اسلام حسین کی سیاسی وجمہوری فکر

میں ان کی وکالت میں شائستگی اور نرم گفتار کو یاد کرتا ہوں تو مجھے وکالت کے پیشے کو سلام کرنے کاجی چاہتا ہے۔

Warza10@hotmail.com

ملک میں آج کل انصاف فراہم کرنے والی عدلیہ اور قانونی طور پر دفاع کرنے والے وکلا کی سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں۔ عدلیہ تاریخی فیصلے دے کر خود کو آزاد فیصلے کرنے والی عدلیہ ثابت کرنے کے عمل میں جتی ہوئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ کے مذکورہ تاریخی فیصلے کیسے اور کیوں کر ملک کی جمہوریت کو مضبوط سے مضبوط ترکر پائیں گے۔

لاہور میں نوجوان وکلا کی جانب سے پنجاب کے امراض قلب کے اسپتال میں توڑ پھوڑ اور پر تشدد کارروائی کا افسوسناک واقعہ بھی ملک بھر میں وکلا برادری کے لیے شدید تنقید اورمذمت کا نشان بن گیا ہے،گو لاہورہائی کورٹ میں گرفتار وکلا کی پیشی کے موقع پر فاضل جج کے یہ ریمارکس کہ ''وکلا نے پر تشدد غیر جمہوری رویے سے ججز کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں'' اپنی جگہ ضرور اہم ہے مگر ججزکا ایک کڑا امتحان بھی ہے کہ وہ وکلا کے اس قابل مذمت عمل جس کو کسی بھی طور درست نہیں کہا جا سکتا، موجودہ آزاد عدلیہ اس غیر قانونی قدم کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں تحت کرتی ہے یا فیصلے میں طرف داری کا رویہ برقرار رکھا جاتا ہے۔

اس ضمن میں یہ اعلیٰ عدلیہ سے لے نچلی عدلیہ تک کا کڑا امتحان ہے، جس میں دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ کیسے سرخرو ہوتی ہے ، مذکورہ توسیع نہ دینے اور پھانسی کی سزا کا فیصلہ دینے کے بعد وکلا کے پر تشدد طرز عمل میں لاہور ہائی کورٹ کا متوقع فیصلہ اہمیت کا حامل ہے جب کہ اس فیصلے پر پورے ملک کے عوام کی نظریں بھی لگی ہوئی ہیں۔

ہمارے سماج میں انصاف کا حصول اور عدلیہ کے فیصلے ایک عرصے سے متنازع رہے ہیں، عوام لاقانونیت کی چکی میں اس قدر پیسے جا چکے ہیں کہ ان کا عدالتی فیصلوں پر وہ اعتبار نہیں رہا جو ایک زندہ اور باشعور سماج کی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔

چرچل کا جنگ کی تباہی کے بعد یہ قول آج بھی انصاف پر مبنی سماج کے قیام کے لیے اہم اور کارآمد ہے کہ '' اگر ہمارا عدالتی نظام مستحکم ہے تو ہم دوبارہ برطانیہ کو تعمیر کر لیں گے'' یقینا معاشرے کی مضبوطی ایک انصاف پسند نظام کے تحت ہی مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے اور فرد میں قانون پسندی کا شعور ہی اس کے اندر سیاسی اور جمہوری قوتوں کو پروان چڑھاتا ہے، ہمارے ابتلا اور نا انصافی کے سماج میں آج بھی ہم کسی طور مایوس نہیں کہ ہمارے ہاں ایسی جمہوری اور قانون پسند روایات ہیں کہ جن کو ایک جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے مشعل راہ بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستان مین قانون کے رکھوالوں کا شاندار ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ ہم دوبارہ سے اپنے کھوئے ہوئے انصاف کے مقام کو حاصل کر لیں کہ ہمارے عدالتی نظام میں اب بھی وسعت اور وہ طاقت ہے کہ ہم قانون اور آئین کی بالا دستی کو مستحکم کر کے ایک روشن زندگی گزارنے کے معاشرے کی تشکیل کا پیغام دے سکتے ہیں۔ ہم بھلا یہ کیونکر بھولیں کہ اس ملک کے قیام اور تشکیل میں معروف وکیل محمد علی جناح کی جمہوری جدوجہد اور قانون پسندی شامل ہے ۔ اسی ملک میں جسٹس اے آر کارنیلئیس سے لے کر جسٹس دوراب پٹیل ایسے انصاف پسند ججز رہے جنہوں نے ہمیشہ قانون اور جمہوری عمل کی پاسداری کی اور اپنے فیصلوں میں عوام کو انصاف دینے کے ہر زاویے کو اپنایا ، ہم اپنی اس قانون پسند تاریخ سے بھی ناواقف نہیں کہ جس کے تحت ایک دانشمند وکیل نے ملک کو آزادی ایسی نعمت سے نوازا۔


