ایک بچے کا بڑا سوال
بعض اوقات بچے بے ساختہ اتنا بڑا سوال کر دیتے ہیں کہ بڑے چکرا کر رہ جاتے ہیں۔ میں گوشت کی دکان پر کھڑا تھا۔۔۔
بعض اوقات بچے بے ساختہ اتنا بڑا سوال کر دیتے ہیں کہ بڑے چکرا کر رہ جاتے ہیں۔ میں گوشت کی دکان پر کھڑا تھا، میرے ساتھ آٹھ سالہ عبادا تھا عباد نے قصائی کی دکان پر ٹنگے ہوئے گوشت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا اس کے ساتھ یہ دم کیوں لگائی گئی ہے؟ یہ سوال اگرچہ بچکانہ تھالیکن میں اس کا فوری جواب نہیں دے پا رہا تھا۔ بچہ میری طرف جواب طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا ۔ جان من یہ دم اس لیے ہے کہ خریداروں کو شک نہ رہے کہ گوشت بچھیا کا ہے، گدھے گھوڑے کا نہیں۔ بچے نے دوسرا سوال داغ دیا کہ خریداروں کو ایسا شک کیوں ہوتا ہے؟ بچے کا یہ سادہ سا سوال اپنے اندر جہان معنی رکھتا نظر آیا اور مجھے محسوس ہونے لگا کہ یہ معصوم سا سوال گوشت کی دکان سے نکل کر گھروں خاندانوں ملکوں معاشروں تک پھیلتا جا رہا ہے۔ ''عدم اعتماد'' جو ایک خاندان سے لے کر ملک اور ساری دنیا تک پھیلا ہوا ہے اس کی نشان دہی ایک معصوم بچے نے انتہائی سادہ سا سوال پوچھ کر کی ہے۔
بیٹا باپ پر اعتماد نہیں کرتا، بھائی بھائی پر اعتماد نہیں کرتا، میاں بیوی پر اعتماد نہیں کرتا، بیوی میاں پر اعتماد نہیں کرتی، سیاستدان اور حکمران ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے، ایک ملک دوسرے ملک پر اعتماد نہیں کرتا، ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے ماننے والوں پر اعتماد نہیں کرتے، دنیا کی بڑی بڑی جنگوں کی ایک بڑی وجہ بے اعتمادی ہی نظر آتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگوں کی بڑی وجہ بھی بے اعتمادی ہی تو ہے۔ متحارب ملکوں اور قوموں کے درمیان بات چیت مذاکرات قصائی کی دکان پر ٹنگے گوشت کی دم ہی نظر آتے ہیں جس کا مقصد فریقین کے درمیان اعتماد کی بحالی ہوتا ہے۔
ابھی ہمارے ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نیب کے سربراہ کی تقرری پر بڑی لمبی بات چیت ہوتی رہی ہے بات چیت قصائی کی دکان پر لٹکی دم کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے۔ ہماری حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کر رہی ہے ان مذاکرات کو بچھیا کی دم کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ ابھی پچھلے دنوں امریکی ایجنسیاں یورپی یونین کے رکن ممالک کے حکمرانوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرتی رہی ہیں اس حوالے سے جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کا نام خصوصی طور پر لیا جاتا رہا ہے کہ اس خاتون کے فون امریکی ایجنسیاں برسوں سے ٹیپ کر رہی ہیں حالانکہ برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ امریکا کے قریبی اتحادی ہیں اور امریکا کے جائز و ناجائز اقدامات میں اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں لیکن امریکا اپنے ان اتحادیوں پر بھی اعتماد نہیں کرتا اور ان کے فون ٹیپ کرواتا ہے۔ امریکا کی اس حرکت پر یورپی یونین کے سربراہ نے سخت احتجاج کیا ہے۔ یہ بھی بے اعتمادی ہی کی ایک مثال ہے اس پس منظر میں اگر ہم اقوام متحدہ پر نظر ڈالیں تو اقوام متحدہ عالمی برادری کے گوشت کے ساتھ لٹکی ہوئی بچھیا کی دم ہی نظر آتی ہے۔
