دنیائے نیٹ میں فیک نیوزکی بھارتی فیکٹریاں
عالمی سطح پرپاکستان کو بدنام کرنے والی دشمن کی ففتھ جنریشن وار کا مکروہ روپ
بھارت کی مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں مسلم دشمن شہریت کا قانون منظور کرا کر انسانی حقوق پیروں تلے روند ڈالے۔بھارتی حکمران طبقہ نہتے کشمیریوں پر لرزہ خیز ظلم وستم کر رہا ہے۔
اس نے بھارتی مسلمانوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے۔طرفہ تماشہ یہ کہ عالمی سطح پر بھارت کے بجائے پاکستان کو فسادی ودہشت گرد ملک سمجھا جاتا ہے۔پاکستانی حکومت کو بین الاقومی فورموں میں صفائیاں پیش کرنا پڑتی ہیں جبکہ بھارت ترقی کرتا روشن خیال ملک قرار پاتا ہے۔
یا الہی، یہ ماجرا کیا ہے؟دور جدید میں سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنانے میں دنیائے نیٹ میں گردش کرتی جھوٹی خبریں یعنی فیک نیوز بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔درحقیقت یہ ''ففتھ جنریشن وار''کا کاری ہتھیار بن چکیں ۔دور جدید کے اس طریق جنگ میں ہر ممکن طریقے سے ایک مملکت کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر نقصان پہنچایا جاتا ہے تاکہ اسے کمزور کیا جاسکے۔ مثلاً بھارتی حکومت ٹویٹر پر مسلمانوں والے ناموں کے جعلی اکاؤنٹ بنا کر شہریت بل کے حق میں ٹویٹ کرتی رہی۔
چال بازی دنیا والوں پر آشکارا
یورپی یونین کی تنظیموں نے چند ماہ قبل یہ حیرت انگیز سچائی افشا کی کہ بھارت نے دنیا کے65 ممالک میںجعلی و جھوٹی خبریں تخلیق کرنے والی 265 نیوز ویب سائٹس کھول رکھی ہیں۔ ان سے مسلسل پاکستان کے خلاف انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ''فیک'' خبریں پھیلائی جارہی تھیں تاکہ مملکت پاک کو عالمی سطح پر بدنام کیا جاسکے۔
یوں عیار و مکار بھارتی حکمران طبقے کی ایک اور چال بازی دنیا والوں پر آشکارا ہوگئی۔ اردو میں اسی طبقے کے متعلق یہ مثل بجا طور پر تخلیق ہوئی: ''بغل میں چھری، منہ پر رام رام۔'' بھارتی حکمران بظاہر دیانت دار اور معاملات میں کھرے دکھائی دیتے ہیں لیکن اندرون خانہ وہ عیاری و مکاری کا مثالی نمونہ ہیں۔
دور جدید میں دنیائے انٹرنیٹ تازہ ترین خبروں اور معلومات کی فراہمی اور باہمی رابطے کاایک بڑا ذریعہ بن چکی۔ آج صرف پاکستان میں پانچ کروڑ سے زائد مردوزن نیٹ استعمال کرتے ہیں۔ نیٹ پر خبریں بہم پہنچانے والی ہزارہا نیوز ویب سائٹس وجود میں آچکیں۔ سوشل میڈیا کی سائٹس بھی تازہ خبریں اور معلومات فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ چناں چہ اب نیٹ کاطاقتورمیڈیا بھی بین الاقوامی سطح پر لوگوں کی نفسیات پر اثر انداز ہوتا اور مختلف رجحانات کی سمت متعین کرتا ہے۔
نیٹ کی بڑھتی مقبولیت نے ہی مگر اسے حکومتوں کی توجہ کا بھی مرکز بنا دیا۔ یہ حکومتیں اب دشمنوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کی خاطر جعلی و جھوٹی خبریں اور معلومات کا سہارا لے رہی ہیں۔ یہ خبریں حکومتی ویب سائٹوں کے علاوہ ایسی نیوز سائٹس سے بھی دنیائے نیٹ میں پھیلائی جاتی ہیں جو بظاہر کسی حکومت سے تعلق نہیں رکھتیں۔
