پاس کر ورنہ برداشت کر
امریکا دراصل عالمی محلے کا وہ مسٹنڈہ ہے جسے گلی کے لڑکے بالے اپنے ساتھ کھلانے سے انکار کردیں تو وہ وکٹ اکھاڑ کے۔۔۔
SINGAPORE:
امریکا دراصل عالمی محلے کا وہ مسٹنڈہ ہے جسے گلی کے لڑکے بالے اپنے ساتھ کھلانے سے انکار کردیں تو وہ وکٹ اکھاڑ کے بغل میں داب لیتا ہے اور بیچارے بچے پیچھے سے اوئے اوئے کرتے رہ جاتے ہیں۔
اس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ ڈیڑھ ہفتے پہلے واشنگٹن میں امریکی میزبانوں سے میاں جی کی ملاقات دونوں ممالک میں اعتماد سازی کے حساب سے کتنی کامیاب رہی ہوگی۔حالانکہ میاں صاحب نے بطورِ خاص اسی رنگ کی ٹائی بھی باندھی تھی جو اوبامہ نے پہنی ہوئی تھی۔
اس ڈرون حملے سے پہلے بھی امریکا نے حکیم اللہ محسود کے سر کی قیمت پانچ ملین ڈالر اور پاکستان نے پانچ کروڑ روپے رکھی ہوئی تھی۔مگر جھگڑا سر کی قیمت کا نہیں ایکشن ٹائمنگ کا تھا۔وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی کی یہ بات بے وزن نہیں کہ حکیم اللہ پر تو پہلے بھی ڈرون حملہ ہوسکتا تھا لیکن یکم نومبر کا حملہ دراصل بات چیت کی کوششوں پر ڈرون حملہ تھا۔
سوال یہ ہے کہ جو بات چوہدری نثار کہہ رہے ہیں کیا یہ بات ڈرون آپریٹرز کے ذہن میں نہیں تھی ؟ بالکل تھی۔تبھی تو امریکا نے بساط پر پیادہ آگے پیچھے کرکے مدِ مقابل شطرنجی کو دھبدے میں ڈال دیااور آج پاکستان اتنا ہی طیش میں ہے جتنا امریکا اس وقت طیش میں تھا جب امریکا کرزئی کے عہدیداروں اور ان عہدیداروں سے رابطے میں موجود درمیان کے لوگوں کے توسط سے ملا عمر کے سابق نائب ملا عبدالغنی برادر سے مذاکرات کے لیے رابطوں کی کوشش کررہا تھا اور پاکستان نے ملا برادر کو عین وقت پر حراست میں لے کر امریکا اور طالبان کے درمیان سلسلہِ جنبانی کی براہِ راست کوشش ناکام بنا دی۔اس گرفتاری سے شائد یہ جتانا مقصود تھا کہ امریکا پاکستان کو باہر رکھ کے طالبان سے بالا بالا مذاکرات نہیں کر سکتا۔ہوسکتا ہے امریکا نے حکیم اللہ پر عین مذاکرات کے وقت ڈرون حملہ کر کے ملا برادر کو روکنے والی بات کا بدلہ لے لیا ہو تاکہ گیم دوبارہ صفر صفر سے شروع ہوسکے۔ ویسے بھی پاکستان امریکا تعلقات ٹام اینڈ جیری کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ملا برادر کے بارے میں آج بھی نہیں معلوم کہ وہ کہاں قیام پذیر ہیں۔
عسکری حکمتِ عملی کے سرکردہ چینی استاد سن زو کے بقول جنگ کرنا امن کرنے کی نسبت زیادہ آسان عمل ہے۔ورنہ تو جب جاپان نے سٹالن کے توسط سے امریکا کو جنگ بندی کا پیغام بھیجا تھا۔ اس کے بعد ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم مارنے کی کوئی تک نہیں بنتی تھی۔لیکن اگر امریکا جاپان کے ساتھ اس وقت سادی جنگ بندی مان لیتا تو پھر اسے جنگ کے بعد دادا کون مانتا۔
مگر یہ صرف امریکا ہی نہیں کرتا۔جس کا بھی داؤ لگ جائے کر گذرتا ہے۔اڑنگا لگانے کے عمل میں فرد ، ادارے ، قوم یا ملک کی کوئی قید نہیں۔کیونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں صرف تنگ نظر مفادات دھڑکتے ہیں۔
