بلبل صحرا ریشماں ہم سے جدا ہوگئیں

پاکستانی فوک موسیقی کو دنیا بھرمیں متعارف کروانے کا اعزاز حاصل تھا

پاکستانی فوک موسیقی کو دنیا بھرمیں متعارف کروانے کا اعزاز حاصل تھا۔ فوٹو: فائل

برصغیرپاک وہند کی نامورگلوکارہ ریشماں آج اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کا فن ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔

کہنے کوتووہ ایک فوک گلوکارہ تھیں لیکن ان کااندازگائیکی اس قدرمنفرد اورنرالہ تھا کہ معروف گائیک بھی ان کے سُر، لے اورتال کی سمجھ بوجھ کودیکھ کرحیران رہ جاتے تھے۔ موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل نہ کرنے والی ریشماں جب کسی مقام پرپرفارم کرتیں توسماں بندھ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ریشماں کے چاہنے والے پاکستان اوربھارت ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک میں بھی بڑی تعداد میں بستے ہیں۔ انہوں نے جس طرح سے فوک گائیکی میں اپنی پہچان بنائی اورپھر اس کی بدولت دنیا بھرمیں راج کیا اس کی کوئی دوسری مثال ہمیں پاکستان اوربھارت میں نہیں ملتی۔ وہ جتنی بڑی فنکارہ تھیں اتنی ہی محبت کرنے والی انسان بھی تھیں۔ ان کے پرستاروں میں تو پاکستان ہی نہیں بھارتی فلم انڈسٹری کے عظیم فنکار بھی شامل تھے۔ ریشماں نے اپنے طویل فنی سفرکے دوران پاکستان اوربھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ، کینیڈا، یورپ، مڈل ایسٹ سمیت دنیا کے بیشترممالک میں پاکستان کی نمائندگی کی اورانہیں بہترین پرفارمنسز پربہت سے اعزازات اور خطابات سے نوازا گیا۔



' بلبل صحرا ' کا خطاب پانے والی گلوکارہ ریشماں 1947ء میں راجھستان میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق بیکانیرکی ایک خانہ بدوش فیملی سے تھا۔ ان کے والد حاجی مشتاق مویشیوں کی خریدو فروخت کا کام کرتے تھے۔ 1947ء میں جب پاکستان وجود میں آیا توریشماں کی فیملی اپنی برادری کے ہمراہ پاکستان میں کراچی میں آباد ہوئی۔ ریشماں نے جونہی ہوش سنبھالاتوانہوں نے اردگرد بسنے والے برادری کے لوگوں کو روایتی فوک گیت گنگناتے دیکھا۔ خانہ بدوش فیملی کبھی کہیں پڑائو کرتی توکبھی کہیں لیکن ایک دوسرے کو محظوظ کرنے کیلئے فوک گیت سنانے کا سلسلہ اکثر جاری رہتا تھا۔ خاص طورپراپنی خوشی کے لمحات موسیقی کے بنا ادھورے سمجھے جاتے تھے۔ ریشماں بھی اپنی فیملی کے ہمراہ ان محفلوں میں شریک ہوتیں اورموسیقی کی ابتدائی تعلیم انہیں اس طرح سجنے والی محفلوں سے ہی ملی۔ انہوں نے بچپن سے ہی راجھستانی فوک گیت گاسنا شروع کر دیئے۔ بلکہ اپنی فیملی اوربرادری کے دیگرلوگوں کے ہمراہ حضرت شہباز قلندرؒکے عرس پرحاضری کیلئے سیہون جاتیں تووہاں پردھمالیں سناتیں۔



