تعصب پر تقسیم کیوں
حقائق کو مدنظر رکھ کر یہ مسئلہ حل کرایا جا سکتا ہے اور چاروں صوبوں کے عوام کو سہولیات میسر آ سکتی ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے قومی اسمبلی میں صوبوں کی تعداد بڑھانے کی قرار داد کے بعد وفاقی حکومت کے حلیف اہم بلوچ رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل نے تونسہ شریف میں یہ مطالبہ کرکے ملک میں تعصب بڑھا دیا ہے کہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو بلوچستان میں شامل کیا جائے کیونکہ یہ دونوں اضلاع ماضی میں بلوچستان کا حصہ تھے اور پنجاب میں ہونے کے باوجود دونوں اضلاع پس ماندہ ہیں۔ انھوں نے اس پسماندگی کی ایک مثال بھی دی کہ پنجاب کے ایک شہر میں 23 یونیورسٹیاں ہیں جب کہ راجن پور میں ایک بھی یونیورسٹی نہیں بنائی گئی۔
اختر مینگل یہ بھی جانتے ہیں کہ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان ملک کا سب سے بڑا مگر آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے جس کی سرحدیں ایران و افغانستان کے علاوہ اندرون ملک سندھ، پنجاب، کے پی کے اور ملک کے سب سے بڑے ساحلی شہر کراچی سے بھی ملتی ہیں اور حب ایک بڑا صنعتی شہر ہے جس کی وجہ سے کراچی کو ملکی معیشت کا ہب بھی کہا جاتا ہے۔
اختر مینگل خود ہی نہیں بلکہ ان کے والد سردار عطا اللہ مینگل بھی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے اور دونوں کی حکومتوں کو قبل از وقت ختم کیا گیا۔ سردار اختر مینگل اگر پسماندگی اور ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے ماضی میں بلوچستان کا حصہ رہنے کی بنیاد پر دونوں اضلاع کی دوبارہ شمولیت کے لیے یہ مطالبہ کر رہے ہیں تو بلوچستان کی پسماندگی کی ذمے داری عطا اللہ مینگل، اختر مینگل اور بلوچستان کے ان تمام بلوچ وزرائے اعلیٰ پر بھی عائد ہوتی ہے جو اقتدار میں رہے مگر انھوں نے بلوچستان کی پسماندگی ختم کرانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
انھیں اقتدار میں رہتے ہوئے وہ خامیاں نظر نہیں آئیں اور بعد میں انھوں نے جو شکایات کیں ان کا ذکر انھوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے کبھی نہیں کیا یا بہت کم کیا کیونکہ انھیں اس وقت بلوچستان کی پسماندگی سے زیادہ اپنے اقتدار کے برقرار رہنے اور سیاسی و مالی مفادات کے حصول کی فکر زیادہ رہی اور انھوں نے اپنے اقتدار میں بلوچستان کے لیے کبھی موثر آواز بلند کی اور نہ ہی کبھی بلوچستان کے کسی بھی سابق وزیر اعلیٰ نے بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں پر استعفیٰ دیا۔
بلوچستان بلاشبہ ملک کا سب سے زیادہ پسماندہ، غربت کا شکار، سہولتوں سے محروم مگر معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے۔ بلوچستان کے معدنی وسائل وفاقی حکومتوں نے کراچی سے حاصل ہونے والی آمدنی کی طرح استعمال کیے اور بلوچستان اور کراچی کو وہ ترجیح اور ترقی نہیں دی جو ان کا حق تھا۔ کراچی سے حکومت کو ملکی آمدنی کا ساٹھ فیصد سے زائد ملتا ہے اور بلوچستان کے معدنی وسائل سے بلوچستان سے زیادہ وفاقی حکومت اور باقی صوبے مستفید ہو رہے ہیں۔
