اللہ بڑا ہے
اللہ کی بڑائی پر تو ہزاروں انداز میں، لاکھوں طریقوں سے صدیوں سے لکھا جاتا رہا ہے اور تا قیامت تک لکھا جاتا رہے گا۔
اللہ اکبر وہ کلمہ ہے اور وہ دو الفاظ ہیں جو شاید ایک مسلمان اپنی زندگی میں سب سے زیادہ بولتا اور سنتا ہے۔ اذان میں ، تکبیر میں ، نماز میں ، حج کے دوران اور روزمرہ کی زندگی مختلف مواقع پر میں یہ دو الفاظ سب سے زیادہ کانوں میں پڑا کرتے ہیں۔
اللہ اکبر کا مطلب ہے اللہ بڑا ہے۔ اب اللہ کی بڑائی پر تو ہزاروں انداز میں، لاکھوں طریقوں سے صدیوں سے لکھا جاتا رہا ہے اور تا قیامت تک لکھا جاتا رہے گا کہ اللہ کی بڑائی کس کس طرح سے ہے اور کیا کیا انداز میں جلوہ نما ہے تو ذرا اسی بڑائی کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ویسے تو ایک بہت بڑے عالم و صوفی بزرگ نے لکھا ہے کہ اگر کل مخلوقات یعنی تمام انسان ، جنات ، ملائکہ اور دیگر معلوم و نامعلوم مخلوقات کی عقول ، شعور اور علم کو کسی طرح سے یکجا کر کے ایک عقل واحد کو منظم کیا جائے اور کل مخلوقات کے تمام تر علم اورصلاحیتوں کی حامل وہ مجموعی عقلِ واحد اگر تمام زمینوں کو صفحے اور تمام سمندروں کو سیاہی اور تمام درختوں کو قلم بنا کر اللہ کی بڑائی لکھنا شروع کرے تو تمام سیاہی خشک ہو جائے گی۔
تمام قلم گھس کر ختم ہو جائیں گے تمام صفحے بھر جائیں گے اور وہ مفروضہ عقل واحد اپنی تمام تر صلاحیتیں تمام تر علم کو استعمال کرتے کرتے تھک کر چور ہو جائے گی لیکن اللہ کی بڑائی پوری طرح بیان ہونا تو درکنار ابھی ابتدایئے کا بھی حق ادا نہیں ہو پائے گا۔
بنی اسرائیل کی روایات میں اس حوالے سے ایک روایت کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام نے اللہ تعالی سے عرض کی کہ '' یااللہ اگر تیری سب مخلوقات ، یہ جن و انس اور ملائکہ اور دیگر مخلوقات تجھ سے ایک ساتھ بغاوت کر دیں توکیا ہو گا ؟ '' جواب ملا کہ '' اے موسی ! یہ ممکن ہی نہیں ہے سب میرے حکم میں جکڑے ہوئے ہیں '' موسی علیہ السلام نے دوبارہ عرض کی کہ ''یااللہ اگر بالفرض محال ایسا ہو جائے تو؟ '' جواب ملا کہ '' پھر میرے جانوروں میں سے ایک جانور آئے گا اور سب کو ایک لقمے میں کھا جائے گا '' موسی علیہ السلام نے حیران ہو کر پوچھا کہ '' آپ کے وہ جانورکہاں ہیں ؟ جواب ملا ''میری چراگاہوں میں سے ایک چراگاہ میں ہیں۔''
موسی علیہ السلام نے مزید حیران ہو کر پوچھا کہ '' یا باری تعالی وہ چراگاہیں کہاں ہیں ؟ '' جواب ملا کہ '' وہ میرے علم میں ہیں اور علم الہی لامحدود ہے! اب اس حکایت پر ذرا غورکریں تو دل کانپنے لگتا ہے کہ جانوروں میں سے ایک جانور ، یعنی نا معلوم کتنے جانور ہیں اس طرح کے جو سب مخلوقات کو ایک لقمہ بنا کر کھا جائیں ! پھر چراگاہوں میں سے ایک چراگاہ ، وہ اتنے بڑے جانوروں کی چراگاہ کتنی بڑی ہو گی ہم تصور بھی نہیں کر سکتے اور پھر چراگاہ ایک نہیں بلکہ کئی ایک ہیں تو اتنی بڑی چراگاہوں کا بنانے والا کتنا بڑا ہو گا ؟ ''