ویسے تو ساری دنیا ہی عدم اعتماد کا شکار ہے لیکن پاکستان میں عدم اعتمادی کا عالم یہ ہے کہ قصائیوں کو گوشت کے ساتھ بچھیا کی دم اس لیے لگانا پڑتی ہے کہ اس ملک میں گدھے، کتے تک کاٹ کر عوام کو فروخت کر دیے جاتے ہیں۔ عوام کے اس عدم اعتماد کو دور کرنے کے لیے ہی قصائیوں کو گوشت کے ساتھ بچھیا کی دم ثبوت کے طور پر لگائے رکھنا پڑتا ہے۔ اس سوال کا جواب ہم کالم کے آخری حصے میں دیں گے کہ گھر سے لے کر عالمی برادری تک عدم اعتماد کی اصل وجہ کیا ہے لیکن اس سے قبل آج کے تازہ اخبار کی چند اہم سرخیاں آپ کی خدمت میں پیش کریں گے جن کے پڑھنے سے وہی عدم اعتماد دکھائی دیتا ہے جو قصائی کی دکانوں پر آپ کو نظر آتا ہے۔
آج کے اخبار کی ہیڈ لائن کچھ یوں ہے: ''افغانستان امن عمل جاری رکھیں گے، لندن میں پاکستان برطانیہ اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی اجلاس میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے کسی دھڑے کی حمایت نہ کرنے کا یقین دلایا۔ مذاکرات میں طالبان کو بھی شامل کیا جائے۔ لندن میں عالمی اسلامی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ ''عالمی دولت 241 ٹریلین ڈالر تک بڑھ چکی ہے لیکن غربت میں کمی نہیں آئی۔ دولت کی عدم مساوات ختم کی جانی چاہیے'' ایک دوسری سرخی ہے کالے دھن نے کراچی کو آتش فشاں بنا دیا ہے۔ یہ بات چیف جسٹس نے کراچی بد امنی کیس کی سماعت کے دوران کہی ہے۔ ایک اور سرخی، عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ تحریک انصاف نے چیئرمین نیب کی تقرری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ متحدہ کے سربراہ الطاف حسین کے مطابق ''طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ حکومت اور عسکری قیادت کو کرنا ہے'' ہم طالبان سے مذاکرات کی مخالفت نہیں کرتے لیکن کوئی آئین اور قانون ہی سے انکار کر دے تو پھر اس سے مذاکرات کا مطلب کیا ہو گا؟ پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات کر لی گئی ہے طالبان سے مذاکرات کے لیے ہوم ورک مکمل کر لیا گیا ہے۔ مذاکرات جلد شروع ہوں گے۔
ایک اور سرخی کے مطابق خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ اور اعظم ہوتی کے فرزند نے اپنے باپ پر یہ الزام لگایا ہے کہ انھوں نے ایک خاتون کی خاطر اسفند یار ولی پر بیرون ملک بڑی بڑی جائیداد رکھنے اور امریکا سے کروڑوں ڈالر لینے کا الزام لگایا ہے۔
ایک اور خبر یہ ہے ''فوجی حکام کی فلیگ میٹنگ، پاک بھارت ایل او سی پر جنگ بندی بحال کرنے پر اتفاق'' ایک اور خبر کے مطابق ٹارگٹڈ کارروائیوں کے باوجود رواں سال بھتہ خوری میں 100 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک اور سرخی یہ ہے ''اوباما کا اتحادی رہنمائوں کی نگرانی پر پابندی لگانے کا فیصلہ'' گوشت کی دکان سے لے کر بین الاقوامی خبروں تک جو عدم اعتماد کی وبا نظر آتی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی وہ سوال ہے جو 8 سالہ بچے کے سوال سے پیدا ہوا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے لندن میں عالمی اسلامی اقتصادی فورم سے خطاب کے دوران ایک اہم بات کی ہے کہ ''عالمی دولت 241 ٹریلین ڈالر تک بڑھ چکی ہے لیکن غربت میں کوئی کمی نہیں آئی دولت کی عدم مساوات ختم ہونی چاہیے'' کیا ایک گھر سے عالمی سطح تک پھیلی ہوئی عدم اعتماد کی فضا کا نواز شریف کی اس بات سے کوئی تعلق ہے کہ عالمی دولت کے 241 کھرب ڈالر تک بڑھنے کے باوجود غربت میں کوئی کمی نہیں آئی؟ دولت کی عدم مساوات ختم ہونی چاہیے۔
