بلبل صحرا ریشماں انتقال کر گئیں
گلوکارہ ریشماں طویل علالت کے بعد اتوار کو لاہور میں انتقال کر گئیں۔ انھیں اِسی روز سپردخاک کر دیا گیا۔
گلوکارہ ریشماں طویل علالت کے بعد اتوار کو لاہور میں انتقال کر گئیں۔ انھیں اِسی روز سپردخاک کر دیا گیا۔ 1980 میں انھوں نے بھارتی فلم ہیرو کا گانا ''لمبی جدائی'' گایا جس نے انھیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ انھیں ''بلبل صحرا'' کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ انھوں نے پنجابی لوک گیتوں کی گائیکی میں منفرد انداز اپنایا جو بہت زیادہ مقبول ہوا۔ ان کا گیت ''ہائے او رَباّ نیں او لگدا دِل میرا'' بہت مقبول ہوا۔ انھوں نے پرویز مہدی کے ساتھ مل کر ایک پنجابی گیت گایا جس کا مکھڑا یوں تھا' گوریئے میں جانا پردیس... میں جانا تیرے نال۔ اس گیت نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔گلوکارہ ریشماں 1947 کے لگ بھگ راجستھان کے ضلع بیکا نیر میں ایک بنجارہ (خانہ بدوش) قبیلے میں پیدا ہوئیں۔
قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان سندھ میں چلا آیا۔ کراچی سے ہوتے ہوئے ان کا خاندان پنجاب میں مستقل طور پر قیام پذیر ہو گیا۔ ان کی پنجابی میں بھی راجستھانی لہجہ موجود تھا اور اسی منفرد لہجے نے انھیں مقبولیت بخشی۔ انھوں نے پنجابی کے علاوہ اردو میں بھی گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے 12 سال کی عمر میں حضرت لال شہباز قلندر کے مزار پر عارفانہ کلام گانا شروع کیا اور پھر وہ مقبولیت کی بلندیوں کی طرف بڑھنے لگیں اور 1980 کی دہائی ان کے عروج کا زمانہ تھا۔ ان ہی ایام میں انھیں کینسر کا مرض لاحق ہوا۔ انھوں نے برسوں تک کینسر جیسے موذی مرض کے ساتھ جنگ لڑی اور اس مرض کے ہاتھوں اگلے روز زندگی کی بازی ہار گئیں۔ گیت اور سنگیت کی دنیا میں ان کا نام مدتوں زندہ رہے گا۔ شاید ہی کوئی لوک گائیکہ ان کے مقام تک پہنچ سکے۔
قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان سندھ میں چلا آیا۔ کراچی سے ہوتے ہوئے ان کا خاندان پنجاب میں مستقل طور پر قیام پذیر ہو گیا۔ ان کی پنجابی میں بھی راجستھانی لہجہ موجود تھا اور اسی منفرد لہجے نے انھیں مقبولیت بخشی۔ انھوں نے پنجابی کے علاوہ اردو میں بھی گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے 12 سال کی عمر میں حضرت لال شہباز قلندر کے مزار پر عارفانہ کلام گانا شروع کیا اور پھر وہ مقبولیت کی بلندیوں کی طرف بڑھنے لگیں اور 1980 کی دہائی ان کے عروج کا زمانہ تھا۔ ان ہی ایام میں انھیں کینسر کا مرض لاحق ہوا۔ انھوں نے برسوں تک کینسر جیسے موذی مرض کے ساتھ جنگ لڑی اور اس مرض کے ہاتھوں اگلے روز زندگی کی بازی ہار گئیں۔ گیت اور سنگیت کی دنیا میں ان کا نام مدتوں زندہ رہے گا۔ شاید ہی کوئی لوک گائیکہ ان کے مقام تک پہنچ سکے۔