شدید رد عمل کی شاید ضرورت نہ تھی
وزیر اعظم عمران خان جب برسر اقتدار آئے ہیں اُن کی مشکلیں اور بھی بڑھ گئی ہیں
ایک ریٹائرڈ جنرل جس نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد با قاعدہ طور پر ملکی سیاست میں حصہ بھی لینا شروع کر دیا تھا اور ایک سیاسی جماعت بھی تشکیل کر دی تھی ، اُس کے خلاف کسی عدالت سے فیصلہ صادر ہونے کے بعد ہمارے مختلف حلقوں ، اداروں اور لوگوں کی جانب سے جو رد عمل آیا ہے وہ اگر نہ آتا تو بہتر ہوتا۔ انکساری ، عاجزی اور خاموشی کو اپنایا جاتا تو شاید یہ اتنا بڑا ایشو نہیں بنتا۔ سیاستدانوں کے خلاف تو ایسے فیصلے آتے رہتے رہے ہیں بلکہ اُن پرمن و عن عمل درآمد بھی ہوتا رہا ہے۔
جنرل پرویز مشرف بھی ایک سیاستداں تھے۔ یہ فیصلہ آیا تو انھیں اپنا عہدہ چھوڑے دس سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا تھا۔ ویسے بھی اِس فیصلے پر عمل درآمد ہمیں ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ ایک ایسی عدالت کا فیصلہ ہے جس میں اپیل کی گنجائش ابھی موجود ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف نا اہلی کا فیصلہ تو براہ راست ملک کی ایسی عدالت کی جانب سے آیا تھا جس میں اپیل کی کوئی گنجائش بھی موجود نہیں تھی اور اُس پر فوراً عمل درآمد بھی ہوگیا۔ پرویز مشرف ویسے بھی ملک کے اندر نہیں ہیں۔
مجھ سمیت کسی کو نہیں معلوم کہ اپیل میں جانے کے بعد فیصلے کا متن جوں کا توں برقرار بھی رہتا ہے یا نہیں۔ لہذا اِس شدید رد عمل کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ انفرادی حیثیت میں اگرکوئی بیان دیا جائے تو شاید درگزر کیا جا سکتا ہے لیکن ایک پورے ادارے کی جانب سے ایسا شدید رد عمل سامنے آئے تو اُس سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی اِس رد عمل پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
قطع نظر اِس کے فیصلے کے پیرا 66 میں کیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور وہ ہمیں پسند بھی نہ ہوں لیکن اِن الفاظ کو لے کر ساری عدلیہ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانا کسی طور درست طریقہ کار نہیں ہے۔ ہمارے یہاں ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔
یہ ایک ایسی خطرناک صورت حال ہے کہ جس کا تدارک اگر نہ کیا گیا تو خدشہ ہے پھر یہ قوم ایک وحشی ، جنگلی خونخوار حیوان کا روپ دھار لے گی، جہاں لوگ زبانی کلامی ہاتھا پائی سے بڑھ کر چھری ، چاقو اور جان لیوا ہتھیاروں سے لیس ہو کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے لگیں گے۔ اِس فیصلے کے حق میں اور مخالفت دونوں میں دلائل کی کوئی کمی نہیں لیکن اِن دلائل کو صرف دلائل تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔
بات ایک دوسرے کے گریبانوں تک نہیں پہنچنی چاہیے۔ جن کو یہ فیصلہ پسند آیا ہے وہ بھی احتیاط سے کام لیں اور جن کو یہ فیصلہ اچھا نہیں لگا وہ بھی تدبر اور حکمت سے کام لیتے ہوئے صبر و تحمل کا راستہ اختیار کریں۔ جنرل پرویز مشرف بلاشبہ ہماری افواج کے ایک سپہ سالار تھے۔ انھوں نے اِس منصب پر پہنچنے سے پہلے اور بعد میں بہت سے اچھے کارنامے بھی سرانجام دیے ہونگے لیکن اِن سے بحیثیت ایک انسان کئی شدید نوعیت کی غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں گی۔
آئین سے وفاداری کا حلف بھی انھوں نے اٹھایا ہوا تھا اوراُس آئین کو سبوتاژ بھی انھوں نے ہی کیا تھا ۔ اکبر بگٹی کی ہلاکت ، جامعہ حفصہ اور لال مسجد کا اندوہناک سانحہ اورکراچی میں ایک چیف جسٹس کی آمد پر قتل وغارت گری کروانے جیسے سنگین واقعات بھی اُن کے نو سالا دور حکومت کا افسوسناک حصہ ہیں ، جنھیں ابھی تک عدل وانصاف کی چھلنی سے گزارا نہیں گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی بہت سے اچھے کام کیے تھے جنھیں ہم آج بھی سنہری حروف سے لکھ سکتے ہیں۔ وہ تیسری دنیا کے غریب اور نادار ملکوں کے لیڈر بن چکے تھے۔
انھوں نے اِس وطن عزیز کو ایک ایٹمی قوت بنانے کی بنیاد بھی رکھی لیکن انھیں بخشا نہیں گیا۔ ایک ایسے عدالتی فیصلے کے تحت رات کے تاریک اندھیروں میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا جو پہلے بھی متنازع تھا اور آج بھی متنازع ہے اور جو ہماری قومی تاریخ میں ایک عدالتی قتل کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان جب برسر اقتدار آئے ہیں اُن کی مشکلیں اور بھی بڑھ گئی ہیں اور جوں جوں وقت اور مہینے گزرتے جا رہے ہیں وہ مصائب اور مشکلات میں مزید پھنستے جا رہے ہیں۔ اُن کی مصیبت یہ ہے کہ بحیثیت ایک اپوزیشن لیڈر انھوں نے جو تند و تیز بیانات دیے تھے وہ سارے ایک ایک کر کے اُن کے سامنے آئینہ بن کر کھڑے ہوتے جا رہے ہیں۔
پرویز مشرف کے بارے میں بھی انھوں نے کیا کچھ نہیں کہا تھا۔ مگر بدقسمتی دیکھیے آج جب اُن کے سابقہ بیانوں کے عین مطابق عدلیہ فیصلے کرنے لگی ہے تو وہ اپنے اُن سابقہ بیانوں سے صاف صاف مکرتے دکھائی دینے لگے ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا روزانہ اُن کی اُن تقریروں کی ویڈیو چلا چلا کر انھیں یاد دلاتا رہتا ہے لیکن وہ ہیں کہ خاموش بت بنے ہوئے ہیں۔ کوئی غیرت اور کوئی عز ت نفس جوش نہیں مارتی۔ وہ اپنے اُن بیانوں کے اعتراف سے نہ انکاری ہیں اور نہ حامی۔ اور تو اور ملک کے اعلیٰ اداروں کے خلاف بھی وہ کیا کچھ نہیں کہہ چکے لیکن آج ایک معصوم اور فرمانبردار بچے کی طرح انھیں اپنی وفاداری کا یقین دلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ خود اُن کا اپنا بھی تھا لیکن اُن کے آج کے رویے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ انھوں نے حالتِ غنودگی یا حالت ہذیان میں کہا تھا یا پھر انھوں نے سوچا ہی نہ تھا کہ وہ اِس ملک کے کبھی وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں۔
زندگی کے ساٹھ پینسٹھ سال انھوں نے کھیل کود میں ہی گزار لیے۔ وہ وزیر اعظم کے منصب کی ذمے داریاں اور مجبوریاں سمجھ ہی نہیں پائے تھے۔ شاید اِسی وجہ سے وہ زمانہ اپوزیشن میں'' جو چاہا کہہ دیا اور جو چاہا بک دیا '' کے زریں اُصولوں پر سختی سے کار بند رہے تھے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد انھیں اب احساس ہونے لگا ہے کہ یہاں قدم قدم پر کتنی مشکلیں درپیش ہوا کرتی ہیں۔