بھارت کی شاطر مودی حکومت نے دنیا بھر میں ایسی ہی 265 نیوز ویب سائٹس کا نیٹ ورک قائم کررکھا تھا۔ ان کے ذریعے پاکستان کے خلاف جعلی خبریں اور مضمون نیٹ میں پھینکے جارہے تھے تاکہ خصوصاً یورپی ممالک اور امریکا و کینیڈا میں پاکستانی حکومت کی ساکھ متاثر کی جاسکے۔ ان ملکوں کے عوام و خواص میں پاکستانی حکومت اور پاکستانی قوم کے خلاف منفی و نفرت انگیزجذبات و خیالات جنم لے سکیں۔گویا بھارتی نفرت کی نفسیات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا کھیل کھیلنے میں مصروف تھے۔ان سبھی سائٹس نے فیس بک اور ٹوٹیر پر بھی اپنے اکاؤنٹ کھول رکھے تھے۔
ایک غلطی مہنگی پڑی
چانکیہ فلسفے کی پیروکار مودی حکومت کا پاکستان کے خلاف مکروہ اور گھناؤنا منصوبہ اتفاق سے پکڑا گیا۔ کہتے ہیں کہ شاطر ترین مجرم بھی جرم انجام دیتے ہوئے، کوئی نہ کوئی ایسی غلطی ضرور کرجاتا ہے کہ اس کے ذریعے قانون کے ہاتھ مجرموں کی گردن تک پہنچ سکیں۔
جعلی 265 نیوز ویب سائٹس کا نیٹ ورک چلانے والے بھارتیوں سے بھی بے پناہ احتیاط کے باوجود ایک غلطی سرزد ہوگئی۔ہوا یہ کہ بھارتی نیٹ ورک کے کرتا دھرتا اپنی ایک ویب سائٹ eptoday.com پر روس کے نیوز چینل، آرٹی کام اور امریکی نیوز ادارے، وائس آف امریکا کی رپورٹس کثیر تعداد میں دینے لگے۔ کسی نے یورپی یونین کے ادارے، ایسٹ سٹارٹ کام ٹاسک فورس(East StratCom Task Force) کو شکایت کردی۔ یہ ادارہ یورپی ممالک میں جعلی خبریں و معلومات دینے والی نیوز سائٹس پر نظر رکھتا اور ان پر پابندیاں لگاتا ہے۔
اوائل اکتوبر میں ادارے نے یہ خبر دی کہ eptoday.com مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہے۔یہ خبر برسلز (بیلجیئم) میں متحرک ایک غیر سرکاری تنظیم، ای یوڈس انفولیب(EU DisinfoLab) کے کارپردازوں کی نظر سے بھی گزری۔ اس غیر سرکاری تنظیم سے منسلک افراد بھی یورپی یونین میں جعلی نیوز ویب سائٹس کی کھوج میں رہتے اور ان کی اصلیت کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ اب eptoday.com سے متعلق خبر نے ان کے کان کھڑے کردیئے۔ وہ فوراً اس نیوز ویب سائٹ پر پہنچے اور اس کے مواد کی جانچ پڑتال کرنے لگے۔
ای پی ٹوڈے ویب سائٹ نے دعویٰ کررکھا تھا کہ وہ یورپی پارلیمنٹ کے امور سے متعلق مضامین و خبریں شائع کرنے والا ایک رسالہ شائع کرتی ہے۔ لیکن جب ای یوڈس انفولیب کے ماہرین نے ویب سائٹ پر موجود مواد کا جائزہ لیا تو انکشاف ہوا کہ مضامین کی اکثریت کا تعلق پاکستانی اقلیتوں کے بے بنیاد مسائل، بلوچستان میں جاری نام نہاد بغاوت اور دیگر بھارتی امور سے ہے۔
گویا مضامین میں یورپی ممالک نہیں پاکستان اور بھارت کے امور زیر بحث تھے۔ دوسرا انکشاف یہ ہوا کہ سبھی مضامین پاکستان کے خلاف تھے۔ ہر مضمون میں پاکستانی حکومت پر کوئی نہ کوئی الزام دھرا گیا اور پاکستان نشانہ بنا تھا۔
ای یو ڈس انفولیب میں یہ بندوبست موجود ہے کہ دیکھا جاسکے، کوئی بھی نیوز ویب سائٹ کہاں سے لانچ کی گئی، اس کا سرور کہاں واقع ہے اور کون اسے چلا رہا ہے۔ یہ معلومات مصنوعی ذہانت پر مبنی سافٹ ویئرز اور افرادی قوت کے ملاپ سے اکٹھی کی جاتی ہے۔ چناں چہ تنظیم کے ماہرین یہ جاننے کی خاطر سرگرم ہوگئے کہ ای پی ٹوڈے نیوز ویب سائٹ کے پیچھے کون لوگ کارفرما ہیں۔ اس نیوز ویب سائٹ کی ماہیت نے انہیں چوکنا کردیا تھا۔ بظاہر وہ یورپی پارلیمنٹ کے امور کی سائٹ تھی لیکن اس کے مضامین بھارتی حکومت کے جغرافیائی سیاسی (جیوپولیٹیکل)مفادات کی تکمیل کرتے تھے۔ اسی بات نے جعلی خبروں پر نگاہ رکھنے والی یورپی غیر سرکاری تنظیم کے ماہروں کو ہوشیار کردیا۔