بلوچستان کے ساتھ فوجی اور سویلین حکومتوں میں زیادتیاں اور ناانصافیاں ہوئیں مگر ان پر بلوچستان سے کبھی کوئی موثر آواز نہیں اٹھی۔ بلوچستان میں ترقی حکمرانوں، سرداروں، ارکان اسمبلی، بیورو کریسی اور بااثر افراد نے ہی حاصل کی اور سرکاری فنڈز بیدردی سے لوٹے گئے۔ صوبے کو اربوں روپے کے فنڈز ملے مگر تعمیراتی کام لاکھوں روپے کے ہوئے اور سب نے مل کر رقم خرد برد کر لی جس کے نتیجے میں صوبہ ترقی تو کیا کرتا الٹا پسماندگی اور غربت کی طرف جاتا رہا مگر کسی کو فکر نہ ہوئی۔
ملک کے صوبوں میں بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں پسماندگی زیادہ مگر مخلوط حکومتیں اور ان حکومتوں میں وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصی کی تعداد سب سے زیادہ رہی اور مالی وسائل عوام سے زیادہ حکومتوں میں شامل رہنے والوں کی تنخواہوں اور سرکاری مراعات پر خرچ ہوئے۔ ایک ایسی حکومت بھی تھی جس میں صرف ایک رکن اپوزیشن میں تھا اور باقی تمام ارکان مختلف حیثیتوں میں حکومتوں میں شامل رہ کر مفادات اٹھاتے رہے۔ بلوچستان میں کبھی کسی ایک قومی سیاسی پارٹی کی حکومت نہیں رہی اور صوبے میں با اثر علاقائی قوم پرستوں کی مخلوط حکومتیں قائم ہوئیں جن کے پیش نظر اپنا اقتدار برقرار رکھ کر مفادات کا حصول زیادہ رہا۔
بلوچستان بھی سندھ کی طرح دو لسانی صوبہ ہے جہاں بعض علاقوں پر بلوچ بیلٹ اور بعض پر پٹھان بیلٹ ہے اور دونوں قوموں کی اپنی اپنی قوم پرست علاقائی اور اپنی اپنی قومیت پر مشتمل موثر پارٹیاں ہیں۔ کوئٹہ پختون آبادی کی اکثریت پر مشتمل صوبے کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں کاروبار پر پٹھانوں کا ہولڈ ہے جب کہ گوادر، اورماڑہ اور دیگر ساحلی علاقے بلوچ بیلٹ شمار ہوتے ہیں اور صوبے کا واحد صنعتی شہر بلوچ ضلع لسبیلہ میں ہے جہاں کا جام خاندان با اثر اور حکومتوں میں رہا ہے۔
موجودہ وزیر اعلیٰ جام کمال ان کے والد جام یوسف اور جام غلام قادر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور وفاقی حکومتوں میں رہے مگر ان سمیت بلوچ بیلٹ سے تعلق رکھنے والے کسی وزیر اعلیٰ نے صوبے کے لیے تو کیا اپنے بلوچ بیلٹ کی تعمیر و ترقی پر بھی توجہ نہ دی جس کی وجہ سے پورا صوبہ ہی اس ترقی سے محروم رہا جو اس کا حق تھا۔ سندھ کی قوم پرست پارٹیاں الیکشن میں ہارتیں مگر صوبہ بلوچستان کی قوم پرست پارٹیاں ہمیشہ کامیاب ہوتی رہیں اور حکومتوں کا حصہ رہیں مگر انھوں نے اپنے علاقوں کی تعمیر و ترقی کو نظرانداز کیا۔
بلوچستان میں پٹھانوں یا بلوچوں کو نظرانداز کرنے اور ناانصافیوں کی شکایات سندھ کی طرح نہیں رہیں جہاں ہمیشہ دیہی سندھ کا وزیر اعلیٰ رہا اور ہر ایک نے کراچی و حیدرآباد کو نظرانداز کیا کیونکہ پچاس سال سے سیاست کرنے والی پیپلز پارٹی کو ہمیشہ اندرون سندھ کی پارٹی کہا گیا اور انھیں دیہی سندھ سے ہی ہمیشہ کامیابی ملی اور پی پی نے اپنے ہر دور میں دیہی سندھ کو نوازا اور شہری علاقوں کو نظرانداز کیا۔ کراچی اور حیدرآباد میں پی پی کو کامیابی بھی نہیں ملی اور ان زیادتیوں اور ناانصافیوں کی وجہ سے ایم کیو ایم وجود میں آئی تھی جو کراچی سمیت شہری علاقوں پر مشتمل صوبہ مانگتی ہے جس پر سندھ کی ہر جماعت مشتعل ہوتی ہے اور سب بلاامتیاز سندھ کو توڑنے کے سخت مخالف ہیں۔