لوگوں کی کثیر تعداد ریشماں کی آوازمیں دھمال سنتی اورجھومنے لگ جاتی۔ یہ وہ موقع تھا جب ریشماں کی برادری کے لوگوں کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ وہ سُر، لے اورتال سے مالامال ہے۔ ریشماں نے کوئی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی۔ مگراس عظیم گلوکارہ نے اپنے بچپن کا زیادہ ترحصہ صوفیاء کرام کے مزارات پرحاضری دے کرگزارا۔ ایک مرتبہ ریشماں 12سال کی عمرمیں حضرت شہبازقلندرؒ کے مزارپر ُسروں کے ساز بکھیر رہی تھیں توریڈیو پاکستان کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک پروڈیوسر نے ان کی آواز سے متاثر ہوکر انہیں کراچی آنے کی دعوت دی۔ جہاں انہوں نے ریڈیو پاکستان کے لئے دھمال ''لعل میری پت رکھیو'' ریکارڈ کی۔ یہ کلام ریڈیو پرچلتا رہا اورریشماں کی آوازاپنی برادری اورقبیلے کی حدود سے باہر نکلتی ہوئی ملک بھرمیں پہنچ گئی۔ ریشماں کی آوازمیں ریکارڈ کی جانیوالی دھمال کے چرچے عام ہوگئے۔ لوگ ریشماں کی آواز کوپہچاننے لگے تھے۔ شہرت کی پہلی سیڑھی پرجب ریشماں نے قدم رکھاتووہ اپنی فیملی اوربرادری کی پہلی خاتون تھیں جن کواتنے بڑے پلیٹ فارم پرپرفارم کرنے کا موقع ملا تھا۔

60ء کی دہائی میں ریشماں نے پاکستان ٹیلی ویژن میں پرفارم کیا۔ پھر توکامیابی ریشماں پرایسے مہربان ہوئی کہ انہیں کسی تعارف کی ضرورت پیش نہ آئی۔ انہوںنے جوبھی گیت گایا وہ دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کے ساتویں آسمان تک پہنچ گیا۔ انہوں نے جہاں اکیلے بہت سے گیت ریکارڈ کئے وہیں انہوں نے ہمارے ملک کے معروف گلوکاروں کیساتھ بھی کچھ گیت ریکارڈ کروائے جوآج بھی بے حدمقبول ہیں۔



ریشماں کے مشہور گانوں میں ''لمبی جدائی'' ''دما دم مست قلندر''، ''نیئں لگدا دل میرا ''، ''سن چرخے دی مٹھی مٹھی کوک ''، ''میں چوری چوری تیرے نال لالیاں اکھاں'' ، ''اکھیاں نو رہن دے ''، '' میری ہم جولیاں''، ''نہ دل دیندی بے دردی نوں''، '' آ سجنا رل اکھٹیاں '' ، '' گڈی آگئی ہے ٹیشن تے'' اور''گوریے میں جاناں پردیس'' سمیت دیگر مقبول گیت شامل ہیں ۔ ریشماں کی خوبصورت آواز میں ریکارڈ ہونیوالے گانے کانوں میں رس گھولتے رہے۔ اس کے علاوہ بالی وڈ کے معروف ہدایتکار سبھاش گھئی نے اپنی فلم ''ہیرو'' میں پہلی مرتبہ ریشماں کا گیت ''لمبی جدائی'' شامل کیا تواس گیت کی بدولت فلم نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ راج کپور کی فلم '' بوبی'' کیلئے ریشماں کا گایا مقبول گیت ''اکھیاں نوں رہن دے کو '' لتا نے گایا ۔ بالی وڈ میں ویسے توجگہ بنانا بہت مشکل تھا لیکن ریشماں نے نہ صرف اپنے ٹیلنٹ کے بل پر بالی وڈ میں جگہ بنائی بلکہ وہ اکثر بالی وڈ سٹارز کی دعوت پربھارت میں پرفارم کرنے کیلئے جایا کرتی تھیں۔ لیجنڈ دلیپ کمار، سائرہ بانو، ہیمامالنی، امیتابھ بچن، دھرمیندر، سنیل دت، راج کپور، شمی کپور، رشی کپور، لتا منگیشکر، آشابھوسلے، گلزار، جاوید اختر، راکیش روشن اور سنجے خان سمیت دیگربالی وڈ سٹار کی رہائشگاہوں پر منعقد ہونے والی تقریبات اس وقت تک مکمل نہیں سمجھی جاتی تھیں جب تک ان میں ریشماں پرفارم نہ کرلے۔ اس موقع پر بھی لوگوں کی کثیر تعداد ریشماں کو سننے کیلئے موجود ہوتی تھیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے توریشماں ان خوش نصیب فنکاروں میں سے تھیں جن کے چاہنے والے عظیم فنکارتھے۔

