دو ٹوک پالیسی اپنائی جائے
ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر پاکستان کے احتجاج کے بعد امریکا کا ردعمل سامنے آیا ہے جس میں اس نے واضح...
ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر پاکستان کے احتجاج کے بعد امریکا کا ردعمل سامنے آیا ہے جس میں اس نے واضح کر دیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے مذاکرات پر کتنا اثر پڑا ہے اس بارے میں پاکستان ہی سے پوچھا جائے۔
امریکا نے پاکستان کا یہ مؤقف بھی مسترد کر دیا ہے کہ حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ امن کوششوں کا قتل ہے۔ امریکا کے بارے میں بعض حلقوں کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ مذاکرات کو سبوتاژ کر رہا اور پاکستان میں امن و امان کی حالت دگرگوں رکھنے کا خواہاں ہے مگر امریکا نے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا اس کا کوئی تعلق نہیں، یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کرے یا نہ کرے یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔
مگر دوسری جانب امریکا نے عالمی سطح پرغیر مبہم پیغام دیا ہے کہ وہ افراد یا گروپ جو امریکا کے خلاف کسی بھی کارروائی میں ملوث رہے ہیں وہ انھیں کسی بھی قیمت پر معاف کرنے کوتیار نہیں۔ امریکا نے حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے کے بارے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ تحریک طالبان القاعدہ کے ساتھ امریکا کے خلاف کئی حملوں میں ملوث رہی اور متعدد مرتبہ امریکا پر حملے کی دھمکی دے چکی ہے۔ خوست میں ہونے والے ایک حملے میں معاونت کی ذمے داری حکیم اللہ محسود نے قبول کی تھی جس پر امریکا نے اس کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی تھی۔
حکیم اللہ محسود جی ایچ کیو حملے میں بھی ملوث رہا جس پر پاکستانی حکومت نے بھی اس کے سر کی قیمت مقرر کی تھی۔ پاکستانی حکومت نے تو بعض مصلحتوں کے تحت حکیم اللہ محسود سے مذاکرات کے لیے رابطہ کر لیا تھا۔ اگر امن کی خاطر مذاکرات کرنا ہی مقصود تھا تو پاکستانی حکومت کو پہلے حکیم اللہ محسود کے سر کی قیمت کے خاتمے کے ساتھ معافی کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ پاکستانی حکومت تو اپنے مجرم سے مذاکرات کرنے جا رہی تھی مگر امریکا اپنے مجرم کو کیسے معاف کرسکتا تھا۔ امریکا نے ثابت کیا کہ وہ ایک طاقتور ملک ہے' اسے کمزور نہ سمجھا جائے اور جو کوئی اس کی رٹ کو چیلنج کرے گا وہ اسے انجام تک پہنچا کر دم لے گا۔ امریکا نے پہلے بھی حکیم اللہ محسود پر حملے کیے مگر وہ ہر بار بچ جاتا رہا مگر امریکا نے اس کا تعاقب جاری رکھا اور بالآخر اسے ہلاک کر کے ہی دم لیا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے قاہرہ ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت طالبان کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈرون حملوں سے امریکا کو اہم کامیابیاں ملی ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید کامیابیاں ملنے کی توقع ہے۔ جان کیری نے واضح عندیہ دے دیا ہے کہ جو افراد امریکا کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں وہ انھیں ضرور نشانہ بنائے گا۔ جان کیری کے اس بیان میں طالبان کے لیے دھمکی اور پاکستانی حکومت کے لیے تشویش کا پہلو چھپا ہوا ہے۔
اب جس طرح امریکا نے اپنے مجرم سے پاکستانی حکومت کے مذاکرات کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اسے ہلاک کر ڈالا آیندہ بھی وہ یہ قبول نہیں کرے گا کہ پاکستانی حکومت کسی امریکی مجرم سے مذاکرات کا ڈول ڈالے۔ اگر ایسا ہوا تو وہ اسے بھی ہلاک کر ڈالے گا۔ پاکستانی حکومت کے لیے بھی یہ سوچنے کا امر ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات سے پہلے تمام معاملات کو مدنظر رکھے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی سمیت دیگر معاملات پر بات چیت جاری ہے، اس سلسلے میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے خدشات دور کرنے کے لیے باہمی کوششیں کر رہے ہیں کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ممالک کے مفادات مشترکہ ہیں، امریکا خطے میں امن کے قیام کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی ہیاس نے امریکی جنگ میں تو بھاری جانی ومالی نقصان اٹھایا ہے جب کہ امریکا کا اپنا خطہ پرامن ہے۔