مالک بھارتی نکل آئے
تحقیق شروع ہوئی تو آئی پی ایڈریسوں، سروروں، روٹروں اور ویب سائٹس کے دیگر متعلقہ آلات اور سافٹ ویئرز کی مدد سے ماہرین نے آخر کار پتا چلا لیا کہ ای پی ٹوڈے نیوز ویب سائٹ نئی دہلی کی ایک کمپنی نے کھول رکھی ہے۔ گویا اس ویب سائٹ کے مالکان بھارتی نکل آئے۔ یہ کمپنی ایک بھارتی کاروباری گروپ، سری واستو گروپ کی ملکیت تھی۔جب تحقیق کا دائرہ کار پھیلا، تو یہ نیا انکشاف ہوا کہ سری واستو گروپ سے منسلک دیگر کمپنیوں اور تھنک ٹینکس نے بھی مختلف ممالک میں نیوز ویب سائٹس کھول رکھی ہے۔ گویا وہ بھارتی افراد کی ملکیت تھیں... لیکن نیوز ویب سائٹس کے ناموں سے عیاں نہیں تھا کہ وہ بھارتی باشندوں نے کھولی ہوئی ہیں۔
ان ویب سائٹس کے نام ملاحظہ فرمائیں: ٹائمز آف جنیوا ، دی امریکن ویکلی، ٹائمز آف بلغاریہ، ٹائمز آف سائپرس، دی دہلی ٹائمز، ٹائمز آف لاس اینجلس، نیویارک مارننگ ٹیلی گراف، ٹائمز آف پیاننگ،فور نیوز ایجنسی اور اسی قسم کے دیگر نام۔ان سے عیاں ہے کہ جعلی ویب سائٹوں کے نام مشہور اخبارات کے ناموں سے ملتے جلتے رکھے گئے۔ مقصد یہ تھا کہ ان ویب سائٹس پر آنے والے لوگ انہیں معیاری اور مصدقہ تسلیم کرلیں۔ اس طرح عام لوگوں کو چکمہ دینے اور ان کی نفسیات سے کھیلنے کی کوشش کی گئی۔ ان کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کی سعی ہوئی کہ ویب سائٹوں پر قابل اعتماد مواد موجود ہے حالانکہ وہ سراسر بوگس اور جھوٹا تھا۔
سائٹس کھولنے والوں کے لمبے ہاتھ
ای یو ڈس انفولیب کی انقلابی تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ دہلی میں واقع ایک بھارتی تھنک ٹینک، دی انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار نان الائینڈ اسٹڈیز ( the International Institute for Non-Aligned Studies) بھی سری واستو گروپ کی ملکیت ہے۔
اسی تھنک ٹینک نے ماہ نومبر میں انتہا پسند اور قوم پرست یورپی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بائیس ارکان پارلیمنٹ کو بھارت بلاکر مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرایا تھا۔ مدعا دنیا والوں کو یہ دکھانا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں امن و امان ہے۔
حد یہ ہے کہ یورپ میں جن تنظیموں کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ انہیں پاکستانی حکومت کے مخالف پاکستانی ہی چلا رہے ہیں، وہ بھی بھارتیوں کی تخلیق کردہ نکلیں۔ ای یو ڈیس انفولیب کی تحقیق نے یہ زبردست انکشاف کیا کہ سوشل میڈیا میں متحرک دو تنظیموں ... یورپین آرگنائزیشن فار پاکستانی مائنیٹریز (European Organisation for Pakistani Minorities) اور پاکستانی وومنز ہیومن رائٹس آرگنائزیشن(Pakistani Women's Human Rights Organisation) کی ویب سائٹس بھارتی افراد کی ملکیت ہیں۔
یاد رہے، جب بھی یورپی پارلیمنٹ کا اجلاس یا کوئی عالمی تقریب کسی یورپی ملک میں منعقد ہو، تو اس موقع پر درج بالا تنظیمیں پاکستانی حکومت کے خلاف احتجاج کرتی ہیں۔ اب ای یو ڈس انفولیب نے انکشاف کیا ہے کہ ان پاکستان دشمن تنظیموں کے کرتا دھرتا ایسے بھارتی ہیں جنہیں شاید مودی حکومت سے بھاری فنڈز ملتے ہیں۔ یہ فنڈز پھر دنیائے نیٹ میں پاکستان کو بدنام کرنے والی جعلی نیوز ویب سائٹس چلانے میں کام آتے ہیں جو نفرت انگیز جھوٹی خبریں خصوصاً سوشل میڈیا میں پھیلاتی ہیں۔
