حکومت سوئس حکام کو خط لکھنے کا فیصلہ نہ کرسکی قابل قبول حل نکل آئے گا صدارتی ترجمان
انتخابات سے پہلے مسئلے کاحل چاہتے ہیں،غیرملکی ماہرین کی رائے بھی لی گئی،ذرائع
سپریم کورٹ کے حکم پر سوئس حکام کوخط لکھاجائے یا نہیں حکومت تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکی ہے۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون کی آئینی و قانونی ماہرین سے مشاورت جاری ہے جبکہ اس ضمن میں غیر ملکی ماہرین کی رائے بھی حاصل کی جارہی ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے حکومت خط لکھنے کی وجہ سے ملک کے اندرآصف علی زرداری کے منصب اور بیرون ملک ان کو حاصل بین الاقوامی استثنیٰ پرپڑنے والے اثرات کا جائزہ لے رہی ہے اور اس حوالے سے قانونی ماہرین کی رائے حاصل کرنے کیلیے رابطے کیے جارہے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک این آراوعملدرآمدکیس کی اگلی سماعت پر عدالت عظمٰی کو مثبت یقین دہانی کے حق میںہیں اوراس وجہ سے وہ عام انتخابات سے پہلے پہلے اس مسئلے کا حل نکالنے کیلیے سرتوڑکوششیں کررہے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے سخت موقف رکھنے والے کچھ ارکان بدستور خط لکھنے کی مخالفت کر رہے ہیںاور وہ خط لکھنے کو سیاسی مستقبل کیلیے خطرناک قرار دے رہے ہیں ۔
اس حوالے سے وزیر قانون کی پارٹی لیڈرشپ سے طویل مشاورت کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا ہے اور صورتحال جوںکی توں ہے۔ ذرائع کے مطابق جن قانونی ماہرین سے رابطہ کیا گیا ہے ان کی اکثریت نے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کی طرف سے لکھے گئے غیرقانونی خط کو واپس لینے کیلیے خط لکھنے کو حکومت ، صدر آصف علی زرداری کے منصب اورانھیں حاصل ملکی اور بین الاقوامی استثنٰی کیلیے بے ضرر قرار دیا ہے۔ ایکسپریس نے اس سلسلے میں ایوان صدرکے ترجمان فرحت اللہ بابر سے رابطہ کیا توانھوں نے بتایاکہ اس معاملے پران کیلیے کچھ کہنا مناسب نہیں لیکن وزیراعظم نے عدالت کے اندرجوموقف دیا ہے حکومت کا بھی وہی موقف ہے اوراس معاملے کاکوئی نہ کوئی قابل قبول حل نکل آئے گا۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون کی آئینی و قانونی ماہرین سے مشاورت جاری ہے جبکہ اس ضمن میں غیر ملکی ماہرین کی رائے بھی حاصل کی جارہی ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے حکومت خط لکھنے کی وجہ سے ملک کے اندرآصف علی زرداری کے منصب اور بیرون ملک ان کو حاصل بین الاقوامی استثنیٰ پرپڑنے والے اثرات کا جائزہ لے رہی ہے اور اس حوالے سے قانونی ماہرین کی رائے حاصل کرنے کیلیے رابطے کیے جارہے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک این آراوعملدرآمدکیس کی اگلی سماعت پر عدالت عظمٰی کو مثبت یقین دہانی کے حق میںہیں اوراس وجہ سے وہ عام انتخابات سے پہلے پہلے اس مسئلے کا حل نکالنے کیلیے سرتوڑکوششیں کررہے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے سخت موقف رکھنے والے کچھ ارکان بدستور خط لکھنے کی مخالفت کر رہے ہیںاور وہ خط لکھنے کو سیاسی مستقبل کیلیے خطرناک قرار دے رہے ہیں ۔
اس حوالے سے وزیر قانون کی پارٹی لیڈرشپ سے طویل مشاورت کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا ہے اور صورتحال جوںکی توں ہے۔ ذرائع کے مطابق جن قانونی ماہرین سے رابطہ کیا گیا ہے ان کی اکثریت نے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کی طرف سے لکھے گئے غیرقانونی خط کو واپس لینے کیلیے خط لکھنے کو حکومت ، صدر آصف علی زرداری کے منصب اورانھیں حاصل ملکی اور بین الاقوامی استثنٰی کیلیے بے ضرر قرار دیا ہے۔ ایکسپریس نے اس سلسلے میں ایوان صدرکے ترجمان فرحت اللہ بابر سے رابطہ کیا توانھوں نے بتایاکہ اس معاملے پران کیلیے کچھ کہنا مناسب نہیں لیکن وزیراعظم نے عدالت کے اندرجوموقف دیا ہے حکومت کا بھی وہی موقف ہے اوراس معاملے کاکوئی نہ کوئی قابل قبول حل نکل آئے گا۔