آج کی صورتحال میں مجھے شدت سے اسلام حسین ایسے وکلا یاد آ رہے ہیں ، جنہوں نے اپنی پوری زندگی جمہوری آزادی اور عوام کو انصاف دلانے کے لیے صرف کر دی ، ان کا شمار ان وکلا میں رہا ، جنہوں نے اپنے علم اور سیاسی و جمہوری فکر اور بصیرت سے عوام کو مفت انصاف دلانے کی ہر سعی کی اور ہمیشہ جمہوری قدروں سمیت قانون کی بالادستی کو سر خروکیا ، اسلام حسین ان وکلا میں شمارکیے جاتے تھے، جنہوں نے آزاد ملک کی محبت میں اپنے پرکھوں کی محل نما جائیدادیں تج دیں اور خوشحال زندگی کو چھوڑ کر پاکستان کی تشکیل و تعمیر واسطے ہجرت اختیار کی۔

اسلام حسین ہندوستان میں جونپور کے قصبے ''سنجر پور'' میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم کا بیشتر حصہ بھوپال میں گزارا ، ان کی تربیت علم و ادب کے اساتذہ کے ہاتھوں ہوئی اور ان کے اساتذہ میں کیفی اعظمی کے داماد اور شبانہ کے شوہر جاوید اخترکی والدہ صفیہ اختر کا بہت بڑا کردار رہا۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ ادب اور تعلیم میں شائستگی اور متانت ایک سرمائے کی حیثیت رکھتے تھے، اسی بنا پر ان میں تہذیب اور شائستگی کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھی، جب کہ تعلیم کی ضرورت کے پیش نظر انھوں نے وکالت کو اپنا پیشہ نہیں بلکہ عوام اور دکھی افراد کی خدمت کا وسیلہ بنایا۔ انھوں نے قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں پرکھوں کی جائیداد کا نہ کلیم داخل کیا اور نہ ہی جائیداد کے بدلے انھوں نے کوئی حکومتی مراعات کی تمنا کی۔ اسی واسطے انھوں نے ملک کی قربانی کے جذبے کے تحت لالوکھیت کے پسماندہ علاقے میں چھوٹے سے مکان میں کنبے کی تربیت کی اور ہمیشہ عوام میں رہے۔

عوام میں رہنے کی تڑپ انھیں نیشنل بینک کی ملازمت تک لے گئی اور انھوں نے وہاں ملازمین کے مسائل اور ان کے ساتھ روا رکھنے والے مزدور دشمن رویے کے خلاف بھرپور آواز اٹھانے کی غرض سے یونین سازی کی بنیاد رکھی۔ بینکنگ سیکٹر میں یہ یونین کی پہلی بنیاد تھی جو انھوں نے رکھی، اور اسی بنا اسلام حسین طویل عرصے تک مزدورجدوجہد اور حقوق کی جنگ میں یونین کے صدر رہے مگر کبھی بھی بینک کے اعلیٰ حکام کی مراعات یا کسی لالچ میں نا آئے۔ یہی وجہ رہی کہ ان کو کئی بار مزدور حقوق کی جنگ بنا نوکری سے برخاست ہونا پڑا مگر انھوں نے قانون کے دائرے میں اپنی جمہوری جدوجہد کو جاری رکھا۔ ایک ہمدرد دل کے فرد تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح سائل کی مدد خاموشی سے کر دی جائے۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں اپنے چینل کے صحافیوں کے بقایاجات کا مسئلہ لے کر ان کے پاس گیا تو انھوں نے نہ صرف قانونی طور پر وہ مقدمہ بنا کسی معاوضے کے لڑا بلکہ ایوان بالا تک صحافیوں کے حقوق کی آواز کو پہنچایا۔ وہ انسانی حقوق کی جنگ میں بھی کبھی پیچھے نہ رہے اور ہر مظلوم کی داد رسی بلامعاوضہ کرنے پر ہمہ وقت مستعد رہتے تھے۔

انھوں نے اپنی نفسیاتی دانش کو بھی عام فرد کی فلاح کے لیے استعمال کیا ،جس بنا انھوں نے اپنے اخراجات سے ایک ماہنامے کا اجرا آخری دم تک جاری رکھا اور عام فرد کے نفسیاتی مسائل کو حل کرنے کی پوری کوشش کی ، ہمہ جہت فرد کے طور پر سماجی کاموں میں بھی ہمیشہ پیش پیش تھے، جس کی نہ انھوں نے کبھی تشہیر کی اور نہ ہی انھیں تشہیر کی کبھی تمنا رہی۔ دوستوں کی مدد میں بھی کبھی پیچھے نہ رہے۔

ان کا دفتر اکثر افراد کی عمومی آماج گاہ ہی رہتا تھا، اسلام حسین کی مذکورہ صفات کی ضرورت آج کے نوجون وکلا کو پہلے سے زیادہ ہے، میں ان کی وکالت میں شائستگی اور نرم گفتار کو یاد کرتا ہوں تو مجھے وکالت کے پیشے کو سلام کرنے کاجی چاہتا ہے ، مگر آج کے عدم برداشت سماج کو تبدیل کرنے میں وکلا ہی اپنا وہ تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں جو اسلام حسین ایسے وکلا کا شعار تھا،جب کہ وکیل کے تحمل، برداشت اور قوت فیصلہ کے لیے بانی پاکستان ایسا شاندار کردار اپنا کر ہی آج کے وکلا ملک میں جمہوری اور قانونی اقدارکو فروغ دے سکتے ہیں۔
Load Next Story