کبھی عوام کی مرضی کا خیال رکھنا ہوتا ہے تو کبھی مقتدر حلقوں کا اورکبھی اُن دوست ملکوں کا جن کی امداد اور قرض پر گزر بسر کر رہے ہوتے ہیں اور تو اور سب سے بڑھ کر اُس عالمی قوت کا جس کی جبیں پر پڑنے والی ایک شکن ہمارے حکمرانوں کی نیندیں اُڑا دیتی ہے۔
مہاتیر محمد اور طیب اردوان کو اپنا ہیرو اور رول ماڈل کہنے والے خان صاحب پچھلے دنوں کتنے بے بس اور لاچار دکھائی دیے کہ کھل کر اپنی بے بسی اور لاچاری کا اظہار بھی نہ کر سکے۔ ملائیشیاء میں ہونے والی سمٹ کے وہ روح رواں بنے ہوئے تھے اور اپنے اِن دونوں دوستوں کو ساتھ نبھانے کی مکمل یقین دہانیاں بھی کرا چکے تھے لیکن صرف ایک غیبی کال پر وہ کس طرح اپنے وعدے سے منحرف ہوئے کہ کھل کر کسی کو بتا بھی نہ سکے۔ خان صاحب کو شاید آج احساس ہو گیا ہو گا کہ وزیراعظم کا منصب بظاہرکتنا جاذب نظر اور دلفریب ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اذیت ناک کانٹوں کی سیج بھی ہوتا ہے۔ یہ آپ کو عالمی سطح پر مقبول اور مشہور بھی بناتا ہے تو ساتھ ساتھ آپ سے ذہانت اور دانش مندی کا تقاضا بھی کرتا ہے۔
صرف لفاظی اور جذباتی تقریروں سے یہاں کوئی ہیرو نہیں بن سکتا۔ یہاں انتہائی سوجھ بوجھ اور ہشیاری سے ہر قدم اُٹھانا پڑتا ہے۔ معاشی طور پر دوسروں کے رحم وکرم پر زندگی بسر کرنے والے کبھی آزادی اور خود مختاری سے فیصلے نہیں کر پاتے۔ خارجہ پالیسی اور اقتصادی پالیسی تو دورکی بات ہے وہ اپنا بجٹ بھی خود نہیں بنا سکتے۔ خوبصورت اور جذباتی تقریروں سے کچھ دنوں کے لیے تو واہ واہ تو ضرور ہو جائے گی لیکن یاد رکھا جائے کہ اُن سے نہ کشمیرکا مسئلہ حل ہوگا اور نہ عوام کا پیٹ بھرے گا۔
جنرل پرویز مشرف بھی ایک سیاستداں تھے۔ یہ فیصلہ آیا تو انھیں اپنا عہدہ چھوڑے دس سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا تھا۔ ویسے بھی اِس فیصلے پر عمل درآمد ہمیں ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ ایک ایسی عدالت کا فیصلہ ہے جس میں اپیل کی گنجائش ابھی موجود ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف نا اہلی کا فیصلہ تو براہ راست ملک کی ایسی عدالت کی جانب سے آیا تھا جس میں اپیل کی کوئی گنجائش بھی موجود نہیں تھی اور اُس پر فوراً عمل درآمد بھی ہوگیا۔ پرویز مشرف ویسے بھی ملک کے اندر نہیں ہیں۔
مجھ سمیت کسی کو نہیں معلوم کہ اپیل میں جانے کے بعد فیصلے کا متن جوں کا توں برقرار بھی رہتا ہے یا نہیں۔ لہذا اِس شدید رد عمل کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ انفرادی حیثیت میں اگرکوئی بیان دیا جائے تو شاید درگزر کیا جا سکتا ہے لیکن ایک پورے ادارے کی جانب سے ایسا شدید رد عمل سامنے آئے تو اُس سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی اِس رد عمل پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