کمزور کے ساتھی
ای یو ڈس انفولیب کے ماہرین ایک انوکھی وجہ سے بھی بھارتیوں کی ملکیت فیک نیوز پیدا کرنے والی 265 نیوز سائٹس پکڑنے میں کامیاب رہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان سبھی سائٹس میں ایک جیسا مواد بکثرت موجود تھا۔ جب کسی ویب سائٹس سے نئی پاکستان مخالف خبر چلتی، تو وہ جلد ہی تمام جعلی نیوز سائٹس پر چلا دی جاتی۔
بھارتیوں نے یہ ویب سائٹس آسٹریلیا سے لے کر دنیا کے ہر براعظم میں واقع ممالک میں قائم کررکھی تھیں تاکہ پاکستان کو بدنام کرنے کی بھر پور مہم چلائی جاسکے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ ابھی دنیا میں ای ڈس انفولیب جیسے غیر جانب دار ادارے اور انہیں چلانے والے حق گو موجود ہیں جو ظلم کرنے میں طاقتوروں کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ کمزور کا ساتھی بن کر اس کی حمایت کرتے اور علی الاعلان سچائی سامنے لاتے ہیں۔ ان جیسے اداروں اور افراد کے ذریعے تمام تر شر اور برائی کے باوجود آج بھی دنیا میں آخر کار خیر اور اچھائی کا بول بالا ہی ہوتا ہے۔ای یو ڈس انفولیب کے چشم کشا انکشافات منظر عام پر آنے کے بعد بھارتی کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق جعلی نیوز سائٹس میں سے اکثر بند کرچکے۔
ای یو ڈس انفولیب کی تحقیق پاکستان کے لیے بہت مبارک ثابت ہوئی۔ اس کے ذریعے مغربی ممالک میں آباد کروڑوں مغربیوں کو علم ہوا کہ بھارت کیونکر دنیائے انٹرنیٹ میں پاکستان کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلارہا ہے تاکہ پاکستانی حکمران طبقے اور عوام کو برا ثابت کیا جاسکے۔ تاہم یہ امر افسوسناک ہے کہ دنیا کے عامی میڈیا نے بھارت کی جعلی 265 نیوز سائٹس کی خبر نشر نہیں کی۔ بی بی سی، سی این این این، آر ٹی کام، فارن پالیسی وغیرہ پاکستان کے خلاف بے بنیاد معلومات والے مضامین اکثر چھاپتے ہیں۔ مگر جب پاکستان کے حق میں کوئی خبر جنم لے تو عموماً اس سے چشم پوشی برتی جاتی ہے۔ مغربی میڈیا کو یہ منافقانہ پالیسی بدل لینی چاہیے۔
چوکنا رہنے کی ضرورت
ای یو ڈس انفولیب کا چشم کشا انکشاف اہل پاکستان کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ نیٹ اور سوشل میڈیا پر موجود ہر خبر ،ہر معلومات پہ آنکھیں بند کر کے اعتبار نہ کریں بلکہ پہلے اسے اچھی طرح چھان پھٹک لیں۔پاکستانی قوم کو سوشل میڈیا پہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جھوٹی اور سچی خبروں کے مابین تمیز کر سکے۔یہ عیاں ہے کہ دشمنوں نے نیٹ پر فیک نیوز پھیلانے کی خاطر سیکڑوں ویب سائٹس کھول رکھی ہیں۔
ان کا طریق واردات یہ ہے کہ کسی تنازع پر ہزارہا پوسٹس تخیلق کی جاتی ہیں تاکہ پڑھنے والا ان کا جھوٹ سچ سمجھنے پر مجبور ہو جائے۔مثال کے طور پر بھارت کی جعلی نیوز سائٹس ہزارہا فیک خبریں اور مضامین نیٹ و سوشل میڈیا میں پھیلا کر لاکھوں کروڑوں مردوزن میں یہ مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ بین الاقوامی برداری مقبوضہ کشمیر،بابری مسجد کیس،گاؤکشی اور آسامی مسلمانوں سے وابستہ نہایت حساس تنازعات میں بھارت کی حمایت کرتی ہے۔نازی پروپیگنڈہ وزیر، جوزف گوئبلز کا یہ قول ہمیں یاد رکھنا چاہیے:''جھوٹ ایک بار بولا جائے تو وہ جھوٹ ہی رہتا ہے۔لیکن جو جھوٹ ہزار بار بولا جائے،وہ سچ بن جاتا ہے۔''اسی طرح برطانوی ادیب جارج برنارڈ شا کا قول ہے:''گمراہ کن خبروں اور معلومات سے خبردار رہیے۔ یہ جہالت سے زیادہ تباہ کن ہتھیار ہیں۔''