مثلاً جونہی شیخ مجیب اور بھٹو کے درمیان چھ میں سے پونے چھ نکات پر اتفاق ہوگیا۔اڑتالیس گھنٹے میں مشرقی پاکستان میں ٹکا خان کا آپریشن سرچ لائٹ شروع ہوگیا۔جونہی یہ لگنے لگا کہ بھٹو اور پی این اے کے درمیان سمجھوتے کی حتمی دستاویز پر اگلے چوبیس گھنٹے میں دستخط ہونے والے ہیں۔جنرل ضیا الحق نے میرے عزیز ہم وطنو اسلام و علیکم کر ڈالا۔جونہی لال مسجد اسلام آباد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور نائب خطیب عبدالرشید غازی کو محفوظ راہداری کے بدلے لال مسجد سے چلے جانے پر چوہدری شجاعت حسین اینڈ کمپنی نے آمادہ کرلیا۔جنرل پرویز مشرف نوری نت بن گئے،اوئے اے شادی نہیں ہوسکدی اوئے۔۔۔۔۔
جونہی اکبر بگٹی نے پہاڑی غار میں رہتے رہتے کسی با عزت سمجھوتے کا عندیہ دیا،کسی نے اچانک حملہ کرکے غار ہی بٹھا دیا اور غار بیٹھتے ہی بلوچستان کپڑے جھاڑتا ہوا اکڑ گیا۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جیسے ہی منحرف بلوچ گروہوں کو مذاکراتی عمل کے دائرے میں لانے اور مسئلے کو سیاسی انداز سے حل کرنے کی باتیں شروع ہوتی ہیں، مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب بھی کراچی پولیس کو با اختیار ، جدید اور تربیت یافتہ اور خود کفیل بنانے کی بات ہوتی ہے تاکہ تئیس برس سے شہر میں موجود نیم فوجی دستوں کو ان کے اصل کام پر بھیجا جاسکے تو اچانک شہر میں گڑبڑ کا گراف بڑھ جاتا ہے اور پھر ایک اور آپریشن ہوتا ہے اور پھر کراچی وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا تھا۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو پٹڑی پر چڑھانے کی کوشش ہوتی ہے تو دونوں طرف سے کوئی نہ کوئی اچانک سے پٹڑی کے نٹ بولٹ ڈھیلے کر کے ٹرین رکوا دیتا ہے۔لائن آف کنٹرول ہڑبڑا کے گرم ہو جاتی ہے۔لاہور کی دیواروں پر انڈیا کا ایک علاج الجہاد الجہاد اور دلی کی دیواروں پر پاکستان پھوڑ دو کے الفاظ راتوں رات نمودار ہوجاتے ہیں۔دونوں ممالک میں سرفروش ریلیاں منظم ہونی شروع ہوجاتی ہیں اور پھر بات چیت کا مطلع صاف ہوتے ہی ریلیاں غائب ہوجاتی ہیں اور دیواری نعروں پر چونا پھر جاتا ہے۔
شائد آپ کو یاد ہو کہ جب کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے پہلے کمانڈر مولوی نیک محمد ڈرون حملے میں مارے گئے تھے تو اس سے پہلے ان کا کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل صفدر حسین سے ہار پھول ہاتھ میں لے کر امن معاہدہ ہوا تھا۔کیا یہ معاہدہ ڈرون حملے نے تڑایا تھا یا کوئی اور سبب تھا ؟ جب سوات میں مولوی فضل اللہ اور خیبر پختون خواہ کی اے این پی حکومت میں امن سمجھوتہ ہوا اور مالاکنڈ کا انتظام عملاً طالبان کے حوالے کردیا گیا تو پھر چند ہی دنوں میں ایسا کیا ہوا کہ یہ معاہدہ ہی ٹوٹ گیا۔سوات پر تو آج تک کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔کیا جنوبی وزیرستان کے لاکھوں لوگ ڈرون حملوں کے خوف سے پچھلے چار پانچ برس سے خیبر پختون خواہ سے کراچی تک دربدر ہیں ؟ کیا پشاور کے چرچ میں مرنے والے سب کے سب امریکی تنخواہ دار ڈرون نواز تھے ؟ کیا قصہ خوانی بازار میں کوئی ڈرون چھپایا گیا تھا جسے دھماکے سے اڑا دیا گیا ؟
