حساس اور اہم سماجی موضوعات پر مبنی مواد نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ

زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیم کے نام سے سندھ بھرکے7 ہزارسے زائد اساتذہ کو مختلف موضوعات پر تربیت دی گئی

اساتذہ کو جن موضوعات پر تربیت دی گئی ان میں سے کچھ کو تدریسی نصاب میں شامل کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا۔ فوٹو:فائل

حکومت سندھ نے حساس اور انتہائی اہم سماجی موضوعات پر مبنی مواد کو نصاب میں شامل کرنے کے سلسلہ شروع کرتے ہوئے ان کی تدریس کیلیے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو باقاعدہ تربیت دے دی ہے اور زندگی گزارنے کی مہارتوں پر مبنی تعلیمLife Skills Based Education (LSBE) کے نام سے سندھ بھر کے 7 ہزارسے زائد اساتذہ کوجن موضوعات پرتربیت دی گئی ہے۔

''بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی (اچھا اور برا لمس)Good and Bad touch، آبادی میں اضافے کے انسانی زندگی پر اثرات، جنس اور صنف کے فرق کی وضاحت (مرد اور عورت کے مابین جنس کے فرق کافہم بڑھانا)، تشدد (طاقت اور اختیارکی بنیادپرکیاجانے والاجنسی تشدد)، بلوغت کے معاملات،کسی بھی مذہب، رنگ یانسل سے تعلق رکھنے والے فرد کی قدروں کااحترام،صنفی برابری اور ہم عمروں کا دباؤسمیت دیگرکئی اہم موضوعات شامل ہیں، ان میں سے کچھ موضوعات براہ راست اسکولوں کے تدریسی نصاب میں شامل کرنے کاسلسلہ شروع ہوچکا ہے، اساتذہ ان موضوعات کوتدریس کاحصہ بنائیں گے۔

سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی تربیت کے لیے تیارکردہ مواد اور اس میں بعض موضوعات کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کرنے کے سلسلے میں محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کے ذیلی ادارے پرووینشل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچرٹریننگ (پائیٹ PITE)،سندھ ٹیچرزایجوکیشن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (اسٹیڈاSTEDA) اور مقامی این جی اوآہنگ کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کیا گیا ہے۔

اسٹیڈاکے سربراہ عبدالمجید برت نے ''ایکسپریس'' سے ان میں سے بعض موضوعات کوسندھ کے سرکاری نصاب میں شامل کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایاکہ فی الحال ساتویں جماعت کی معاشرتی علوم کے علاوہ لسانیات (انگریزی، اردو اور سندھی) زبانوں کی درسی کتاب میں ان موضوعات کوشامل کیاگیاہے۔

''ایکسپریس'' کو سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی تربیت کیلیے تیارکردہ نصاب تک رسائی حاصل ہوئی اس نصاب کے تفصیلی جائزے سے معلوم ہواہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی (اچھا اور برا لمس) Good and Bad touch کے موضوع پرسرکاری اسکولوں کے اساتذہ کودی جانے والی تربیت کامقصد اس حوالے سے آگاہی فراہم کرنا اور انھیں جنسی بدسلوکی سے بچاؤ کے لیے رابطہ کاری استوارکرناہے۔

اس حوالے سے نصاب میں معاملے کوزیربحث لاتے ہوئے کہاگیاہے کہ ''جنسی بدسلوکی سے مراد کسی طاقتور فرد کا کمزور فرد (خصوصاً بچوں) کوجنسی لحاظ سے جسمانی یاغیرجمسانی سرگرمیوں مثلاًغیرموزوں بات چیت، عریاں فلمیں یا تصاویر دیکھنے اوربنوانے کے لیے مجبورکرنا، ایسا چھوناجس سے خوشی کا احساس ہو (اچھا لمس چھوناGood touch) ہے۔

آبادی میں اضافے کے انسانی زندگی پر اثرات کے موضوع پر دی گئی تربیت سے متعلق کتابچے(ہینڈ آؤٹ)میں بتایا گیا ہے کہ اس مواد کومعاشرتی علوم ساتویں جماعت کی کتاب میں ''آبادی'' سے متعلق سبق میں شامل کیاجارہاہے۔


مزید کہا گیا ہے کہ طبی سائنسی تحقیقات کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ 18سال سے کم عمرلڑکیوں کی جسمانی اورذہنی نشونما مکمل نہیں ہوتی لہذاکم عمری میں شادی کردینے سے ان میں خون کی کمی اور دوسری جمسانی کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، اسی طرح جنس اور صنف کے فرق کی وضاحت (مرد اور عورت کے مابین جنس کے فرق کا فہم بڑھانا) کے موضوع پر اساتذہ کو دی گئی تربیت کے نصاب میں کہاگیا ہے۔

تشددکے عنوان سے (طاقت اوراختیارکی بنیاد پر کیاجانے والاجنسی تشدد) کے بارے میں کہاگیاہے کہ تشددخواہ زبانی ہو، جسمانی ہو، ذہنی ہو یا جنسی زبردستی کی شکل میں ہویہ کسی بھی صورت جائز نہیں ہے چاہے متعلقہ فرد (بیوی، بچہ، بہن، بھائی، شاگرد دوست وغیرہ) سے کوئی غلطی ہی کیوں نہ سرزرد ہوئی ہو ہمارے معاشرے میں جسمانی تشدد کو اصلاح اور تربیت کرنے کے لیے لازمی امرسمجھاجاتاہے۔

مزیدبراں اساتذہ کوپڑھائے گئے نصاب میں بلوغت کے معاملات کے بارے میں بتایاگیاہے کہ بلوغت کادوراس لحاظ سے اہم اور مخصوص دورہے کہ اس میں تمام صحت مند بچے (لڑکیاں اور لڑکے)فطری طورپر کچھ خاص جسمانی اورذہنی تبدیلیوں سے گزرتے ہوئے اپنے لڑکپن (بچپن) کی حدودمیں سے نوجوانی میں داخل ہوتے ہیں۔

بلوغت کی جسمانی تبدیلیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایاگیاہے کہ ''قدکاتیزی سے بڑھنا، چہرے پر دانے ،جسم پربال اگنا''جبکہ ذہنی تبدیلیوں کے حوالے سے کہاگیاہے کہ''خودکوبڑا سمجھنا ،مخالف جنس میں کشش محسوس کرنا اورتبدیلیوں کی وجہ سے الجھن محسوس کرنا'' شامل ہے۔

ادھر ''کسی بھی مذہب ،رنگ یانسل سے تعلق رکھنے والے فرد کی قدروں کااحترام''کے حوالے سے اردوکی ساتویں جماعت کی کتاب کے صفحہ 101کے عنوان ''ہمارے طورطریقے'' میں ایک پیراگراف شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کے ایک افسر نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ ان میں سے بعض موضوعات پر دوران تربیت اساتذہ کی جانب سے اعتراضات سامنے آئے تھے کچھ اساتذہ خود ان موضوعات کوسننے اوران پر بات چیت کرنے سے گریزاں تھے جبکہ کچھ کاخیال تھاکہ ان موضوعات پر دوران تدریسی گفتگوانتہائی دشوارہے۔

 
Load Next Story