کرپشن کی راہ کیسے روکی جائے
بہت سے لوگوں کو پیدائش سے موت تک کرپشن کے زہریلے اثرات کے ساتھ شب وروز گزارناپڑتے ہیں۔
دنیا میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کرپشن کی وجہ سے عام انسان کی مشکلات میں نہ صرف اضافہ ہورہاہے بلکہ یہ سنگین سے سنگین ترہورہی ہیں۔
بہت سے لوگوں کو پیدائش سے موت تک کرپشن کے زہریلے اثرات کے ساتھ شب وروز گزارناپڑتے ہیں۔ مثلاًزمبابوے میں ایک خاتون کو مقامی ہسپتال میں زچگی کے موقع پرپانچ ڈالر(529پاکستانی روپے کے برابر) اداکرناپڑتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں حال ہی میں ایک کئی منزلہ فیکٹری منہدم ہوئی تو اس میں1130 افراد صرف اس وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے کہ بلڈنگ تعمیر کرتے ہوئے بلڈنگ کوڈز کی پابندی نہیں کی گئی تھی۔ یہ دنیا کے بدترین صنعتی حادثات میں سے ایک تھا۔ تب یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ کرپشن نے ہی بنگلہ دیشیوں کو یہ دن دکھایاتھا، کیونکہ اس بلڈنگ کا نقشہ بھی رشوت دے کر پاس کرایاگیاتھا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل(دنیا میں کرپشن پر نظر رکھنے والا ادارہ)کی 2013ء کی رپورٹ 107ممالک کے جائزہ پر مشتمل ہے۔ ایک لاکھ چودہ ہزار افراد سے سروے کیاگیا۔ انٹرویوز میں انھوں نے اپنے تجربات بیان کئے کہ کس طرح انھیں اپنے روزمرہ کے کام کرانے کے لئے رشوت دیناپڑتی ہے۔ جائزہ لیتے ہوئے یہ بھی دیکھاگیاکہ کرپشن کے خلاف لوگ کیسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں ۔ جائزہ کے نتائج بہت واضح ہیں جو ثابت کررہے ہیں کہ کرپشن حقیقی معنوں میں معاشرے پر بوجھ ثابت ہورہی ہے۔
ہرچار میں سے ایک فرد نے بتایا کہ اس نے گزشتہ برس اپنا کام نکلوانے کے لئے رشوت دی تھی۔ جو لوگ رشوت دینے کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ بے گھر ہی رہتے ہیں، وہ کاروبار شروع نہیں کرسکتے اور بنیادی ضروریات تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔کرپشن بنیادی حقوق کو پامال کرتی ہے، بالخصوص ان لوگوں کے بنیادی حقوق جو روزانہ 2ڈالر( قریباً 211 پاکستانی روپے) سے کم پر زندگی بسر کررہے ہیں، اور پوری دنیا کی ان خواتین کے بنیادی حقوق جو بچوں کی پرورش کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔
ان سب کے لئے رشوت اور کرپشن عملاً تباہ کن ثابت ہورہی ہے۔ غیرمعمولی حدتک رشوت کی ادائیگی انھیں صحت کے مسائل سے دوچار کرتی ہے اور بھوک میں مبتلا کرتی ہے حتی کہ بچوں کی سکول فیس اداکرنا ممکن نہیں رہتا، اور ان بچوں کے پائوں ننگے ہی رہتے ہیں۔
لوگ نہ صرف کرپشن کی قیمت براہ راست ادا کرتے ہیں بلکہ ان کا معیارِ زندگی بھی کرپشن کی ایسی اقسام سے متاثر ہوتاہے جوبظاہر نظر نہیں آتیں۔ جب طاقتور گروہ حکومتی فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں یا جب عوامی فنڈز سیاسی اشرافیہ میں ہی تقسیم ہوجاتے ہیں تو اس کی وجہ سے عام آدمی ہی مسائل کا شکار ہوتاہے۔
یہ صورت حال کسی بھی ملک کی جمہوری اور قانونی بنیادوں کو کھوکھلا کرتی ہے۔ اس کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتاہے کہ عوام کا سیاسی جماعتوں، عدلیہ ، پولیس اور دوسرے اہم ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہوجاتاہے۔آپ بخوبی تصور کرسکتے ہیں کہ کرپشن ریاست اور لوگوں کی زندگی کا کیاحشر کردیتی ہے۔
اس ساری صورت حال میں اچھی بات یہ ہے کہ کرپشن کے سامنے عام لوگ اپنے آپ کو بے بس تصور کرنے کو تیارنہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ خود اس مسئلے سے نمٹ سکتے ہیں۔ مثلاً بھارت میں2011ء میں لاکھوں لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ملک میں آزادانہ انسدادکرپشن کمیشن قائم کیاجائے۔
برازیل میں ایک عام شہری کی پٹیشن پر ایساقانون بنا جس کے ذریعے کرپٹ سیاست دانوں کے انتخاب لڑنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس شہری کے حرکت میں آنے سے کرپٹ سیاست دان بے نقاب ہوئے،کرپٹ حکام جکڑ ے گئے اور ہچکچاہٹ کی ماری ہوئی حکومت کو کرپشن کے خلاف لڑائی میں مزید بہت کچھ کرناپڑا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا میں اس وقت لوگوں میں شدید خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف لڑائی کاحصہ بنیں۔
سوال یہ ہے کہ لوگ ان حالات میںکرپشن کے مسئلے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، جب سرکاری خزانے خالی پڑے ہوں، بے روزگاری بڑھ رہی ہو اورعالمی اقتصادی بحران لوگوں کی زبانوں پر ہو؟
دنیا بھر میں لوگ کرپشن کو سنگین اور بعض صورتوں میں نہایت سنگین مسئلہ قراردیتے ہیں۔ سب سے زیادہ شدیدخیالات رکھنے والے لائبیریا اور منگولیا کے لوگ ہیں تاہم ڈنمارک، فن لینڈ، روانڈا، سوڈان اور سوئٹزرلینڈ کے لوگ کرپشن کے خاتمے کے بارے میں زیادہ پرامید ہیں۔53فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ کرپشن بڑھ رہی ہے،29فیصد سمجھتے ہیںکہ یہ ایک سطح پر رکی ہوئی ہے جبکہ صرف 18فیصد سمجھتے ہیںکہ کرپشن کم ہورہی ہے۔
الجزائر، لبنان، پرتگال، تیونس اور زمبابوے کے لوگوں کاخیال ہے کہ کرپشن کامسئلہ بہت زیادہ سنگین ہے۔ یہاں کے چارمیں سے تین لوگوں کا خیال ہے کہ کرپشن بڑھ رہی ہے۔ تاہم بلجئیم،کمبوڈیا، جارجیا، روانڈا، سربیا اور تائیوان کے آدھے سے زیادہ لوگوں کا خیال ہے کہ کرپشن میں کمی واقع ہورہی ہے۔
رشوت کسی بھی فردکابراہ راست تجربہ ہوتاہے۔ بہت سے واقعات میں رشوت دینے یا اس سے انکارکی صورت میں ایسے نتائج برآمد ہوئے جن کی وجہ سے ان کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی۔ مثلاً مراکش کا احمد اپنے شہر کی نواحی کچی آبادی میں بیوی اور دوبچوں کے ساتھ زندگی بسر کررہاتھا۔ وہ ایک قومی سرکاری پروگرام کا حصہ تھا جوکچی آبادی کے مکینوں کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنے سے متعلق تھا۔اس پروگرام کے تحت حکومت نے یہاں کے ہرفرد کومفت ایک پلاٹ فراہم کرنے کا اعلان کیاتھا۔
احمد نے اپنے حصہ کا پلاٹ لینے کے لئے جب متعلقہ حکام سے رابطہ کیاتو اس سے رشوت طلب کی گئی۔ احمد یہ رقم دینے کی استطاعت نہیں رکھتاتھا، اس نے رشوت دینے سے معذوری ظاہر کردی۔ نتیجتاً اس کاکچا گھر مسمار کردیاگیا۔ اب احمد، اس کی بیوی اور دوبچے کھلے آسمان تلے تھے۔ رشوت نہ صرف رشوت دینے والے فرد کی مالی حیثیت پر برااثرڈالتی ہے بلکہ اس کے دل سے قانون کی عزت ختم کرتی ہے اور معاشرتی استحکام کوبھی نقصان پہنچاتی ہے۔آپ آج کل مراکش کے حالات کا جائزہ لے لیں، آپ کو وہاں ایسی ہی صورت حال نظرآئے گی۔
گزشتہ برس دنیا میں16ممالک ایسے تھے جہاں پانچ فیصد لوگوں نے رشوت دی جبکہ 14ممالک میںآدھے سے زیادہ لوگوں نے رشوت دی۔لائبیریا اور سیرالیون جیسے ممالک میں75فیصد سے زائد لوگوں نے رشوت دی۔ دنیا میں ہرچارافراد میں سے ایک فرد رشوت دے کر اپنے کام نکلوا رہاہے۔آسٹریلیا، بلجیم، کینیڈا، کروشیا، ڈنمارک، فن لینڈ، جارجیا، جاپان، جنوبی کوریا، ملائشیا، مالدیپ، نیوزی لینڈ، ناروے، پرتگال، سپین اور یوراگائے ایسے ممالک ہیں جہاں محض 5 فیصد افراد رشوت دیتے ہیں۔
بلغاریہ، ایسٹونیا، اٹلی، سلوانیا، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکہ میں 5فیصد سے9.9فیصد افراد، ارجنٹائن، چلی، ایلسلواڈور، ہنگری، اسرائیل، جمیکا، فلسطین، فلپائن، روانڈا میں10فیصد سے14.9فیصد، آرمینیا، قبرص، کوسووا، لٹویا، مقدونیہ، رومانیہ، سری لنکا، سوڈان، تھائی لینڈ اور تیونس میں 15فیصد سے19.9فیصد، بوسنیا، کولمبیا، یونان، عراق، لتھوانیا، مڈگاسکر، مولڈوا، پاپوا نیو گنی، پیراگوئے، پیرو، سربیا، سلواکیا، ترکی اور وینزویلامیں20فیصد سے29.9فیصد، بنگلہ دیش، بولیویا، مصر، انڈونیشیا، اردن، قزاقستان، میکسیکو، نیپال، پاکستان، سولومن آئی لینڈ، جنوبی سوڈان، تائیوان، یوکرائن اور ویت نام میں30فیصد سے39.9فیصد، افغانستان، الجزائر، کانگو، ایتھوپیا، کرغیزستان، منگولیا، مراکش، نائیجیریا اور جنوبی افریقہ میں40فیصد سے 49.9 فیصد، کمبوڈیا، کیمرون، گھانا، انڈیا، کینیا، لیبیا، موزمبیق، سینیگال، تنزانیہ، یوگنڈا، یمن اور زمبابوے میں50فیصد سے74.9فیصد جبکہ لائبیریا اور سیرالیون میں75فیصد رشوت دیتے ہیں۔
