ڈرون حملہ حکومت واپوزیشن آج آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیگی
نیٹو سپلائی کی بندش کے مطالبے پرغورمتوقع،وزیراعظم آرمی چیف ملاقات بھی ہوگی
کالعدم تحریک طالبان سے امن مذاکرات شروع کیے جانے سے چندگھنٹے قبل امریکی ڈرون حملے سے پیداشدہ صورت حال کاجائزہ لینے کے لیے حکومت اور اپوزیشن جماعتیں آج الگ الگ اجلاسوںمیں آئندہ کے لائحہ عمل کوحتمی شکل دیں گی۔
وزیراعظم نوازشریف آج لاہور سے بذریعہ ہیلی کاپٹر خیرپور ٹامیوالی پہنچیںگے جہاںتقریباً دوماہ سے جاری پاک فوج کی جنگی مشقوں''عزم نو'' کی اختتامی تقریب میںشرکت کریںگے۔ خیر پور ٹامیوالی پہنچنے پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی کور کمانڈر بہاولپور کے ہمراہ ان کااستقبال کریںگے۔ مشقوںکے معائنے کے بعد وزیراعظم چیف آف آرمی اسٹاف کیساتھ تازہ ترین ڈرون حملوںکے نتیجے میں متاثر ہونیوالے امن مذاکرات کے حوالے سے تبادلہ خیال کریںگے۔عسکری قیادت کی رائے جان لینے کے بعدوزیراعظم اسلام آباد پہنچیں گے جہاں انھوںنے پہلے سے ہی اپنی کابینہ کااجلاس طلب کررکھا۔ وفاقی کابینہ کے اس غیر معمولی اہمیت کے اجلاس میںوزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان شرکاء کوڈرون حملے کے بعدکی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دیںگے۔
وزیراعظم کابینہ ارکان کوبتائیںگے کہ انھوںنے اپنے دورہ واشنگٹن کے دوران امریکی صدر باراک اوباما، نائب صدر جوبائیڈن، وزیرخارجہ جان کیری اور دیگر اہم عہدیداروں کو بارہا یقین دہانی کرائی کہ پاکستان امریکا کی افغانستان سے پرامن واپسی یقینی بنانے کیلیے ہرممکن تعاون فراہم کریگا اور ہم امریکا سے بھی یہی توقع رکھتے ہیںکہ وہ بھی ہمارے داخلی مسائل کوسمجھتے ہوئے شدت پسندی کی راہ پر چلنے والوں کیساتھ مذاکرات کے عمل کی کامیابی کیلیے ہرممکن تعاون کرے۔ وزیراعظم یہ بھی بتائیںگے کہ امریکی حکام کواسلام آبادمیں وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان اور امریکا میںوہ خودیہ باور کراتے رہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کیخلاف ہیں اور ان کے جاری رہنے سے مذاکرات کے عمل میںرخنہ پڑنے کاخدشہ ہے۔ ذرائع کے مطابق توقع کی جارہی ہے کہ وفاقی حکومت کابینہ کے اجلاس کے بعد شمالی وزیرستان ڈرون حملے پر بھرپور احتجاج اور اپوزیشن رہنماعمران خان اور خیبر پختونخواحکومت کی جانب سے نیٹوسپلائی روکنے کے مطالبات کے حوالے سے بھی لائحہ عمل طے کرے گی۔
ادھر قومی اسمبلی میںاپوزیشن جماعتوںکااجلاس بھی اپوزیشن لیڈرسیدخورشیدشاہ کی زیرصدارت آج اسلام آباد میں ہوگاجس میںآج سہ پہر کوشروع ہونیوالے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاجی لائحہ عمل کوحتمی شکل دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق ڈرون حملے رکوانے اور نیٹوسپلائی کے حوالے سے سخت ترین موقف رکھنے والی تحریک انصاف نے بھی قومی وصوبائی اسمبلیوںکے اجلاسوںکے حوالے سے اپنالائحہ عمل طے کرلیاہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی میںامن مذاکرات کوسبوتاژ کرنے کیخلاف اور ڈرون طیارے مارگرانے جبکہ نیٹوسپلائی بندکردینے کیلیے سخت ترین موقف کی حامل قرار دادیں تیار کرلی گئی ہیں۔
تحریک انصاف خیبرپختونخوااسمبلی کے آج شروع ہونیوالے اجلاس میںمتفقہ قراردادپاس کرانے میںکامیاب ہوجائے گی کیونکہ وہاںان کی اپوزیشن جماعتوںجے یوآئی(ف) اور اے این پی نے بھی قراردادیںلانے کااعلان کردیاہے ، اس لیے تمام جماعتوںکی جانب سے پیش کی گئی قراردادوںکویکجاکرکے ایک حتمی مذمتی قراردادپیش کی جائے گی ۔ وفاقی حکومت اس بات پر بھی غورکررہی ہے کہ اگر قومی وصوبائی اسمبلیوں میں اپوزیشن جماعتوںکی جانب سے انتہائی سخت موقف سامنے آیااور ملک گیراحتجاج کی صورت بنتی نظر آئی توملک گیر ہڑتال سے اربوںروپے کے کاروباری نقصان سے بچنے کیلیے وفاقی حکومت متفقہ قومی لائحہ عمل طے کرنے کیلیے ایک اور آل پارٹیز کانفرنس بلالے لیکن اس بات کاتمام ترانحصار آج ہونے والے اپوزیشن جماعتوںاور قومی وصوبائی اسمبلی کے اجلاسوںکے دوران سامنے آنے والی صورت حال اور امریکا کی جانب سے اس احتجاج کے جواب میںپیش کیے جانے والے ممکنہ موقف پر ہے۔