چلیے اگر امریکا ڈرون حملے نہیں روکتا اور بوجوہ و مصلحت آپ ڈرون شکن کارروائی نہیں بھی کرسکتے تو اس کا بھی کوئی نہ کوئی توڑ تو ہوگا ہی۔آپ کو یہ تو معلوم ہوگا ہی کہ ویتنام اور امریکا کے امن مذاکرات ہنوئی یا واشنگٹن میں نہیں بلکہ پیرس میں ہوئے تھے۔نجیب اللہ کے خلاف برسرِ پیکار دھڑوں کو یکجا کر کے انھیں ایک موثر افغان فریق بنانے کی کوششیں جب پشاور اور اسلام آباد میں کامیاب نہیں ہوئیں تھیں تو پھر مکہ میں غلافِ کعبہ کو پکڑ کے قسم کھلا کر کامیاب کرائی گئی تھیں۔پاکستان ، نجیب حکومت ، سوویت یونین اور امریکا کے درمیان افغان امن فارمولے پر دستخط ماسکو ، اسلام آباد ، کابل یا واشنگٹن میں نہیں بلکہ جنیوا میں ہوئے تھے۔تامل ٹائیگرز اور سری لنکن حکومت کے مابین جنگ بندی کی بات چیت کولمبو یا دہلی میں نہیں اوسلو میں ہوئی تھی۔بوسنیا کے متحارب فریقوں نے امن سمجھوتہ سرائیوو یا بلغراد میں نہیں بلکہ امریکی ریاست اوہایو کے شہر ڈیٹن میں کیا تھا۔اسرائیل اور پی ایل او کے مابین جامع امن بات چیت تل ابیب یا رملہ میں نہیں بلکہ ناروے میں ہوئی تھی۔طالبان اور امریکا کے درمیان ابتدائی بات چیت جلال آباد یا قندھار میں نہیں بلکہ قطر میں ہونا طے پائی تھی۔
تو پھر کیا ضروری ہے کہ اگر امن بات چیت ہونی ہی ہے تو میران شاہ یا کوئٹہ یا اسلام آباد یا پشاور میں ہی ہو۔ڈرون فری جدہ ، دوبئی یا دوہا میں کیوں نہیں ہوسکتی۔
اگر ایک ہی ملک کے شہری ہونے کے باوجود مشرف بے نظیر مذاکرات ابو ظہبی میں ہوسکتے ہیں۔اور نواز شریف مشرف سمجھوتے کی ضمانت سعودی انٹیلی جینس چیف لے سکتے ہیںتو طالبان اور حکومتِ پاکستان کے مذاکرات کسی بے ضرر جگہ، کسی شریف ملک کی ضمانت کے ساتھ کیوں نہیں ہوسکتے جہاں ڈرون کی گھوں گھوں تنگ نہ کرے۔آخر دونوں کب تک انتظار کریں گے کہ امریکا چھچھور پن سے باز آئے تو ہم بات چیت شروع کریں۔ تب تک بھلے کتنے ہی اور لوگ کیوں نہ مرجائیں۔
ایسا کب تک چلے گا کہ کبھی کوئی جنرل مارا گیا اور کبھی کوئی طالبان کمانڈر اور دونوں طرف سے بددعائیں ڈرونوں کے حصے میں آتی رہیں۔آخر یہ اسی کے تو ناپسندیدہ ڈرون ہیں جس کے اسٹنگر میزائل آپ کو بہت پسند تھے۔فرق ہے تو بس یہ کہ سٹنگر یہاں سے وہاں جاتے تھے اور ڈرون وہاں سے یہاں آتے ہیں۔
لہذا اب کوئی نئی آل پارٹیز کانفرنس بلانے یا کسی بھی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے یا قوم کو لگانے کے بجائے ناٹو کے لیے سامان لانے لے جانے والے کسی بھی ٹرالر کے پیچھے لکھی یہ عبارت جتنی جلد پڑھ لی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