پوری دنیا میں28فیصد مردوں نے رشوت دے کر کام نکلوائے جبکہ خواتین کی شرح25فیصد تھی۔دنیا میں بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں رشوت دینے والے مردوں کی شرح اٹھائیس فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ مثلاً نیپال، پاکستان۔ تاہم کمبوڈیا میں مردوں کی نسبت رشوت دینے والی خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ یہاں 16فیصد مردوں نے رشوت دی جبکہ خواتین کی شرح27فیصد تھی۔
زندگی کے آٹھ اہم شعبہ جات میں پولیس ایسا شعبہ ہے جہاں سب سے زیادہ رشوت لی جاتی ہے۔31فیصد لوگ پولیس کا شکار بنتے ہیں، سال2011ء اور 2012ء میں بھی پولیس کا پہلا نمبرتھا۔کانگو، گھانا، انڈونیشیا، کینیا، لائبیریا، نائیجریا اور سیرالیون میں 75فیصد رشوت پولیس حاصل کرتی ہے۔ دوسرے نمبر پر عدلیہ کا نام ہے۔دنیا کے بعض حصوں میں عدلیہ کے حصے میں20فیصد اضافہ ہواہے۔ان ممالک میں گھانا، انڈونیشیا، موزمبیق، سولومن آئی لینڈز اور تائیوان شامل ہیں۔
البتہ ایتھوپیا، عراق ، فلسطین اور جنوبی سوڈان کی عدلیہ رشوت کی آلودگی سے زیادہ لتھڑی نہیں ہے۔ یہاں کی پولیس میں بھی رشوت لینے کا رجحان کم دیکھنے کو ملا۔دنیا میں ہرپانچ افراد میں سے ایک نے لینڈسروسز کے شعبے کو زمین کی خریدوفروخت کے دوران رشوت دی۔ لینڈ سروسزکے حکام تک لوگوں کی رسائی اس وقت تک ممکن نہیںجب تک انھیں رشوت فراہم نہیں کی جاتی۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس شعبے کے ظلم وستم سے بچاؤکے لئے ہرقسم کے قوانین غیرموثرثابت ہورہے ہیں۔
شعبہ مال(لینڈسیکٹر) میں کرپشن ان ممالک میں زیادہ ہے جو لڑائی اور جنگ کے ادوار سے گزرے ہیں۔ یہاںشفاف اور موثر انتظامیہ کی ضرورت تھی جو ملک کی ازسرنو تعمیر کرسکے۔تاہم ایسا نہ ہوا۔ افغانستان، کمبوڈیا، عراق، لائبیریا، پاکستان اور سیرالیون ایسے ہی ممالک ہیں۔ یہاں رشوت ستانی کا بازار 39فیصد سے 75فیصد تک گرم ہے۔ ان میں سے بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں زمین خوراک حاصل کرنے کے لئے بھی بیچی جاتی ہے۔ یہاں کے حکام دنیا میں سب سے زیادہ کرپٹ ہیں۔
سن2007ء میں جب خوراک کی قیمتوں میں اضافہ کا رجحان دیکھنے میں آیا تو خوراک کی پیداوارکا شعبہ بھی قیمتی ہوگیااوراس کی وجہ سے زمین کی قدرمیں بھی اضافہ ہوگیا، پھر کرایہ داری کاکلچرتیز ہوا ۔ یہ کلچر پہلے صرف ہیروں، تیل اور گیس جیسے قدرتی ذرائع کے شعبے میں دیکھنے کو ملتاتھا۔ نتیجتاً گزشتہ ایک عشرہ کے دوران پوری دنیا میں227 ہیکٹرز( ایک ہیکٹر2.47105 کے برابر ہوتاہے) اراضی فروخت ہوئی یا پھر لیزپر دی گئی۔ یادرہے کہ یہ اراضی مغربی یورپ کے کل رقبہ کے برابر ہے۔ خریدنے والے زیادہ تر بین الاقوامی سرمایہ کارتھے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں حکومتوں اور بااثرلوگوں کو بڑی بڑی رقوم دی گئیں تاکہ وہ زمینوں کی خرید میں حائل رکاوٹیں ختم کردیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتیں یہ سلسلہ روکیں اور زمینیں بے گھر لوگوں کو چھت فراہم کرنے کے منصوبوں میں استعمال کی جائیں، اپنے شہریوں کے لیے خوراک اگائی جائے، غرضیکہ اس کا استعمال اپنے شہریوں کے فائدے میں ہی ہو۔
وسطی ایشیائی ملک جارجیا میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اینٹی کرپشن ایڈوائس سنٹر کو لینڈایشوز پر ایک ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران حکومت نے معاشی اور سیاحتی منصوبے تیار کئے تو اس طرح ضرورتوں کے مارے لوگوں کو اپنی زمینیں فروخت کرنے کا ایک سنہرا موقع فراہم کردیا لیکن دوسری طرف حکومت ہی کے بعض لوگ ان ضرورت مندوں کی ضرورتوں کا فائدہ اٹھانے کے لئے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ وہ زمینوں کی رجسٹریشن کے دوران فروخت کنندہ سے رشوت حاصل کرتے ہیں۔2011ء کی جائزہ رپورٹ میں جب اس طرح کے کیسز کا ذکر ہواتو جارجیامیں تحقیقات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ساتھ ہی ساتھ حکومت نے ہرمتاثرہ فرد کا نقصان پورا کیا۔
دنیا کے مجموعی جائزے میں یوٹیلیٹیز ایسا شعبہ ہے جہاں سب سے کم رشوت دی جاتی ہے۔ 13فیصد لوگ اس شعبہ میں رشوت دیتے ہیں۔ اسی طرح ایک دلچسپ پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ مذہبی ادارے اور مذہبی افراد کرپشن سے کم ہی لتھڑے ہوئے ملے۔ اگرچہ ان کے بارے میں عمومی رائے یہی ہوتی ہے کہ یہ بھی خاصے کرپٹ واقع ہوئے ہیں تاہم یہ تاثر درست ثابت نہ ہوا۔
صرف رشوت ہی کرپشن نہیں
سرکاری محکموں میں رشوت کے علاوہ بھی کرپشن کی کئی صورتیں ہیں۔ یہ بھی رشوت ہی کی طرح نقصان دہ ہیں اور قوم ان کے برے اثرات تلے دب جاتی ہے ۔ یہ صورتیں تب دیکھنے کو ملتی ہیں جب سرکاری وسائل تقسیم کئے جاتے ہیں، ایسے میں دولت ، طاقت، باہمی انفرادی رابطے یا ان سب کا کمبی نیشن بناکے وسائل پر قبضہ کیاجاتاہے۔ پوری دنیا میںقریباً دوتہائی (64فیصد ) افراد کاخیال ہے کہ سرکاری شعبوں میں کام کرانے کے لئے انفرادی روابط بھی نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ تاہم اسرائیل، اٹلی، لبنان، ملاوی، مراکش، نیپال، پیراگائے، روس، یوکرائن میں یہ شرح 80 فیصد تک بھی بلند ہے۔
کرپشن معاشرے میں ہرسطح پر موجود ہے۔54 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ حکومتیں ایسے مختلف گروہوں کی یرغمال ہیں جن کے اپنے مخصوص مفادات ہوتے ہیں چنانچہ وہ عوام کے مفادات کو کسی ترجیح میں نہیں رکھتے۔مختصراً مختلف ممالک میں اقتدارکے منصب پر فائزحکمران نہیں ہوتے بلکہ اداکار ہوتے ہیں جو اپنے اختیارات کا ناجائزاستعمال کرتے ہوئے کسی اور کے اشاروں پر حکمرانی کرتے ہیں، وہ رعایاکے مفادات کاذرا خیال نہیں کرتے۔ قبرص، یونان، لبنان، روس، تنزانیہ اور یوکرائن میں80 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی حکومت مکمل طورپر یاپھر زیادہ تر مفادپرست گروہوں کے زیراثر ہے۔ اقتصادی تعاون وترقی کی تنظیم(OECD) کے ممالک جن کی کرپشن کے خلاف کارکردگی اور اچھے طرزحکمرانی کا ساری دنیا میں اعتراف کیاجاتا ہے، میں لوگوں کی بڑی تعداد کا خیال ہے کہ ان کی حکومتوں پر بھی مخصوص مفادات کے حامل گروہوں کااثر ہوتا ہے تاہم نارویجیئن ممالک میں پانچ فیصد لوگوں کا ایسا خیال ہے۔ البتہ جن ممالک میں معاشی بحران ہے یا طرزحکمرانی خراب ہے ، وہاں اس خیال کے حاملین کی شرح دوتہائی سے بھی زائد دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان ممالک میں نہ صرف یونان، اٹلی اور سپین شامل ہیں بلکہ بلجیم اور اسرائیل بھی۔ اس تصویر میں بہت سے ممالک کے لئے سبق موجود ہے کہ بھلے آپ معاشی ترقی کرلیں لیکن طرزحکمرانی خراب ہو تواس کے نتائج کیاہوں گے۔
بعض ممالک میں سیاسی جماعتیں معاشرے کا سب سے زیادہ کرپٹ گروہ ہیں جبکہ پولیس دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے بعد عدلیہ، پارلیمنٹ اور سرکاری حکام کی باری آتی ہے۔دنیا کے36 ممالک میں پولیس سب سے بڑا کرپٹ شعبہ قرارپایا ہے۔ 53فیصد لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے پولیس کو رشوت دی ۔ 20ممالک میں لوگوں کاخیال ہے کہ عدلیہ سب سے زیادہ کرپٹ ہے۔ ان ممالک میں 30فیصد لوگوں کہنا ہے کہ انھوں نے کسی مسئلہ پر عدلیہ سے رجوع کیاتو انھیں رشوت دیئے بغیر انصاف نہ مل سکا۔ معاملات عدلیہ میں پہنچنے سے پہلے پولیس اور پراسیکیوٹرز رشوت لیتے ہیں۔ جب پولیس اور عدلیہ ایسے ادارے بھی کرپشن میں ملوث ہوں تو پھر قانون کی حکمرانی کیسے قائم ہوسکتی ہے؟