اب آئیے ! زمان و مکان کے تانے بانے سے بنی ہوئی ، اس کائنات کی طرف تو اس کائنات کی ہولناک ، ہیبت ناک ، مہیب اور ناقابل یقین وسعت اور پھیلاؤ کے بارے میں اب تک سائنس اور فلکیات وکونیات کے ماہرین جو جان پائے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ہم جس سیارے پر رہتے ہیں ، اسے کرہ ارض کہتے ہیں ہمارے آس پاس کے چند سیاروں اور ایک سورج سے مل کر ہمارا یہ نظام شمسی بنا ہے۔ پھر ایسے کروڑوں بلکہ اربوں نظام شمسی مل کر ایک ملکی وے یا کہکشاں بناتے ہیں۔ مثلا ہماری کہکشاں جسے ملکی وے بھی کہا جاتا ہے۔
اس میں تقریبا چار سو ارب کے قریب نظام شمسی موجود ہیں اور کہکشاؤں کی دنیا میں یہ ایک غریب سی کہکشاں ہے یعنی ایک اوسط درجے کی ، ہماری کہکشاں سے نزدیک ترین کہکشاں کا نام ماہرینَ فلکیات وکونیات نے اینڈرومیڈا رکھا ہے جس میں تقریبا ایک ہزار ارب سورج یا نظام شمسی پائے جاتے ہیں وہ بھی ہمارے سورج سے دگنے تگنے حجم کے۔ پھر ایسے ہی کہکشاؤں کا مجموعہ سائنسی کائناتی زبان میں لوکل گروپ کہلاتا ہے اور ہم جس لوکل گروپ میں موجود ہیں اس میں اب تک کی معلومات کے مطابق 54 یعنی چون کہکشائیں دریافت ہو چکی ہیں۔
جیسے کہکشائیں مل کر لوکل گروپ بناتی ہیں ویسے ہی لوکل گروپس مل کر کلسٹر بناتے ہیں۔ ہمارا لوکل گروپ '' وِرگو کلسٹر '' کا حصہ ہے، جو 100 لوکل گروپس پر مشتمل ہے۔ ایک عرصے تک ہمارا گمان تھا کہ '' وِرگوکلسٹر'' سے آگے ایسا کچھ دریافت نہیں ہو پائے گا لیکن 2014 میں سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد اعلان کیا کہ ہمارا '' وِرگو کلسٹر '' بھی دراصل ایک عظیم سپر کلسٹرکا چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس عظیم سپر کلسٹر کو لانیاکیا (Laniakea) نام دیا گیا۔ 2015ء کی تحقیق کے مطابق ہماری قابل مشاہدہ کائنات میں ایسے تقریبا 1 کروڑ سپرکلسٹر موجود ہو سکتے ہیں۔
قابل مشاہدہ کائنات سے باہر کے علاقے میں کتنے سپرکلسٹر موجود ہیں ، اس سے متعلق ہمیں نہیں معلوم اور انسانی سائنسی اور ٹیکنالوجی کی موجودہ ترقی فی الحال اس سوال کا جواب دینے سے قاصر نظر آتی ہے اور بگ بینگ سے وجود میں آنے والی اتنی وسیع و عریض اور مہیب کائنات جو مسلسل پھیل بھی رہی ہے وہ گویا زبان حال سے یہ کہہ رہی اور پوچھ رہی ہے کہ جب میں اتنی بڑی ہوں تو مجھے بنانے والا تخلیق کار ، گاڈ ، ایشور، یااللہ کتنا بڑا ہو گا ؟