پیپلز پارٹی سندھ کی تقسیم کی سخت مخالف مگر پنجاب کی تقسیم کی حامی ہے کیونکہ جنوبی پنجاب میں شمالی پنجاب کے برعکس پی پی کا ووٹ بینک زیادہ ہے۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے مگر بعض مجبوریوں کے باعث وہ بھی پنجاب کی تقسیم کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور کرا چکی ہے مگر پی ٹی آئی صرف سیاست چمکاتی رہی ہے۔
ملک کی آبادی بڑھنے اور صوبائی دارالحکومت واقعی دور دور ہیں جس کی وجہ سے عوام تک وہاں آنے جانے میں واقعی مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے کام دنوں کی بجائے مہینوں میں بھی نہیں ہوتے جو عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرکے انتظامی طور پر صوبے بنانے کی بجائے لسانی بنیاد پر سرائیکی ، ہزارہ اور شہری علاقوں کے صوبوں کے مطالبات کیے جاتے ہیں۔ تعصب کی بجائے عوام کی سہولتیں اور اخراجات پر کوئی بھی توجہ نہیں دیتا اور اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لیے صوبوں کی تقسیم کے مطالبے ہو رہے ہیں۔ ملک کی موجودہ صورتحال، دور درازکے صرف چار صوبائی دارالحکومتوں اور چاروں صوبوں کی آبادی بہت زیادہ ہو جانے کی وجہ سے ملک میں لسانی بنیاد کی بجائے عوامی سہولیات کے لیے نئے صوبوں کی واقعی ضرورت ہے۔
نئے صوبوں کی بجائے انتظامی بنیاد پر نئے انتظامی یونٹوں کے قیام کا مطالبہ غیر آئینی ہے نہ لوح قرآنی کہ صوبوں کی انتظامی تقسیم نہ کی جا سکے۔ جنرل ضیا الحق اپنے دور میں ڈویژنوں کو صوبے بنانے اور 16 انتظامی ڈویژن بنانے کے خواہاں تھے مگر انھیں قدرت نے مہلت نہ دی ورنہ یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ صوبوں کے موجودہ نام برقرار رکھ کر بھی جنوبی پنجاب کی طرح صوبوں کے پرانے ناموں سے تعصب کی بجائے حقائق کو مدنظر رکھ کر یہ مسئلہ حل کرایا جا سکتا ہے اور چاروں صوبوں کے عوام کو سہولیات میسر آ سکتی ہیں۔
اختر مینگل یہ بھی جانتے ہیں کہ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان ملک کا سب سے بڑا مگر آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے جس کی سرحدیں ایران و افغانستان کے علاوہ اندرون ملک سندھ، پنجاب، کے پی کے اور ملک کے سب سے بڑے ساحلی شہر کراچی سے بھی ملتی ہیں اور حب ایک بڑا صنعتی شہر ہے جس کی وجہ سے کراچی کو ملکی معیشت کا ہب بھی کہا جاتا ہے۔
اختر مینگل خود ہی نہیں بلکہ ان کے والد سردار عطا اللہ مینگل بھی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے اور دونوں کی حکومتوں کو قبل از وقت ختم کیا گیا۔ سردار اختر مینگل اگر پسماندگی اور ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے ماضی میں بلوچستان کا حصہ رہنے کی بنیاد پر دونوں اضلاع کی دوبارہ شمولیت کے لیے یہ مطالبہ کر رہے ہیں تو بلوچستان کی پسماندگی کی ذمے داری عطا اللہ مینگل، اختر مینگل اور بلوچستان کے ان تمام بلوچ وزرائے اعلیٰ پر بھی عائد ہوتی ہے جو اقتدار میں رہے مگر انھوں نے بلوچستان کی پسماندگی ختم کرانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