دنیا بھر کے51 افراد کے خیال میں سیاسی جماعتیں معاشرے میں سب سے زیادہ کرپٹ ہیں۔سب سے زیادہ خوفناک نتائج یونان، میکسیکو اور نیپال میں دیکھنے کو ملے۔نائیجیریا میں صورت حال سب سے زیادہ خراب ہے۔ ایسے بے شمارشواہد مل رہے ہیں کہ سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کے اندر کرپشن کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی مہمات چلانے کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے، اسی سبب فنڈنگ کے ذریعے کرپشن سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جو ان پارٹیوں کو فنڈز فراہم کرتے ہیں، ان کے بھی مفادات ہوتے ہیں اور وہ پارٹیوں کی پالیسیوں اور اقدامات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
صرف حکومت ہی اپنے معاشرے میں کرپشن کے خلاف ردعمل کو مثبت اور تعمیری رخ دے سکتی ہے، وہ معیار قائم کرتی ہے، انسدادبدعنوانی کے لئے قوانین بناتی ہے،اور ان کے نفاذ کو بھی یقینی بناتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیادنیا میں حکومتوں کے اقدامات کافی ہیں؟دنیا کے 88ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت(54فیصد) سمجھتی ہے کہ حکومتیں کرپشن کے خلاف لڑائی میں غیرموثرثابت ہورہی ہیں۔گزشتہ دوبرسوں میں ہونے والے جائزوں کے مطابق تب 47فیصد لوگوں کو اپنی حکومتوں کے اقدامات پر عدم اعتماد ظاہر کیاتھا۔ سات فیصد کا اضافہ ظاہر کرتاہے کہ خطرات بڑھ رہے ہیں۔
جی 20 کے ممالک کا جائزہ لیاجائے تو17ممالک میں سے16ملکوں کے سربراہان مسلسل اچھے طرزحکمرانی اورکرپشن کے خلاف اقدامات کی بات کرتے رہتے ہیں۔ صرف ترکی ہی ایسا ملک ہے جہاں لوگوں کی اکثریت اپنی حکومت پر اعتماد کااظہارکررہی ہے۔ جی20 نے سن 2013-14ء کے دوبرسوں میں کرپشن کے خلاف ایکشن پلان پر عمل کرنے کا اعلان کیاہے۔تاہم ماہرین کاکہناہے کہ کامیابی مطلوب ہے توکرپشن کے خاتمہ میں لوگوں کے کردار کا تسلیم کرناہوگا۔ سرکاری شعبے ہوں یا غیرسرکاری،کرپشن کے خلاف سیٹی ماروں (Whistleblowers) کے تحفظ کے لئے قوانین کی منظوری اور نفاذ ناگزیرہے۔
پوری دنیا میں دوتہائی (67فیصد)افراد کویقین ہے کہ عام آدمی بھی کرپشن کے خلاف لڑائی میں اہم کردارادا کرسکتاہے۔ ان میں سے زیادہ تر نوجوان ہیں جن کی عمریں 18 سے 25سال ہیں جبکہ اس سے زائد عمر کے لوگوں میں امید کی کرن مدھم پائی گئی۔2010-11ء کے دوبرسوں میں یہ شرح 72فیصد تھی۔ دوسرے لفظوں میں دنیا بھر کے نوجوانوں میں کرپشن کے خلاف اپنے کردار کے حوالے سے امید کم ہوئی ہے۔بالخصوص برونڈی، ہنگری، عراق،لبنان، لکسمبرگ، مراکش، پاکستان اور یمن میں امید کی روشنی20فیصد کم ہوئی۔ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کا خیال ہے، وہ کرپشن کے خلاف لڑائی میں فرق ڈال سکتے ہیں، انھوں نے کبھی رشوت نہیں دی۔
دنیا میں66فیصد لوگ ایسے ہیں جن سے رشوت طلب کی گئی تو انھوں نے انکار کردیااور 69فیصد کا کہناتھا کہ وہ کرپشن کا کوئی واقعہ دیکھیں گے تو اس کی اطلاع متعلقہ حکام کو دیں گے۔آسٹریلیا، کینیڈا، چلی ، کمبوڈیا، ڈنمارک، فجی، جرمنی، اسرائیل، نیوزی لینڈ، ناروے، پاپوا نیوگنی، پیراگوئے، روانڈا، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور یوراگوئے میں90فیصد لوگوں نے عزم ظاہرکیا کہ وہ کرپشن کا واقعہ رپورٹ کریں گے۔ اگرچہ یہ ایک غیرمعمولی شرح ہے تاہم گزشتہ برسوںکی نسبت اب اس میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ یادرہے کہ دوبرس قبل اس ارادہ کے حاملین کی شرح 77فیصد تھی۔
جولوگ کرپشن کے خلاف جدوجہد کا عزم ظاہر کرتے ہیں، ان میں یہ سوچ سیاسی حالات کی وجہ سے پیدا ہوئی۔48ایسے ممالک ہیں جہاں آزادی اظہار ہے اور صاف شفاف انتخابات ہوتے ہیں وہاں 75فیصد لوگ کرپشن کو رپورٹ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس کے بجائے41 ممالک جہاں آزادیاں نسبتاً کم ہیں ، وہاں ایساعزم رکھنے والوں کی شرح68فیصد ہے جبکہ 18ممالک ایسی ہیں جہاں ایسی کوئی آزادی نہیں، وہاں بھی ایسا عزم رکھنے والوں کی شرح 59فیصد ہے۔
ایک تہائی لوگوں نے کہاکہ وہ کرپشن کا واقعہ رپورٹ نہیں کرائیں گے۔اس کے اسباب کیاہیں؟پوری دنیا میںایسے لوگوں کی شرح 45فیصد ہے ، ان کا کہناہے کہ واقعہ رپورٹ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد نہیں۔دنیا کے 73ممالک میں یہی کیفیت ہے۔ ان میں آرمینیا، ہنگری، جاپان، اردن، قزاقستان، کرغیزستان، لٹویا، مراکش، یوکرائن، ویت نام اور یمن شامل ہیں۔تاہم 32ممالک میں ایسا نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ خوف ہے۔ان ممالک میں ایتھوپیا، انڈونیشیا، لیبیا، سلواکیہ اور جنوبی سوڈان شامل ہیں۔ اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایساصاف اورموثر میکانزم بنایاجائے کہ لوگ کرپشن کے واقعات کو بآسانی رپورٹ کراسکیں۔
جائزے کے دوران یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ جو لوگ کرپشن کو بے نقاب کرتے ہیں، وہی رشوت دینے سے انکار کرتے ہیں اور ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ عموماً یہی لوگ کرپشن روکنے میں براہ راست کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ امر بھی باعث اطمینان ہے کہ دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد مختلف سرگرمیوں کے ذریعے کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 107ممالک میں ایسے لوگوں کی شرح 87فیصد ہے۔صرف آرمینیا ایسا ملک ہے جہاں کرپشن کے خلاف جدوجہد کاارادہ رکھنے والے 50فیصد سے بھی کم ہیں۔
دنیا میں51فیصد لوگ کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے والی کسی نہ کسی تنظیم میں شمولیت اختیارکرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ 54فیصد کاکہناتھا کہ وہ زیادہ قیمت دے کر اشیائے ضروریہ خریدیں گے لیکن کرپٹ کمپنی سے مال نہیں خریدیں گے۔ 56فیصد کا کہناہے کہ وہ کرپشن کے خلاف پرامن مظاہروں میں شرکت کریں گے۔56فیصد ہی کاکہناہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے کرپشن کے خلاف آواز بلند کریں گے۔72فیصد کاکہناہے کہ کرپشن کے خلاف پٹیشن پر دستخط کرکے اپناکردار اداکریں گے۔
کرپشن کے خلاف کامیابی کی ایک اور کہانی
جب زمبابوے کا رابرٹ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں منتخب ہوا تو وہ اس وقت صدمہ سے دوچارہوا ، جب اسے پتہ چلا کہ مقامی حکومت کا ادارہ سارے کا سارا ہی کرپٹ ہے۔ رابرٹ کے مطابق اس کے ساتھی کونسلرز ہاؤسنگ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر مختلف جائیدادیں خریدنے میں لگے ہوئے تھے اور وہ پھر اسے ان لوگوں کے ہاتھ مارکیٹ ریٹ سے 10گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرتے تھے جو بے گھر تھے اور اپنے لئے چھت کے متلاشی تھے۔جب رابرٹ یہ معاملہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی زمبابوے شاخ کے علم میں لایا تو اس تنظیم نے اس کی مدد کی اور اس نے شہر کے گورنر کو ایک خط لکھا۔
جواب میں گورنر نے نہ صرف الزامات کی تحقیقات شروع کرادیں بلکہ کونسلرز کے ساتھ ایک فوری اجلاس بھی طے کرلیا۔ اس پر شہر کے باسیوں کی اکثریت پرجوش اندازمیں گورنر کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے یہاں کے باسیوں کو بھی حوصلہ وہمت بخشی اور انھیں کونسلرز کے خلاف شکایات سامنے لانے کے لئے راضی کرلیا۔ان تحقیقات کے ہاؤسنگ پراجیکٹ پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے یا نہیں؟ اس حوالے سے فوری طورپر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے تاہم مقامی لوگ اب اچھے دنوں کے لئے زیادہ پرامید ہوچکے ہیں۔ ایک شخص جو گزشتہ تیس برسوں سے ہاؤسنگ پراجیکٹ کی فہرست میں شامل ہے کاکہناتھا کہ اب اسے امید ہے کہ وہ جلد اپنے گھر کا مالک ہوگاکیونکہ وہ اس سے پہلے اپنے اس خواب کی غیرمعمولی قیمت ادانہیں کرسکتاتھا۔فیصلوں میں عوام کی شرکت سے میرے لئے چھت فراہم ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
.....