اللہ کی بڑائی کے حوالے سے ایک اور بات یاد آئی کہ ایک بچے نے اپنے والد سے بڑی معصومیت سے پوچھا کہ ''ابو یہ تو بتائیں کہ اللہ کتنا بڑا ہے؟ '' بچے کے والد نے اسے آسمان پر اڑتا ہوا ایک جہاز دکھایا جو کسی پرندے کی مانند نظر آ رہا تھا پھر وہ باپ اس بچے کو ایئر پورٹ پر لے گیا اور رن وے کے قریب لے جا کر جہازوں کو دکھایا تو بڑے بڑے دیو ہیکل جہازوں کو دیکھ کر بچہ بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا کہ ''آسمان پر تو یہ بہت چھوٹا سا لگ رہا تھا نزدیک سے تو بہت بڑا ہے'' تو باپ نے کہا کہ '' میرے بچے اللہ سے جو جتنا نزدیک اور قریب ہوتا ہے اسے اللہ اتنا ہی بڑا لگتا ہے جیسے یہی جہاز دوری کی وجہ سے تمھیں بڑا نہیں لگ رہا تھا لیکن قریب آ کر پتہ چل گیا کہ کتنا بڑا ہے۔
ایسے ہی ایک منطق و فلسفہ کے ماہر متکلم فلسفی سے اس کے شاگرد نے کہا کہ '' استاد جی جو آپ کہتے ہیں کہ اللہ کی بڑائی عقل میں نہیں آ اور سما سکتی تو میں نہیں مانتا عقل میں تو ہر چیز آ سکتی اور سما سکتی ہے '' شاگرد ہونہار تھا اس لیے استاد اسے ساحلِ سمندر پر لے گئے اور کہا کہ '' ریت میں ایک گڑھا کھو دو '' شاگرد نے کافی بڑا سا گڑھا کھود دیا۔
اب استاد نے کہا کہ '' سارے سمندرکا پانی اس گڑھے میں ڈال دو'' تو شاگرد نے تعجب سے کہا کہ '' استاد جی اس چھوٹے سے گڑھے میں سارے سمندرکا پانی کیسے آ سکتا ہے یہ تو ناممکن ہے'' تو جوابا استاد نے کہا کہ '' جیسے اس گڑھے میں سارے سمندر کا پانی نہیں آ سکتا ویسے ہی ہماری محدود عقل میں خدا کی لامحدود بڑائی کیسے سما سکتی اور آ سکتی ہے۔ بس وہ اتنا ہی ہماری عقل میں سما سکتا ہے ، جتنا اس نے اپنے تعارف میں انسانیت کو سمجھایا اور بتایا ہے۔'' لیکن کہتے ہیں کہ اتنا بڑا اورکائنات و بیرون کائنات نا سمانے والا اللہ ایک مومن کے ٹوٹے ہوئے دل میں سما جاتا ہے۔
اللہ اکبر کا مطلب ہے اللہ بڑا ہے۔ اب اللہ کی بڑائی پر تو ہزاروں انداز میں، لاکھوں طریقوں سے صدیوں سے لکھا جاتا رہا ہے اور تا قیامت تک لکھا جاتا رہے گا کہ اللہ کی بڑائی کس کس طرح سے ہے اور کیا کیا انداز میں جلوہ نما ہے تو ذرا اسی بڑائی کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ویسے تو ایک بہت بڑے عالم و صوفی بزرگ نے لکھا ہے کہ اگر کل مخلوقات یعنی تمام انسان ، جنات ، ملائکہ اور دیگر معلوم و نامعلوم مخلوقات کی عقول ، شعور اور علم کو کسی طرح سے یکجا کر کے ایک عقل واحد کو منظم کیا جائے اور کل مخلوقات کے تمام تر علم اورصلاحیتوں کی حامل وہ مجموعی عقلِ واحد اگر تمام زمینوں کو صفحے اور تمام سمندروں کو سیاہی اور تمام درختوں کو قلم بنا کر اللہ کی بڑائی لکھنا شروع کرے تو تمام سیاہی خشک ہو جائے گی۔
تمام قلم گھس کر ختم ہو جائیں گے تمام صفحے بھر جائیں گے اور وہ مفروضہ عقل واحد اپنی تمام تر صلاحیتیں تمام تر علم کو استعمال کرتے کرتے تھک کر چور ہو جائے گی لیکن اللہ کی بڑائی پوری طرح بیان ہونا تو درکنار ابھی ابتدایئے کا بھی حق ادا نہیں ہو پائے گا۔