بھارت کی سابق وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی بھی ریشماں کی آوازسے بے حد متاثرتھیں۔ ایک بار اندرا گاندھی نے ریشماں سے ملنے کی خواہش کی اورپھر ان کی فنی خدمات کوشاندارالفاظ میںخراج تحسین پیش کیا۔ اس دوران ریشماں نے جب اندراگاندھی کوبتایاکہ راجھستان میں ان کے آبائی علاقے میں کوئی سڑک نہیںہے تومتعلقہ محکمے کو فوری ہدایات دیں اور بہت ہی کم عرصے میں وہاں سڑک تعمیر کی گئی۔ بھارتی حکومت کی طرف سے ریشماں کو بھارت میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا کہا گیا مگر ریشماں نے کہا کہ وہ پاکستان کو چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ اسی طرح ریشماں نے دنیا کے بیشترممالک میں پرفارم کرتے ہوئے اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں۔ شہرت، دولت ہونے کے باوجود وہ گھر پراپنے کام خود کیا کرتی تھیں۔ گھرمیں کھانا پکانے کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی کے کام کرنے میں بڑی خوشی محسوس کرتی تھیں۔



ریشماں 1980ء میں کینسرکے مرض میں مبتلا ہوئیں۔ جس کے بعد انہوں نے کافی عرصہ تک برطانیہ میں بھی علاج کروایا اورپھر پاکستان پہنچ گئیں۔ پاکستان میں چھ برس قبل ان کی حالت بہت زیادہ خراب ہوئی توڈاکٹروں نے ان کو دوائی اورخوراک میں پرہیز کرنے کیساتھ مکمل آرام کا مشورہ دیا۔ اس دوران ریشماں شدید مالی مشکلات کا شکاربھی ہوئیں توسابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے بنک لون کی ادائیگی کے لئے ریشماں کو دس لاکھ روپے دئیے اور اسکے ساتھ ہی دس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ بھی جاری کیا۔ اس کے علاوہ بھی اہم سیاسی شخصیات اوران کے چاہنے والے بھی مالی امداد میں پیش پیش رہے۔ ریشماں کی فوک گائیکی میں گراں قدرخدمات کااعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے اعلیٰ سول اعزازات سے بھی نوازا۔

واضح رہے کہ گلوکارہ ریشماں گزشتہ برس شہنشاہ غزل مہدی حسن کے انتقال کے موقع پرمنعقدہ '' ایکسپریس فورم'' میں شریک ہوئیں۔اس موقع پرانہوں نے جہاں شاندارالفاظ میں مہدی حسن کو خراج عقیدت پیش کیا وہیں اپنی فنی اورنجی زندگی کے حوالے سے بھی بہت دلچسپ گفتگو کی جوقارئین کی نذرہے۔