اس نے بھارتی مسلمانوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے۔طرفہ تماشہ یہ کہ عالمی سطح پر بھارت کے بجائے پاکستان کو فسادی ودہشت گرد ملک سمجھا جاتا ہے۔پاکستانی حکومت کو بین الاقومی فورموں میں صفائیاں پیش کرنا پڑتی ہیں جبکہ بھارت ترقی کرتا روشن خیال ملک قرار پاتا ہے۔
یا الہی، یہ ماجرا کیا ہے؟دور جدید میں سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنانے میں دنیائے نیٹ میں گردش کرتی جھوٹی خبریں یعنی فیک نیوز بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔درحقیقت یہ ''ففتھ جنریشن وار''کا کاری ہتھیار بن چکیں ۔دور جدید کے اس طریق جنگ میں ہر ممکن طریقے سے ایک مملکت کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر نقصان پہنچایا جاتا ہے تاکہ اسے کمزور کیا جاسکے۔ مثلاً بھارتی حکومت ٹویٹر پر مسلمانوں والے ناموں کے جعلی اکاؤنٹ بنا کر شہریت بل کے حق میں ٹویٹ کرتی رہی۔
چال بازی دنیا والوں پر آشکارا
یورپی یونین کی تنظیموں نے چند ماہ قبل یہ حیرت انگیز سچائی افشا کی کہ بھارت نے دنیا کے65 ممالک میںجعلی و جھوٹی خبریں تخلیق کرنے والی 265 نیوز ویب سائٹس کھول رکھی ہیں۔ ان سے مسلسل پاکستان کے خلاف انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ''فیک'' خبریں پھیلائی جارہی تھیں تاکہ مملکت پاک کو عالمی سطح پر بدنام کیا جاسکے۔
یوں عیار و مکار بھارتی حکمران طبقے کی ایک اور چال بازی دنیا والوں پر آشکارا ہوگئی۔ اردو میں اسی طبقے کے متعلق یہ مثل بجا طور پر تخلیق ہوئی: ''بغل میں چھری، منہ پر رام رام۔'' بھارتی حکمران بظاہر دیانت دار اور معاملات میں کھرے دکھائی دیتے ہیں لیکن اندرون خانہ وہ عیاری و مکاری کا مثالی نمونہ ہیں۔
دور جدید میں دنیائے انٹرنیٹ تازہ ترین خبروں اور معلومات کی فراہمی اور باہمی رابطے کاایک بڑا ذریعہ بن چکی۔ آج صرف پاکستان میں پانچ کروڑ سے زائد مردوزن نیٹ استعمال کرتے ہیں۔ نیٹ پر خبریں بہم پہنچانے والی ہزارہا نیوز ویب سائٹس وجود میں آچکیں۔ سوشل میڈیا کی سائٹس بھی تازہ خبریں اور معلومات فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ چناں چہ اب نیٹ کاطاقتورمیڈیا بھی بین الاقوامی سطح پر لوگوں کی نفسیات پر اثر انداز ہوتا اور مختلف رجحانات کی سمت متعین کرتا ہے۔
نیٹ کی بڑھتی مقبولیت نے ہی مگر اسے حکومتوں کی توجہ کا بھی مرکز بنا دیا۔ یہ حکومتیں اب دشمنوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کی خاطر جعلی و جھوٹی خبریں اور معلومات کا سہارا لے رہی ہیں۔ یہ خبریں حکومتی ویب سائٹوں کے علاوہ ایسی نیوز سائٹس سے بھی دنیائے نیٹ میں پھیلائی جاتی ہیں جو بظاہر کسی حکومت سے تعلق نہیں رکھتیں۔
بھارت کی شاطر مودی حکومت نے دنیا بھر میں ایسی ہی 265 نیوز ویب سائٹس کا نیٹ ورک قائم کررکھا تھا۔ ان کے ذریعے پاکستان کے خلاف جعلی خبریں اور مضمون نیٹ میں پھینکے جارہے تھے تاکہ خصوصاً یورپی ممالک اور امریکا و کینیڈا میں پاکستانی حکومت کی ساکھ متاثر کی جاسکے۔ ان ملکوں کے عوام و خواص میں پاکستانی حکومت اور پاکستانی قوم کے خلاف منفی و نفرت انگیزجذبات و خیالات جنم لے سکیں۔گویا بھارتی نفرت کی نفسیات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا کھیل کھیلنے میں مصروف تھے۔ان سبھی سائٹس نے فیس بک اور ٹوٹیر پر بھی اپنے اکاؤنٹ کھول رکھے تھے۔