نواز شریف نے جو بات لندن کے عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کی ہے یہ بات ہم عشروں سے اپنے کالم میں لگاتار کر رہے ہیں لیکن نوازشریف نے یہ نہیں بتایا کہ 241 ٹریلین ڈالر کن ہاتھوں میں جمع ہیں اور کس طرح حاصل کیے گئے ہیں؟ ہم بتاتے ہیں کہ یہ بھاری دولت چند خاندانوں میں کرپشن کے ذریعے جمع ہو گئی ہے اور کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے۔ خود نواز شریف کے خلاف اربوں کی کرپشن کے ریفرنس عدلیہ کے سامنے برسوں سے زیر سماعت ہیں۔ کیا گوشت کی دکان سے عالمی سطح تک پھیلی ہوئی عدم اعتماد کی فضا کا سبب زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کے رجحان بلکہ شرمناک رجحان سے ہو سکتا ہے...؟ جس کی وجہ سے ساری دنیا کے عوام اس پورے استحصالی نظام پر ہی عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں؟
بیٹا باپ پر اعتماد نہیں کرتا، بھائی بھائی پر اعتماد نہیں کرتا، میاں بیوی پر اعتماد نہیں کرتا، بیوی میاں پر اعتماد نہیں کرتی، سیاستدان اور حکمران ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے، ایک ملک دوسرے ملک پر اعتماد نہیں کرتا، ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے ماننے والوں پر اعتماد نہیں کرتے، دنیا کی بڑی بڑی جنگوں کی ایک بڑی وجہ بے اعتمادی ہی نظر آتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگوں کی بڑی وجہ بھی بے اعتمادی ہی تو ہے۔ متحارب ملکوں اور قوموں کے درمیان بات چیت مذاکرات قصائی کی دکان پر ٹنگے گوشت کی دم ہی نظر آتے ہیں جس کا مقصد فریقین کے درمیان اعتماد کی بحالی ہوتا ہے۔
ابھی ہمارے ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نیب کے سربراہ کی تقرری پر بڑی لمبی بات چیت ہوتی رہی ہے بات چیت قصائی کی دکان پر لٹکی دم کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے۔ ہماری حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کر رہی ہے ان مذاکرات کو بچھیا کی دم کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ ابھی پچھلے دنوں امریکی ایجنسیاں یورپی یونین کے رکن ممالک کے حکمرانوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرتی رہی ہیں اس حوالے سے جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کا نام خصوصی طور پر لیا جاتا رہا ہے کہ اس خاتون کے فون امریکی ایجنسیاں برسوں سے ٹیپ کر رہی ہیں حالانکہ برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ امریکا کے قریبی اتحادی ہیں اور امریکا کے جائز و ناجائز اقدامات میں اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں لیکن امریکا اپنے ان اتحادیوں پر بھی اعتماد نہیں کرتا اور ان کے فون ٹیپ کرواتا ہے۔ امریکا کی اس حرکت پر یورپی یونین کے سربراہ نے سخت احتجاج کیا ہے۔ یہ بھی بے اعتمادی ہی کی ایک مثال ہے اس پس منظر میں اگر ہم اقوام متحدہ پر نظر ڈالیں تو اقوام متحدہ عالمی برادری کے گوشت کے ساتھ لٹکی ہوئی بچھیا کی دم ہی نظر آتی ہے۔
ویسے تو ساری دنیا ہی عدم اعتماد کا شکار ہے لیکن پاکستان میں عدم اعتمادی کا عالم یہ ہے کہ قصائیوں کو گوشت کے ساتھ بچھیا کی دم اس لیے لگانا پڑتی ہے کہ اس ملک میں گدھے، کتے تک کاٹ کر عوام کو فروخت کر دیے جاتے ہیں۔ عوام کے اس عدم اعتماد کو دور کرنے کے لیے ہی قصائیوں کو گوشت کے ساتھ بچھیا کی دم ثبوت کے طور پر لگائے رکھنا پڑتا ہے۔ اس سوال کا جواب ہم کالم کے آخری حصے میں دیں گے کہ گھر سے لے کر عالمی برادری تک عدم اعتماد کی اصل وجہ کیا ہے لیکن اس سے قبل آج کے تازہ اخبار کی چند اہم سرخیاں آپ کی خدمت میں پیش کریں گے جن کے پڑھنے سے وہی عدم اعتماد دکھائی دیتا ہے جو قصائی کی دکانوں پر آپ کو نظر آتا ہے۔