انھیں اقتدار میں رہتے ہوئے وہ خامیاں نظر نہیں آئیں اور بعد میں انھوں نے جو شکایات کیں ان کا ذکر انھوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے کبھی نہیں کیا یا بہت کم کیا کیونکہ انھیں اس وقت بلوچستان کی پسماندگی سے زیادہ اپنے اقتدار کے برقرار رہنے اور سیاسی و مالی مفادات کے حصول کی فکر زیادہ رہی اور انھوں نے اپنے اقتدار میں بلوچستان کے لیے کبھی موثر آواز بلند کی اور نہ ہی کبھی بلوچستان کے کسی بھی سابق وزیر اعلیٰ نے بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں پر استعفیٰ دیا۔
بلوچستان بلاشبہ ملک کا سب سے زیادہ پسماندہ، غربت کا شکار، سہولتوں سے محروم مگر معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے۔ بلوچستان کے معدنی وسائل وفاقی حکومتوں نے کراچی سے حاصل ہونے والی آمدنی کی طرح استعمال کیے اور بلوچستان اور کراچی کو وہ ترجیح اور ترقی نہیں دی جو ان کا حق تھا۔ کراچی سے حکومت کو ملکی آمدنی کا ساٹھ فیصد سے زائد ملتا ہے اور بلوچستان کے معدنی وسائل سے بلوچستان سے زیادہ وفاقی حکومت اور باقی صوبے مستفید ہو رہے ہیں۔
بلوچستان کے ساتھ فوجی اور سویلین حکومتوں میں زیادتیاں اور ناانصافیاں ہوئیں مگر ان پر بلوچستان سے کبھی کوئی موثر آواز نہیں اٹھی۔ بلوچستان میں ترقی حکمرانوں، سرداروں، ارکان اسمبلی، بیورو کریسی اور بااثر افراد نے ہی حاصل کی اور سرکاری فنڈز بیدردی سے لوٹے گئے۔ صوبے کو اربوں روپے کے فنڈز ملے مگر تعمیراتی کام لاکھوں روپے کے ہوئے اور سب نے مل کر رقم خرد برد کر لی جس کے نتیجے میں صوبہ ترقی تو کیا کرتا الٹا پسماندگی اور غربت کی طرف جاتا رہا مگر کسی کو فکر نہ ہوئی۔
ملک کے صوبوں میں بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں پسماندگی زیادہ مگر مخلوط حکومتیں اور ان حکومتوں میں وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصی کی تعداد سب سے زیادہ رہی اور مالی وسائل عوام سے زیادہ حکومتوں میں شامل رہنے والوں کی تنخواہوں اور سرکاری مراعات پر خرچ ہوئے۔ ایک ایسی حکومت بھی تھی جس میں صرف ایک رکن اپوزیشن میں تھا اور باقی تمام ارکان مختلف حیثیتوں میں حکومتوں میں شامل رہ کر مفادات اٹھاتے رہے۔ بلوچستان میں کبھی کسی ایک قومی سیاسی پارٹی کی حکومت نہیں رہی اور صوبے میں با اثر علاقائی قوم پرستوں کی مخلوط حکومتیں قائم ہوئیں جن کے پیش نظر اپنا اقتدار برقرار رکھ کر مفادات کا حصول زیادہ رہا۔
بلوچستان بھی سندھ کی طرح دو لسانی صوبہ ہے جہاں بعض علاقوں پر بلوچ بیلٹ اور بعض پر پٹھان بیلٹ ہے اور دونوں قوموں کی اپنی اپنی قوم پرست علاقائی اور اپنی اپنی قومیت پر مشتمل موثر پارٹیاں ہیں۔ کوئٹہ پختون آبادی کی اکثریت پر مشتمل صوبے کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں کاروبار پر پٹھانوں کا ہولڈ ہے جب کہ گوادر، اورماڑہ اور دیگر ساحلی علاقے بلوچ بیلٹ شمار ہوتے ہیں اور صوبے کا واحد صنعتی شہر بلوچ ضلع لسبیلہ میں ہے جہاں کا جام خاندان با اثر اور حکومتوں میں رہا ہے۔
