مذاکرات کے دوران حملہ نہ کرنے کا کہا لیکن امریکا ہے کہ کسی کو خاطرمیں نہیں لاتا چوہدری نثار
جومسئلہ گزشتہ 12 سال میں حل نہیں کیاجاسکاہم اس کو7 ہفتوں ميں ایسےمقام پرلائےکہ طالبان بات چیت پرراضی ہوئے، چوہدری نثار
وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کہاہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں جو مینڈیٹ لے کر نکلے تھے امریکی ڈرون حملے سے وہ بکھر گیا ہے اور مذاکراتی عمل رکنے پر افسوس ہے لیکن امریکا ہے کہ کسی کو خاطرمیں نہیں لاتا
قومی اسمبلی میں امریکی ڈرون حملوں پر بحث کے کے دوران اظہارخیال کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ انہوں نے نیک نیتی اور قومی غیرت کے تحت امریکی سفیر اور دیگر حکام سے طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے روکنے کے حوالے سے بات کی تھی لیکن امریکا ہے کہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، آل پارٹیز کانفرنس کے بعد گزشتہ 7 ہفتوں کے دوران ہر طرح کی تنقید برداشت کی اور خاموش رہ کر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوششیں کیں، طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ طالبان کے 37 ایسے گروہ ہیں جو کہ خود کو تحریک طالبان کے ماتحت قرار دیتے ہیں لیکن بعض معاملات میں وہ تحریک طالبان کے فیصلے نہیں بھی مانتے جب کہ پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے گروہوں کی تعداد 50 سے 70 کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو مسئلہ گزشتہ 12 برسوں میں حل نہیں کیا جاسکا ہم اس کو 7 ہفتوں ميں ایسے مقام پر لائے کہ طالبان کی ہی خواہش پر مذاکرات کےلئے علما کا وفد بھیجا جانا تھا کہ امریکا کی جانب سے ڈرون حملہ کردیا گیا۔
چوہدری نثارعلی خان نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں طالبان سے مذاکرات کے فیصلے کے صرف 5 روز بعد فاٹا میں تعینات جنرل نیازی اور دیگر فوجی جوانوں کو شہید کیا گیا اور اس کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان کی جانب سے قبول کی گئی جب کہ اس کے فوری بعد پشاور میں چرچ، قصہ خوانی بازار اور بس پر بھی حملے کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف کے رہنما پر حملے کے علاوہ تمام حملوں کے شواہد ہمارے سامنے آ چکے ہیں، جب لاشیں آپ کے صحن میں پڑی ہوں تو مذاکرات نہیں ہو سکتے لیکن فوج کی جانب سے سیاسی قیادت کے فیصلے کو بھرپور حمایت کی گئی اور ہر طرح سے مذاکراتی عمل میں تعاون کیا گیا۔
طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے روکنے کی بات کی تھی لیکن امریکا ہے کہ کسی کو خاطرمیں نہیں لاتا،چوہدری نثار
قومی اسمبلی میں امریکی ڈرون حملوں پر بحث کے کے دوران اظہارخیال کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ انہوں نے نیک نیتی اور قومی غیرت کے تحت امریکی سفیر اور دیگر حکام سے طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے روکنے کے حوالے سے بات کی تھی لیکن امریکا ہے کہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، آل پارٹیز کانفرنس کے بعد گزشتہ 7 ہفتوں کے دوران ہر طرح کی تنقید برداشت کی اور خاموش رہ کر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوششیں کیں، طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ طالبان کے 37 ایسے گروہ ہیں جو کہ خود کو تحریک طالبان کے ماتحت قرار دیتے ہیں لیکن بعض معاملات میں وہ تحریک طالبان کے فیصلے نہیں بھی مانتے جب کہ پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے گروہوں کی تعداد 50 سے 70 کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو مسئلہ گزشتہ 12 برسوں میں حل نہیں کیا جاسکا ہم اس کو 7 ہفتوں ميں ایسے مقام پر لائے کہ طالبان کی ہی خواہش پر مذاکرات کےلئے علما کا وفد بھیجا جانا تھا کہ امریکا کی جانب سے ڈرون حملہ کردیا گیا۔
چوہدری نثارعلی خان نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں طالبان سے مذاکرات کے فیصلے کے صرف 5 روز بعد فاٹا میں تعینات جنرل نیازی اور دیگر فوجی جوانوں کو شہید کیا گیا اور اس کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان کی جانب سے قبول کی گئی جب کہ اس کے فوری بعد پشاور میں چرچ، قصہ خوانی بازار اور بس پر بھی حملے کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف کے رہنما پر حملے کے علاوہ تمام حملوں کے شواہد ہمارے سامنے آ چکے ہیں، جب لاشیں آپ کے صحن میں پڑی ہوں تو مذاکرات نہیں ہو سکتے لیکن فوج کی جانب سے سیاسی قیادت کے فیصلے کو بھرپور حمایت کی گئی اور ہر طرح سے مذاکراتی عمل میں تعاون کیا گیا۔
طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے روکنے کی بات کی تھی لیکن امریکا ہے کہ کسی کو خاطرمیں نہیں لاتا،چوہدری نثار