ایک غلطی مہنگی پڑی
چانکیہ فلسفے کی پیروکار مودی حکومت کا پاکستان کے خلاف مکروہ اور گھناؤنا منصوبہ اتفاق سے پکڑا گیا۔ کہتے ہیں کہ شاطر ترین مجرم بھی جرم انجام دیتے ہوئے، کوئی نہ کوئی ایسی غلطی ضرور کرجاتا ہے کہ اس کے ذریعے قانون کے ہاتھ مجرموں کی گردن تک پہنچ سکیں۔
جعلی 265 نیوز ویب سائٹس کا نیٹ ورک چلانے والے بھارتیوں سے بھی بے پناہ احتیاط کے باوجود ایک غلطی سرزد ہوگئی۔ہوا یہ کہ بھارتی نیٹ ورک کے کرتا دھرتا اپنی ایک ویب سائٹ eptoday.com پر روس کے نیوز چینل، آرٹی کام اور امریکی نیوز ادارے، وائس آف امریکا کی رپورٹس کثیر تعداد میں دینے لگے۔ کسی نے یورپی یونین کے ادارے، ایسٹ سٹارٹ کام ٹاسک فورس(East StratCom Task Force) کو شکایت کردی۔ یہ ادارہ یورپی ممالک میں جعلی خبریں و معلومات دینے والی نیوز سائٹس پر نظر رکھتا اور ان پر پابندیاں لگاتا ہے۔
اوائل اکتوبر میں ادارے نے یہ خبر دی کہ eptoday.com مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہے۔یہ خبر برسلز (بیلجیئم) میں متحرک ایک غیر سرکاری تنظیم، ای یوڈس انفولیب(EU DisinfoLab) کے کارپردازوں کی نظر سے بھی گزری۔ اس غیر سرکاری تنظیم سے منسلک افراد بھی یورپی یونین میں جعلی نیوز ویب سائٹس کی کھوج میں رہتے اور ان کی اصلیت کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ اب eptoday.com سے متعلق خبر نے ان کے کان کھڑے کردیئے۔ وہ فوراً اس نیوز ویب سائٹ پر پہنچے اور اس کے مواد کی جانچ پڑتال کرنے لگے۔
ای پی ٹوڈے ویب سائٹ نے دعویٰ کررکھا تھا کہ وہ یورپی پارلیمنٹ کے امور سے متعلق مضامین و خبریں شائع کرنے والا ایک رسالہ شائع کرتی ہے۔ لیکن جب ای یوڈس انفولیب کے ماہرین نے ویب سائٹ پر موجود مواد کا جائزہ لیا تو انکشاف ہوا کہ مضامین کی اکثریت کا تعلق پاکستانی اقلیتوں کے بے بنیاد مسائل، بلوچستان میں جاری نام نہاد بغاوت اور دیگر بھارتی امور سے ہے۔
گویا مضامین میں یورپی ممالک نہیں پاکستان اور بھارت کے امور زیر بحث تھے۔ دوسرا انکشاف یہ ہوا کہ سبھی مضامین پاکستان کے خلاف تھے۔ ہر مضمون میں پاکستانی حکومت پر کوئی نہ کوئی الزام دھرا گیا اور پاکستان نشانہ بنا تھا۔
ای یو ڈس انفولیب میں یہ بندوبست موجود ہے کہ دیکھا جاسکے، کوئی بھی نیوز ویب سائٹ کہاں سے لانچ کی گئی، اس کا سرور کہاں واقع ہے اور کون اسے چلا رہا ہے۔ یہ معلومات مصنوعی ذہانت پر مبنی سافٹ ویئرز اور افرادی قوت کے ملاپ سے اکٹھی کی جاتی ہے۔ چناں چہ تنظیم کے ماہرین یہ جاننے کی خاطر سرگرم ہوگئے کہ ای پی ٹوڈے نیوز ویب سائٹ کے پیچھے کون لوگ کارفرما ہیں۔ اس نیوز ویب سائٹ کی ماہیت نے انہیں چوکنا کردیا تھا۔ بظاہر وہ یورپی پارلیمنٹ کے امور کی سائٹ تھی لیکن اس کے مضامین بھارتی حکومت کے جغرافیائی سیاسی (جیوپولیٹیکل)مفادات کی تکمیل کرتے تھے۔ اسی بات نے جعلی خبروں پر نگاہ رکھنے والی یورپی غیر سرکاری تنظیم کے ماہروں کو ہوشیار کردیا۔
مالک بھارتی نکل آئے