موجودہ وزیر اعلیٰ جام کمال ان کے والد جام یوسف اور جام غلام قادر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور وفاقی حکومتوں میں رہے مگر ان سمیت بلوچ بیلٹ سے تعلق رکھنے والے کسی وزیر اعلیٰ نے صوبے کے لیے تو کیا اپنے بلوچ بیلٹ کی تعمیر و ترقی پر بھی توجہ نہ دی جس کی وجہ سے پورا صوبہ ہی اس ترقی سے محروم رہا جو اس کا حق تھا۔ سندھ کی قوم پرست پارٹیاں الیکشن میں ہارتیں مگر صوبہ بلوچستان کی قوم پرست پارٹیاں ہمیشہ کامیاب ہوتی رہیں اور حکومتوں کا حصہ رہیں مگر انھوں نے اپنے علاقوں کی تعمیر و ترقی کو نظرانداز کیا۔
بلوچستان میں پٹھانوں یا بلوچوں کو نظرانداز کرنے اور ناانصافیوں کی شکایات سندھ کی طرح نہیں رہیں جہاں ہمیشہ دیہی سندھ کا وزیر اعلیٰ رہا اور ہر ایک نے کراچی و حیدرآباد کو نظرانداز کیا کیونکہ پچاس سال سے سیاست کرنے والی پیپلز پارٹی کو ہمیشہ اندرون سندھ کی پارٹی کہا گیا اور انھیں دیہی سندھ سے ہی ہمیشہ کامیابی ملی اور پی پی نے اپنے ہر دور میں دیہی سندھ کو نوازا اور شہری علاقوں کو نظرانداز کیا۔ کراچی اور حیدرآباد میں پی پی کو کامیابی بھی نہیں ملی اور ان زیادتیوں اور ناانصافیوں کی وجہ سے ایم کیو ایم وجود میں آئی تھی جو کراچی سمیت شہری علاقوں پر مشتمل صوبہ مانگتی ہے جس پر سندھ کی ہر جماعت مشتعل ہوتی ہے اور سب بلاامتیاز سندھ کو توڑنے کے سخت مخالف ہیں۔
پیپلز پارٹی سندھ کی تقسیم کی سخت مخالف مگر پنجاب کی تقسیم کی حامی ہے کیونکہ جنوبی پنجاب میں شمالی پنجاب کے برعکس پی پی کا ووٹ بینک زیادہ ہے۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے مگر بعض مجبوریوں کے باعث وہ بھی پنجاب کی تقسیم کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور کرا چکی ہے مگر پی ٹی آئی صرف سیاست چمکاتی رہی ہے۔
ملک کی آبادی بڑھنے اور صوبائی دارالحکومت واقعی دور دور ہیں جس کی وجہ سے عوام تک وہاں آنے جانے میں واقعی مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے کام دنوں کی بجائے مہینوں میں بھی نہیں ہوتے جو عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرکے انتظامی طور پر صوبے بنانے کی بجائے لسانی بنیاد پر سرائیکی ، ہزارہ اور شہری علاقوں کے صوبوں کے مطالبات کیے جاتے ہیں۔ تعصب کی بجائے عوام کی سہولتیں اور اخراجات پر کوئی بھی توجہ نہیں دیتا اور اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لیے صوبوں کی تقسیم کے مطالبے ہو رہے ہیں۔ ملک کی موجودہ صورتحال، دور درازکے صرف چار صوبائی دارالحکومتوں اور چاروں صوبوں کی آبادی بہت زیادہ ہو جانے کی وجہ سے ملک میں لسانی بنیاد کی بجائے عوامی سہولیات کے لیے نئے صوبوں کی واقعی ضرورت ہے۔
نئے صوبوں کی بجائے انتظامی بنیاد پر نئے انتظامی یونٹوں کے قیام کا مطالبہ غیر آئینی ہے نہ لوح قرآنی کہ صوبوں کی انتظامی تقسیم نہ کی جا سکے۔ جنرل ضیا الحق اپنے دور میں ڈویژنوں کو صوبے بنانے اور 16 انتظامی ڈویژن بنانے کے خواہاں تھے مگر انھیں قدرت نے مہلت نہ دی ورنہ یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ صوبوں کے موجودہ نام برقرار رکھ کر بھی جنوبی پنجاب کی طرح صوبوں کے پرانے ناموں سے تعصب کی بجائے حقائق کو مدنظر رکھ کر یہ مسئلہ حل کرایا جا سکتا ہے اور چاروں صوبوں کے عوام کو سہولیات میسر آ سکتی ہیں۔