امریکا تو ہزاروں میل دور آ کر اپنے دشمن کو مار رہا ہے جب کہ پاکستانی حکومت اپنے گھر میں بیٹھے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے نام پر امن کی بھیک مانگ رہی ہے اور یوں ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پہاڑوں میں چھپے ہوئے چند ہزار جنگجو پاکستانی حکومت سے کہیں طاقتور ہیں۔ دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان نے پاکستانی حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا ذمے دار پاکستانی حکومت اور امریکا کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ تحریک طالبان اپنے سربراہ کے قتل کا بدلہ لے گی یا نہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر انتہائی جذباتی رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں اور نیٹو سپلائی روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن بھی اس مسئلے پر عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں۔ قومی سطح کی سیاسی اور مذہبی قیادت کو جذباتی بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔ ریاستوں کے باہمی معاہدات اور سمجھوتوں کے بارے میں بے ساختہ اور بغیر تیاری کے بیانات دینا قومی سطح کی سیاسی و مذہبی شخصیات کے شایان شان نہیں۔ اگر ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت نیٹو سپلائی بند کرانا چاہتی ہے تو پہلے حکومت اور سیاسی جماعتیں آل پارٹیز کانفرنس بلائیں۔ وہاں بند کمرے میں اس کے فوائد اور نقصانات پر بات کی جائے اور پھر فیصلہ کر کے قوم کو بتایا جائے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کر کے دکھایا جائے۔
محض بیان برائے بیان جاری کرنا درست نہیں ہے۔ ادھر حکومت تو ہر صورت طالبان سے مذاکرات کرنے کی حامی ہے۔ ذرایع کے مطابق حکومت اور طالبان میں مذاکرات میں مصالحت کا کردار ادا کرنے والے علمائے کرام نے وفاقی وزیر داخلہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے پہلے سے زیادہ فعال اور متحرک کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ طالبان کی نئی قیادت بھی ان علماء کے رابطے میں ہے۔ حکومتی سرگرمیوں سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ وہ ملک میں امن و امان کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے کوشاں ہے، چاہے کتنی بھی رکاوٹیں کیوں نہ آ جائیں۔ حکومت اور طالبان مذاکرات کا نتیجہ کیانکلتا ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر آئینی حدود میں رہتے ہوئے پاکستانی مفادات اور سلامتی کو ہر صورت مقدم رکھا جانا چاہیے اور خارجہ امور کے معاملے میں بھی دوراندیش اور زیرکی کا مظاہرہ کیا جائے۔ امریکا سے ڈرون حملے نہ کرنے کی اپیلوں کی گردان ختم ہونی چاہیے۔
امریکا کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی قوم کو سچ بتایا جائے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بھی سچ بیانی کی جائے۔ موجودہ طرزعمل سے طالبان بھی ہم سے خوش نہیں اورا مریکہ بھی ہمیں شک کی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو اپنی پالیسی واضح اور دوٹوک رکھنی چاہیے تاکہ طالبان بھی کسی خوش فہمی میں نہ رہیں اور امریکا بھی کسی شبے میں نہ رہے۔
امریکا نے پاکستان کا یہ مؤقف بھی مسترد کر دیا ہے کہ حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ امن کوششوں کا قتل ہے۔ امریکا کے بارے میں بعض حلقوں کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ مذاکرات کو سبوتاژ کر رہا اور پاکستان میں امن و امان کی حالت دگرگوں رکھنے کا خواہاں ہے مگر امریکا نے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا اس کا کوئی تعلق نہیں، یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کرے یا نہ کرے یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔
مگر دوسری جانب امریکا نے عالمی سطح پرغیر مبہم پیغام دیا ہے کہ وہ افراد یا گروپ جو امریکا کے خلاف کسی بھی کارروائی میں ملوث رہے ہیں وہ انھیں کسی بھی قیمت پر معاف کرنے کوتیار نہیں۔ امریکا نے حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے کے بارے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ تحریک طالبان القاعدہ کے ساتھ امریکا کے خلاف کئی حملوں میں ملوث رہی اور متعدد مرتبہ امریکا پر حملے کی دھمکی دے چکی ہے۔ خوست میں ہونے والے ایک حملے میں معاونت کی ذمے داری حکیم اللہ محسود نے قبول کی تھی جس پر امریکا نے اس کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی تھی۔
حکیم اللہ محسود جی ایچ کیو حملے میں بھی ملوث رہا جس پر پاکستانی حکومت نے بھی اس کے سر کی قیمت مقرر کی تھی۔ پاکستانی حکومت نے تو بعض مصلحتوں کے تحت حکیم اللہ محسود سے مذاکرات کے لیے رابطہ کر لیا تھا۔ اگر امن کی خاطر مذاکرات کرنا ہی مقصود تھا تو پاکستانی حکومت کو پہلے حکیم اللہ محسود کے سر کی قیمت کے خاتمے کے ساتھ معافی کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ پاکستانی حکومت تو اپنے مجرم سے مذاکرات کرنے جا رہی تھی مگر امریکا اپنے مجرم کو کیسے معاف کرسکتا تھا۔ امریکا نے ثابت کیا کہ وہ ایک طاقتور ملک ہے' اسے کمزور نہ سمجھا جائے اور جو کوئی اس کی رٹ کو چیلنج کرے گا وہ اسے انجام تک پہنچا کر دم لے گا۔ امریکا نے پہلے بھی حکیم اللہ محسود پر حملے کیے مگر وہ ہر بار بچ جاتا رہا مگر امریکا نے اس کا تعاقب جاری رکھا اور بالآخر اسے ہلاک کر کے ہی دم لیا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے قاہرہ ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت طالبان کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈرون حملوں سے امریکا کو اہم کامیابیاں ملی ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید کامیابیاں ملنے کی توقع ہے۔ جان کیری نے واضح عندیہ دے دیا ہے کہ جو افراد امریکا کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں وہ انھیں ضرور نشانہ بنائے گا۔ جان کیری کے اس بیان میں طالبان کے لیے دھمکی اور پاکستانی حکومت کے لیے تشویش کا پہلو چھپا ہوا ہے۔