'' پاس کر ورنہ برداشت کر۔۔۔۔''۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )
امریکا دراصل عالمی محلے کا وہ مسٹنڈہ ہے جسے گلی کے لڑکے بالے اپنے ساتھ کھلانے سے انکار کردیں تو وہ وکٹ اکھاڑ کے بغل میں داب لیتا ہے اور بیچارے بچے پیچھے سے اوئے اوئے کرتے رہ جاتے ہیں۔
اس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ ڈیڑھ ہفتے پہلے واشنگٹن میں امریکی میزبانوں سے میاں جی کی ملاقات دونوں ممالک میں اعتماد سازی کے حساب سے کتنی کامیاب رہی ہوگی۔حالانکہ میاں صاحب نے بطورِ خاص اسی رنگ کی ٹائی بھی باندھی تھی جو اوبامہ نے پہنی ہوئی تھی۔
اس ڈرون حملے سے پہلے بھی امریکا نے حکیم اللہ محسود کے سر کی قیمت پانچ ملین ڈالر اور پاکستان نے پانچ کروڑ روپے رکھی ہوئی تھی۔مگر جھگڑا سر کی قیمت کا نہیں ایکشن ٹائمنگ کا تھا۔وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی کی یہ بات بے وزن نہیں کہ حکیم اللہ پر تو پہلے بھی ڈرون حملہ ہوسکتا تھا لیکن یکم نومبر کا حملہ دراصل بات چیت کی کوششوں پر ڈرون حملہ تھا۔
سوال یہ ہے کہ جو بات چوہدری نثار کہہ رہے ہیں کیا یہ بات ڈرون آپریٹرز کے ذہن میں نہیں تھی ؟ بالکل تھی۔تبھی تو امریکا نے بساط پر پیادہ آگے پیچھے کرکے مدِ مقابل شطرنجی کو دھبدے میں ڈال دیااور آج پاکستان اتنا ہی طیش میں ہے جتنا امریکا اس وقت طیش میں تھا جب امریکا کرزئی کے عہدیداروں اور ان عہدیداروں سے رابطے میں موجود درمیان کے لوگوں کے توسط سے ملا عمر کے سابق نائب ملا عبدالغنی برادر سے مذاکرات کے لیے رابطوں کی کوشش کررہا تھا اور پاکستان نے ملا برادر کو عین وقت پر حراست میں لے کر امریکا اور طالبان کے درمیان سلسلہِ جنبانی کی براہِ راست کوشش ناکام بنا دی۔اس گرفتاری سے شائد یہ جتانا مقصود تھا کہ امریکا پاکستان کو باہر رکھ کے طالبان سے بالا بالا مذاکرات نہیں کر سکتا۔ہوسکتا ہے امریکا نے حکیم اللہ پر عین مذاکرات کے وقت ڈرون حملہ کر کے ملا برادر کو روکنے والی بات کا بدلہ لے لیا ہو تاکہ گیم دوبارہ صفر صفر سے شروع ہوسکے۔ ویسے بھی پاکستان امریکا تعلقات ٹام اینڈ جیری کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ملا برادر کے بارے میں آج بھی نہیں معلوم کہ وہ کہاں قیام پذیر ہیں۔
عسکری حکمتِ عملی کے سرکردہ چینی استاد سن زو کے بقول جنگ کرنا امن کرنے کی نسبت زیادہ آسان عمل ہے۔ورنہ تو جب جاپان نے سٹالن کے توسط سے امریکا کو جنگ بندی کا پیغام بھیجا تھا۔ اس کے بعد ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم مارنے کی کوئی تک نہیں بنتی تھی۔لیکن اگر امریکا جاپان کے ساتھ اس وقت سادی جنگ بندی مان لیتا تو پھر اسے جنگ کے بعد دادا کون مانتا۔
مگر یہ صرف امریکا ہی نہیں کرتا۔جس کا بھی داؤ لگ جائے کر گذرتا ہے۔اڑنگا لگانے کے عمل میں فرد ، ادارے ، قوم یا ملک کی کوئی قید نہیں۔کیونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں صرف تنگ نظر مفادات دھڑکتے ہیں۔
