’’میرٹ‘‘ عرف چوہدری فضل الٰہی

چوہدری فضل الٰہی کے بارے میں تو دنیا جانتی ہے جوایک وقت میں صدر پاکستان کے اسی عہدے پر فائز تھے ...

barq@email.com

چوہدری فضل الٰہی کے بارے میں تو دنیا جانتی ہے جوایک وقت میں صدر پاکستان کے اسی عہدے پر فائز تھے جس پر زداری اور جنرل مشرف بھی فائز رہے اور ایوب خان اور ضیاء الحق نے بھی اس کرسی کوکبھی شرف تشریف بخشا تھا لیکن جہاں دوسروں کے لیے یہ کرسی کسی محبوب کی آغوش جیسی ہوتی تھی وہاں بیچارے چوہدری فضل الٰہی کے لیے ''دہن شیر'' جیسی تھی۔

دہن شیر میں جا بیٹھیے اے دل لیکن

نہ کھڑے ہو جئے خوباں دل آزار کے پاس

کہتے ہیں وہ رات کو چپکے سے کسی نہ کسی طرح اس کرسی کی گرفت سے خود کو چھڑا کر باہر نکل آتے تھے اور دیواروں پر مجھے ''رہائی دو'' کے الفاظ (شاید کوئلے سے) لکھا کرتے تھے، کوئلے سے لکھے ہوئے یہ الفاظ گویا بہادر شاہ ظفر کے وہ شعر تھے جو انھوں نے ''رنگون'' میں لکھے تھے۔

لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں

لیکن ہم نہ یہاں چوہدری فضل الٰہی کی بات کر رہے ہیں اور نہ بہادر شاہ ظفر کا ذکر کرنا مقصود ہے بلکہ اس بادشاہ کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں جس کا نام ''میرٹ'' ہے جس کا ویسے تو قانونی طور پر اس ملک پر راج ہے اور کاغذات میں پورا ملک اس کا ہے لیکن اس کا دعویٰ جھوٹا اور شریکوں کا قبضہ سچا ہے، تقریباً روزانہ ہی اخباروں میں اس اعلیٰ حضرت ظل الٰہی شہنشاہ پاکستان حضور ''میرٹ'' کا ذکر ہوتا ہے، وزیر امیر مشیر اور کبیر و شہیر اس کے نہ صرف قصیدے پڑھتے ہیں بلکہ دل و جان سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں ،

از دل و جاں شرف صحبت جاناں غرض است

ہمہ آنست و گرنے دل و جاں ایں ھمہ نیست

لیکن عملی طورپر بے چارا ۔۔۔ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں،غریب جس بھی محکمے یا دفتر میں جاتا ہے یوں دھتکارا جاتا ہے جس طرح کسی رئیس کی دعوت میں فقیر دھتکارے جاتے ہیں اور پھر ہماری موجودہ صوبائی حکومت میں تو اس بے چارے کا حال اس سے بھی بدتر ہے، البتہ اس کے نام کا ورد یوں کیا جاتا ہے جیسے اس کا زیادہ سے زیادہ جاپ کرنے کا مقابلہ ہو رہا ہو ۔۔۔ میرٹ کی شادی کریں گے، میرٹ کو گھوڑی چڑھائیں گے، میرٹ کو تخت پر بٹھائیں گے میرٹ ۔۔۔ میرٹ اور پھر میرٹ ۔۔۔ اور اس کے بعد پھر میرٹ میرٹ میرٹ

نام میں میرے ہے وہ دکھ جوکسی کو نہ ملا

کام میں میرے ہے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا

کل پرسوں کی بات ہے، ایک نوجوان نے ہم سے رجوع کیا، نہ جانے کیوں شاید پاگل تھا بے چارا ، جو ہم سے رجوع کررہا تھا جس کے پاس نہ جھنڈا ہے نہ ڈنڈا ۔۔۔ اور جس کے خود اپنے بیٹے ''میرٹ'' کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہو کر ۔۔۔ بلکہ میرٹ کی سولی پر چڑھ کر بے روزگاری کی قبر میں پہنچ چکے ہیں۔

