوں کو بھی واضح اشارہ دینا ہے، ساتھ ہی شام کے معاملے پر بھی کچھ لو اور کچھ دو کی حکمت عملی کے تحت تہران کی مدد لینی ہے یا اس کے ردعمل کو کم کرنا اس کا مقصد ہوسکتا ہے۔

جغرافیائی لحاظ سے افغانستان اور عراق کے ہم سائے ایران کی سرحدیں ترکی سے بھی ملتی ہیں، جس کی ابھرتی طاقت کو بھی ایران سے پرے رکھنا ہیِ، کیوں کہ ترکی نے اگرچہ اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے، لیکن اسرائیلی مظالم پر اس کا ردعمل خاصا سخت رہا ہے۔ فی الوقت شام کے مسئلے پر اختلاف کے باعث ایران اور ترکی ایک دوسرے سے دور ہیں، لیکن امریکا آیندہ بھی کبھی ان دونوں ممالک کی قربت نہیں بڑھنے دینا چاہتا۔ المختصر ایران سے تعلقات بڑھانے کی امریکی حکمت عملی کے تحت کسی طور بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرے گا، بلکہ اپنی لچک کا پورا پورا منافع لے گا اور اس کے خدوخال آنے والے دنوں میں واضح ہوتے چلے جائیں گے۔

ایران امریکا مشترکات
ایران میں آیت اﷲ خمینی کے انقلاب کے بعد ایک طرف دونوں ممالک ایک دوسرے سے انتہائی فاصلے پر چلے گئے، بلکہ دونوں ممالک کے درمیان شدید کشیدگی کے بھی دور گزرے، لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان بہت سی چیزوں پر موقف میں یکسانیت سامنے آئی، جس میں سر فہرست شدت پسندی اور طالبان والقاعدہ کی مخالفت تھی۔

اس کے ساتھ اگر ماضی قریب کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو امریکا نے ایران کے دو ہم سایوں افغانستان اور عراق پر فوج کشی کی۔



یوں ان دونوں ممالک میں ایران مخالف حکومتوں کا خاتمہ عمل میں آیا۔ افغانستان میں موجود طالبان کی حکومت اور ایران کے درمیان کبھی بھی اچھے تعلقات نہیں رہے، یہی نہیں بلکہ افغانستان میں طالبان حکومت کی حمایت کرنے پر ایران کے پاکستان سے تعلقات بھی شدید سردمہری کا شکار ہوئے۔ دوسری طرف عراقی صدر صدام حسین کی تہران سے دشمنی بھی واضح تھی۔ انہیں پھانسی دیے جانے کو ایران کی جانب سے سراہا گیا۔

تہران کی داخلی بے چینی
ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای نے اگرچہ حسن روحانی کی امریکی صدر سے بات چیت کی حمایت کی، لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی قابل اعتبار نہیں، ماضی میں بھی انہوں نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔ دوسری طرف جب حسن روحانی امریکا سے لوٹے، تو ان کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین نے اوباما سے بات چیت پر سخت غصے کا اظہار کیا اور امریکا اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے۔ ایران میں انقلاب کے کچھ عرصے بعد اصلاح پسندوں اور قدامت پسندوں کے درمیان سرد جنگ کی سی کیفیت ہے۔

1997ء میں سید محمد خاتمی کے انتخاب کے بعد سے یہ سیاسی تقسیم ہر صدارتی انتخاب میں واضح تر ہوتی چلی گئی۔ سیاسی قرائن بتا رہے ہیں کہ ایرانی قدامت پرستوں کی جانب سے امریکا سے تعلقات میں پیش رفت کی مخالفت کی جا سکتی ہے۔ چوں کہ 34 سال ایک بڑا عرصہ ہوتا ہے، جس میں شدید امریکا مخالف سوچ کے بعد موقف تبدیل ہونا ظاہر ہے لوگوں میں بے چینی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے ایران کو امریکا سے کسی بھی قسم کی پیش رفت کرتے ہوئے داخلی سطح پر امریکا کے حوالے سے پیدا ہونے والی بے چینی کو بھی ختم کرنا ہوگا۔
Load Next Story