وزیراعظم نوازشریف آج لاہور سے بذریعہ ہیلی کاپٹر خیرپور ٹامیوالی پہنچیںگے جہاںتقریباً دوماہ سے جاری پاک فوج کی جنگی مشقوں''عزم نو'' کی اختتامی تقریب میںشرکت کریںگے۔ خیر پور ٹامیوالی پہنچنے پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی کور کمانڈر بہاولپور کے ہمراہ ان کااستقبال کریںگے۔ مشقوںکے معائنے کے بعد وزیراعظم چیف آف آرمی اسٹاف کیساتھ تازہ ترین ڈرون حملوںکے نتیجے میں متاثر ہونیوالے امن مذاکرات کے حوالے سے تبادلہ خیال کریںگے۔عسکری قیادت کی رائے جان لینے کے بعدوزیراعظم اسلام آباد پہنچیں گے جہاں انھوںنے پہلے سے ہی اپنی کابینہ کااجلاس طلب کررکھا۔ وفاقی کابینہ کے اس غیر معمولی اہمیت کے اجلاس میںوزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان شرکاء کوڈرون حملے کے بعدکی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دیںگے۔
وزیراعظم کابینہ ارکان کوبتائیںگے کہ انھوںنے اپنے دورہ واشنگٹن کے دوران امریکی صدر باراک اوباما، نائب صدر جوبائیڈن، وزیرخارجہ جان کیری اور دیگر اہم عہدیداروں کو بارہا یقین دہانی کرائی کہ پاکستان امریکا کی افغانستان سے پرامن واپسی یقینی بنانے کیلیے ہرممکن تعاون فراہم کریگا اور ہم امریکا سے بھی یہی توقع رکھتے ہیںکہ وہ بھی ہمارے داخلی مسائل کوسمجھتے ہوئے شدت پسندی کی راہ پر چلنے والوں کیساتھ مذاکرات کے عمل کی کامیابی کیلیے ہرممکن تعاون کرے۔ وزیراعظم یہ بھی بتائیںگے کہ امریکی حکام کواسلام آبادمیں وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان اور امریکا میںوہ خودیہ باور کراتے رہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کیخلاف ہیں اور ان کے جاری رہنے سے مذاکرات کے عمل میںرخنہ پڑنے کاخدشہ ہے۔ ذرائع کے مطابق توقع کی جارہی ہے کہ وفاقی حکومت کابینہ کے اجلاس کے بعد شمالی وزیرستان ڈرون حملے پر بھرپور احتجاج اور اپوزیشن رہنماعمران خان اور خیبر پختونخواحکومت کی جانب سے نیٹوسپلائی روکنے کے مطالبات کے حوالے سے بھی لائحہ عمل طے کرے گی۔
ادھر قومی اسمبلی میںاپوزیشن جماعتوںکااجلاس بھی اپوزیشن لیڈرسیدخورشیدشاہ کی زیرصدارت آج اسلام آباد میں ہوگاجس میںآج سہ پہر کوشروع ہونیوالے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاجی لائحہ عمل کوحتمی شکل دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق ڈرون حملے رکوانے اور نیٹوسپلائی کے حوالے سے سخت ترین موقف رکھنے والی تحریک انصاف نے بھی قومی وصوبائی اسمبلیوںکے اجلاسوںکے حوالے سے اپنالائحہ عمل طے کرلیاہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی میںامن مذاکرات کوسبوتاژ کرنے کیخلاف اور ڈرون طیارے مارگرانے جبکہ نیٹوسپلائی بندکردینے کیلیے سخت ترین موقف کی حامل قرار دادیں تیار کرلی گئی ہیں۔
تحریک انصاف خیبرپختونخوااسمبلی کے آج شروع ہونیوالے اجلاس میںمتفقہ قراردادپاس کرانے میںکامیاب ہوجائے گی کیونکہ وہاںان کی اپوزیشن جماعتوںجے یوآئی(ف) اور اے این پی نے بھی قراردادیںلانے کااعلان کردیاہے ، اس لیے تمام جماعتوںکی جانب سے پیش کی گئی قراردادوںکویکجاکرکے ایک حتمی مذمتی قراردادپیش کی جائے گی ۔ وفاقی حکومت اس بات پر بھی غورکررہی ہے کہ اگر قومی وصوبائی اسمبلیوں میں اپوزیشن جماعتوںکی جانب سے انتہائی سخت موقف سامنے آیااور ملک گیراحتجاج کی صورت بنتی نظر آئی توملک گیر ہڑتال سے اربوںروپے کے کاروباری نقصان سے بچنے کیلیے وفاقی حکومت متفقہ قومی لائحہ عمل طے کرنے کیلیے ایک اور آل پارٹیز کانفرنس بلالے لیکن اس بات کاتمام ترانحصار آج ہونے والے اپوزیشن جماعتوںاور قومی وصوبائی اسمبلی کے اجلاسوںکے دوران سامنے آنے والی صورت حال اور امریکا کی جانب سے اس احتجاج کے جواب میںپیش کیے جانے والے ممکنہ موقف پر ہے۔