خوش فہمیاں

ہم غیور قوم ہیں، ہم باشعور قوم ہیں، ہم آزاد قوم ہیں، ہم بااختیار قوم ہیں، ہماری پارلیمنٹ بالادست ہے...

ہم غیور قوم ہیں، ہم باشعور قوم ہیں، ہم آزاد قوم ہیں، ہم بااختیار قوم ہیں، ہماری پارلیمنٹ بالادست ہے، ہم کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے، یہ سب کہنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ ......کیا کسی اورآزاد ملک کے حکمران بھی ہر روز ایسی تکرار کرتے دکھائی دیتے ہیں؟ انھیں ایسا کہنے کی ضرورت کیوں پیش نہیں آتی؟ شاید اسی لیے کہ کسی دانا کے منہ سے یہ الفاظ کہ ''میں عقلمند ہوں'' زیب نہیں دیتے یا کسی غیور کو ''میں غیرت مند ہوں'' کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

ہم کچھ بھی ہوں اور ہم کچھ بھی کہلوانے کی کوشش کرتے رہیں، ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا شمار اخلاقی پستی کے نچلے ترین درجے میں ہونے لگا ہے، ہم اس وقت دنیا کی ارزاں ترین قوم بن چکے ہیں۔ جب تک ہم اپنی کمزوریوں کو تسلیم نہیں کریں گے ہمیشہ خوش فہمیوں کاشکار رہیں گے، ہمارے سیاستدان اپنی چاپلوسیوں کے ذریعے ہمیں اور بھی زیادہ بے وقوف بناتے رہیں گے اور بیورو کریسی کے ساتھ مل کر ہمیں اور بھی زیادہ پستیوں کی جانب لے جائیں گے۔ ہم کبھی بھی زندگی کے تلخ حقائق کا ادراک نہیں کرپائیں گے جس کے نتیجے میں ہمارے لیے خود اپنی شناخت بھی ناممکن ہوتی چلی جائے گی۔

جہالت کے اندھیرے خود پسندی اور مفادپرستی کی دوڑ میں ہمیں اتنا آگے تک لے جاچکے ہیں کہ ہمارے آگے کسی مذہبی تعلیم اور کسی قانون کی کوئی اہمیت باقی نہیں۔ صرف باتوں اور جلسے جلوسوں تک تو ہم محب وطن بھی ہیں اور اسلام پسند بھی لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہماری آنکھوں پر ہوس اور حرص کے جالے پڑے ہوئے ہیں، ہمارا ''ملک کے وسیع ترمفاد میں'' ہونے والا کوئی بھی کام ذاتی مفادات سے خالی نہیں، ہمارا کوئی ادارہ اور کوئی شعبہ بھی بدعنوانی سے پاک نہیں رہا، ہم معمولی درجے کے مالی مفادات کے لیے اپنے ہی مذہب اور ملک و قوم کے خلاف مہم کا حصہ بننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ حقائق کا مکمل علم ہونے کے باوجود اپنے مذہب کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ہی مذہب کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ہم اس وقت اس مقام پر ہیں کہ ہمارے رہنما اور بیوروکریٹس ہمارے ہی دشمنوں کے زر خرید ہیں، جس کی تصدیق سابق چیف آف آرمی اسٹاف مرزا اسلم بیگ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد میڈیا سے بات چیت کے دوران کرچکے ہیں۔

مرزا صاحب کہنا تھا کہ پاکستان کا کوئی رہنما ایسا نہیں جو کسی نہ کسی سے ڈالر نہ لیتا ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے اقتدار کا مالک کسی کو بھی بنادیں، وہ وزیرخزانہ اسی کو بنائے گا جو امریکا کے مفادات کے لیے کام کرسکے، ایسا وزیر خزانہ جو اپنے لوگوں کو اتنا افلاس زدہ کردے کہ ان کی حالت خبطی کے جیسی ہو، وہ صبح اٹھیں تو روٹی کے چکر میں لگ جائیں، رات کو گھر آئیں تو کل کی فکر انھیں کھائے جاتی ہو، وہ کاروبار کریں تو بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتیں ادا کرنے کے بعد بے ایمانی کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدان اور بیورو کریٹس ایسا کیوں کرتے ہیں؟ شاید وہ اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ ہم غریب ممالک کے باشندے اپنے حاکموں کے آقائوں کے ملکوں کی مصنوعات کے بڑے خریدار ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار سرمایہ لگاتے ہیں، خام مال بھی ہمارا ہوتا ہے اور مزدور بھی ہمارے، تیار شدہ مصنوعات کے خریدار بھی ہم ہی، مگر منافع وہ لوگ اپنے ملکوں میں لے جاتے ہیں۔ بڑی طاقتیں ہمارے لیے ہمارے ہی وسائل سے استفادہ کرنے میں رکاوٹیں ڈالتی ہیں، اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی راہ میں حائل رہتی ہیں، وہ ہمارے ملک میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ریمنڈ ڈیوس تعینات کراتی ہیں، جو مختلف حلقوں میں تعلقات استوار کرکے اپنا وسیع نیٹ ورک قائم کرتا ہے۔