قطع نظر اِس کے فیصلے کے پیرا 66 میں کیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور وہ ہمیں پسند بھی نہ ہوں لیکن اِن الفاظ کو لے کر ساری عدلیہ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانا کسی طور درست طریقہ کار نہیں ہے۔ ہمارے یہاں ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔
یہ ایک ایسی خطرناک صورت حال ہے کہ جس کا تدارک اگر نہ کیا گیا تو خدشہ ہے پھر یہ قوم ایک وحشی ، جنگلی خونخوار حیوان کا روپ دھار لے گی، جہاں لوگ زبانی کلامی ہاتھا پائی سے بڑھ کر چھری ، چاقو اور جان لیوا ہتھیاروں سے لیس ہو کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے لگیں گے۔ اِس فیصلے کے حق میں اور مخالفت دونوں میں دلائل کی کوئی کمی نہیں لیکن اِن دلائل کو صرف دلائل تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔
بات ایک دوسرے کے گریبانوں تک نہیں پہنچنی چاہیے۔ جن کو یہ فیصلہ پسند آیا ہے وہ بھی احتیاط سے کام لیں اور جن کو یہ فیصلہ اچھا نہیں لگا وہ بھی تدبر اور حکمت سے کام لیتے ہوئے صبر و تحمل کا راستہ اختیار کریں۔ جنرل پرویز مشرف بلاشبہ ہماری افواج کے ایک سپہ سالار تھے۔ انھوں نے اِس منصب پر پہنچنے سے پہلے اور بعد میں بہت سے اچھے کارنامے بھی سرانجام دیے ہونگے لیکن اِن سے بحیثیت ایک انسان کئی شدید نوعیت کی غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں گی۔
آئین سے وفاداری کا حلف بھی انھوں نے اٹھایا ہوا تھا اوراُس آئین کو سبوتاژ بھی انھوں نے ہی کیا تھا ۔ اکبر بگٹی کی ہلاکت ، جامعہ حفصہ اور لال مسجد کا اندوہناک سانحہ اورکراچی میں ایک چیف جسٹس کی آمد پر قتل وغارت گری کروانے جیسے سنگین واقعات بھی اُن کے نو سالا دور حکومت کا افسوسناک حصہ ہیں ، جنھیں ابھی تک عدل وانصاف کی چھلنی سے گزارا نہیں گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی بہت سے اچھے کام کیے تھے جنھیں ہم آج بھی سنہری حروف سے لکھ سکتے ہیں۔ وہ تیسری دنیا کے غریب اور نادار ملکوں کے لیڈر بن چکے تھے۔
انھوں نے اِس وطن عزیز کو ایک ایٹمی قوت بنانے کی بنیاد بھی رکھی لیکن انھیں بخشا نہیں گیا۔ ایک ایسے عدالتی فیصلے کے تحت رات کے تاریک اندھیروں میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا جو پہلے بھی متنازع تھا اور آج بھی متنازع ہے اور جو ہماری قومی تاریخ میں ایک عدالتی قتل کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان جب برسر اقتدار آئے ہیں اُن کی مشکلیں اور بھی بڑھ گئی ہیں اور جوں جوں وقت اور مہینے گزرتے جا رہے ہیں وہ مصائب اور مشکلات میں مزید پھنستے جا رہے ہیں۔ اُن کی مصیبت یہ ہے کہ بحیثیت ایک اپوزیشن لیڈر انھوں نے جو تند و تیز بیانات دیے تھے وہ سارے ایک ایک کر کے اُن کے سامنے آئینہ بن کر کھڑے ہوتے جا رہے ہیں۔
