توشۂ خاص اُن کے لبوں پر ذکر ہمارا

اردو کے عشاق فقط اِس خطے میں نہیں بستے جناب۔ یہ تو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بہتوں کو گرویدہ بنا چکی ہے اردو۔

اردو فکشن نگار، شعرا اور کُتب سے متعلق گفت گو، اُن غیرملکی اہل علم سے، اردو جن کی زبان نہیں!! ۔ فوٹو : فائل

اردو، دنیا کی چوتھی بڑی بولی، ایک زرخیز زبان۔ برصغیر میں رابطے کا موثر ذریعہ۔ تاہم یہ دل کش زبان برصغیر تک محدود نہیں۔

اردو کے عشاق فقط اِس خطے میں نہیں بستے جناب۔ یہ تو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بہتوں کو گرویدہ بنا چکی ہے اردو۔ ماسکو کی سرد شاموں میں یہ اپنے جلوے دکھاتی ہے، استنبول میں مہکتی ہے، چین کے مصروف شاہ راہوں پر اُسے تلاش کیا جاسکتا ہے، امریکا اور برطانیہ کی جامعات میں اِس کے شعبے موجود ہیں۔

بلاشبہہ، دنیا کی دیگر زبانوں کے مانند اسے بھی مسائل درپیش ہیں۔ رسم الخط کا مستقبل آج زیربحث ہے، ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کا تقاضا اب زور پکڑنے لگا ہے، مطالعے کے گھٹتے رجحان کا گریہ بھی کیا جارہا ہے، مگر صورت حال کسی طور مایوس کن نہیں کہ اسے چاہنے والے، اس کا عَلم تھامے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور یوں اردو کی کہانی بھی محوسفر ہے۔

بیش تر محققین مکالموں، مذاکروں اور مجلسوں کو اردو کی ترقی میں کلید قرار دیتے ہیں۔ اور یہ درست بھی ہے کہ مختلف تہذیبی اور ثقافتی پس منظر کے حامل افراد کے میل ملاپ ہی نے اس کے ابتدائی خدوخال واضح کیے تھے۔ اسی خیال کے تحت گذشتہ دنوں ''ایکسپریس میڈیا گروپ'' کے تحت دوسری عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں پاک و ہند کے نام وَر ادیبوں، دانش وروں اور ماہر لسانیات کے ساتھ بین الاقوامی دنیا کے اُن اہل علم نے بھی شرکت کی، جن کی مادری زبان اردو نہیں۔

کانفرنس کے دوران اِن اہل دانش سے، جو حقیقی معنوں میں اردو سے عشق کرتے ہیں، اِس زبان میں تخلیق ہونے والے ادب سے متعلق گفت گو ہوئی۔ ان کے من پسند شعرا، پسندیدہ ادیبوں سے متعلق پوچھا گیا، اِس امید پر کہ ان کا نقطۂ نظر اردو ادب سے متعلق ہمارے فہم کو مزید وسعت عطا کرے گا۔n

''چین میں ہیں مقبول، اقبال، فیض اور احمد ندیم قاسمی!'' پروفیسر تھانگ منگ شنگ (چین)



اردو اور چینی زبان و ثقافت کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے والے، پروفیسر ڈاکٹر تھانگ منگ شنگ اقبال اور فیض کے مداح ہیں۔ بہ قول اُن کے، دونوں ہی شعرا چین میں بہت مقبول ہیں۔ جس فکشن نگار نے چینی قارئین سے مقبولیت کی سند حاصل کی، اُن کے مطابق وہ ہیں، احمدندیم قاسمی!

ڈاکٹر صاحب اِس وقت پیکنگ یونیورسٹی میں ''سینٹر فار پاکستان اسٹڈیز'' میں ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ پاکستانی ثقافت، ادب، سیاست، موسیقی اور مذہب پر ان کی کئی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں ''جنوبی ایشیا میں صوفی ازم اور تاریخ میں اس کا کردار'' اور ''پاکستانی رسم و رواج کا ایک مطالعہ'' نمایاں ہیں۔