وہ نوجوان انتہائی غریب لیکن بے پناہ ذہن ہے۔ ایک بیوہ کا لڑکا ہونے کے باوجود ہر کلاس میں ٹاپ کر چکا ہے اور جس ملازمت کی وہ بات کر رہا تھا اور جس کا اشتہار اخبار میں نکلا تھا، اس کے لیے سب سے زیادہ صاف مینڈیٹ تھا۔ ہم نے بہت سمجھایا کہ بیٹا ہم قلم والوں کی بات تو کسی محکمے کا چوکیدار بھی نہیں سنتا لیکن وہ مصر تھا کہ ہم اس کے لیے ایک ٹیلی فون کر دیں، مجبور ہو کر ٹیلی فون کر لیا کہ آج اخبار میں فلاں فلاں ویکنسیوں کا اشتہار نکلا ہے، دوسری طرف سے جو صاحب تھے، انھوں نے ہماری بات پوری ہونے سے پہلے ہی قہقہہ مارا اور بولا ۔۔۔ وہ ویکنسیاں تو ایک مہینے پہلے پر ہو چکی ہیں۔ یہ اشتہار تو صرف ایک فارمیلٹی ہے، بھول جایئے۔

میرٹ کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

سرکار کا پیارا ہے اسے توپ سے کھینچو

پیچھے سے اچانک ایک 'کواں کواں کواں'' کی چیخ سنائی دی ۔کسی نے ایک بے چارے لاوارث پلے کو ٹھوکر ماری تھی اور اس پلے کا نام میرٹ تھا، بے چارا چیختا روتا چلاتا کواں کواں کواں کرتا ہوا نہ جانے کہا ںچلا گیا، شاید کسی وزیر مشیر اور منتخب نمائندے کے بنگلے کے ڈسٹ بن میں خوراک کے کچھ ریزے تلاش کرنے کے لیے۔

مجو درستئ عہد از جہاں سست نہاد


کہ ایں عجوزہ عروس ہزار داماد است

وہ قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ ایک شخص اپنی پیٹھ پر ایک گٹھڑ رکھے جارہا تھا جس میں شیشے کی نازک چوڑیاں تھیں، ایک سپاہی نے اس کے گٹھڑ پر ڈنڈا مارتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ کیا ہے اس میں؟ وہ شخص بولا ۔۔۔۔ ایک اور ڈنڈا ماریئے تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔ اور بے چارے میرٹ کو دو تو کیا نہ جانے کتنے ڈنڈے روزانہ پڑ رہے ہیں، پھر بھی نہ جانے کیوں وہ احمق شخص اپنی بیٹھ کر لادے ہوئے ہے حالانکہ یہ بھی جاننا کہ شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں ہے، ایک پشتو ٹپہ ہے کہ

زڑہ ملغلرہ دہ چہ مات شی

د جوہری پہ دکان نہ خوری پیوندونہ

(دل تو ایک گوہر ہے ٹوٹ جائے تو پھر کسی بھی جوہری کی دکان پر اسے جوڑنا ممکن نہیں ہوتا) دوسرا ٹپہ بھی سن لیجیے۔