ریشماں کا کہنا تھا کہ کبھی سوچا نہ تھا کہ موسیقی کے میدان میں اس قدرکامیابیاں ملیں گی۔ کیونکہ موسیقی کی دنیا میں بہت بڑے بڑے نام تھے اورمیں موسیقی کی الف ب سے واقف نہ تھی لیکن اللہ تعالٰی کی جانب سے ملنے والے اس تحفے کی بدولت میں نے جہاں بھی پرفارم کیالوگوں نے میرے فن کو بہت سراہا۔ اکثرسجنے والی محفلوںمیں معروف گائیک میری پرفارمنس سے قبل پرفارم کرنے کو ترجیح دیا کرتے تھے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ لوگ میری بلند آواز سے خوفزدہ رہتے تھے۔ اسی طرح جب بھی مجھے بھارت جانے کا موقع ملتا تووہاں بھی موسیقی کے معروف پنڈت میری گائیکی میںخامیاں تلاش کرنے کیلئے ہر وقت تیاررہتے تھے مگروہ اس میں کبھی کامیاب نہیںہوسکے۔ جب میں نے بھارتی فلم کیلئے گیت ''لمبی جدائی''ریکارڈ کیا تواس کے چرچے پوری دنیا تک پہنچ گئے۔ بالی وڈ کے معروف فلمی ستارے میرے پرستاروں کی فہرست میں شامل ہونے لگے۔ ایک طرف بالی وڈسٹارزکا پیارتھا تودوسری جانب لوگوںکی چاہت اور محبت۔ اسی طرح مختلف ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں ہوئیں اوربہت سے یادگار واقعات بھی دوران سفر پیش آئے جن کویاد کرکے اکثرتنہا ہنستی رہتی ہوں۔ جس طرح کا رسپانس مجھے مل رہا تھا کبھی کبھی یہ خیال آتا تھا کہ اب میںبھی ایک بہت بڑی سپرسٹاربن چکی ہوں اور مجھے بھی نخرے دکھانے چاہئیں ، مگرکچھ دیربعدہی میں سب کچھ بھلا دیتی تھی۔ میں ایک عام سی سادہ عورت ہوں اوراسی طرح زندگی بسر کرنا میری اولین ترجیح ہے۔ اگراللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دی تومیں دوبارہ گانا چاہوں گی اورلوگوںکو اپنے گیت سنانا چاہتی ہوں۔ان کی یہ خواہش ادھوری ہی رہ گئی۔


ریشماں کی وفات پرپاکستانی اوربھارتی فنکاروں کے تاثرات:

گلوکارہ شاہدہ منی نے کہا کہ ریشماں جی ہمارے ملک کی پہچان ہیں۔ وہ فوک گائیکی میں اپنا منفرد مقام رکھتی تھیں۔ انہوںنے اپنی منفرد آواز اور اندازگائیکی سے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کواپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ وہ پاکستان ہی نہیں دنیا کے بیشترممالک میں بھی یکساںمقبول تھیں۔ وہ طویل علالت کے باوجود فن موسیقی سے جڑی رہیں ۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔



گلوکارہ ثریا خانم نے کہا کہ ریشماں فوک اور صوفی گائیکی سمیت آئیڈیل انسان تھیں۔وہ حقیقی زندگی میں جس طرح سے سادہ اور ہنس مکھ تھیں ان کی گائیکی میں یہی سادگی اور مٹھاس نظر آتی تھی۔مجھے ان کا ایک گانا ''وے میں چوری چوری '' بے حد پسند تھا اور اسے اپنے انداز سے گاتی جو ملکہ ترنم نورجہاں کو بھی بہت اچھا لگا ۔ اس پر انہوں نے اپنے گھر ریشماں کی سالگرہ کی تقریب رکھ کر مجھے وہاں پر بلایا ،جہاں ان کے سامنے یہی گیت سنایا تو انہوں نے بڑی محبت اور شفقت کی۔یہ لمحات میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔انہوں نے فوک کے ساتھ صوفی کلام کو بھی پورے احساسات اور جذبات کے ساتھ گایا کہ سننے والوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔جب وہ بیمار تھیں تو ان کی عیادت کے لئے گئی تو وہ پہچان نہیں سکتی تھیں ان کی یہ حالت دیکھی نہ جاسکی اور گھر لوٹ آئی۔ گلوکارہ ترنم نازنے کہا کہ ''بلبل صحرا'' کے خطاب کی وہ صحیح حقدار تھیں انہوں نے اپنا یہ حق اپنی گائیکی کے ساتھ پوری ذمہ داری سے ادا کیا۔