تحقیق شروع ہوئی تو آئی پی ایڈریسوں، سروروں، روٹروں اور ویب سائٹس کے دیگر متعلقہ آلات اور سافٹ ویئرز کی مدد سے ماہرین نے آخر کار پتا چلا لیا کہ ای پی ٹوڈے نیوز ویب سائٹ نئی دہلی کی ایک کمپنی نے کھول رکھی ہے۔ گویا اس ویب سائٹ کے مالکان بھارتی نکل آئے۔ یہ کمپنی ایک بھارتی کاروباری گروپ، سری واستو گروپ کی ملکیت تھی۔جب تحقیق کا دائرہ کار پھیلا، تو یہ نیا انکشاف ہوا کہ سری واستو گروپ سے منسلک دیگر کمپنیوں اور تھنک ٹینکس نے بھی مختلف ممالک میں نیوز ویب سائٹس کھول رکھی ہے۔ گویا وہ بھارتی افراد کی ملکیت تھیں... لیکن نیوز ویب سائٹس کے ناموں سے عیاں نہیں تھا کہ وہ بھارتی باشندوں نے کھولی ہوئی ہیں۔
ان ویب سائٹس کے نام ملاحظہ فرمائیں: ٹائمز آف جنیوا ، دی امریکن ویکلی، ٹائمز آف بلغاریہ، ٹائمز آف سائپرس، دی دہلی ٹائمز، ٹائمز آف لاس اینجلس، نیویارک مارننگ ٹیلی گراف، ٹائمز آف پیاننگ،فور نیوز ایجنسی اور اسی قسم کے دیگر نام۔ان سے عیاں ہے کہ جعلی ویب سائٹوں کے نام مشہور اخبارات کے ناموں سے ملتے جلتے رکھے گئے۔ مقصد یہ تھا کہ ان ویب سائٹس پر آنے والے لوگ انہیں معیاری اور مصدقہ تسلیم کرلیں۔ اس طرح عام لوگوں کو چکمہ دینے اور ان کی نفسیات سے کھیلنے کی کوشش کی گئی۔ ان کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کی سعی ہوئی کہ ویب سائٹوں پر قابل اعتماد مواد موجود ہے حالانکہ وہ سراسر بوگس اور جھوٹا تھا۔
سائٹس کھولنے والوں کے لمبے ہاتھ
ای یو ڈس انفولیب کی انقلابی تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ دہلی میں واقع ایک بھارتی تھنک ٹینک، دی انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار نان الائینڈ اسٹڈیز ( the International Institute for Non-Aligned Studies) بھی سری واستو گروپ کی ملکیت ہے۔
اسی تھنک ٹینک نے ماہ نومبر میں انتہا پسند اور قوم پرست یورپی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بائیس ارکان پارلیمنٹ کو بھارت بلاکر مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرایا تھا۔ مدعا دنیا والوں کو یہ دکھانا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں امن و امان ہے۔
حد یہ ہے کہ یورپ میں جن تنظیموں کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ انہیں پاکستانی حکومت کے مخالف پاکستانی ہی چلا رہے ہیں، وہ بھی بھارتیوں کی تخلیق کردہ نکلیں۔ ای یو ڈیس انفولیب کی تحقیق نے یہ زبردست انکشاف کیا کہ سوشل میڈیا میں متحرک دو تنظیموں ... یورپین آرگنائزیشن فار پاکستانی مائنیٹریز (European Organisation for Pakistani Minorities) اور پاکستانی وومنز ہیومن رائٹس آرگنائزیشن(Pakistani Women's Human Rights Organisation) کی ویب سائٹس بھارتی افراد کی ملکیت ہیں۔
یاد رہے، جب بھی یورپی پارلیمنٹ کا اجلاس یا کوئی عالمی تقریب کسی یورپی ملک میں منعقد ہو، تو اس موقع پر درج بالا تنظیمیں پاکستانی حکومت کے خلاف احتجاج کرتی ہیں۔ اب ای یو ڈس انفولیب نے انکشاف کیا ہے کہ ان پاکستان دشمن تنظیموں کے کرتا دھرتا ایسے بھارتی ہیں جنہیں شاید مودی حکومت سے بھاری فنڈز ملتے ہیں۔ یہ فنڈز پھر دنیائے نیٹ میں پاکستان کو بدنام کرنے والی جعلی نیوز ویب سائٹس چلانے میں کام آتے ہیں جو نفرت انگیز جھوٹی خبریں خصوصاً سوشل میڈیا میں پھیلاتی ہیں۔
کمزور کے ساتھی