مثلاً جونہی شیخ مجیب اور بھٹو کے درمیان چھ میں سے پونے چھ نکات پر اتفاق ہوگیا۔اڑتالیس گھنٹے میں مشرقی پاکستان میں ٹکا خان کا آپریشن سرچ لائٹ شروع ہوگیا۔جونہی یہ لگنے لگا کہ بھٹو اور پی این اے کے درمیان سمجھوتے کی حتمی دستاویز پر اگلے چوبیس گھنٹے میں دستخط ہونے والے ہیں۔جنرل ضیا الحق نے میرے عزیز ہم وطنو اسلام و علیکم کر ڈالا۔جونہی لال مسجد اسلام آباد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور نائب خطیب عبدالرشید غازی کو محفوظ راہداری کے بدلے لال مسجد سے چلے جانے پر چوہدری شجاعت حسین اینڈ کمپنی نے آمادہ کرلیا۔جنرل پرویز مشرف نوری نت بن گئے،اوئے اے شادی نہیں ہوسکدی اوئے۔۔۔۔۔
جونہی اکبر بگٹی نے پہاڑی غار میں رہتے رہتے کسی با عزت سمجھوتے کا عندیہ دیا،کسی نے اچانک حملہ کرکے غار ہی بٹھا دیا اور غار بیٹھتے ہی بلوچستان کپڑے جھاڑتا ہوا اکڑ گیا۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جیسے ہی منحرف بلوچ گروہوں کو مذاکراتی عمل کے دائرے میں لانے اور مسئلے کو سیاسی انداز سے حل کرنے کی باتیں شروع ہوتی ہیں، مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب بھی کراچی پولیس کو با اختیار ، جدید اور تربیت یافتہ اور خود کفیل بنانے کی بات ہوتی ہے تاکہ تئیس برس سے شہر میں موجود نیم فوجی دستوں کو ان کے اصل کام پر بھیجا جاسکے تو اچانک شہر میں گڑبڑ کا گراف بڑھ جاتا ہے اور پھر ایک اور آپریشن ہوتا ہے اور پھر کراچی وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا تھا۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو پٹڑی پر چڑھانے کی کوشش ہوتی ہے تو دونوں طرف سے کوئی نہ کوئی اچانک سے پٹڑی کے نٹ بولٹ ڈھیلے کر کے ٹرین رکوا دیتا ہے۔لائن آف کنٹرول ہڑبڑا کے گرم ہو جاتی ہے۔لاہور کی دیواروں پر انڈیا کا ایک علاج الجہاد الجہاد اور دلی کی دیواروں پر پاکستان پھوڑ دو کے الفاظ راتوں رات نمودار ہوجاتے ہیں۔دونوں ممالک میں سرفروش ریلیاں منظم ہونی شروع ہوجاتی ہیں اور پھر بات چیت کا مطلع صاف ہوتے ہی ریلیاں غائب ہوجاتی ہیں اور دیواری نعروں پر چونا پھر جاتا ہے۔
شائد آپ کو یاد ہو کہ جب کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے پہلے کمانڈر مولوی نیک محمد ڈرون حملے میں مارے گئے تھے تو اس سے پہلے ان کا کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل صفدر حسین سے ہار پھول ہاتھ میں لے کر امن معاہدہ ہوا تھا۔کیا یہ معاہدہ ڈرون حملے نے تڑایا تھا یا کوئی اور سبب تھا ؟ جب سوات میں مولوی فضل اللہ اور خیبر پختون خواہ کی اے این پی حکومت میں امن سمجھوتہ ہوا اور مالاکنڈ کا انتظام عملاً طالبان کے حوالے کردیا گیا تو پھر چند ہی دنوں میں ایسا کیا ہوا کہ یہ معاہدہ ہی ٹوٹ گیا۔سوات پر تو آج تک کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔کیا جنوبی وزیرستان کے لاکھوں لوگ ڈرون حملوں کے خوف سے پچھلے چار پانچ برس سے خیبر پختون خواہ سے کراچی تک دربدر ہیں ؟ کیا پشاور کے چرچ میں مرنے والے سب کے سب امریکی تنخواہ دار ڈرون نواز تھے ؟ کیا قصہ خوانی بازار میں کوئی ڈرون چھپایا گیا تھا جسے دھماکے سے اڑا دیا گیا ؟