پاکستان کس حال میں ہے؟
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سے شامل ہے جہاں لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے ہاں رشوت لینے ، دینے کا کلچر بڑھ رہاہے۔ تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ یہاں عورتوں کی نسبت مرد کہیں زیادہ رشوت دینے کے عادی ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں39.9 فیصد افراد کاکہناہے کہ وہ گزشتہ برس اپنے کام نکلوانے کے لئے رشوت دینے پر مجبور ہوئے۔ بنگلہ دیش، بولیویا، مصر، انڈونیشیا، اردن، قزاقستان، میکسیکو، نیپال، آئس لینڈ، جنوبی سوڈان، تائیوان، یوکرائن اور ویت نام بھی اسی کیٹیگری میں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ رشوت لینے والا ادارہ پولیس ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں گزشتہ برس کی نسبت امسال کرپشن کے خلاف امید کی روشنی20 فیصدکم ہوئی ہے۔ تاہم اس کے باوجود اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں 75فیصد افراد کرپشن کے خلاف جدوجہد میں کسی نہ کسی اندازمیں شرکت کرنے کو تیار ہیں۔ یہ جائزہ پاکستان کے مختلف علاقوں کے قریباً اڑھائی ہزار افراد سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کی روشنی میں مرتب کیاگیاہے۔
50سالہ خاتون کے ہاتھوں راشی پولیس کو شکست
وینزویلا میں پچاس سالہ خاتون کارمیلااپنے فلیٹ میں سورہی تھی کہ اچانک شورشرابے اور چیخ وپکار سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ ماردھاڑ کی آوازیں اوپر والے فلیٹ سے آرہی تھیں جہاں اس کا بیٹا رہائش پذیرتھا۔ وہ بھاگم بھاگ اوپر پہنچی، دیکھا کہ پولیس والے اس کے 27سالہ مکینک بیٹے کو کھینچ کر اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ماں چیختی رہی لیکن پولیس والے اسے مقامی پولیس ہیڈکوارٹر میں لے گئے۔ ماں پیچھے پیچھے وہاں پہنچی تو پولیس اہلکاروں نے صاف صاف رشوت کا مطالبہ کردیا۔
وینزویلن معاشرے میں ہرکوئی کارمیلا ہے اور ہرکوئی پولیس والوں کے ظلم واستحصال کا شکار۔ پولیس والے روزانہ کی بنیاد پر اسی اندازمیں اوپر کی کمائی وصول کرتے ہیں۔ آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس طرح وہ کتنا کمالیتے ہیں اور آپ کو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ اس معاشرے میں رہنے والے کس قدر خوف وہراس میں مبتلا ہیں۔ یہ پولیس والے معمولی رقم کا مطالبہ نہیں کرتے، بلکہ ہزاروں مانگتے ہیں۔ تاہم کارمیلا کے لئے ہزاروں ڈالرز کا انتظام کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس کے چاربچے تھے جن میں سے ایک کینسر میں مبتلا تھا۔
کارمیلا کی شکایت پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے وینزویلا کے اعلیٰ حکومتی عہدیداران اور پولیس حکام سے رابطہ کرکے کارروائی کا مطالبہ کیا۔ نتیجتاً جب خاتون رشوت کی رقم لے کر متعلقہ پولیس ہیڈکوارٹر پہنچی تو پولیس اہلکاروں کی نگرانی ہورہی تھی، جیسے ہی اس نے رقم اہلکاروں کے حوالے کی، فوراً رشوت لینے والوں کو گرفتار کرلیاگیا۔ اس کے بیٹے کو اسی وقت رہائی مل گئی۔ راشی پولیس اہلکاراس وقت جیل میں ہیں، ان کے خلاف انویسٹی گیشن کا سلسلہ وسیع کردیاگیاہے۔ اب ان پر مقدمہ چلے گا اور جلد ہی انھیں اپنے کئے کی سزامل جائے گی۔
کرپشن کے خلاف کرنے کے اصل کام
٭حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ شفافیت کے ساتھ اپنے معاملات کو سرانجام دیں اور اپنے ریکارڈ کو چھان بین کے لئے عام کریں۔
٭کوڈز آف کنڈکٹ میں بہتری لانا ہوگی اور تمام سرکاری ملازمین کو ان کا پابند بنانا ہوگا۔
٭حکومتوں کومعلومات تک مکمل رسائی کے قوانین کی منظوری اور نفاذ میں بھی شفافیت کو لازمی بنانا ہوگا۔
٭حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ سرکاری مالی انتظام کو کرپشن کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کے آرٹیکل نمبر9 کے مطابق بنائیں۔
٭ حکومتوں کو بہرصورت احتساب کا میکانزم اور چینلز بنانا ہوں گے ۔
٭لوگوں کو جب رشوت دینے کو کہاجائے تو انھیں بھی انکار کرنا چاہئے۔
٭ حکومت کو اصلاحات برائے انسداد بدعنوانی میں پولیس کے شعبے کو ترجیح میں رکھنا چاہئے۔ ایسا کرتے ہوئے مسائل کا تجزیہ ضرورکرلیناچاہئے۔
٭ حکومت کو عدلیہ کی آزادی اور غیرجانبداری کو یقینی بناناہوگا۔
٭ حکومت کو چیک اینڈ بیلنس کا ایسا نظام قائم کرنا چاہئے کہ کوئی گروہ اپنی طاقت اور مفادات کے سبب حکومتی پالیسیوں اور اقدامات پر اثرانداز نہ ہوسکے۔
٭تمام حکومتوں کو کرپٹ حکام کے خلاف کچھ نہ کرنے کا کلچر ختم کرناہوگا اور کرپشن سے بچائو، کرپشن کا پتہ چلانے ، تفتیش کرنے، مقدمات چلانے اور سزائیں دینے کے عمل کو یقینی بناناہوگا۔
٭ اگرمنتخب عوامی نمائندوں کی کرپشن پکڑی جائے تو انھیں استثنیٰ نہیں ملناچاہئے۔
٭ جب لوگ کرپشن کا سامنا کریں یا ایسا کوئی واقعہ ہوتے دیکھیں تو انھیں موجودہ رپورٹنگ میکانزم کو استعمال کرناچاہئے۔
٭لوگوں کو کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے، کرپٹ لوگوں کے خلاف ووٹ کا حق استعمال کرناچاہئے، انھیں کرپٹ لوگوں کوسزا دینے کے لئے استعمال میں لانا چاہئے، صرف صاف ستھرے
امیدواروں اور جماعتوں کو ہی ووٹ دینا چاہئے۔ اسی طرح لوگوں کو صرف ایسی کمپنیوں کا مال ہی خریدنا چاہئے کہ جوکرپشن کی غلاظت سے پاک کاروبار کرتی ہوں۔
٭ حکومت کو ایسے قوانین منظورکرناہوں گے جن کی مدد سے پارٹیوں کے مالی معاملات صاف وشفاف ہوسکیں۔ جماعتوں اور انتخابی امیدواروں کی کہاں کہاں سے چندہ وصول ہوتاہے، یہ سب کچھ عام لوگوں کے سامنے آنا چاہئے۔
٭پارلیمان کو بھی اپنے ارکان کے بارے میںکوڈآف کنڈکٹ تیارکرناچاہئے، انھیں آگاہ کرنا چاہئے کہ ذاتی اور ریاستی مفادات میں ٹکرائو پیدا ہورہاہو تو ان کی ذمہ داری کیابنتی ہے، ارکان کو اپنے اثاثے اور آمدن کو ظاہر کرنے کا پابند کرناچاہئے۔
٭ حکومتوں کو ایسے قوانین کی منظوری اور نفاذ کرنا ہوگا کہ جس کی مدد سے سیٹی ماروں(Whistleblowers) کو اجازت مل سکے کہ وہ سرکاری اور غیرسرکاری اداروں میں ہونے والی بدعنوانی پر آواز بلند کرسکیں اور ان کا تحفظ بھی ہو۔
٭ حکومت کو ایک موثر میکانزم کے ساتھ لوگوں کو کرپشن کے خلاف رپورٹ کرنے اور ان کی شکایت کا ازالہ کرنے کو یقینی بنائے۔
٭حکومت معاشرے میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کے قیام کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ وہ سرکاری معاملات پر نظر رکھ سکیں، لوگوں کی مدد کرسکیں اور سرکاری حکام کا احتساب کرسکیں۔
بہت سے لوگوں کو پیدائش سے موت تک کرپشن کے زہریلے اثرات کے ساتھ شب وروز گزارناپڑتے ہیں۔ مثلاًزمبابوے میں ایک خاتون کو مقامی ہسپتال میں زچگی کے موقع پرپانچ ڈالر(529پاکستانی روپے کے برابر) اداکرناپڑتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں حال ہی میں ایک کئی منزلہ فیکٹری منہدم ہوئی تو اس میں1130 افراد صرف اس وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے کہ بلڈنگ تعمیر کرتے ہوئے بلڈنگ کوڈز کی پابندی نہیں کی گئی تھی۔ یہ دنیا کے بدترین صنعتی حادثات میں سے ایک تھا۔ تب یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ کرپشن نے ہی بنگلہ دیشیوں کو یہ دن دکھایاتھا، کیونکہ اس بلڈنگ کا نقشہ بھی رشوت دے کر پاس کرایاگیاتھا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل(دنیا میں کرپشن پر نظر رکھنے والا ادارہ)کی 2013ء کی رپورٹ 107ممالک کے جائزہ پر مشتمل ہے۔ ایک لاکھ چودہ ہزار افراد سے سروے کیاگیا۔ انٹرویوز میں انھوں نے اپنے تجربات بیان کئے کہ کس طرح انھیں اپنے روزمرہ کے کام کرانے کے لئے رشوت دیناپڑتی ہے۔ جائزہ لیتے ہوئے یہ بھی دیکھاگیاکہ کرپشن کے خلاف لوگ کیسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں ۔ جائزہ کے نتائج بہت واضح ہیں جو ثابت کررہے ہیں کہ کرپشن حقیقی معنوں میں معاشرے پر بوجھ ثابت ہورہی ہے۔