وہ پاکستانی شاعری کو بین الاقوامی ادبی معیار کے انتہائی قریب پاتے ہیں، تاہم اِس امر کی بھی نشان دہی کرتے ہیں کہ دور جدید کے شعرا کے برعکس غالب اور اقبال کو سمجھنے کے لیے اُن کا ثقافتی اور تہذیبی پس منظر جاننا اور سمجھنا ضروری ہے، جس کے بغیر بات بنتی نہیں۔

اردو ادب کا بھی وہ چینی زبان میں ترجمہ کر چکے ہیں، جس میں ''خداکی بستی''،''پاکستان کی لوک کہانیاں'' اور ''ملا نصیرالدین کی کہانیاں'' نمایاں ہیں۔ ''خدا کی بستی'' پڑھ کر خود بھی بہت محظوظ ہوئے۔ شوکت صدیقی کی اس تخلیق کو وہ اردو ادب کا نمایندہ ناول قرار دیتے ہیں۔

پاکستان حالات پر ان کی گہری نظر ہے۔ اس ریاست سے متعلق ان کی تحریریں چینی جراید اور اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اُن کے مطابق ماضی میں اردو کتب بہ کثرت چین پہنچا کرتی تھیں، مگر اب اس سلسلے میں کمی آئی ہے، جس کا انھیں قلق ہے۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں،''دوستوں کے درمیان اس قسم کی رکاوٹیں نہیں ہونی چاہییں!''آج کل پاکستان اور چین کی معیشت ان کی تحقیق کا مرکز ہے۔ اس پر ایک کتاب بھی لکھی۔ مقصد چین کی ترقی کے ثمرات پاکستان تک پہنچانا ہے۔

غزل گائیکی سے لطف اندوز ہونے والے ڈاکٹر تھانگ منگ شنگ کے مطابق اردو پڑھنے والوں کے لیے چین میں ملامتوں کے زیادہ مواقع نہیں، ادبی سرگرمیاں کم ہی ہوتی ہیں، البتہ بہتری کے تعلق سے وہ پرامید ہے۔

ڈاکٹر تھانگ کو حکومت پاکستان کی جانب سے ''ستارۂ خدمت'' اور ''ستارۂ قائد اعظم'' سے نوازا جاچکا ہے۔

''کلاسیکی ادب، جسے بار بار پڑھنے کو جی چاہے!''ڈاکٹر تاش مرزا (ازبکستان)



ماسکو یونیورسٹی سے اردو میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر تاش مرزا کے لیے کسی ایک اردو فکشن نگار کا نام لینا ممکن نہیں۔ فہرست طویل ہے۔ کرشن چندر اور بیدی کا تذکرہ آتا ہے، احمد ندیم قاسمی اور قرۃ العین حیدر پر بات ہوتی ہے۔ ناولز میں بیدی کی تخلیق ''ایک چادر میلی سی'' اور ''آگ کا دریا'' انھیں اچھے لگے۔

چار عشروں پر محیط درس و تدریس کا تجربہ رکھنے والے تاش مرزا گذشتہ کئی برس سے انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹیل اسٹڈیز، تاشقند سے منسلک ہیں۔ وہ پاکستان میں ازبک سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن بھی رہے۔ آج کل پاکستانی اور بھارتی اردو کی یک ساں اور مختلف خصوصیات پر تحقیق کر رہے ہیں۔

فکشن نگاروں کے مانند ایک سے زاید شاعروں نے انھیں متاثر کیا۔ کلاسیکی شعرا میں میر اور غالب کے وہ مداح ہیں۔ نظیر اکبر آبادی نے، اُن کے بہ قول، برصغیر کی معاشرت کی بہت خوب صورتی سے منظر کشی کی ہے۔

من پسند کتابیں زیر بحث آئیں، تو دیوان غالب کا تذکرہ آیا۔ بہ قول ان کے،''کلاسیکی ادب کی خصوصیت ہے کہ اِسے بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ ہر بار غالب کو پڑھتے ہوئے نئے پہلو نکل آتے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ دیگر کلاسیکی شعرا کا بھی ہے۔''


جب سوال کیا گیا کہ غالب کی تفہیم تو اہل زبان کے لیے بھی مشکل ہے، تو کہنے لگے،''میں غالب کو مع شرح پڑھتا ہوں۔ غالب سے متعلق لکھی جانے والے کتب، غالب کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔''
تاش مرزا کے ازبکستان اور دیگر ممالک کے اخبارات و جراید میں مختلف موضوعات پر پچاس سے زاید مقالات شایع ہوچکے ہیں۔ کتابیں اس کے علاوہ ہیں۔

