عمران خان کو نوٹس

صحافیوں کے لیے عموماً سیاسی جماعتوں کی پریس ریلیز سے اتفاق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ جماعتیں یا تو اپنے...

www.facebook.com/syedtalathussain.official

صحافیوں کے لیے عموماً سیاسی جماعتوں کی پریس ریلیز سے اتفاق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ جماعتیں یا تو اپنے لیڈران کا دفاع کر رہی ہوتی ہیں یا پھر وہ وضاحتیں بیان کرتی ہیں جن کا نہ تو کوئی سر ہوتا ہے اور نہ پیر۔ مگر عمران خان کی جماعت کی طرف سے ان کو قانونی نوٹس بھجوائے جانے پر جو رد عمل دیا گیا ہے میں اس سے بڑی حد تک اتفاق کرتا ہوں۔ ذرائع ابلاغ اور اِس شعبے میں کام کرنے والے ہم جیسے صحافی ہر کسی کو آزادی اظہار کے لیکچر دیتے رہتے ہیں۔ کیونکہ ہم اس اصول پر یقین رکھتے ہیں کہ قانونی اور آئینی حدوں میں رہتے ہوئے ہر فرد صاحب الرائے ہے۔ آپ اور میں کسی خاص نقطہ فکر سے اتفاق کریں یا نہ کریں، زبان بندی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ اصول اس وقت بھی لاگو ہوتا ہے، جب ہماری اپنی ذات کسی کی رائے کی زد میں آ جائے۔ ہم سب زمین و آسمان میں موجود ہر متحرک اور غیر متحرک شے کا تجزیہ کرتے ہیں، کسی کو نہیں بخشتے، صدور، وزراء اعظم، عسکری قیادت، انٹیلی جنس کے ادارے، تاجر، وکیل، جج، استاد سب پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔

تلوار کی طرح سروں پر لٹک جانا وہ صفت ہے جس پر ہم اتراتے ہیں۔ اگر کھل کر بولنا ہمیں اتنا ہی پیارا ہے تو دل کھول کر سننا بھی پڑے گا۔ عمران خان نے انٹرویو میں جو کچھ کہا، اُس پر تضحیک، تذلیل یا بری نیت اور اس طرح کے دوسرے قوانین کسی طور بھی لاگو نہیں ہوتے۔ الزامات لگانے والے کو کھلی چھوٹ نہیں ہے۔ لیکن اِن الزامات کی تحقیق کا مطالبہ کرنے کی رائے رکھنا وہ بنیادی حق ہے جس کو ہم اپنے شعبے کی جان سمجھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ نے بہت ترقی کی ہے۔ میں نے میڈیا کا بدلتا ہوا منظر نامہ بڑے قریب سے دیکھا اور کہیں کہیں اپنی استطاعت کے مطابق تبدیلی میں حصہ بھی ڈالا ہے۔

وہ صحافی جو کسی زمانے میں اپنے لکھے ہوئے الفاظ کی کاٹ کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے اب اجتماعی طور پر فیصلہ ساز قوت میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ میڈیا ہائوسز اور ان سے منسلک اخبارات، ٹی وی چینلز، ریڈیوز وغیرہ پاکستان میں وہ مرکزیت اختیار کر گئے جو عدالتوں، فوج اور منتخب سیاسی نمائندگان کو بھی شاید حاصل نہ ہو۔ یہ بہت بڑی طاقت ہے۔ اور ہر بڑی طاقت کے ساتھ بہت بڑی ذمے داری جڑی ہوئی ہے۔ اس ذمے داری کا ایک حصہ مکمل شفافیت ہے۔ اگر ہم ملک کی خارجہ پالیسی چلانا چاہتے ہیں، حکومتیں بنانا اور گرانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ طاقت کے ہر دشت میں سرپٹ گھوڑے دوڑانا چاہتے ہیں تو اپنے لیے احتساب کا وہی معیار رکھنا ہو گا جس پر ہم سب کو پرکھتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم سب کو جو منہ میں آئے کہیں اور کوئی ہم کو کچھ نہ کہے۔ اور یہ بھی نہ پوچھے کہ بیرونی حکومتوں کے ساتھ کیا کھسر پھسر کرتے رہتے ہیں۔ ریاستی اداروں کے خلاف کمپین چلانے پر کیوں تُلے ہوئے ہیں۔ جب طاقت کا کھیل کھیلیں گے تو سوال اٹھیں گے اور اٹھنے چاہئیں بھی۔