پاکستان سمیت پوری دنیا میں موسیقی میں بالکل منفرد آواز تھی جو شاید ہی دوبارہ سننے کو ملے۔ فوک گائیکی میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔ وہ انسان بھی بہت اچھی اور ملنسار تھیں ۔ چھوٹے اور بڑوں کا دھیان رکھتیں۔ہرسال چار محرم کو میرے گھر نیاز پر آتیں ۔ میڈم نورجہاں خود ان کی بہت بڑی پرستار تھیں اور انہیں گھر بلا کر سنا کرتیں۔ موسیقار ذوالفقار علی عطرے نے کہا کہ بااخلاق خاتون اورسریلی گلوکارہ تھیں۔ ان کی آواز میں اپنا ہی ایک ردھم اورٹھہرائو تھا جو اسے دوسروں سے منفرد کرتا تھا ۔انہیں اپنی تین فلموں ''روگی'' ، ''انہونی'' اور ''عشق'' میں پلے بیک سنگر کی طور پر گانے ریکارڈ کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ریشماں کی وفات سے فوک موسیقی کا ایک روشن باب ختم ہوگیا ہے جس کا خلا کبھی پر نہیں ہوسکتا۔ گلوکارہ سائرہ نسیم نے کہا کہ موسیقی کی لیجنڈ تھیں جنہوں نے روایتی فوک موسیقی کے ذریعے ہی پوری دنیا میں ملک وقوم کا نام روشن کیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ایسے لیجنڈ فنکاروں کے کام کو میوزک میں نئے آنیوالوں کے لئے محفوظ کیا جائے۔



گلوکارہ فریحہ پرویز نے کہا کہ آج صحرا کی ملکہ بھی ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ہے، جو میوزک کے لئے بہت بری خبر ہے۔ہم ابھی زبیدہ خانم کے صدمے سے ابھی نکلے تھے کہ ایک اور دل گرفتہ خبر آگئی۔ گلوکارہ صنم ماروی نے کہا کہ ریشماں فوک موسیقی کے ماتھے کا جھومر تھیں جنہوں نے آخری سانس تک روایتی گائیکی کو ہی اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ۔ خوش قسمت ہوں کہ ان سے روزنامہ ایکسپریس کے زیراہتمام ہونیوالے فورم میں ملاقات ہوئی جومیرے ناسٹل جیا میں ہمیشہ سے محفوظ ہوکر رہ گئی ہے۔

بھارتی فلم انڈسٹری پربرسوں راج کرنیوالی اداکارہ سائرہ بانو نے کہا کہ ریشماں جیسی فنکارہ صدیوںمیں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ بہت سادہ طبیعت انسان تھیں، مگراللہ تعالیٰ نے انہیں فن کی دولت سے مالامال کررکھا تھا۔ وہ جب بھارت آتیں توان سے ملاقات ہوتی۔ میں ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے سامنے بیٹھ کرریشماں کولائیوسنا ہے۔ وہ بہت بڑی فنکارہ تھیں جن کی وفات سے پیداہونیوالا خلاء کبھی پرنہیںہوسکے گا۔ بالی وڈکے معروف پلے بیک سنگرسکھویندر نے کہا ہے کہ گلوکارہ ریشماں اپنے انداز کی ایک منفرد گائیکہ تھیں ان کی آواز میں جو درد اورروانی تھی وہ انہی کا خاصہ تھی۔ ان کی وفات کا سن کر دل دکھی ہوگیا ہے، یقین ہی نہیں آرہا کہ وہ اب ہم میں نہیں رہیں۔



 