ہرچار میں سے ایک فرد نے بتایا کہ اس نے گزشتہ برس اپنا کام نکلوانے کے لئے رشوت دی تھی۔ جو لوگ رشوت دینے کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ بے گھر ہی رہتے ہیں، وہ کاروبار شروع نہیں کرسکتے اور بنیادی ضروریات تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔کرپشن بنیادی حقوق کو پامال کرتی ہے، بالخصوص ان لوگوں کے بنیادی حقوق جو روزانہ 2ڈالر( قریباً 211 پاکستانی روپے) سے کم پر زندگی بسر کررہے ہیں، اور پوری دنیا کی ان خواتین کے بنیادی حقوق جو بچوں کی پرورش کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔
ان سب کے لئے رشوت اور کرپشن عملاً تباہ کن ثابت ہورہی ہے۔ غیرمعمولی حدتک رشوت کی ادائیگی انھیں صحت کے مسائل سے دوچار کرتی ہے اور بھوک میں مبتلا کرتی ہے حتی کہ بچوں کی سکول فیس اداکرنا ممکن نہیں رہتا، اور ان بچوں کے پائوں ننگے ہی رہتے ہیں۔
لوگ نہ صرف کرپشن کی قیمت براہ راست ادا کرتے ہیں بلکہ ان کا معیارِ زندگی بھی کرپشن کی ایسی اقسام سے متاثر ہوتاہے جوبظاہر نظر نہیں آتیں۔ جب طاقتور گروہ حکومتی فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں یا جب عوامی فنڈز سیاسی اشرافیہ میں ہی تقسیم ہوجاتے ہیں تو اس کی وجہ سے عام آدمی ہی مسائل کا شکار ہوتاہے۔
یہ صورت حال کسی بھی ملک کی جمہوری اور قانونی بنیادوں کو کھوکھلا کرتی ہے۔ اس کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتاہے کہ عوام کا سیاسی جماعتوں، عدلیہ ، پولیس اور دوسرے اہم ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہوجاتاہے۔آپ بخوبی تصور کرسکتے ہیں کہ کرپشن ریاست اور لوگوں کی زندگی کا کیاحشر کردیتی ہے۔
اس ساری صورت حال میں اچھی بات یہ ہے کہ کرپشن کے سامنے عام لوگ اپنے آپ کو بے بس تصور کرنے کو تیارنہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ خود اس مسئلے سے نمٹ سکتے ہیں۔ مثلاً بھارت میں2011ء میں لاکھوں لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ملک میں آزادانہ انسدادکرپشن کمیشن قائم کیاجائے۔
برازیل میں ایک عام شہری کی پٹیشن پر ایساقانون بنا جس کے ذریعے کرپٹ سیاست دانوں کے انتخاب لڑنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس شہری کے حرکت میں آنے سے کرپٹ سیاست دان بے نقاب ہوئے،کرپٹ حکام جکڑ ے گئے اور ہچکچاہٹ کی ماری ہوئی حکومت کو کرپشن کے خلاف لڑائی میں مزید بہت کچھ کرناپڑا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا میں اس وقت لوگوں میں شدید خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف لڑائی کاحصہ بنیں۔
سوال یہ ہے کہ لوگ ان حالات میںکرپشن کے مسئلے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، جب سرکاری خزانے خالی پڑے ہوں، بے روزگاری بڑھ رہی ہو اورعالمی اقتصادی بحران لوگوں کی زبانوں پر ہو؟
دنیا بھر میں لوگ کرپشن کو سنگین اور بعض صورتوں میں نہایت سنگین مسئلہ قراردیتے ہیں۔ سب سے زیادہ شدیدخیالات رکھنے والے لائبیریا اور منگولیا کے لوگ ہیں تاہم ڈنمارک، فن لینڈ، روانڈا، سوڈان اور سوئٹزرلینڈ کے لوگ کرپشن کے خاتمے کے بارے میں زیادہ پرامید ہیں۔53فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ کرپشن بڑھ رہی ہے،29فیصد سمجھتے ہیںکہ یہ ایک سطح پر رکی ہوئی ہے جبکہ صرف 18فیصد سمجھتے ہیںکہ کرپشن کم ہورہی ہے۔
الجزائر، لبنان، پرتگال، تیونس اور زمبابوے کے لوگوں کاخیال ہے کہ کرپشن کامسئلہ بہت زیادہ سنگین ہے۔ یہاں کے چارمیں سے تین لوگوں کا خیال ہے کہ کرپشن بڑھ رہی ہے۔ تاہم بلجئیم،کمبوڈیا، جارجیا، روانڈا، سربیا اور تائیوان کے آدھے سے زیادہ لوگوں کا خیال ہے کہ کرپشن میں کمی واقع ہورہی ہے۔
رشوت کسی بھی فردکابراہ راست تجربہ ہوتاہے۔ بہت سے واقعات میں رشوت دینے یا اس سے انکارکی صورت میں ایسے نتائج برآمد ہوئے جن کی وجہ سے ان کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی۔ مثلاً مراکش کا احمد اپنے شہر کی نواحی کچی آبادی میں بیوی اور دوبچوں کے ساتھ زندگی بسر کررہاتھا۔ وہ ایک قومی سرکاری پروگرام کا حصہ تھا جوکچی آبادی کے مکینوں کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنے سے متعلق تھا۔اس پروگرام کے تحت حکومت نے یہاں کے ہرفرد کومفت ایک پلاٹ فراہم کرنے کا اعلان کیاتھا۔
احمد نے اپنے حصہ کا پلاٹ لینے کے لئے جب متعلقہ حکام سے رابطہ کیاتو اس سے رشوت طلب کی گئی۔ احمد یہ رقم دینے کی استطاعت نہیں رکھتاتھا، اس نے رشوت دینے سے معذوری ظاہر کردی۔ نتیجتاً اس کاکچا گھر مسمار کردیاگیا۔ اب احمد، اس کی بیوی اور دوبچے کھلے آسمان تلے تھے۔ رشوت نہ صرف رشوت دینے والے فرد کی مالی حیثیت پر برااثرڈالتی ہے بلکہ اس کے دل سے قانون کی عزت ختم کرتی ہے اور معاشرتی استحکام کوبھی نقصان پہنچاتی ہے۔آپ آج کل مراکش کے حالات کا جائزہ لے لیں، آپ کو وہاں ایسی ہی صورت حال نظرآئے گی۔
گزشتہ برس دنیا میں16ممالک ایسے تھے جہاں پانچ فیصد لوگوں نے رشوت دی جبکہ 14ممالک میںآدھے سے زیادہ لوگوں نے رشوت دی۔لائبیریا اور سیرالیون جیسے ممالک میں75فیصد سے زائد لوگوں نے رشوت دی۔ دنیا میں ہرچارافراد میں سے ایک فرد رشوت دے کر اپنے کام نکلوا رہاہے۔آسٹریلیا، بلجیم، کینیڈا، کروشیا، ڈنمارک، فن لینڈ، جارجیا، جاپان، جنوبی کوریا، ملائشیا، مالدیپ، نیوزی لینڈ، ناروے، پرتگال، سپین اور یوراگائے ایسے ممالک ہیں جہاں محض 5 فیصد افراد رشوت دیتے ہیں۔
بلغاریہ، ایسٹونیا، اٹلی، سلوانیا، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکہ میں 5فیصد سے9.9فیصد افراد، ارجنٹائن، چلی، ایلسلواڈور، ہنگری، اسرائیل، جمیکا، فلسطین، فلپائن، روانڈا میں10فیصد سے14.9فیصد، آرمینیا، قبرص، کوسووا، لٹویا، مقدونیہ، رومانیہ، سری لنکا، سوڈان، تھائی لینڈ اور تیونس میں 15فیصد سے19.9فیصد، بوسنیا، کولمبیا، یونان، عراق، لتھوانیا، مڈگاسکر، مولڈوا، پاپوا نیو گنی، پیراگوئے، پیرو، سربیا، سلواکیا، ترکی اور وینزویلامیں20فیصد سے29.9فیصد، بنگلہ دیش، بولیویا، مصر، انڈونیشیا، اردن، قزاقستان، میکسیکو، نیپال، پاکستان، سولومن آئی لینڈ، جنوبی سوڈان، تائیوان، یوکرائن اور ویت نام میں30فیصد سے39.9فیصد، افغانستان، الجزائر، کانگو، ایتھوپیا، کرغیزستان، منگولیا، مراکش، نائیجیریا اور جنوبی افریقہ میں40فیصد سے 49.9 فیصد، کمبوڈیا، کیمرون، گھانا، انڈیا، کینیا، لیبیا، موزمبیق، سینیگال، تنزانیہ، یوگنڈا، یمن اور زمبابوے میں50فیصد سے74.9فیصد جبکہ لائبیریا اور سیرالیون میں75فیصد رشوت دیتے ہیں۔
پوری دنیا میں28فیصد مردوں نے رشوت دے کر کام نکلوائے جبکہ خواتین کی شرح25فیصد تھی۔دنیا میں بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں رشوت دینے والے مردوں کی شرح اٹھائیس فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ مثلاً نیپال، پاکستان۔ تاہم کمبوڈیا میں مردوں کی نسبت رشوت دینے والی خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ یہاں 16فیصد مردوں نے رشوت دی جبکہ خواتین کی شرح27فیصد تھی۔