چلیے اگر امریکا ڈرون حملے نہیں روکتا اور بوجوہ و مصلحت آپ ڈرون شکن کارروائی نہیں بھی کرسکتے تو اس کا بھی کوئی نہ کوئی توڑ تو ہوگا ہی۔آپ کو یہ تو معلوم ہوگا ہی کہ ویتنام اور امریکا کے امن مذاکرات ہنوئی یا واشنگٹن میں نہیں بلکہ پیرس میں ہوئے تھے۔نجیب اللہ کے خلاف برسرِ پیکار دھڑوں کو یکجا کر کے انھیں ایک موثر افغان فریق بنانے کی کوششیں جب پشاور اور اسلام آباد میں کامیاب نہیں ہوئیں تھیں تو پھر مکہ میں غلافِ کعبہ کو پکڑ کے قسم کھلا کر کامیاب کرائی گئی تھیں۔پاکستان ، نجیب حکومت ، سوویت یونین اور امریکا کے درمیان افغان امن فارمولے پر دستخط ماسکو ، اسلام آباد ، کابل یا واشنگٹن میں نہیں بلکہ جنیوا میں ہوئے تھے۔تامل ٹائیگرز اور سری لنکن حکومت کے مابین جنگ بندی کی بات چیت کولمبو یا دہلی میں نہیں اوسلو میں ہوئی تھی۔بوسنیا کے متحارب فریقوں نے امن سمجھوتہ سرائیوو یا بلغراد میں نہیں بلکہ امریکی ریاست اوہایو کے شہر ڈیٹن میں کیا تھا۔اسرائیل اور پی ایل او کے مابین جامع امن بات چیت تل ابیب یا رملہ میں نہیں بلکہ ناروے میں ہوئی تھی۔طالبان اور امریکا کے درمیان ابتدائی بات چیت جلال آباد یا قندھار میں نہیں بلکہ قطر میں ہونا طے پائی تھی۔
تو پھر کیا ضروری ہے کہ اگر امن بات چیت ہونی ہی ہے تو میران شاہ یا کوئٹہ یا اسلام آباد یا پشاور میں ہی ہو۔ڈرون فری جدہ ، دوبئی یا دوہا میں کیوں نہیں ہوسکتی۔
اگر ایک ہی ملک کے شہری ہونے کے باوجود مشرف بے نظیر مذاکرات ابو ظہبی میں ہوسکتے ہیں۔اور نواز شریف مشرف سمجھوتے کی ضمانت سعودی انٹیلی جینس چیف لے سکتے ہیںتو طالبان اور حکومتِ پاکستان کے مذاکرات کسی بے ضرر جگہ، کسی شریف ملک کی ضمانت کے ساتھ کیوں نہیں ہوسکتے جہاں ڈرون کی گھوں گھوں تنگ نہ کرے۔آخر دونوں کب تک انتظار کریں گے کہ امریکا چھچھور پن سے باز آئے تو ہم بات چیت شروع کریں۔ تب تک بھلے کتنے ہی اور لوگ کیوں نہ مرجائیں۔
ایسا کب تک چلے گا کہ کبھی کوئی جنرل مارا گیا اور کبھی کوئی طالبان کمانڈر اور دونوں طرف سے بددعائیں ڈرونوں کے حصے میں آتی رہیں۔آخر یہ اسی کے تو ناپسندیدہ ڈرون ہیں جس کے اسٹنگر میزائل آپ کو بہت پسند تھے۔فرق ہے تو بس یہ کہ سٹنگر یہاں سے وہاں جاتے تھے اور ڈرون وہاں سے یہاں آتے ہیں۔
لہذا اب کوئی نئی آل پارٹیز کانفرنس بلانے یا کسی بھی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے یا قوم کو لگانے کے بجائے ناٹو کے لیے سامان لانے لے جانے والے کسی بھی ٹرالر کے پیچھے لکھی یہ عبارت جتنی جلد پڑھ لی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
'' پاس کر ورنہ برداشت کر۔۔۔۔''۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )