قائد اعظم برصغیر کی سیاست کے مرد اول پہلا حصہ
برعظیم کی سیاسی زندگی میں یہ عرصہ بڑے نشیب و فراز اور کشمکش و اضطراب کا زمانہ ہے۔
QUETTA:
تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے جب مجھے قائد اعظم محمد علی جناح کی جہد مسلسل کے حوالے سے دو ضخیم اور قابل مطالعہ کتابیں موصول ہوئیں، ''قائد اعظم ایک مطالعہ'' کے مصنف و مولف جناب محمود اختر خان ہیں جب کہ دوسری کتاب ممتاز شاعرہ اور ادیبہ شاہدہ لطیف کی ہے عنوان ہے ''قائد اعظم محمد علی جناح' ایک سوانح۔۔۔۔ایک تاریخ''۔
تو پہلے ہم محمود اختر خان صاحب کی کتاب کو احاطہ تحریر میں لانے کی کوشش کریں گے مذکورہ کتاب 544 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں غالباً سو یا 100 سے زیادہ مضامین شامل ہیں۔ مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے گوکہ تمام مواد قائد اعظم محمد علی جناح کی خدمات پر منحصر ہے لیکن اس انداز فکر سے قاری کے لیے سہولت پیدا کردی گئی ہے۔ انتساب ڈاکٹر معین الدین عقیل کے نام ہے وہ ماہر تعلیم، محقق اور ریسرچ اسکالر ہیں اس کا ٹائٹل بھی قابل تعریف ہے اور یہ رافیل پبلیکیشن سے شایع ہوئی ہے۔
کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں وہ معلومات شامل کی گئی ہیں جس کا ذکر دوسری کتابوں میں کم ہی ملتا ہے اور اگر ہوتا بھی ہے تو قاری کی تشنگی برقرار رہتی ہے۔ پہلا مقالہ بعنوان ''قائد اعظم کا مسلک'' تحریر سید صابر حسین شاہ بخاری کی ہے وہ اپنے مضمون کی اس طرح ابتدا کرتے ہیں کہ ''یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ایک راسخ العقیدہ انسان تھے مصور پاکستان علامہ اقبال کے مرد مومن کی تمام صفات ان میں موجود تھیں وہ نہ صرف برصغیر کی سیاست کے مرد اول تھے بلکہ مسلمانان ہند کے ایک عظیم قائد تھے اسی مضمون میں ان لوگوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے جنھوں نے قائد اعظم کی کردار کشی کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
مسلمان کہلانے والے لیڈروں میں مولوی حسین احمد مدنی، عطا اللہ شاہ بخاری، ابوالکلام آزاد، مظہر علی اظہر اور عبدالغفار خان نے تحریک پاکستان کے موقع پر قائد اعظم کی مخالفت میں تقاریر کیں اور عبدالغفار خان کے بیٹے عبدالولی خان نے حقائق کو مسخ کرنے کے لیے ایک کتاب ''حقائق' حقائق ہیں'' لکھی اور اس کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ قائد اعظم کے دفاع میں مضامین تو لکھے گئے لیکن جزوی طور پر کسی نے بھی قائد اعظم کے کردار پر سیر حاصل گفتگو نہیں کی اس طرح قائد اعظم کی عظیم سیرت ایمان افروز پہلو تشنہ رہا۔
''قرآن کریم اور قائد اعظم'' کے عنوان سے سید صابر حسین شاہ صاحب بخاری نے اس طرح وضاحت کی ہے، قائد اعظم محمد علی جناح کا قرآن کریم کے بارے میں ایسا ہی عقیدہ تھا جو ایک راسخ العقیدہ مسلمان کا ہے۔ ان کا ہر ہر عمل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انھوں نے قرآن پاک کو واقعتاً اپنا رہنما بنا لیا تھا انھوں نے عید الفطر نومبر 1939ء کے موقع پر بمبئی میں فرمایا:
''مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآن پاک میں موجود ہے، ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن پاک کو غور سے پڑھیں، قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی۔'' ایک اور موقع پر انھوں نے فرمایا کہ مجھے عظیم فلاسفر اور مفکر ڈاکٹر اقبال سے نہ صرف پوری طرح اتفاق ہے بلکہ میں ان کا معتقد ہوں، میرا ایمان ہے کہ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ہے۔ قائد اعظم نے جب بھی تحریک پاکستان کا پرچم بلند کیا انھیں ہمیشہ مسنون طریقے ہی سے اللہ تعالیٰ جل شانہ کے حضور سربسجود ہوتے دیکھا گیا۔ انھوں نے ہمیشہ سواد اعظم اہل سنت و جماعت کی مساجد میں مسنون طریقے ہی سے نماز ادا کی۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں وہ صرف اور صرف ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے نظر آتے ہیں۔
قائد اعظم محفل میلاد میں بھی شرکت فرمایا کرتے تھے کتاب کے مولف نے لکھا ہے کہ بہادر یار جنگ 1934ء میں عید میلادالنبیؐ کے موقع پر قائد اعظم سے ملے۔ نواب بہادر یار جنگ بڑے خطیب تھے آپ قائد اعظم سے مل کر اتنے متاثر ہوئے کہ تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے دست راست ثابت ہوئے اسی طرح صحابہ کرام خلفائے راشدین کی سیرت کا بھرپور مطالعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار اپنے عمل صالحہ سے کیا۔ ان کی خواہش تھی کہ پاکستان میں عہد فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصویر عملی طور پر کھینچی جائے۔
قائد اعظم کے مذہب اور عقیدے پر کچھ لاعلم لوگ انگلیاں اٹھاتے ہیں کہ وہ خوجہ برادری سے تھے لیکن قائد اعظم نے اس کی وضاحت خود فرمائی ہے کہ لفظ خوجہ کی وجہ تسمیہ اپنے خاندان کا مشرف با اسلام ہونا اور ہزہائی نس آغا خان سے اپنے انحراف کی وجہ بیان کی آپ کے آبا و اجداد لوہانہ راجپوت تھے ان کے مورث اعلیٰ حضرت غوث اعظم کے خاندان کے ایک ممتاز فرد پیر سید عبدالرزاق کے ہاتھ پر بیعت کرکے مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔قائد اعظم چونکہ ایک حقیقت پسند انسان تھے اور تاریخ اسلام پر گہری نظر رکھتے تھے ہمیشہ یہی فرماتے ''مسلمانوں کی وحدت کی بنیاد ایک خدا ایک رسول اور ایک کتاب پر ہے۔''
محمود اختر خان صاحب نے بڑی محنت اور توجہ کے ساتھ وقیع مضامین کو یکجا کرکے کتاب کی شکل دی ہے۔ جناب راجہ رشید کے 24 مضامین کتاب کی وقعت میں اضافے کا باعث ہیں اور انھوں نے قائد اعظم کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔ قائد اعظم اور نظریہ پاکستان کے عنوان سے جو مضمون درج ہے اس میں وہ لکھتے ہیں کہ دو قومی نظریہ اس حقیقت پر ختم نہیں ہو جاتا کہ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا۔ دیکھنا چاہیے کہ واقعی قائد کے نزدیک مسلمانوں کا علیحدہ تشخص ہی پاکستان کے لیے جدوجہد کی بنیاد بنا تھا اگر یہی تھا تو پاکستان بن جانے کے بعد ہم نے اس نظریے کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر ہمارے گریبان کیا گواہی دیتے ہیں؟
بے شک راجہ رشید محمود صاحب نے قوم سے بڑی گہری بات کہہ دی ہے تفکر اور اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ نظریہ تعلیم کے حوالے سے 30 اکتوبر 1947ء کو لاہور میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے فرمایا آپ مستقبل کے معمار قوم ہیں اس لیے مناسب تعلیم و تربیت حاصل کیجیے۔ آج کے حالات پر اگر غور کیا جائے تو سوائے ندامت اور آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں ہے برسر اقتدار حضرات نے طلبا کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر اسلحہ پکڑا دیا ہے اور قائد اعظم کے تصور پاکستان کی دھجیاں بکھیر دیں اور ملک جہالت کے اندھیرے میں ڈوب گیا۔
جناب ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنے مضمون ''قائد اعظم، جہات و خدمات کے اچھوتے پہلو '' اپنی اس تحریر کے ذریعے جناب ڈاکٹر صاحب نے قائد اعظم کی جدوجہد آزادی اور تحریک خلافت کے بارے میں قارئین کے لیے آگہی کے دیے روشن کیے ہیں اور تاریخ کے اوراق کی رونمائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1906ء میں قائد اعظم نے بر عظیم کی سیاسی زندگی میں قدم رکھا تھا وہ پہلی مرتبہ منظر پر نمایاں ہوئے اور 1906ء سے 1947ء تک انھوں نے مستقل جدوجہد، دور اندیشی، جرأت مندی اور حق گوئی کی ایک مثال قائم کر دی۔
برعظیم کی سیاسی زندگی میں یہ عرصہ بڑے نشیب و فراز اور کشمکش و اضطراب کا زمانہ ہے۔ تحریک خلافت نے ہندوستان کی سیاست اور تحریک آزادی میں ایک شدید جوش و ولولہ پیدا کر دیا۔ تحریک خلافت کے مقصد سے برعظیم کے مسلمانوں کو آگاہ اور ان میں عمل و قربانی کی ایک تازہ روح ڈال دی۔ اس مضمون میں علی برادران کی قربانی، میثاق لکھنو، گاندھی جی کی اپنے عقائد کی تشہیر، مولانا محمد علی کی گاندھی کو ترغیب کہ وہ دونوں قوموں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔''
محمود اختر خان کے معلوماتی اور قابل مطالعہ مضامین اور جناب ابوالفرح ہمایوں کے تراجم کیا قائد اعظم پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے، قائد اعظم جیسی عظیم ہستی اور عظیم مقصد اور اس کی کامیابی کے حوالے سے تحریریں شامل اشاعت ہیں جو قابل تحسین ہیں۔ جناب محمود اختر خان اس سے قبل بھی بہت سی کتابیں ترتیب دے چکے ہیں، میں انھیں ان کی محنت شاقہ، علم و ادب سے لگن کو دیکھتے ہوئے خلوص دل کے ساتھ مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
(جاری ہے۔)
تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے جب مجھے قائد اعظم محمد علی جناح کی جہد مسلسل کے حوالے سے دو ضخیم اور قابل مطالعہ کتابیں موصول ہوئیں، ''قائد اعظم ایک مطالعہ'' کے مصنف و مولف جناب محمود اختر خان ہیں جب کہ دوسری کتاب ممتاز شاعرہ اور ادیبہ شاہدہ لطیف کی ہے عنوان ہے ''قائد اعظم محمد علی جناح' ایک سوانح۔۔۔۔ایک تاریخ''۔
تو پہلے ہم محمود اختر خان صاحب کی کتاب کو احاطہ تحریر میں لانے کی کوشش کریں گے مذکورہ کتاب 544 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں غالباً سو یا 100 سے زیادہ مضامین شامل ہیں۔ مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے گوکہ تمام مواد قائد اعظم محمد علی جناح کی خدمات پر منحصر ہے لیکن اس انداز فکر سے قاری کے لیے سہولت پیدا کردی گئی ہے۔ انتساب ڈاکٹر معین الدین عقیل کے نام ہے وہ ماہر تعلیم، محقق اور ریسرچ اسکالر ہیں اس کا ٹائٹل بھی قابل تعریف ہے اور یہ رافیل پبلیکیشن سے شایع ہوئی ہے۔
کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں وہ معلومات شامل کی گئی ہیں جس کا ذکر دوسری کتابوں میں کم ہی ملتا ہے اور اگر ہوتا بھی ہے تو قاری کی تشنگی برقرار رہتی ہے۔ پہلا مقالہ بعنوان ''قائد اعظم کا مسلک'' تحریر سید صابر حسین شاہ بخاری کی ہے وہ اپنے مضمون کی اس طرح ابتدا کرتے ہیں کہ ''یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ایک راسخ العقیدہ انسان تھے مصور پاکستان علامہ اقبال کے مرد مومن کی تمام صفات ان میں موجود تھیں وہ نہ صرف برصغیر کی سیاست کے مرد اول تھے بلکہ مسلمانان ہند کے ایک عظیم قائد تھے اسی مضمون میں ان لوگوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے جنھوں نے قائد اعظم کی کردار کشی کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
مسلمان کہلانے والے لیڈروں میں مولوی حسین احمد مدنی، عطا اللہ شاہ بخاری، ابوالکلام آزاد، مظہر علی اظہر اور عبدالغفار خان نے تحریک پاکستان کے موقع پر قائد اعظم کی مخالفت میں تقاریر کیں اور عبدالغفار خان کے بیٹے عبدالولی خان نے حقائق کو مسخ کرنے کے لیے ایک کتاب ''حقائق' حقائق ہیں'' لکھی اور اس کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ قائد اعظم کے دفاع میں مضامین تو لکھے گئے لیکن جزوی طور پر کسی نے بھی قائد اعظم کے کردار پر سیر حاصل گفتگو نہیں کی اس طرح قائد اعظم کی عظیم سیرت ایمان افروز پہلو تشنہ رہا۔
''قرآن کریم اور قائد اعظم'' کے عنوان سے سید صابر حسین شاہ صاحب بخاری نے اس طرح وضاحت کی ہے، قائد اعظم محمد علی جناح کا قرآن کریم کے بارے میں ایسا ہی عقیدہ تھا جو ایک راسخ العقیدہ مسلمان کا ہے۔ ان کا ہر ہر عمل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انھوں نے قرآن پاک کو واقعتاً اپنا رہنما بنا لیا تھا انھوں نے عید الفطر نومبر 1939ء کے موقع پر بمبئی میں فرمایا:
''مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآن پاک میں موجود ہے، ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن پاک کو غور سے پڑھیں، قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی۔'' ایک اور موقع پر انھوں نے فرمایا کہ مجھے عظیم فلاسفر اور مفکر ڈاکٹر اقبال سے نہ صرف پوری طرح اتفاق ہے بلکہ میں ان کا معتقد ہوں، میرا ایمان ہے کہ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ہے۔ قائد اعظم نے جب بھی تحریک پاکستان کا پرچم بلند کیا انھیں ہمیشہ مسنون طریقے ہی سے اللہ تعالیٰ جل شانہ کے حضور سربسجود ہوتے دیکھا گیا۔ انھوں نے ہمیشہ سواد اعظم اہل سنت و جماعت کی مساجد میں مسنون طریقے ہی سے نماز ادا کی۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں وہ صرف اور صرف ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے نظر آتے ہیں۔
قائد اعظم محفل میلاد میں بھی شرکت فرمایا کرتے تھے کتاب کے مولف نے لکھا ہے کہ بہادر یار جنگ 1934ء میں عید میلادالنبیؐ کے موقع پر قائد اعظم سے ملے۔ نواب بہادر یار جنگ بڑے خطیب تھے آپ قائد اعظم سے مل کر اتنے متاثر ہوئے کہ تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے دست راست ثابت ہوئے اسی طرح صحابہ کرام خلفائے راشدین کی سیرت کا بھرپور مطالعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار اپنے عمل صالحہ سے کیا۔ ان کی خواہش تھی کہ پاکستان میں عہد فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصویر عملی طور پر کھینچی جائے۔
قائد اعظم کے مذہب اور عقیدے پر کچھ لاعلم لوگ انگلیاں اٹھاتے ہیں کہ وہ خوجہ برادری سے تھے لیکن قائد اعظم نے اس کی وضاحت خود فرمائی ہے کہ لفظ خوجہ کی وجہ تسمیہ اپنے خاندان کا مشرف با اسلام ہونا اور ہزہائی نس آغا خان سے اپنے انحراف کی وجہ بیان کی آپ کے آبا و اجداد لوہانہ راجپوت تھے ان کے مورث اعلیٰ حضرت غوث اعظم کے خاندان کے ایک ممتاز فرد پیر سید عبدالرزاق کے ہاتھ پر بیعت کرکے مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔قائد اعظم چونکہ ایک حقیقت پسند انسان تھے اور تاریخ اسلام پر گہری نظر رکھتے تھے ہمیشہ یہی فرماتے ''مسلمانوں کی وحدت کی بنیاد ایک خدا ایک رسول اور ایک کتاب پر ہے۔''
محمود اختر خان صاحب نے بڑی محنت اور توجہ کے ساتھ وقیع مضامین کو یکجا کرکے کتاب کی شکل دی ہے۔ جناب راجہ رشید کے 24 مضامین کتاب کی وقعت میں اضافے کا باعث ہیں اور انھوں نے قائد اعظم کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔ قائد اعظم اور نظریہ پاکستان کے عنوان سے جو مضمون درج ہے اس میں وہ لکھتے ہیں کہ دو قومی نظریہ اس حقیقت پر ختم نہیں ہو جاتا کہ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا۔ دیکھنا چاہیے کہ واقعی قائد کے نزدیک مسلمانوں کا علیحدہ تشخص ہی پاکستان کے لیے جدوجہد کی بنیاد بنا تھا اگر یہی تھا تو پاکستان بن جانے کے بعد ہم نے اس نظریے کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر ہمارے گریبان کیا گواہی دیتے ہیں؟
بے شک راجہ رشید محمود صاحب نے قوم سے بڑی گہری بات کہہ دی ہے تفکر اور اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ نظریہ تعلیم کے حوالے سے 30 اکتوبر 1947ء کو لاہور میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے فرمایا آپ مستقبل کے معمار قوم ہیں اس لیے مناسب تعلیم و تربیت حاصل کیجیے۔ آج کے حالات پر اگر غور کیا جائے تو سوائے ندامت اور آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں ہے برسر اقتدار حضرات نے طلبا کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر اسلحہ پکڑا دیا ہے اور قائد اعظم کے تصور پاکستان کی دھجیاں بکھیر دیں اور ملک جہالت کے اندھیرے میں ڈوب گیا۔
جناب ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنے مضمون ''قائد اعظم، جہات و خدمات کے اچھوتے پہلو '' اپنی اس تحریر کے ذریعے جناب ڈاکٹر صاحب نے قائد اعظم کی جدوجہد آزادی اور تحریک خلافت کے بارے میں قارئین کے لیے آگہی کے دیے روشن کیے ہیں اور تاریخ کے اوراق کی رونمائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1906ء میں قائد اعظم نے بر عظیم کی سیاسی زندگی میں قدم رکھا تھا وہ پہلی مرتبہ منظر پر نمایاں ہوئے اور 1906ء سے 1947ء تک انھوں نے مستقل جدوجہد، دور اندیشی، جرأت مندی اور حق گوئی کی ایک مثال قائم کر دی۔
برعظیم کی سیاسی زندگی میں یہ عرصہ بڑے نشیب و فراز اور کشمکش و اضطراب کا زمانہ ہے۔ تحریک خلافت نے ہندوستان کی سیاست اور تحریک آزادی میں ایک شدید جوش و ولولہ پیدا کر دیا۔ تحریک خلافت کے مقصد سے برعظیم کے مسلمانوں کو آگاہ اور ان میں عمل و قربانی کی ایک تازہ روح ڈال دی۔ اس مضمون میں علی برادران کی قربانی، میثاق لکھنو، گاندھی جی کی اپنے عقائد کی تشہیر، مولانا محمد علی کی گاندھی کو ترغیب کہ وہ دونوں قوموں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔''
محمود اختر خان کے معلوماتی اور قابل مطالعہ مضامین اور جناب ابوالفرح ہمایوں کے تراجم کیا قائد اعظم پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے، قائد اعظم جیسی عظیم ہستی اور عظیم مقصد اور اس کی کامیابی کے حوالے سے تحریریں شامل اشاعت ہیں جو قابل تحسین ہیں۔ جناب محمود اختر خان اس سے قبل بھی بہت سی کتابیں ترتیب دے چکے ہیں، میں انھیں ان کی محنت شاقہ، علم و ادب سے لگن کو دیکھتے ہوئے خلوص دل کے ساتھ مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
(جاری ہے۔)