اب جس طرح امریکا نے اپنے مجرم سے پاکستانی حکومت کے مذاکرات کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اسے ہلاک کر ڈالا آیندہ بھی وہ یہ قبول نہیں کرے گا کہ پاکستانی حکومت کسی امریکی مجرم سے مذاکرات کا ڈول ڈالے۔ اگر ایسا ہوا تو وہ اسے بھی ہلاک کر ڈالے گا۔ پاکستانی حکومت کے لیے بھی یہ سوچنے کا امر ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات سے پہلے تمام معاملات کو مدنظر رکھے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی سمیت دیگر معاملات پر بات چیت جاری ہے، اس سلسلے میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے خدشات دور کرنے کے لیے باہمی کوششیں کر رہے ہیں کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ممالک کے مفادات مشترکہ ہیں، امریکا خطے میں امن کے قیام کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی ہیاس نے امریکی جنگ میں تو بھاری جانی ومالی نقصان اٹھایا ہے جب کہ امریکا کا اپنا خطہ پرامن ہے۔
امریکا تو ہزاروں میل دور آ کر اپنے دشمن کو مار رہا ہے جب کہ پاکستانی حکومت اپنے گھر میں بیٹھے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے نام پر امن کی بھیک مانگ رہی ہے اور یوں ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پہاڑوں میں چھپے ہوئے چند ہزار جنگجو پاکستانی حکومت سے کہیں طاقتور ہیں۔ دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان نے پاکستانی حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا ذمے دار پاکستانی حکومت اور امریکا کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ تحریک طالبان اپنے سربراہ کے قتل کا بدلہ لے گی یا نہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر انتہائی جذباتی رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں اور نیٹو سپلائی روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن بھی اس مسئلے پر عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں۔ قومی سطح کی سیاسی اور مذہبی قیادت کو جذباتی بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔ ریاستوں کے باہمی معاہدات اور سمجھوتوں کے بارے میں بے ساختہ اور بغیر تیاری کے بیانات دینا قومی سطح کی سیاسی و مذہبی شخصیات کے شایان شان نہیں۔ اگر ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت نیٹو سپلائی بند کرانا چاہتی ہے تو پہلے حکومت اور سیاسی جماعتیں آل پارٹیز کانفرنس بلائیں۔ وہاں بند کمرے میں اس کے فوائد اور نقصانات پر بات کی جائے اور پھر فیصلہ کر کے قوم کو بتایا جائے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کر کے دکھایا جائے۔
محض بیان برائے بیان جاری کرنا درست نہیں ہے۔ ادھر حکومت تو ہر صورت طالبان سے مذاکرات کرنے کی حامی ہے۔ ذرایع کے مطابق حکومت اور طالبان میں مذاکرات میں مصالحت کا کردار ادا کرنے والے علمائے کرام نے وفاقی وزیر داخلہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے پہلے سے زیادہ فعال اور متحرک کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ طالبان کی نئی قیادت بھی ان علماء کے رابطے میں ہے۔ حکومتی سرگرمیوں سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ وہ ملک میں امن و امان کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے کوشاں ہے، چاہے کتنی بھی رکاوٹیں کیوں نہ آ جائیں۔ حکومت اور طالبان مذاکرات کا نتیجہ کیانکلتا ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر آئینی حدود میں رہتے ہوئے پاکستانی مفادات اور سلامتی کو ہر صورت مقدم رکھا جانا چاہیے اور خارجہ امور کے معاملے میں بھی دوراندیش اور زیرکی کا مظاہرہ کیا جائے۔ امریکا سے ڈرون حملے نہ کرنے کی اپیلوں کی گردان ختم ہونی چاہیے۔
امریکا کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی قوم کو سچ بتایا جائے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بھی سچ بیانی کی جائے۔ موجودہ طرزعمل سے طالبان بھی ہم سے خوش نہیں اورا مریکہ بھی ہمیں شک کی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو اپنی پالیسی واضح اور دوٹوک رکھنی چاہیے تاکہ طالبان بھی کسی خوش فہمی میں نہ رہیں اور امریکا بھی کسی شبے میں نہ رہے۔