جدہ مکہ اور مدینہ کا روحانی سفر

محاصرہ طویل ہوتا جا رہا تھا لیکن فریقین میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔

جنگ بدر : بدرکا مقام مدینہ سے 150کلو میٹر اور مکہ سے 300 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس جگہ کی اسلامی تاریخ میں نہایت نمایاں حیثیت ہے۔ ہجرت کے دوسال بعد 13 مارچ 624 عیسوی بروز منگل کو یہاں کفار اور اسلام کی پہلی لڑائی لڑی گئی۔

اس سے پہلے 623 عیسوی کے آخر اور 624 کے شروع میں مسلمانوں اور مکہ والوں کے درمیان چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔ تاہم دونوں حریفوں کے درمیان پہلا بڑا معرکہ بدرکے مقام پر پیش آیا۔ ہجرت کے دوسرے برس ماہ رمضان کے شروع میں ابوسفیان ایک بڑے تجارتی قافلے کو لے کر شام سے مکہ آرہا تھا، قافلے کے ساتھ پچاس تیر اندازوں پر مشتمل محافظ دستہ بھی تھا۔ یہ صورتحال نبیؐ کو مدینہ کے لیے ایک خطرہ محسوس ہوئی آپؐ نے دفاعی حکمت عملی ترتیب دے کر اس خطرے سے نمٹنے کی تیاری شروع کردی۔

مکہ والوں کو اس تیاری کی اطلاع ملی تو انھوں نے ابوسفیان کی مدد کے بہانے مدینہ پر حملے کا ارادہ کر لیا۔ ابوجہل کی قیادت میں ایک ہزارکا لشکر مدینہ کی طرف پیش قدمی کرنے لگا، ان حالات کا علم جب رسول اللہؐ کو ہوا تو آپؐ بھی 313 مجاہدین کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ان مجاہدین میں حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عماد یاسرؓ اور حضرت ابو ذر غفاریؓ شامل تھے۔ حضرت عثمانؓؓ اپنی اہلیہ کی بیماری کی وجہ سے تیمار داری میں مدینہ کے لیے رکے رہے وہ اس جنگ میں شریک نہ تھے۔

حضرت سلمان فارسیؓ بھی جنگ میں شریک نہ تھے کیونکہ اب تک وہ غلام تھے۔ مسلمانوں کی مختصر فوج کے پاس 70 اونٹ اور دوگھوڑے تھے جنگی سامان اور ہتھیار بھی اس قدر نہ تھے۔ جب کہ کفارکی فوج کے ہمراہ اس سے کئی گناہ جانور اور ہر قسم کا جنگی سازوسامان کثرت سے تھا۔ ابو سفیانؓ ایک غیر معروف راستہ سے گزرکر مکہ پہنچ گیا اور دوسری طرف یہ دونوں لشکر بدر کے مقام پر ایک دوسرے کے مد مقابل آگئے۔

مسلمانوں کی فوج نے اپنے خیمے بدرکی پہاڑی پر نصب کیے جب کہ مکہ والوں کا پڑاؤ پشت میں واقع وسیع میدان میں تھا۔ رات کے وقت نبی پاکؐ کے حکم سے پہاڑی پر جا بجا الاؤ روشن کیے گئے۔ عام طور پر پانچ آدمیوں کے لیے ایک الاؤ روشن کیا جاتا تھا لیکن اس موقع پر نبی پاکؐ نے ایک زبردست جنگی حکمت عملی سے کام لیا۔ آپؐ نے ہر آدمی کو الگ الاؤ روشن کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح دشمن پر اصل سے پانچ گنا بڑی فوج کی دھاک بیٹھ گئی یہ اپنی طرزکی منفرد حکمت عملی تھی۔ دشمن کی فوج خوفزدہ ہوگئی۔