گلیمرس ورلڈ میں شہرت تو مل جاتی ہے لیکن عزت بنانا بہت مشکل ہے مگر ریشماں جی نے یہاں شہرت کے ساتھ عزت بنائی،وہ میوزک انڈسٹری کا ایسا نام تھیں جنہوں نے بھارت اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں میوزک کے دلدادہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ بالی وڈ انڈسٹری میں انہوں نے چاہے کم کام کیا مگر وہ بھی لاجواب ہے ۔ میری ان سے کبھی ملاقات تو نہ ہوسکی مگر ان کے گانے سن رکھے ہیں ۔ان پر رب کا خاص کرم تھا کہ وہ اپنی گائیکی سے سننے والوں پر سحر طاری کردیتیں۔ گلوکارہ ریچاشرما نے کہا کہ میں توریشماں جی کو اپنی روحانی استاد مانتی ہوں۔ میں نے توگلوکاری کی تربیت ان کے گیت سن کر حاصل کی۔ ان کی آوازمیں جو مٹھاس تھی وہ کسی اورمیںنہیں مل سکی۔ ان کے انداز گائیکی سے راجھستانی کی مٹی کی خوشبو مہکتی تھی۔ وہ واقعی بہت عظیم فنکارہ تھیں۔ یہ میوزک ورلڈ کابہت بڑا نقصان ہے۔



گلوکار سردول سکندر نے کہا کہ دیوالی کے دن یہ خبر مجھ پر قیامت بن کر گری ہے ان کی بیماری کا مجھے علم نہیں تھا اگر یہ پتہ ہوتا توانسان خود کوایسی کسی خبر کے لئے تیار کرلیتا ہے مگر اچانک ہی آپ کو ایسی کوئی نیوز سنا دی جائے تو سنبھلنا مشکل ہوتا ہے۔ ایک گانا دماغی اور دوسرا فقیری ہوتا ہے۔ دماغی گانے میں دائوپیچ کے ذریعے سننے والوں کومتوجہ کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں جبکہ فقیری گائیکی سیدھا گاکر بھی روح میں اتر جاتی ہے۔ آج صبح بھی میں انہی کا ایک گانا ''چپ کرکے جندھڑی ٹرچلی ایں '' گن گنا رہا تھا،ان کا یہ گانا ''وے میں چوری چوری لا لیاں'' میرا فیورٹ ہے۔ رائٹر ڈائریکٹر مہیش بھٹ نے کہا کہ وہ ایک میٹھی اور سچے سروں والی گائیکہ تھی ۔ راجستھان اس کی جنم بھومی تھی اس مٹی کی خوشبو ان کی گائیکی میں نمایاں تھی ۔



مہیش بھٹ نے کہا کہ ان کی وفات موسیقی کے ساتھ اس صدی کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ایسے مہان گائیک حقیقت میں اوپر والے کا اوتار ہوتے ہیں جو اپنے فن کے ذریعے دنیا کو امن ، محبت اور بھائی چارے کا سبق یاد کرانے آتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ گلوکارہری ہرن نے کہا کہ موسیقی کی دنیا کیلئے یہ سال کچھ اچھا نہیںرہا۔ایک طرف مناڈے دنیا سے رخصت ہوگئے تو دوسری جانب پاکستان میں پہلے زبیدہ خانم جی اوراب ریشماں جی اللہ کوپیاری ہوگئی ہیں۔ ریشماں جی کا انداز اورآواز بہت منفرد تھا۔ میںنے انہیں لائیو پرفارم کرتے ہوئے بھی سنا ہے۔ وہ دکھنے میںجتنی سادہ تھیںاتنی ہی اچھی فنکارہ تھیں۔ گلوکارہربھجن مان نے کہا کہ ریشماں جی ہم جیسے گانے والوں کے لئے میوزک سکول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ان کے انتقال کی خبر سن کر ایسے لگ رہا ہے کے جسے ہمارے سر سے بڑے کا سایہ اٹھ گیا ہے۔
Load Next Story