اُن کے مطابق ازبکستان میں اردو بولنے والا حلقہ بہت چھوٹا ہے۔ مہینے میں ایک بار سب مل بیٹھتے ہیں۔ اس محفل میں شعر پڑھے جاتے ہیں، گیت گائے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی میں بھی تقریبات ہوتی ہیں، مگر یہ سرگرمیاں بڑے پیمانے پر نہیں ہوتیں۔
ڈاکٹر تاش مرزا کو پاکستان کی جانب سے ''ستارۂ امتیاز '' اور ویت نام کے صدر کی جانب سے ''میڈل آف فرینڈ شپ'' سے نوازا جاچکا ہے۔

''نثریوسفی، جس میں شعر چھپا ہوتا ہے!'' چانگ شی شوان (چین)



اردو طبقے میں اپنے تخلص، انتخاب عالم سے معروف چانگ شی شوان اردو صحافت اور تدریس کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ یوں تو اردو کی کئی کتب اُنھیں پسند ہیں، مگر کلام فیض کے مداح ہیں۔ ''نسخہ ہائے وفا'' بہ کثرت مطالعہ میں رہتا ہے۔ فیض کی شاعری کا چینی میں ترجمہ بھی کرچکے ہیں۔ فیض کے علاوہ میر اور اقبال کو بھی انھوں نے جم کر پڑھا۔

صحافت اور اردو ادب میں گریجویشن کی ڈگری اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد سے ''ایڈوانسڈ اردو'' کی تعلیم حاصل کرنے والے چانگ شی شوان نے صحافتی سفر کا آغاز 67ء میں اردو مجلے ''چین باتصویر'' سے کیا۔ 2000 تک اس سے وابستہ رہے۔ اس عرصے میں کلیدی ذمے داریاں نبھائیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تدریس کی جانب آگئے، اور کمیونی کیشنز یونیورسٹی آف چائنا میں ذمے داریاں سنبھال لیں۔من پسند نثر نگار زیر بحث آئے، تو مشتاق احمد یوسفی کا تذکرہ آیا، جن کی کتب بہت شوق سے پڑھتے ہیں، اور اُن کی مزاح پیدا کرنے کی قابلیت کی دل کھول کر تعریف کرتے ہیں۔ کہتے ہیں،''اُن کی نثر میں شعر چھپا ہوتا ہے۔ اگر آپ شعری ذوق رکھتے ہیں، تو آپ کو بین السطور شعر مل جائے گا۔''

پروفیسر چانگ کا شاعری مجموعہ ''گلبانگِ وفا'' اکادمی ادبیات، پاکستان سے شایع ہوا۔ انھوں نے تراجم کے میدان میں بھی جم کرکام کیا۔ پاکستان کے فلمی گیتوں اور ملی نغموں کو چینی کے قالب میں ڈھالا۔ چینی طلبا کے لیے اردو کی نصابی کتب بھی لکھیں۔احمد ندیم قاسمی کے افسانے چانگ صاحب کو اچھے لگے۔ دیگر کلاسیکی فکشن نگاروں کو بھی سراہتے ہیں۔ افسانے اور شاعری میں در آنے والے جدیدیت اُنھیں پسند نہیں۔ ترقی پسند تحریک کے تحت تخلیق ہونے والا ادب بھاتا ہے، جو اُن کے مطابق زمانے کی حقیقی عکاسی کرتا ہے۔

اُن کے مطابق کسی زمانے میں اردو کی سارے زمانے میں دھوم تھی، مگر جدید ذرایع مواصلات اور سوشل میڈیا نے دنیا کو سمیٹ دیا، انگریزی دیگر زبانوں پر غالب آنے لگی، جس سے اردو پر انتہائی منفی اثر پڑا۔ کہتے ہیں،''برصغیر میں اب انگریزی تعلیم پر توجہ دی جارہی ہے۔ اردو کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک طوفان ہے، اردو کی شمع جس کا سامنا کررہی ہے۔ میں جب بھی کسی پاکستانی یا ہندوستانی دوست سے ملتا ہوں، تو فقط اردو بولتا ہوں، مگر اس خطے کے نوجوان زیادہ تر انگریزی بولتے ہیں۔ اردو بولنے کی وہ کم ہی زحمت کرتے ہیں، جو مجھے اچھا نہیں لگتا۔''