زندگی کے آٹھ اہم شعبہ جات میں پولیس ایسا شعبہ ہے جہاں سب سے زیادہ رشوت لی جاتی ہے۔31فیصد لوگ پولیس کا شکار بنتے ہیں، سال2011ء اور 2012ء میں بھی پولیس کا پہلا نمبرتھا۔کانگو، گھانا، انڈونیشیا، کینیا، لائبیریا، نائیجریا اور سیرالیون میں 75فیصد رشوت پولیس حاصل کرتی ہے۔ دوسرے نمبر پر عدلیہ کا نام ہے۔دنیا کے بعض حصوں میں عدلیہ کے حصے میں20فیصد اضافہ ہواہے۔ان ممالک میں گھانا، انڈونیشیا، موزمبیق، سولومن آئی لینڈز اور تائیوان شامل ہیں۔
البتہ ایتھوپیا، عراق ، فلسطین اور جنوبی سوڈان کی عدلیہ رشوت کی آلودگی سے زیادہ لتھڑی نہیں ہے۔ یہاں کی پولیس میں بھی رشوت لینے کا رجحان کم دیکھنے کو ملا۔دنیا میں ہرپانچ افراد میں سے ایک نے لینڈسروسز کے شعبے کو زمین کی خریدوفروخت کے دوران رشوت دی۔ لینڈ سروسزکے حکام تک لوگوں کی رسائی اس وقت تک ممکن نہیںجب تک انھیں رشوت فراہم نہیں کی جاتی۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس شعبے کے ظلم وستم سے بچاؤکے لئے ہرقسم کے قوانین غیرموثرثابت ہورہے ہیں۔
شعبہ مال(لینڈسیکٹر) میں کرپشن ان ممالک میں زیادہ ہے جو لڑائی اور جنگ کے ادوار سے گزرے ہیں۔ یہاںشفاف اور موثر انتظامیہ کی ضرورت تھی جو ملک کی ازسرنو تعمیر کرسکے۔تاہم ایسا نہ ہوا۔ افغانستان، کمبوڈیا، عراق، لائبیریا، پاکستان اور سیرالیون ایسے ہی ممالک ہیں۔ یہاں رشوت ستانی کا بازار 39فیصد سے 75فیصد تک گرم ہے۔ ان میں سے بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں زمین خوراک حاصل کرنے کے لئے بھی بیچی جاتی ہے۔ یہاں کے حکام دنیا میں سب سے زیادہ کرپٹ ہیں۔
سن2007ء میں جب خوراک کی قیمتوں میں اضافہ کا رجحان دیکھنے میں آیا تو خوراک کی پیداوارکا شعبہ بھی قیمتی ہوگیااوراس کی وجہ سے زمین کی قدرمیں بھی اضافہ ہوگیا، پھر کرایہ داری کاکلچرتیز ہوا ۔ یہ کلچر پہلے صرف ہیروں، تیل اور گیس جیسے قدرتی ذرائع کے شعبے میں دیکھنے کو ملتاتھا۔ نتیجتاً گزشتہ ایک عشرہ کے دوران پوری دنیا میں227 ہیکٹرز( ایک ہیکٹر2.47105 کے برابر ہوتاہے) اراضی فروخت ہوئی یا پھر لیزپر دی گئی۔ یادرہے کہ یہ اراضی مغربی یورپ کے کل رقبہ کے برابر ہے۔ خریدنے والے زیادہ تر بین الاقوامی سرمایہ کارتھے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں حکومتوں اور بااثرلوگوں کو بڑی بڑی رقوم دی گئیں تاکہ وہ زمینوں کی خرید میں حائل رکاوٹیں ختم کردیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتیں یہ سلسلہ روکیں اور زمینیں بے گھر لوگوں کو چھت فراہم کرنے کے منصوبوں میں استعمال کی جائیں، اپنے شہریوں کے لیے خوراک اگائی جائے، غرضیکہ اس کا استعمال اپنے شہریوں کے فائدے میں ہی ہو۔
وسطی ایشیائی ملک جارجیا میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اینٹی کرپشن ایڈوائس سنٹر کو لینڈایشوز پر ایک ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران حکومت نے معاشی اور سیاحتی منصوبے تیار کئے تو اس طرح ضرورتوں کے مارے لوگوں کو اپنی زمینیں فروخت کرنے کا ایک سنہرا موقع فراہم کردیا لیکن دوسری طرف حکومت ہی کے بعض لوگ ان ضرورت مندوں کی ضرورتوں کا فائدہ اٹھانے کے لئے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ وہ زمینوں کی رجسٹریشن کے دوران فروخت کنندہ سے رشوت حاصل کرتے ہیں۔2011ء کی جائزہ رپورٹ میں جب اس طرح کے کیسز کا ذکر ہواتو جارجیامیں تحقیقات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ساتھ ہی ساتھ حکومت نے ہرمتاثرہ فرد کا نقصان پورا کیا۔
دنیا کے مجموعی جائزے میں یوٹیلیٹیز ایسا شعبہ ہے جہاں سب سے کم رشوت دی جاتی ہے۔ 13فیصد لوگ اس شعبہ میں رشوت دیتے ہیں۔ اسی طرح ایک دلچسپ پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ مذہبی ادارے اور مذہبی افراد کرپشن سے کم ہی لتھڑے ہوئے ملے۔ اگرچہ ان کے بارے میں عمومی رائے یہی ہوتی ہے کہ یہ بھی خاصے کرپٹ واقع ہوئے ہیں تاہم یہ تاثر درست ثابت نہ ہوا۔
صرف رشوت ہی کرپشن نہیں
سرکاری محکموں میں رشوت کے علاوہ بھی کرپشن کی کئی صورتیں ہیں۔ یہ بھی رشوت ہی کی طرح نقصان دہ ہیں اور قوم ان کے برے اثرات تلے دب جاتی ہے ۔ یہ صورتیں تب دیکھنے کو ملتی ہیں جب سرکاری وسائل تقسیم کئے جاتے ہیں، ایسے میں دولت ، طاقت، باہمی انفرادی رابطے یا ان سب کا کمبی نیشن بناکے وسائل پر قبضہ کیاجاتاہے۔ پوری دنیا میںقریباً دوتہائی (64فیصد ) افراد کاخیال ہے کہ سرکاری شعبوں میں کام کرانے کے لئے انفرادی روابط بھی نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ تاہم اسرائیل، اٹلی، لبنان، ملاوی، مراکش، نیپال، پیراگائے، روس، یوکرائن میں یہ شرح 80 فیصد تک بھی بلند ہے۔
کرپشن معاشرے میں ہرسطح پر موجود ہے۔54 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ حکومتیں ایسے مختلف گروہوں کی یرغمال ہیں جن کے اپنے مخصوص مفادات ہوتے ہیں چنانچہ وہ عوام کے مفادات کو کسی ترجیح میں نہیں رکھتے۔مختصراً مختلف ممالک میں اقتدارکے منصب پر فائزحکمران نہیں ہوتے بلکہ اداکار ہوتے ہیں جو اپنے اختیارات کا ناجائزاستعمال کرتے ہوئے کسی اور کے اشاروں پر حکمرانی کرتے ہیں، وہ رعایاکے مفادات کاذرا خیال نہیں کرتے۔ قبرص، یونان، لبنان، روس، تنزانیہ اور یوکرائن میں80 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی حکومت مکمل طورپر یاپھر زیادہ تر مفادپرست گروہوں کے زیراثر ہے۔ اقتصادی تعاون وترقی کی تنظیم(OECD) کے ممالک جن کی کرپشن کے خلاف کارکردگی اور اچھے طرزحکمرانی کا ساری دنیا میں اعتراف کیاجاتا ہے، میں لوگوں کی بڑی تعداد کا خیال ہے کہ ان کی حکومتوں پر بھی مخصوص مفادات کے حامل گروہوں کااثر ہوتا ہے تاہم نارویجیئن ممالک میں پانچ فیصد لوگوں کا ایسا خیال ہے۔ البتہ جن ممالک میں معاشی بحران ہے یا طرزحکمرانی خراب ہے ، وہاں اس خیال کے حاملین کی شرح دوتہائی سے بھی زائد دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان ممالک میں نہ صرف یونان، اٹلی اور سپین شامل ہیں بلکہ بلجیم اور اسرائیل بھی۔ اس تصویر میں بہت سے ممالک کے لئے سبق موجود ہے کہ بھلے آپ معاشی ترقی کرلیں لیکن طرزحکمرانی خراب ہو تواس کے نتائج کیاہوں گے۔
بعض ممالک میں سیاسی جماعتیں معاشرے کا سب سے زیادہ کرپٹ گروہ ہیں جبکہ پولیس دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے بعد عدلیہ، پارلیمنٹ اور سرکاری حکام کی باری آتی ہے۔دنیا کے36 ممالک میں پولیس سب سے بڑا کرپٹ شعبہ قرارپایا ہے۔ 53فیصد لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے پولیس کو رشوت دی ۔ 20ممالک میں لوگوں کاخیال ہے کہ عدلیہ سب سے زیادہ کرپٹ ہے۔ ان ممالک میں 30فیصد لوگوں کہنا ہے کہ انھوں نے کسی مسئلہ پر عدلیہ سے رجوع کیاتو انھیں رشوت دیئے بغیر انصاف نہ مل سکا۔ معاملات عدلیہ میں پہنچنے سے پہلے پولیس اور پراسیکیوٹرز رشوت لیتے ہیں۔ جب پولیس اور عدلیہ ایسے ادارے بھی کرپشن میں ملوث ہوں تو پھر قانون کی حکمرانی کیسے قائم ہوسکتی ہے؟
دنیا بھر کے51 افراد کے خیال میں سیاسی جماعتیں معاشرے میں سب سے زیادہ کرپٹ ہیں۔سب سے زیادہ خوفناک نتائج یونان، میکسیکو اور نیپال میں دیکھنے کو ملے۔نائیجیریا میں صورت حال سب سے زیادہ خراب ہے۔ ایسے بے شمارشواہد مل رہے ہیں کہ سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کے اندر کرپشن کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی مہمات چلانے کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے، اسی سبب فنڈنگ کے ذریعے کرپشن سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جو ان پارٹیوں کو فنڈز فراہم کرتے ہیں، ان کے بھی مفادات ہوتے ہیں اور وہ پارٹیوں کی پالیسیوں اور اقدامات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