بنی اسرائیل کی روایات میں اس حوالے سے ایک روایت کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام نے اللہ تعالی سے عرض کی کہ '' یااللہ اگر تیری سب مخلوقات ، یہ جن و انس اور ملائکہ اور دیگر مخلوقات تجھ سے ایک ساتھ بغاوت کر دیں توکیا ہو گا ؟ '' جواب ملا کہ '' اے موسی ! یہ ممکن ہی نہیں ہے سب میرے حکم میں جکڑے ہوئے ہیں '' موسی علیہ السلام نے دوبارہ عرض کی کہ ''یااللہ اگر بالفرض محال ایسا ہو جائے تو؟ '' جواب ملا کہ '' پھر میرے جانوروں میں سے ایک جانور آئے گا اور سب کو ایک لقمے میں کھا جائے گا '' موسی علیہ السلام نے حیران ہو کر پوچھا کہ '' آپ کے وہ جانورکہاں ہیں ؟ جواب ملا ''میری چراگاہوں میں سے ایک چراگاہ میں ہیں۔''
موسی علیہ السلام نے مزید حیران ہو کر پوچھا کہ '' یا باری تعالی وہ چراگاہیں کہاں ہیں ؟ '' جواب ملا کہ '' وہ میرے علم میں ہیں اور علم الہی لامحدود ہے! اب اس حکایت پر ذرا غورکریں تو دل کانپنے لگتا ہے کہ جانوروں میں سے ایک جانور ، یعنی نا معلوم کتنے جانور ہیں اس طرح کے جو سب مخلوقات کو ایک لقمہ بنا کر کھا جائیں ! پھر چراگاہوں میں سے ایک چراگاہ ، وہ اتنے بڑے جانوروں کی چراگاہ کتنی بڑی ہو گی ہم تصور بھی نہیں کر سکتے اور پھر چراگاہ ایک نہیں بلکہ کئی ایک ہیں تو اتنی بڑی چراگاہوں کا بنانے والا کتنا بڑا ہو گا ؟ ''
اب آئیے ! زمان و مکان کے تانے بانے سے بنی ہوئی ، اس کائنات کی طرف تو اس کائنات کی ہولناک ، ہیبت ناک ، مہیب اور ناقابل یقین وسعت اور پھیلاؤ کے بارے میں اب تک سائنس اور فلکیات وکونیات کے ماہرین جو جان پائے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ہم جس سیارے پر رہتے ہیں ، اسے کرہ ارض کہتے ہیں ہمارے آس پاس کے چند سیاروں اور ایک سورج سے مل کر ہمارا یہ نظام شمسی بنا ہے۔ پھر ایسے کروڑوں بلکہ اربوں نظام شمسی مل کر ایک ملکی وے یا کہکشاں بناتے ہیں۔ مثلا ہماری کہکشاں جسے ملکی وے بھی کہا جاتا ہے۔
اس میں تقریبا چار سو ارب کے قریب نظام شمسی موجود ہیں اور کہکشاؤں کی دنیا میں یہ ایک غریب سی کہکشاں ہے یعنی ایک اوسط درجے کی ، ہماری کہکشاں سے نزدیک ترین کہکشاں کا نام ماہرینَ فلکیات وکونیات نے اینڈرومیڈا رکھا ہے جس میں تقریبا ایک ہزار ارب سورج یا نظام شمسی پائے جاتے ہیں وہ بھی ہمارے سورج سے دگنے تگنے حجم کے۔ پھر ایسے ہی کہکشاؤں کا مجموعہ سائنسی کائناتی زبان میں لوکل گروپ کہلاتا ہے اور ہم جس لوکل گروپ میں موجود ہیں اس میں اب تک کی معلومات کے مطابق 54 یعنی چون کہکشائیں دریافت ہو چکی ہیں۔