پرویز مشرف کے بارے میں بھی انھوں نے کیا کچھ نہیں کہا تھا۔ مگر بدقسمتی دیکھیے آج جب اُن کے سابقہ بیانوں کے عین مطابق عدلیہ فیصلے کرنے لگی ہے تو وہ اپنے اُن سابقہ بیانوں سے صاف صاف مکرتے دکھائی دینے لگے ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا روزانہ اُن کی اُن تقریروں کی ویڈیو چلا چلا کر انھیں یاد دلاتا رہتا ہے لیکن وہ ہیں کہ خاموش بت بنے ہوئے ہیں۔ کوئی غیرت اور کوئی عز ت نفس جوش نہیں مارتی۔ وہ اپنے اُن بیانوں کے اعتراف سے نہ انکاری ہیں اور نہ حامی۔ اور تو اور ملک کے اعلیٰ اداروں کے خلاف بھی وہ کیا کچھ نہیں کہہ چکے لیکن آج ایک معصوم اور فرمانبردار بچے کی طرح انھیں اپنی وفاداری کا یقین دلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ خود اُن کا اپنا بھی تھا لیکن اُن کے آج کے رویے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ انھوں نے حالتِ غنودگی یا حالت ہذیان میں کہا تھا یا پھر انھوں نے سوچا ہی نہ تھا کہ وہ اِس ملک کے کبھی وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں۔
زندگی کے ساٹھ پینسٹھ سال انھوں نے کھیل کود میں ہی گزار لیے۔ وہ وزیر اعظم کے منصب کی ذمے داریاں اور مجبوریاں سمجھ ہی نہیں پائے تھے۔ شاید اِسی وجہ سے وہ زمانہ اپوزیشن میں'' جو چاہا کہہ دیا اور جو چاہا بک دیا '' کے زریں اُصولوں پر سختی سے کار بند رہے تھے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد انھیں اب احساس ہونے لگا ہے کہ یہاں قدم قدم پر کتنی مشکلیں درپیش ہوا کرتی ہیں۔
کبھی عوام کی مرضی کا خیال رکھنا ہوتا ہے تو کبھی مقتدر حلقوں کا اورکبھی اُن دوست ملکوں کا جن کی امداد اور قرض پر گزر بسر کر رہے ہوتے ہیں اور تو اور سب سے بڑھ کر اُس عالمی قوت کا جس کی جبیں پر پڑنے والی ایک شکن ہمارے حکمرانوں کی نیندیں اُڑا دیتی ہے۔
مہاتیر محمد اور طیب اردوان کو اپنا ہیرو اور رول ماڈل کہنے والے خان صاحب پچھلے دنوں کتنے بے بس اور لاچار دکھائی دیے کہ کھل کر اپنی بے بسی اور لاچاری کا اظہار بھی نہ کر سکے۔ ملائیشیاء میں ہونے والی سمٹ کے وہ روح رواں بنے ہوئے تھے اور اپنے اِن دونوں دوستوں کو ساتھ نبھانے کی مکمل یقین دہانیاں بھی کرا چکے تھے لیکن صرف ایک غیبی کال پر وہ کس طرح اپنے وعدے سے منحرف ہوئے کہ کھل کر کسی کو بتا بھی نہ سکے۔ خان صاحب کو شاید آج احساس ہو گیا ہو گا کہ وزیراعظم کا منصب بظاہرکتنا جاذب نظر اور دلفریب ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اذیت ناک کانٹوں کی سیج بھی ہوتا ہے۔ یہ آپ کو عالمی سطح پر مقبول اور مشہور بھی بناتا ہے تو ساتھ ساتھ آپ سے ذہانت اور دانش مندی کا تقاضا بھی کرتا ہے۔
صرف لفاظی اور جذباتی تقریروں سے یہاں کوئی ہیرو نہیں بن سکتا۔ یہاں انتہائی سوجھ بوجھ اور ہشیاری سے ہر قدم اُٹھانا پڑتا ہے۔ معاشی طور پر دوسروں کے رحم وکرم پر زندگی بسر کرنے والے کبھی آزادی اور خود مختاری سے فیصلے نہیں کر پاتے۔ خارجہ پالیسی اور اقتصادی پالیسی تو دورکی بات ہے وہ اپنا بجٹ بھی خود نہیں بنا سکتے۔ خوبصورت اور جذباتی تقریروں سے کچھ دنوں کے لیے تو واہ واہ تو ضرور ہو جائے گی لیکن یاد رکھا جائے کہ اُن سے نہ کشمیرکا مسئلہ حل ہوگا اور نہ عوام کا پیٹ بھرے گا۔