اس نے پسپائی اختیارکی سہ پہر سے پہلے جنگ ختم ہوچکی تھی مسلمانوں کی مٹھی بھر فوج نے معرکہ مار لیا تھا۔ اس جنگ میں چودہ مجاہدین شہید ہوئے اور 72 کفار مارے گئے۔ مسلمانوں نے 70 کفارکو جنگی قیدی بھی بنا لیا۔ جنگ بدر میں کامیابی رسول اللہؐ کی کفار کے خلاف جدوجہد میں ایک تاریخی موڑ ثابت ہوئی۔ مکہ والوں کے علاوہ اردگرد کے دیگر قبائل جو اب تک اسلام کو محیط ایک قوت اور مسلمانوں کو مخصوص مذہبی عقائد رکھنے والے افراد کا مختصر گروہ سمجھتے تھے۔ اس جنگ سے ایک ٹھوس اورحقیقی قوت کے طور پر قبول کرنے لگے۔

جنگ احد: بدرکی شکست قریش کے لیے شرمناک تھی وہ مسلمانوں سے اس کا بدلہ لینے کے لیے بے چین تھے لیکن وہ اپنی پوری تیاری کرکے پھر مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ ٹھیک ایک سال بعد 11 مارچ 625عیسوی کو قریش 3000 کی فوج لے کر مکہ سے مدینہ پر چڑھائی کے لیے روانہ ہوئے۔ جب نبی پاکؐ کو قریش کی اطلاع ملی تو آپؐ نے بھی اپنی تیاری کرکے اور جنگی حکمت عملی طے کرلی آپ ایک ہزار مسلمانوں کی فوج لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے۔ دونوں فوجیں کوہ احد کے سامنے واقع وادی میں مدمقابل آئیں۔

23 مارچ 626عیسوی بروز ہفتہ کو اسلام کی دوسری بڑی جنگ، جنگ احد لڑی گئی۔ خزرج قبیلہ کا سردار عبداللہ ابن ربی اپنے 300 ساتھیوں کو لے کر الگ ہو گیا اور نبی پاکؐ کا ساتھ چھوڑ کر مدینہ واپس چلا گیا۔ اب مسلمانوں کی فوج کی تعداد سات سو رہ گئی جوکہ کوہ احد کی پہاڑی ڈھلوانوں پر تعینات تھیں۔


تعداد میں بہت کم ہونے کے باوجود مسلمانوں نے پیش قدمی کی اور دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا دشمن کے پاؤں اکھڑگئے بنی قریش حوصلہ ہارگئے۔ ساری مکی فوج تتر بتر ہوگئی مسلمان میدان مار چکے تھے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ فتح صرف ایک قدم کے فاصلے پر تھی جب کچھ مسلمان سپاہیوں سے ایک بڑی غلطی سرزد ہوئی اس پہاڑی درہ پر متعین تیر انداز جنھیں رسول اللہؐ نے کسی صورت میں اس جگہ کو نہ چھوڑنے کا حکم دیا تھا لیکن وہ اس ہدایت کو بھول کر مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔ درہ خالی پاکر مکی فوج کے ایک دستے کو جس کی قیادت خالد بن ولید کے پاس تھی اس کو مسلمان فوج پر حملہ کرنے کا اچھا موقع مل گیا۔ اچانک حملے سے مسلمان سپاہیوں میں افراتفری پھیل گئی۔

قریش کے بکھرے ہوئے سپاہی بھی واپس آکر جنگ میں شریک ہوگئے۔ بہت سے مسلمان سپاہی شہید ہوگئے۔ جن میں نبی پاکؐ کے چچا حضرت حمزہؓ بھی شامل تھے، نبی پاکؐ خود بھی زخمی ہوئے اس کے باوجود مسلمانوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا بہت سی جگہ دوبدو لڑائی ہوئی۔ مکی فوج کے سپاہی احد کی دشوار گزار ڈھلوانوں پر مسلمانوں کے ساتھ صحیح مقابلہ نہ کرسکے اور لڑائی بند ہوگئی۔