ملک میں بم دھماکے اور بدامنی پھیلانے کے مشن کے دوران اگر کوئی ریمنڈ ڈیوس قانون کی گرفت میں آبھی جائے تو پھر چوری چھپے ڈیل کراکے اسے رہائی دلا دی جاتی ہے۔ یہ سب اسی لیے کیا جاتا ہے کہ ہمارا اعتماد ہمارے ملک کے قانون سے اٹھ جائے، ہم دنیاکے مقابلے میں خود کو حقیر سمجھنے لگیں، بات بات پر اپنے پاک وطن کو کوستے رہیں، حب الوطنی کا جذبہ ہمارے اندر ختم کردیا جائے۔ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اسلام کا تشخص ایسا مسخ کردیا جائے کہ نئی آنے والی نسلیں حقیقی اسلام پسندوں سے بھی نفرت کرنے لگیں، ہم ایسے مسلمان بن جائیں کہ داڑھی والوں سے ڈر لگنے لگے، دینی تعلیم ہمیں دہشت گردی کی تربیت لگنے لگے، ہمارے بچے قانون کی عمل داری کا حال دیکھ کر جرائم کی طرف راغب ہوں، ملک ہمیشہ دلدل میں پھنسا رہے، ہم لوگ کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہوسکیں۔ امریکا، برطانیہ اور دیگر بڑی قوتوں کے پاس نہ تو اتنے زیادہ قدرتی وسائل ہیں اور نہ آبادی کہ وہ اپنی مصنوعات اپنے لوگوں کو بیچ کر اپنا نظام چلاسکیں، خوشحال رہنے کے لیے ہم غریب ملکوں کو پریشان حال رکھنا ان کی مجبوری ہے۔

ہماری خوش بختیوں کو دیمک ایسے چاٹ گئی کہ ہمارے سیاستدان ہم سے جھوٹ بولتے ہیں، ہمارے دانشور ہم سے حقائق چھپاتے ہیں۔ پاکستان میں جو کچھ بھی ہورہا ہے سب کو سب پتا ہے، مگر ایڈ کے عوض رنگ برنگ شور برپا کردیے گئے ہیں کہ کان پڑی آواز میں کیا سچ ہے اور کیا فریب سمجھ میں ہی نہیں آپاتا۔ ہمارے حکمران اپنا آپ ہی نہیں بیچ رہے بلکہ اٹھارہ کروڑ عوام کا سودا کرتے ہیں اور ہم ان ہی کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان آئی جی سندھ پولیس اور ڈی جی رینجرز سے جب پوچھتے ہیں کہ کون ہے جو کراچی میں امن قائم کرنے نہیں دیتا، کون ہے جو یہاں نوگوایریاز میں جانے نہیں دیتا، تو ہمارے تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کے سربراہان منہ لٹکائے کھڑے رہتے۔ جب چیف جسٹس ان سے پوچھتے ہیں کہ نام بتائو، ہم انھیں جیل بھیج دیں گے تو وہ ان لوگوں کے نام بتانے سے گریزاں ہی دکھائی دیتے ہیں، ڈی جی نارکوٹکس سے بھی یہی سوال ہوتا ہے کہ اسلحے کی اسمگلنگ روکنے میں کون حائل ہے ، کوئی بھی نام نہیں بتا سکتا، کیوںکہ جان ہر ایک کو پیاری ہے، صرف ایسا ہی نہیں کہ صرف آئی جی کو پتہ ہو یا ڈی جی رینجرز کو یا پھر ڈی جی نارکوٹکس کو .... یہاں ایک عام غریب مزدور بھی اپنی فہم و فراست کے مواقف بلا تامل اور بے خوف فوراً اپنا اندازہ بتاسکتا ہے۔

پاکستان میں موجود غیر قانونی تارکین وطن سے متعلق سپریم کورٹ نے کارروائی کے احکامات جاری کیے تو ناردا حکام نے حیرت انگیز انکشافات کیے، مگر مقتدر حلقوں نے ذرا کان نہیں دھرے۔ یہ بات طے ہے کہ ہمارے حکمرانوں یا دیگر مقتدرر حلقوں نے اس بات کا تہیہ کرلیا ہے کہ انھیں اپنے ذاتی مفادات جو ان کے بیرونی آقائوں کے مفادات کے مرہون منت ہیں کے تحفظ کی خاطر حالات کو مستقل بنیادوں پر سدھارنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانا ہی نہیں ہیں۔

کچھ بھی ہو، دنیا تو مکافات عمل ہے۔
Load Next Story