جیسے کہکشائیں مل کر لوکل گروپ بناتی ہیں ویسے ہی لوکل گروپس مل کر کلسٹر بناتے ہیں۔ ہمارا لوکل گروپ '' وِرگو کلسٹر '' کا حصہ ہے، جو 100 لوکل گروپس پر مشتمل ہے۔ ایک عرصے تک ہمارا گمان تھا کہ '' وِرگوکلسٹر'' سے آگے ایسا کچھ دریافت نہیں ہو پائے گا لیکن 2014 میں سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد اعلان کیا کہ ہمارا '' وِرگو کلسٹر '' بھی دراصل ایک عظیم سپر کلسٹرکا چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس عظیم سپر کلسٹر کو لانیاکیا (Laniakea) نام دیا گیا۔ 2015ء کی تحقیق کے مطابق ہماری قابل مشاہدہ کائنات میں ایسے تقریبا 1 کروڑ سپرکلسٹر موجود ہو سکتے ہیں۔
قابل مشاہدہ کائنات سے باہر کے علاقے میں کتنے سپرکلسٹر موجود ہیں ، اس سے متعلق ہمیں نہیں معلوم اور انسانی سائنسی اور ٹیکنالوجی کی موجودہ ترقی فی الحال اس سوال کا جواب دینے سے قاصر نظر آتی ہے اور بگ بینگ سے وجود میں آنے والی اتنی وسیع و عریض اور مہیب کائنات جو مسلسل پھیل بھی رہی ہے وہ گویا زبان حال سے یہ کہہ رہی اور پوچھ رہی ہے کہ جب میں اتنی بڑی ہوں تو مجھے بنانے والا تخلیق کار ، گاڈ ، ایشور، یااللہ کتنا بڑا ہو گا ؟
اللہ کی بڑائی کے حوالے سے ایک اور بات یاد آئی کہ ایک بچے نے اپنے والد سے بڑی معصومیت سے پوچھا کہ ''ابو یہ تو بتائیں کہ اللہ کتنا بڑا ہے؟ '' بچے کے والد نے اسے آسمان پر اڑتا ہوا ایک جہاز دکھایا جو کسی پرندے کی مانند نظر آ رہا تھا پھر وہ باپ اس بچے کو ایئر پورٹ پر لے گیا اور رن وے کے قریب لے جا کر جہازوں کو دکھایا تو بڑے بڑے دیو ہیکل جہازوں کو دیکھ کر بچہ بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا کہ ''آسمان پر تو یہ بہت چھوٹا سا لگ رہا تھا نزدیک سے تو بہت بڑا ہے'' تو باپ نے کہا کہ '' میرے بچے اللہ سے جو جتنا نزدیک اور قریب ہوتا ہے اسے اللہ اتنا ہی بڑا لگتا ہے جیسے یہی جہاز دوری کی وجہ سے تمھیں بڑا نہیں لگ رہا تھا لیکن قریب آ کر پتہ چل گیا کہ کتنا بڑا ہے۔
ایسے ہی ایک منطق و فلسفہ کے ماہر متکلم فلسفی سے اس کے شاگرد نے کہا کہ '' استاد جی جو آپ کہتے ہیں کہ اللہ کی بڑائی عقل میں نہیں آ اور سما سکتی تو میں نہیں مانتا عقل میں تو ہر چیز آ سکتی اور سما سکتی ہے '' شاگرد ہونہار تھا اس لیے استاد اسے ساحلِ سمندر پر لے گئے اور کہا کہ '' ریت میں ایک گڑھا کھو دو '' شاگرد نے کافی بڑا سا گڑھا کھود دیا۔
اب استاد نے کہا کہ '' سارے سمندرکا پانی اس گڑھے میں ڈال دو'' تو شاگرد نے تعجب سے کہا کہ '' استاد جی اس چھوٹے سے گڑھے میں سارے سمندرکا پانی کیسے آ سکتا ہے یہ تو ناممکن ہے'' تو جوابا استاد نے کہا کہ '' جیسے اس گڑھے میں سارے سمندر کا پانی نہیں آ سکتا ویسے ہی ہماری محدود عقل میں خدا کی لامحدود بڑائی کیسے سما سکتی اور آ سکتی ہے۔ بس وہ اتنا ہی ہماری عقل میں سما سکتا ہے ، جتنا اس نے اپنے تعارف میں انسانیت کو سمجھایا اور بتایا ہے۔'' لیکن کہتے ہیں کہ اتنا بڑا اورکائنات و بیرون کائنات نا سمانے والا اللہ ایک مومن کے ٹوٹے ہوئے دل میں سما جاتا ہے۔