ای یو ڈس انفولیب کے ماہرین ایک انوکھی وجہ سے بھی بھارتیوں کی ملکیت فیک نیوز پیدا کرنے والی 265 نیوز سائٹس پکڑنے میں کامیاب رہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان سبھی سائٹس میں ایک جیسا مواد بکثرت موجود تھا۔ جب کسی ویب سائٹس سے نئی پاکستان مخالف خبر چلتی، تو وہ جلد ہی تمام جعلی نیوز سائٹس پر چلا دی جاتی۔
بھارتیوں نے یہ ویب سائٹس آسٹریلیا سے لے کر دنیا کے ہر براعظم میں واقع ممالک میں قائم کررکھی تھیں تاکہ پاکستان کو بدنام کرنے کی بھر پور مہم چلائی جاسکے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ ابھی دنیا میں ای ڈس انفولیب جیسے غیر جانب دار ادارے اور انہیں چلانے والے حق گو موجود ہیں جو ظلم کرنے میں طاقتوروں کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ کمزور کا ساتھی بن کر اس کی حمایت کرتے اور علی الاعلان سچائی سامنے لاتے ہیں۔ ان جیسے اداروں اور افراد کے ذریعے تمام تر شر اور برائی کے باوجود آج بھی دنیا میں آخر کار خیر اور اچھائی کا بول بالا ہی ہوتا ہے۔ای یو ڈس انفولیب کے چشم کشا انکشافات منظر عام پر آنے کے بعد بھارتی کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق جعلی نیوز سائٹس میں سے اکثر بند کرچکے۔
ای یو ڈس انفولیب کی تحقیق پاکستان کے لیے بہت مبارک ثابت ہوئی۔ اس کے ذریعے مغربی ممالک میں آباد کروڑوں مغربیوں کو علم ہوا کہ بھارت کیونکر دنیائے انٹرنیٹ میں پاکستان کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلارہا ہے تاکہ پاکستانی حکمران طبقے اور عوام کو برا ثابت کیا جاسکے۔ تاہم یہ امر افسوسناک ہے کہ دنیا کے عامی میڈیا نے بھارت کی جعلی 265 نیوز سائٹس کی خبر نشر نہیں کی۔ بی بی سی، سی این این این، آر ٹی کام، فارن پالیسی وغیرہ پاکستان کے خلاف بے بنیاد معلومات والے مضامین اکثر چھاپتے ہیں۔ مگر جب پاکستان کے حق میں کوئی خبر جنم لے تو عموماً اس سے چشم پوشی برتی جاتی ہے۔ مغربی میڈیا کو یہ منافقانہ پالیسی بدل لینی چاہیے۔
چوکنا رہنے کی ضرورت
ای یو ڈس انفولیب کا چشم کشا انکشاف اہل پاکستان کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ نیٹ اور سوشل میڈیا پر موجود ہر خبر ،ہر معلومات پہ آنکھیں بند کر کے اعتبار نہ کریں بلکہ پہلے اسے اچھی طرح چھان پھٹک لیں۔پاکستانی قوم کو سوشل میڈیا پہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جھوٹی اور سچی خبروں کے مابین تمیز کر سکے۔یہ عیاں ہے کہ دشمنوں نے نیٹ پر فیک نیوز پھیلانے کی خاطر سیکڑوں ویب سائٹس کھول رکھی ہیں۔
ان کا طریق واردات یہ ہے کہ کسی تنازع پر ہزارہا پوسٹس تخیلق کی جاتی ہیں تاکہ پڑھنے والا ان کا جھوٹ سچ سمجھنے پر مجبور ہو جائے۔مثال کے طور پر بھارت کی جعلی نیوز سائٹس ہزارہا فیک خبریں اور مضامین نیٹ و سوشل میڈیا میں پھیلا کر لاکھوں کروڑوں مردوزن میں یہ مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ بین الاقوامی برداری مقبوضہ کشمیر،بابری مسجد کیس،گاؤکشی اور آسامی مسلمانوں سے وابستہ نہایت حساس تنازعات میں بھارت کی حمایت کرتی ہے۔نازی پروپیگنڈہ وزیر، جوزف گوئبلز کا یہ قول ہمیں یاد رکھنا چاہیے:''جھوٹ ایک بار بولا جائے تو وہ جھوٹ ہی رہتا ہے۔لیکن جو جھوٹ ہزار بار بولا جائے،وہ سچ بن جاتا ہے۔''اسی طرح برطانوی ادیب جارج برنارڈ شا کا قول ہے:''گمراہ کن خبروں اور معلومات سے خبردار رہیے۔ یہ جہالت سے زیادہ تباہ کن ہتھیار ہیں۔''