ویسے تذلیل اور تضحیک یا کردار کشی کہتے کس کو ہیں۔ سوال پوچھنے کو یا اس ناٹک کو جو ہم بھانڈوں، کرائے کے فنکاروں اور کارٹونوں کے ذریعے سیاسی قیادت کے حوالے سے کرتے ہیں۔ مضحکہ خیز شکلیں، زبانی جملے، ذاتی حملے اور طرح طرح کے اسکینڈلز کو فلمی گانوں کے ساتھ بیان کرنا پگڑی اچھالنے کے مترادف ہے۔ پچھلے دنوں ایک سیمینار میں ماہر وکیلوں نے مجھے پاکستان میں موجود ہتک عزت کے مختلف قوانین کا دائرہ کار سمجھایا۔ ان میں سے بعض واضح انداز سے طنز کے ذریعے تضحیک کو قابل گرفت قرار دیتے ہیں۔ اشارتاََ انگلی اٹھانا بھی قانون کی زد میں آتا ہے۔ ہاں ایک مرتبہ غلطی ہو جائے تو دفاع کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ لیکن ہر روز کسی کی عزت کا ڈھول پیٹنا اور پھر اس پر اترانا قانون سے بالا ہو کر خود کو یہ سب کچھ کرنے کا حق دینا قابل اعتراض ہے اور قابل گرفت بھی۔ مگر چونکہ میڈیا نے اس ملک میں اپنی حقیقی قربانیوں کی وجہ سے اپنے لیے ایک خاص مقام پیدا کر لیا ہے۔ لہذا پروپیگنڈے کا نشانہ بننے والے افراد اور ادارے درگُزر سے کام لیتے ہیں۔ اور اپنے قانونی حق کو استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ قانون اس سلسلے میں بہرحال قانون واضح ہے۔

ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا کہ بیرونی ایجنڈوں نے میڈیا انڈسٹری کے بعض حلقوں پر غلبہ پایا ہوا ہے۔ غیر ملکی ادارے، سفارتخانوں، این جی اوز اور اہم افراد کے ذریعے اس ملک میں اپنی پہنچ کو بڑھا رہے ہیں۔ لکھنے والوں کو پڑھ کر اور بولنے والوں کو سن کر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ صرف دال میں کچھ کالا نہیں ساری دال ہی کالی ہے۔ مگر اس کے باوجود کوئی بھی کسی معاملے پر چبھتے ہوئے سوالوں کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔ ریاست سے بڑا ہونے کی ہر خواہش دنیا کے بہترین جمہوری ممالک میں بھی قابل قبول نہیں۔ NSA کے ایڈورڈ جوزف سنوڈن کا قصہ ہم سب کے سامنے ہے کہ اس نے امریکی ریاست کی غیر قانونی سرگرمیوں پر سے پردہ اٹھایا۔ دنیا بھر میں امریکی جاسوسی کے نیٹ ورک کی کہانی بتائی۔ تمام تر بین الاقوامی سپورٹ کے باوجود وہ ریاست کا مجرم ٹھہرایا گیا ۔ شہریت سے عاری کر دیا گیا اور اس وقت ایک عجیب و غریب صورت حال کا شکار ہے۔ وکی لیکس والے جولین اسانج کے ساتھ ترقی یافتہ ریاستوں نے کیا کیا۔

جاسوسی کرنے کا الزام انتہائی سنجیدہ ہے۔ تاریخی طور پر محض شک کی بنیاد پر بیرونی ایجنٹوں کے سر قلم کر دئے جاتے تھے۔ کسی سے لے کر کھانے والے اور اپنی تھالی میں چھید کرنے والے معاشرتی طور پر بھی دھتکارے جاتے تھے۔ ان کا وجود ناقابل قبول سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان وہ سر زمین ہے جہاں پر وہ سب کچھ کرنے کی آزادی ملی ہے جو کہیں پر نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اس آزادی کا تحفظ تدبیر کے ساتھ کرنا ہے۔ پوچھے گئے سوالوں کو انا کا مسئلہ بنا کر رد نہیں کر دینا۔ ایسا کریں گے تو شک کے بادل گہرے ہو جائیں گے۔ کیا چھپانا چاہتے ہیں، کس چیز کی پریشانی ہے۔ ضمیر پر اگر بوجھ نہیں ہے تو ہمیں ہر کسی سوال کا تسلی بخش جواب دینا ہو گا، قانونی جنگ شروع کرنے سے آزادی محفوظ نہیں مبحوس ہو جاتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز میں اس شکایت پر بھی نظر رکھنی ہو گی جس کا تعلق عمران خان پر کیے گئے ذاتی حملوں سے ہے۔

اگر ذاتی کردار عوامی اور سیاسی ذمے داریوں کی راہ میں حائل ہو رہا ہو تو اس کو موضوع بنانا جائز ہے۔ اس کو دبائو کا ذریعہ بنانا یا اپنے مخصوص مفادات کے لیے استعمال کرنا معیوب عمل ہے۔ یہاں پر میں ضمناََ یہ بھی کہتا چلوں کہ سیاسی قیادت کو بھی گروپوں کی لڑائی کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ جب ہر طرف کیچڑ اچھالا جا رہا ہے تو خاموشی کو ہی عافیت سمجھنا چاہیے۔ اگر الزام لگانے والے کی اپنی شخصیت الزام جیسی ہی ہو تو پھر کس کا ساتھ دیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو یہ سوچنا چاہیے کہ کیا عمران خان کو اس تمام معاملے کے ساتھ منسلک ہونا چاہیے تھا کہ نہیں۔ اگر وہ یہ سوچ لیتے تو عمران خان انٹرویو نہ دیتے تو شاید پریس ریلیز جاری کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ بہرحال عمران خان کو جاری کردہ قانونی نوٹس ایک بے وزن کوشش ہے جو وقت کا ضیاع بھی ہے اور کسی اصولی بنیاد سے عاری بھی۔
Load Next Story