اگرچہ مسلمان یہ جنگ ہار گئے تھے لیکن قریش بھی مکمل طور پرکامیاب نہ ہوسکے تھے۔ ان کی حیثیت محض وقتی اور محدود جیت تھی ان کا اصل ہدف مسلمانوں کے مرکز مدینہ کو تباہ کرنا اور نبی پاکؐ کو ان کے ساتھیوں سمیت مکمل طور پر شکست دینا تھا۔ بلاشبہ وہ اپنے ان عزائم میں ناکام رہے انھوں نے پسپائی اختیار کی دوسری طرف اس جنگ کے نتائج سے مسلمانوں اور ان کے مقاصد کو جھٹکا لگا۔ نبی پاکؐ اور ان کے ساتھیوں نے جنگ کے روز احد کی پہاڑی پر واقع ایک غارکے نیچے اس مقام پر جہاں پہاڑ شروع ہوتا ہے وہاں نماز ادا کی تھی آج اس جگہ پر ایک مسجد واقع ہے۔ اگرچہ مسجد کی عمارت زمانہ کا شکار ہوچکی ہے لیکن دیواروں اور محرابوں کے آثار باقی ہیں۔

جنگ خندق: غزوہ بدر اور احد کے تجربات سے مسلمان ٹھوس اور عملی فوجی تربیت حاصل کرچکے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی عسکری قوت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ جنوری 627 عیسوی دس ہزارکا لشکر ابو سفیان کی قیادت میں مدینہ پر حملہ آور ہونے کے ارادے سے روانہ ہوا۔ قرآن پاک نے اس جنگ کو اسلام کے خلاف کفر اور یہودیوں کا اتحاد قرار دیا ہے۔

اس دس ہزار لشکر کے مقابلے میں مسلمان فوج صرف 3000 سپاہیوں پر مشتمل تھی اور اس میں مدینہ کے پندرہ سال سے زیادہ عمرکی تمام آبادی شامل تھی۔ جنگ کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے نبی پاکؐ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز کو حضور نے پسند فرمایا۔ حضرت سلمان فارسیؓ کا تعلق ایران سے تھا جو اس زمانے میں فارس کہلاتا تھا۔ انھوں نے مدینہ کے شمال میں ایک خوب چوڑی اورگہری خندق کھودنے کی صلاح دی تھی جو فارس (ایران) کے لوگوں کی قدیم تکنیک تھی۔

جب کہ بقیہ تین اطراف سے مدینہ پتھریلے پہاڑوں اور کھجور کے باغات سے گھرا ہوا تھا۔ چھ روز تک مدینہ کا ہر فرد خندق کھودنے میں مصروف رہا۔ بالآخر شہر کے دفاع کے لیے ساڑھے پانچ کلو میٹر لمبی ساڑھے چار میٹرگہری اور نو میٹر چوڑی خندق تیار ہوگئی۔ آج کل یہ خندق موجود نہیں لیکن اس جگہ کی نشاندہی مختلف نشانات سے کی گئی ہے جہاں کبھی یہ خندق کھودی گئی تھی۔یہ ایک کامیاب حربہ ثابت ہوا۔ اس سے پہلے عربوں نے کبھی بھی جنگ کے موقع پر بلکہ شاید کسی اور موقع پر کبھی خندق نہ کھودی تھی۔

اس کا رواج ہی نہ تھا۔ یہودیوں اور قریش کے گمان میں بھی نہ تھا کہ مسلمان اس طرح ان کو مدینہ کے باہر محصورکر دیں گے۔ اتحادیوں کی فوجی قیادت پیچ وتاب کھا کر رہ گئی۔ وہ مدینہ کا گھیراؤ کیے ہوئے تھے لیکن مدینہ والے محفوظ تھے۔ محاصرہ چار ہفتے تک جاری رہا لیکن حملہ آور شہر میں داخل نہ ہوسکے۔

محاصرہ طویل ہوتا جا رہا تھا لیکن فریقین میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔ طویل محاصرے نے کافی مشکلات پیدا کردی تھیں ، خوراک کے ذخائر ختم ہونے کو تھے اور سردی بڑھ رہی تھی۔ خاص طور پر رات کے وقت سردی کی شدت میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا تھا۔ مسلسل شب بیداری میں مجاہدین چوکس رہے خندق کا پہرہ دیتے رہے مجاہدین کے اعصاب دباؤ کا شکار تھے۔ دوسری طرف اتحادیوں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا۔ محاصرے کی ستائیسویں شب تھی جب سخت چڑچڑاہٹ اور گومگو کی کیفیت میں اتحادی قبائل نے پسپائی کا فیصلہ کیا۔

(جاری ہے۔)
Load Next Story