اردو کے لیے چانگ شی شوان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں حکومت پاکستان کی جانب سے ''تمغۂ پاکستان '' اور ''ستارۂ قائد اعظم '' سے نوازا جاچکا ہے۔ ساتھ ہی ''سلیم جعفری اردو ایوارڈ'' اور ''فخر اردو ایوارڈ'' بھی اُن کے حصے میں آئے۔

''اقبال، جسے پورا ترکی جانتا ہے!'' ڈاکٹر خلیل توقار (ترکی)



استنبول یونیورسٹی کے شعبۂ اردو زبان و ادب میں سینیر پروفیسر کے منصب پر فائز ڈاکٹر خلیل توقار میر اور غالب کے مداح ہیں۔ غالب کا دیوان مطالعے میں رہتا ہے۔ اقبال بھی بہت بھایا۔ کلام اقبال کا ترجمہ بھی کیا۔ واضح رہے کہ وہ خود بھی بہت اچھے شاعر ہیں۔ ان کی نظمیں کے مجموعے ''ایک قطرہ آنسو'' اور ''آخری فریاد'' کے زیرعنوان شایع ہوئے۔

انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، استنبول یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر خلیل توقار کو اپنے تحقیقی سفر میں غالب، ہندوستان میں اردو اور فارسی شاعری اور بہادر شاہ ظفر دور کے شعرا جیسے اہم موضوعات پر کام کرنے کا انھیں موقع ملا۔

ڈاکٹر خلیل کو فکشن نگاروں میں کرشن چندر اور انتظار حسین بہت پسند ہیں۔ عطاالحق قاسمی اور مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں سے بھی بہت محظوظ ہوئے۔

ترجمے کے میدان میں اُنھوں نے خاصا کام کیا۔ مولانا روم کی مثنوی کے منتخب حصوں، علامہ اقبال کے خطوط کے علاوہ پاک وہند کی منتخب نظموں کو بھی ترکی زبان کے قالب میں ڈھالا ہے۔

اردو سے ترکی میں ڈھالے جانے والے ادب پر ترکوں کا ردعمل زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،''وہاں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ترکی میں جس شخص کو سب جانتے ہیں، وہ ہے اقبال۔ وقفے وقفے سے ان کے کلام کا ترجمہ ہوتا رہتا ہے۔ عام طور سے فارسی کلام کا ترجمہ ہوتا ہے، اردو جاننے والے کم ہیں، اس لیے اس ضمن میں کم کام سامنے آتا ہے۔ ''

ڈاکٹر صاحب کے مطابق ترکی میں مقیم وہ طبقہ، جو اردو بولتا ہے، دھیرے دھیرے اس زبان سے دور ہورہا ہے۔ اس طبقے کی نئی نسل اردو سے ناواقف ہے۔ ادبی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ''تقریبات منعقد ہوتی تو ہیں، مگر ان کا حلقہ محدود ہوتا ہے۔ البتہ ترکوں میں پاکستانیوں کے لیے بے حد محبت ہے۔''

ڈاکٹر صاحب کی تصانیف میں ترکی اور ترک (اردو ادب اور برصغیر کے ماخذ میں)، خیر پور سے پشاور تک (سفرنامہ)، پیارا ملک ہے پاکستان (سفر نامہ)، جہانِ اسلام (تلخیص)، جدید اردو شاعری (ابتدا سے آج تک)، اقبال اور ترک (ایک تحقیقی جائزہ)، اور کشمیر فائل نمایاں ہیں۔

ڈاکٹر خلیل کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں علامہ اقبال ایوارڈ، فخرِ اردو ایوارڈ کے علاوہ لاس اینجلس کے محکمہ برائے کاؤنٹی شیرف کی جانب سے ''سرٹیفیکٹ آف ریکگنیشن'' سے نوازا جاچکا ہے۔
Load Next Story