صرف حکومت ہی اپنے معاشرے میں کرپشن کے خلاف ردعمل کو مثبت اور تعمیری رخ دے سکتی ہے، وہ معیار قائم کرتی ہے، انسدادبدعنوانی کے لئے قوانین بناتی ہے،اور ان کے نفاذ کو بھی یقینی بناتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیادنیا میں حکومتوں کے اقدامات کافی ہیں؟دنیا کے 88ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت(54فیصد) سمجھتی ہے کہ حکومتیں کرپشن کے خلاف لڑائی میں غیرموثرثابت ہورہی ہیں۔گزشتہ دوبرسوں میں ہونے والے جائزوں کے مطابق تب 47فیصد لوگوں کو اپنی حکومتوں کے اقدامات پر عدم اعتماد ظاہر کیاتھا۔ سات فیصد کا اضافہ ظاہر کرتاہے کہ خطرات بڑھ رہے ہیں۔
جی 20 کے ممالک کا جائزہ لیاجائے تو17ممالک میں سے16ملکوں کے سربراہان مسلسل اچھے طرزحکمرانی اورکرپشن کے خلاف اقدامات کی بات کرتے رہتے ہیں۔ صرف ترکی ہی ایسا ملک ہے جہاں لوگوں کی اکثریت اپنی حکومت پر اعتماد کااظہارکررہی ہے۔ جی20 نے سن 2013-14ء کے دوبرسوں میں کرپشن کے خلاف ایکشن پلان پر عمل کرنے کا اعلان کیاہے۔تاہم ماہرین کاکہناہے کہ کامیابی مطلوب ہے توکرپشن کے خاتمہ میں لوگوں کے کردار کا تسلیم کرناہوگا۔ سرکاری شعبے ہوں یا غیرسرکاری،کرپشن کے خلاف سیٹی ماروں (Whistleblowers) کے تحفظ کے لئے قوانین کی منظوری اور نفاذ ناگزیرہے۔
پوری دنیا میں دوتہائی (67فیصد)افراد کویقین ہے کہ عام آدمی بھی کرپشن کے خلاف لڑائی میں اہم کردارادا کرسکتاہے۔ ان میں سے زیادہ تر نوجوان ہیں جن کی عمریں 18 سے 25سال ہیں جبکہ اس سے زائد عمر کے لوگوں میں امید کی کرن مدھم پائی گئی۔2010-11ء کے دوبرسوں میں یہ شرح 72فیصد تھی۔ دوسرے لفظوں میں دنیا بھر کے نوجوانوں میں کرپشن کے خلاف اپنے کردار کے حوالے سے امید کم ہوئی ہے۔بالخصوص برونڈی، ہنگری، عراق،لبنان، لکسمبرگ، مراکش، پاکستان اور یمن میں امید کی روشنی20فیصد کم ہوئی۔ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کا خیال ہے، وہ کرپشن کے خلاف لڑائی میں فرق ڈال سکتے ہیں، انھوں نے کبھی رشوت نہیں دی۔
دنیا میں66فیصد لوگ ایسے ہیں جن سے رشوت طلب کی گئی تو انھوں نے انکار کردیااور 69فیصد کا کہناتھا کہ وہ کرپشن کا کوئی واقعہ دیکھیں گے تو اس کی اطلاع متعلقہ حکام کو دیں گے۔آسٹریلیا، کینیڈا، چلی ، کمبوڈیا، ڈنمارک، فجی، جرمنی، اسرائیل، نیوزی لینڈ، ناروے، پاپوا نیوگنی، پیراگوئے، روانڈا، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور یوراگوئے میں90فیصد لوگوں نے عزم ظاہرکیا کہ وہ کرپشن کا واقعہ رپورٹ کریں گے۔ اگرچہ یہ ایک غیرمعمولی شرح ہے تاہم گزشتہ برسوںکی نسبت اب اس میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ یادرہے کہ دوبرس قبل اس ارادہ کے حاملین کی شرح 77فیصد تھی۔
جولوگ کرپشن کے خلاف جدوجہد کا عزم ظاہر کرتے ہیں، ان میں یہ سوچ سیاسی حالات کی وجہ سے پیدا ہوئی۔48ایسے ممالک ہیں جہاں آزادی اظہار ہے اور صاف شفاف انتخابات ہوتے ہیں وہاں 75فیصد لوگ کرپشن کو رپورٹ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس کے بجائے41 ممالک جہاں آزادیاں نسبتاً کم ہیں ، وہاں ایساعزم رکھنے والوں کی شرح68فیصد ہے جبکہ 18ممالک ایسی ہیں جہاں ایسی کوئی آزادی نہیں، وہاں بھی ایسا عزم رکھنے والوں کی شرح 59فیصد ہے۔
ایک تہائی لوگوں نے کہاکہ وہ کرپشن کا واقعہ رپورٹ نہیں کرائیں گے۔اس کے اسباب کیاہیں؟پوری دنیا میںایسے لوگوں کی شرح 45فیصد ہے ، ان کا کہناہے کہ واقعہ رپورٹ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد نہیں۔دنیا کے 73ممالک میں یہی کیفیت ہے۔ ان میں آرمینیا، ہنگری، جاپان، اردن، قزاقستان، کرغیزستان، لٹویا، مراکش، یوکرائن، ویت نام اور یمن شامل ہیں۔تاہم 32ممالک میں ایسا نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ خوف ہے۔ان ممالک میں ایتھوپیا، انڈونیشیا، لیبیا، سلواکیہ اور جنوبی سوڈان شامل ہیں۔ اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایساصاف اورموثر میکانزم بنایاجائے کہ لوگ کرپشن کے واقعات کو بآسانی رپورٹ کراسکیں۔
جائزے کے دوران یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ جو لوگ کرپشن کو بے نقاب کرتے ہیں، وہی رشوت دینے سے انکار کرتے ہیں اور ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ عموماً یہی لوگ کرپشن روکنے میں براہ راست کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ امر بھی باعث اطمینان ہے کہ دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد مختلف سرگرمیوں کے ذریعے کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 107ممالک میں ایسے لوگوں کی شرح 87فیصد ہے۔صرف آرمینیا ایسا ملک ہے جہاں کرپشن کے خلاف جدوجہد کاارادہ رکھنے والے 50فیصد سے بھی کم ہیں۔
دنیا میں51فیصد لوگ کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے والی کسی نہ کسی تنظیم میں شمولیت اختیارکرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ 54فیصد کاکہناتھا کہ وہ زیادہ قیمت دے کر اشیائے ضروریہ خریدیں گے لیکن کرپٹ کمپنی سے مال نہیں خریدیں گے۔ 56فیصد کا کہناہے کہ وہ کرپشن کے خلاف پرامن مظاہروں میں شرکت کریں گے۔56فیصد ہی کاکہناہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے کرپشن کے خلاف آواز بلند کریں گے۔72فیصد کاکہناہے کہ کرپشن کے خلاف پٹیشن پر دستخط کرکے اپناکردار اداکریں گے۔
کرپشن کے خلاف کامیابی کی ایک اور کہانی
جب زمبابوے کا رابرٹ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں منتخب ہوا تو وہ اس وقت صدمہ سے دوچارہوا ، جب اسے پتہ چلا کہ مقامی حکومت کا ادارہ سارے کا سارا ہی کرپٹ ہے۔ رابرٹ کے مطابق اس کے ساتھی کونسلرز ہاؤسنگ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر مختلف جائیدادیں خریدنے میں لگے ہوئے تھے اور وہ پھر اسے ان لوگوں کے ہاتھ مارکیٹ ریٹ سے 10گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرتے تھے جو بے گھر تھے اور اپنے لئے چھت کے متلاشی تھے۔جب رابرٹ یہ معاملہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی زمبابوے شاخ کے علم میں لایا تو اس تنظیم نے اس کی مدد کی اور اس نے شہر کے گورنر کو ایک خط لکھا۔
جواب میں گورنر نے نہ صرف الزامات کی تحقیقات شروع کرادیں بلکہ کونسلرز کے ساتھ ایک فوری اجلاس بھی طے کرلیا۔ اس پر شہر کے باسیوں کی اکثریت پرجوش اندازمیں گورنر کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے یہاں کے باسیوں کو بھی حوصلہ وہمت بخشی اور انھیں کونسلرز کے خلاف شکایات سامنے لانے کے لئے راضی کرلیا۔ان تحقیقات کے ہاؤسنگ پراجیکٹ پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے یا نہیں؟ اس حوالے سے فوری طورپر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے تاہم مقامی لوگ اب اچھے دنوں کے لئے زیادہ پرامید ہوچکے ہیں۔ ایک شخص جو گزشتہ تیس برسوں سے ہاؤسنگ پراجیکٹ کی فہرست میں شامل ہے کاکہناتھا کہ اب اسے امید ہے کہ وہ جلد اپنے گھر کا مالک ہوگاکیونکہ وہ اس سے پہلے اپنے اس خواب کی غیرمعمولی قیمت ادانہیں کرسکتاتھا۔فیصلوں میں عوام کی شرکت سے میرے لئے چھت فراہم ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
.....