لرگے سلور ٹوٹے پیوند شی

زڑہ چہ ٹوٹے شی نو بیانہ خوری پیوندونہ

(لکڑی تو چار ٹکڑے ہو کر بھی جوڑی جا سکتی ہے لیکن دل ٹکڑے ہو جائے تو کبھی نہیں جڑتا) اور میرٹ کے تو نہ جانے کتنے ہزار ٹکڑے ہو چکے ہیں، تقریباً اتنے ٹکڑے تو یقیناً ہو جاتے ہیں جتنے منتخب نمائندے ہوتے ہیں بلکہ اس سے دگنے سمجھ لیجیے کیونکہ کوئی ''منتخب نمائندہ'' اکیلا تو ہوتا نہیں پوری کیٹرنگ بھی ساتھ ہوتی ہے بلکہ ایک اور بات بھی ہے ۔۔۔ جو بہت کم لوگوں کو معلوم ہے، ہوتا یوں ہے کہ جب نئے منتخب نمائندوں کو ''فتح'' کے بعد اس ملک پر چھوڑا جاتا ہے تو یہ تازہ واردان بساط ہوائے گل خوب خوب بھوکے پیاسے بلکہ ترسے ہوئے ہوتے ہیں اور جب بلی کے بھاگوں چھینگا ٹوٹتا ہے تو ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے مال غنیمت پر ٹوٹ پڑتے ہیں، سب کو وقت کم اور مقابلہ سخت ہونے کا احساس ہوتا ہے اور سامنے بن مالک کے دشمن کا گھر بھی ہو تو

پھر دیکھیے انداز گل افشانی گفتار

رکھ دے کوئی پیمانہ و صہبا مرے آگے

پرائے گھر کے بارے میں کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ کہاںپر کیا رکھا ہوا ہے اور کہاں کہاں پر کچھ کام کا چھپا ہوا ہے لیکن یہاں تو ان کی مدد کے لیے گھر کے بھیدی موجود ہوتے ہیں، سرکاری محکموں کے کرتا دھرتا افسر اور اہل کار جسے عرف عام میں بیورو کریسی کہتے ہیں چنانچہ وہ بتا دیتے ہیں کہ کہاں کہاں کیا کیا کام کی چیز موجود ہے، یہ ان کے بتانے اور رہنمائی کرنے پر وہ مال غنیمت اٹھا لیتے ہیں اور اپنے بورے میں ڈال لیتے ہیں، پھر ان کو پتہ بھی نہیں کہ ان کے پیچھے ان بیورو کریسی والوں نے کیا اٹھانا شروع کر دیا ہے، اشاروں استعاروں کی بجائے سیدھی زبان میں بولے تو منتخب نمائندوں سے ایک مرتبہ ''میرٹ'' کا تالا توڑ دیتے ہیں، ان کے چھ آدمیوں کو میرٹ حق اورقانون کا خون کر کے بھرتی کر دیتے ہیں، اس کے بعد تالا تو وزیر یا منتخب نمائندے کے ہاتھ سے تڑوایا جا چکا ہوتا ہے، میرٹ کا جنازہ نکل چکا ہوتا ہے، قانون کی دھجیاں بکھر چکی ہوتی ہیں، رولز ریگولیشنز کی ایسی کی تیسی کی جا چکی ہوتی ہے چنانچہ بیورو کریسی اپنا پرانا چرخا چلا دیتی ہے، ویکنسیاں نیلام ہونے لگتی ہیں اوپر تو وزیر اورمنتخب نمائندہ ہوتا ہے اوراس کی آنکھوں پر پٹی باندھی جا چکی ہوتی ہے، وہ کہنا چاہیے بھی تو کیا اور کیسے ؟ اب مجبوری ہے کہ ہم وہ بہت پرانا قصہ دہرا دیں لیکن کیا کریں، اس کے بغیر کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے کیوں کہ

مطلب ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام

چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر

یہ باغ کے اس رکھوالے کا قصہ ہے جس کی آنکھوں میں ایک شخص نے چائے انڈیلی تھی اورپراٹھا باندھا تھا، بے چارا رکھوالا ٹک ٹک دیدم دیدم نہ کشیدم کی مانند دیکھ رہا تھا کہ وہ شخص باغ کا پھل توڑ رہا ہے لیکن اس چائے کا کیا کرتا اور اس پراٹھے کو کیسے ہٹاتا جو اس کی آنکھوں کو اندھا بنائے ہوئے تھے۔

لائی زندگی مری کس موڑ پر مجھے

آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے

اور بے چارا میرٹ یہ دوطرفہ مار سہہ کر دانستہ بے ہوش ہو جاتا ہے، باغ اجڑ جاتا ہے، پھل چرا لیا جاتا ہے اور مفتوح گھر میں ککھ بھی باقی نہیں رہتا۔
Load Next Story