آج کے اخبار کی ہیڈ لائن کچھ یوں ہے: ''افغانستان امن عمل جاری رکھیں گے، لندن میں پاکستان برطانیہ اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی اجلاس میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے کسی دھڑے کی حمایت نہ کرنے کا یقین دلایا۔ مذاکرات میں طالبان کو بھی شامل کیا جائے۔ لندن میں عالمی اسلامی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ ''عالمی دولت 241 ٹریلین ڈالر تک بڑھ چکی ہے لیکن غربت میں کمی نہیں آئی۔ دولت کی عدم مساوات ختم کی جانی چاہیے'' ایک دوسری سرخی ہے کالے دھن نے کراچی کو آتش فشاں بنا دیا ہے۔ یہ بات چیف جسٹس نے کراچی بد امنی کیس کی سماعت کے دوران کہی ہے۔ ایک اور سرخی، عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ تحریک انصاف نے چیئرمین نیب کی تقرری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ متحدہ کے سربراہ الطاف حسین کے مطابق ''طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ حکومت اور عسکری قیادت کو کرنا ہے'' ہم طالبان سے مذاکرات کی مخالفت نہیں کرتے لیکن کوئی آئین اور قانون ہی سے انکار کر دے تو پھر اس سے مذاکرات کا مطلب کیا ہو گا؟ پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات کر لی گئی ہے طالبان سے مذاکرات کے لیے ہوم ورک مکمل کر لیا گیا ہے۔ مذاکرات جلد شروع ہوں گے۔
ایک اور سرخی کے مطابق خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ اور اعظم ہوتی کے فرزند نے اپنے باپ پر یہ الزام لگایا ہے کہ انھوں نے ایک خاتون کی خاطر اسفند یار ولی پر بیرون ملک بڑی بڑی جائیداد رکھنے اور امریکا سے کروڑوں ڈالر لینے کا الزام لگایا ہے۔
ایک اور خبر یہ ہے ''فوجی حکام کی فلیگ میٹنگ، پاک بھارت ایل او سی پر جنگ بندی بحال کرنے پر اتفاق'' ایک اور خبر کے مطابق ٹارگٹڈ کارروائیوں کے باوجود رواں سال بھتہ خوری میں 100 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک اور سرخی یہ ہے ''اوباما کا اتحادی رہنمائوں کی نگرانی پر پابندی لگانے کا فیصلہ'' گوشت کی دکان سے لے کر بین الاقوامی خبروں تک جو عدم اعتماد کی وبا نظر آتی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی وہ سوال ہے جو 8 سالہ بچے کے سوال سے پیدا ہوا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے لندن میں عالمی اسلامی اقتصادی فورم سے خطاب کے دوران ایک اہم بات کی ہے کہ ''عالمی دولت 241 ٹریلین ڈالر تک بڑھ چکی ہے لیکن غربت میں کوئی کمی نہیں آئی دولت کی عدم مساوات ختم ہونی چاہیے'' کیا ایک گھر سے عالمی سطح تک پھیلی ہوئی عدم اعتماد کی فضا کا نواز شریف کی اس بات سے کوئی تعلق ہے کہ عالمی دولت کے 241 کھرب ڈالر تک بڑھنے کے باوجود غربت میں کوئی کمی نہیں آئی؟ دولت کی عدم مساوات ختم ہونی چاہیے۔
نواز شریف نے جو بات لندن کے عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کی ہے یہ بات ہم عشروں سے اپنے کالم میں لگاتار کر رہے ہیں لیکن نوازشریف نے یہ نہیں بتایا کہ 241 ٹریلین ڈالر کن ہاتھوں میں جمع ہیں اور کس طرح حاصل کیے گئے ہیں؟ ہم بتاتے ہیں کہ یہ بھاری دولت چند خاندانوں میں کرپشن کے ذریعے جمع ہو گئی ہے اور کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے۔ خود نواز شریف کے خلاف اربوں کی کرپشن کے ریفرنس عدلیہ کے سامنے برسوں سے زیر سماعت ہیں۔ کیا گوشت کی دکان سے عالمی سطح تک پھیلی ہوئی عدم اعتماد کی فضا کا سبب زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کے رجحان بلکہ شرمناک رجحان سے ہو سکتا ہے...؟ جس کی وجہ سے ساری دنیا کے عوام اس پورے استحصالی نظام پر ہی عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں؟