پاکستان کس حال میں ہے؟
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سے شامل ہے جہاں لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے ہاں رشوت لینے ، دینے کا کلچر بڑھ رہاہے۔ تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ یہاں عورتوں کی نسبت مرد کہیں زیادہ رشوت دینے کے عادی ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں39.9 فیصد افراد کاکہناہے کہ وہ گزشتہ برس اپنے کام نکلوانے کے لئے رشوت دینے پر مجبور ہوئے۔ بنگلہ دیش، بولیویا، مصر، انڈونیشیا، اردن، قزاقستان، میکسیکو، نیپال، آئس لینڈ، جنوبی سوڈان، تائیوان، یوکرائن اور ویت نام بھی اسی کیٹیگری میں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ رشوت لینے والا ادارہ پولیس ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں گزشتہ برس کی نسبت امسال کرپشن کے خلاف امید کی روشنی20 فیصدکم ہوئی ہے۔ تاہم اس کے باوجود اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں 75فیصد افراد کرپشن کے خلاف جدوجہد میں کسی نہ کسی اندازمیں شرکت کرنے کو تیار ہیں۔ یہ جائزہ پاکستان کے مختلف علاقوں کے قریباً اڑھائی ہزار افراد سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کی روشنی میں مرتب کیاگیاہے۔
50سالہ خاتون کے ہاتھوں راشی پولیس کو شکست
وینزویلا میں پچاس سالہ خاتون کارمیلااپنے فلیٹ میں سورہی تھی کہ اچانک شورشرابے اور چیخ وپکار سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ ماردھاڑ کی آوازیں اوپر والے فلیٹ سے آرہی تھیں جہاں اس کا بیٹا رہائش پذیرتھا۔ وہ بھاگم بھاگ اوپر پہنچی، دیکھا کہ پولیس والے اس کے 27سالہ مکینک بیٹے کو کھینچ کر اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ماں چیختی رہی لیکن پولیس والے اسے مقامی پولیس ہیڈکوارٹر میں لے گئے۔ ماں پیچھے پیچھے وہاں پہنچی تو پولیس اہلکاروں نے صاف صاف رشوت کا مطالبہ کردیا۔
وینزویلن معاشرے میں ہرکوئی کارمیلا ہے اور ہرکوئی پولیس والوں کے ظلم واستحصال کا شکار۔ پولیس والے روزانہ کی بنیاد پر اسی اندازمیں اوپر کی کمائی وصول کرتے ہیں۔ آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس طرح وہ کتنا کمالیتے ہیں اور آپ کو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ اس معاشرے میں رہنے والے کس قدر خوف وہراس میں مبتلا ہیں۔ یہ پولیس والے معمولی رقم کا مطالبہ نہیں کرتے، بلکہ ہزاروں مانگتے ہیں۔ تاہم کارمیلا کے لئے ہزاروں ڈالرز کا انتظام کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس کے چاربچے تھے جن میں سے ایک کینسر میں مبتلا تھا۔
کارمیلا کی شکایت پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے وینزویلا کے اعلیٰ حکومتی عہدیداران اور پولیس حکام سے رابطہ کرکے کارروائی کا مطالبہ کیا۔ نتیجتاً جب خاتون رشوت کی رقم لے کر متعلقہ پولیس ہیڈکوارٹر پہنچی تو پولیس اہلکاروں کی نگرانی ہورہی تھی، جیسے ہی اس نے رقم اہلکاروں کے حوالے کی، فوراً رشوت لینے والوں کو گرفتار کرلیاگیا۔ اس کے بیٹے کو اسی وقت رہائی مل گئی۔ راشی پولیس اہلکاراس وقت جیل میں ہیں، ان کے خلاف انویسٹی گیشن کا سلسلہ وسیع کردیاگیاہے۔ اب ان پر مقدمہ چلے گا اور جلد ہی انھیں اپنے کئے کی سزامل جائے گی۔
کرپشن کے خلاف کرنے کے اصل کام
٭حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ شفافیت کے ساتھ اپنے معاملات کو سرانجام دیں اور اپنے ریکارڈ کو چھان بین کے لئے عام کریں۔
٭کوڈز آف کنڈکٹ میں بہتری لانا ہوگی اور تمام سرکاری ملازمین کو ان کا پابند بنانا ہوگا۔
٭حکومتوں کومعلومات تک مکمل رسائی کے قوانین کی منظوری اور نفاذ میں بھی شفافیت کو لازمی بنانا ہوگا۔
٭حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ سرکاری مالی انتظام کو کرپشن کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کے آرٹیکل نمبر9 کے مطابق بنائیں۔
٭ حکومتوں کو بہرصورت احتساب کا میکانزم اور چینلز بنانا ہوں گے ۔
٭لوگوں کو جب رشوت دینے کو کہاجائے تو انھیں بھی انکار کرنا چاہئے۔
٭ حکومت کو اصلاحات برائے انسداد بدعنوانی میں پولیس کے شعبے کو ترجیح میں رکھنا چاہئے۔ ایسا کرتے ہوئے مسائل کا تجزیہ ضرورکرلیناچاہئے۔
٭ حکومت کو عدلیہ کی آزادی اور غیرجانبداری کو یقینی بناناہوگا۔
٭ حکومت کو چیک اینڈ بیلنس کا ایسا نظام قائم کرنا چاہئے کہ کوئی گروہ اپنی طاقت اور مفادات کے سبب حکومتی پالیسیوں اور اقدامات پر اثرانداز نہ ہوسکے۔
٭تمام حکومتوں کو کرپٹ حکام کے خلاف کچھ نہ کرنے کا کلچر ختم کرناہوگا اور کرپشن سے بچائو، کرپشن کا پتہ چلانے ، تفتیش کرنے، مقدمات چلانے اور سزائیں دینے کے عمل کو یقینی بناناہوگا۔
٭ اگرمنتخب عوامی نمائندوں کی کرپشن پکڑی جائے تو انھیں استثنیٰ نہیں ملناچاہئے۔
٭ جب لوگ کرپشن کا سامنا کریں یا ایسا کوئی واقعہ ہوتے دیکھیں تو انھیں موجودہ رپورٹنگ میکانزم کو استعمال کرناچاہئے۔
٭لوگوں کو کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے، کرپٹ لوگوں کے خلاف ووٹ کا حق استعمال کرناچاہئے، انھیں کرپٹ لوگوں کوسزا دینے کے لئے استعمال میں لانا چاہئے، صرف صاف ستھرے
امیدواروں اور جماعتوں کو ہی ووٹ دینا چاہئے۔ اسی طرح لوگوں کو صرف ایسی کمپنیوں کا مال ہی خریدنا چاہئے کہ جوکرپشن کی غلاظت سے پاک کاروبار کرتی ہوں۔
٭ حکومت کو ایسے قوانین منظورکرناہوں گے جن کی مدد سے پارٹیوں کے مالی معاملات صاف وشفاف ہوسکیں۔ جماعتوں اور انتخابی امیدواروں کی کہاں کہاں سے چندہ وصول ہوتاہے، یہ سب کچھ عام لوگوں کے سامنے آنا چاہئے۔
٭پارلیمان کو بھی اپنے ارکان کے بارے میںکوڈآف کنڈکٹ تیارکرناچاہئے، انھیں آگاہ کرنا چاہئے کہ ذاتی اور ریاستی مفادات میں ٹکرائو پیدا ہورہاہو تو ان کی ذمہ داری کیابنتی ہے، ارکان کو اپنے اثاثے اور آمدن کو ظاہر کرنے کا پابند کرناچاہئے۔
٭ حکومتوں کو ایسے قوانین کی منظوری اور نفاذ کرنا ہوگا کہ جس کی مدد سے سیٹی ماروں(Whistleblowers) کو اجازت مل سکے کہ وہ سرکاری اور غیرسرکاری اداروں میں ہونے والی بدعنوانی پر آواز بلند کرسکیں اور ان کا تحفظ بھی ہو۔
٭ حکومت کو ایک موثر میکانزم کے ساتھ لوگوں کو کرپشن کے خلاف رپورٹ کرنے اور ان کی شکایت کا ازالہ کرنے کو یقینی بنائے۔
٭حکومت معاشرے میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کے قیام کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ وہ سرکاری معاملات پر نظر رکھ سکیں، لوگوں کی مدد کرسکیں اور سرکاری حکام کا احتساب کرسکیں۔