ڈرون حملے یا دہشت گردی…
امریکا کی تاریخ جارحیت سے بھری ہوئی ہے، کوریا، ویت نام سے لے کر عراق اور افغانستان تک اس کے کردار کا مشاہدہ کیا۔۔۔
WORCESTER:
امریکا کی تاریخ جارحیت سے بھری ہوئی ہے، کوریا، ویت نام سے لے کر عراق اور افغانستان تک اس کے کردار کا مشاہدہ کیا جاسکتاہے۔ دنیا کے آزاد اور خود مختار ملکوں کی جغرافیائی سرحدوں اور بین الاقوامی قوانین کی جب چاہے وہ خلاف ورزی کرسکتاہے، پاکستان کے شمالی علاقوں وزیرستان میں وہ برسوں سے ڈرون حملوں کے ذریعے سرحدی خلاف ورزیاں کرتا آرہاہے۔ ہماری سابق حکومتیں بھی امریکا کی اس سرحدی خلاف ورزیوں پر پرامن احتجاج کرتی رہی ہیں لیکن ہماری موجودہ حکومت اور اس کے بعض نظریاتی دوستوں نے امریکا کے ڈرون حملوں کے خلاف جو ''جرأت مندانہ موقف'' اختیار کیا ہے وہ یقینا آزاد اور خود مختار ملکوں کی روایات کے عین مطابق ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے۔
ہمارے وزیراعظم نے اپنے دورہ امریکا کے دوران اوباما سے بات چیت کے دوران ڈرون حملوں پر اطلاعات کے مطابق بہت سخت موقف اختیار کیا اگر واقعی یہ اطلاعات درست ہیں تو میاں صاحب کی جرأت اظہار کی بھی داد دینی چاہیے لیکن اس حوالے سے امریکی کانگریس میں ایوان نمایندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ایک رکن ایلن گریسن نے ایک عجیب انکشاف کیا ہے کہ ''اگر پاکستان چاہے تو ڈرون حملے کل ہی بند ہوسکتے ہیں، پاک فضائیہ کافی طاقتور ہے وہ جب چاہے ڈرون حملوں کو روک سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایلن گریسن نے یہ بھی کہا ہے کہ ''پاکستان کی منظوری کے بغیر ڈرون حملے نہیں ہوسکتے'' اس قسم کی باتیں اگرچہ بہت پہلے سے کی جارہی ہیں لیکن ''ایلن گریسن کے بیان کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ ڈرون حملوں میں پاکستان کی رضامندی شامل رہی ہے۔
نواز شریف نے ڈرون حملوں کے حوالے سے جو سخت موقف اختیار کیا ہے، اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈرون حملے ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے۔ ڈرون حملوں کو ہم اگر اپنا سب سے بڑا قومی مسئلہ کہتے ہیں تو یہ بات اس لیے غلط نہیں کہلائی جاسکتی کہ دنیا کی سیاسی اخلاقیات میں کسی ملک کی بین الاقوامی اور جغرافیائی سرحدوں کی خلاف ورزی اس ملک کا سب سے بڑا قومی مسئلہ اس لیے سمجھی جاتی ہے کہ اس قسم کی خلاف ورزیوں سے ملکی سالمیت اور خود مختاری کو خطرہ لاحق ہوجاتاہے۔
ہماری حکومت کی طرف سے میڈیا کو ڈرون حملوں کے نقصانات کے جو اعداد وشمار فراہم کیے گئے ہیں ان کے مطابق پچھلے چھ سالوں میں 317ڈرون حملے کیے گئے جن میں 2160دہشت گرد جن میں ان کے اہم رہنما شامل ہیں ہلاک ہوئے اور صرف 67شہری ان حملوں میں شہید ہوئے، میڈیا کے مطابق پچھلے 2سالوں میں کوئی شہری ڈرون حملوں میں نہیں ماراگیا۔ بے گناہ عام شہری اگر ایک بھی ماراجاتاہے تو یہ ایک ایسا قومی نقصان ہوتا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، اس پر منظر میں اگر عمران خان اور ان کے ہمنوا ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ شہریوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو ان کا یہ احتجاج بالکل جائز ہے۔
ہمارے وزیراعظم نے اس المناک حقیقت کا بھی اعتراف کیا ہے کہ اب تک دہشت گردی کے واقعات میں ''چالیس ہزار'' بیگناہ شہری شہید ہو چکے ہیں جب کہ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 70ہزار بے گناہ شہریوں کو دہشت گردوں نے قتل کردیا ہے۔ ان اعداد وشمار کی روشنی میں عوام یہ سوال کررہے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ ڈرون حملے ہیں یا دہشت گردی ہے؟ اس کا جواب ان سیاستدانوں کو دینا چاہیے جو ڈرون کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان کے ہر شہری کی جان قابل احترام ہے اگر کوئی ایک بے گناہ شہری بھی ماراجاتاہے تو یہ ایک قومی نقصان ہوتاہے۔ اس حقیقت کے پس منظر میں عوام جب ڈرون حملوں میں شہید ہونے والے 67بے گناہ شہریوں اور دہشت گردی میں انتہائی سفاکی سے مارے جانے والے 40یا 70ہزار بے گناہ شہریوں کا موازنہ کرتے ہیں تو ان کے لیے یہ طے کرنا بہت مشکل ہوجاتاہے کہ ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ کون سا ہے؟ ڈرون حملے یا دہشت گردی۔!!
امریکا کا کوئی کام بے مقصد نہیں ہوتا۔ وزیرستان میں ڈرون حملے کیوں کیے جارہے ہیں۔ وزیرستان امریکا سے ہزاروں میل دور ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی اپنے ملکوں سے ہزاروں میل دور دہشتگردوں کے خلاف جو جنگ لڑرہے ہیں اس کا مقصد دہشتگردوں کو اپنے ملک سے ہزاروں میل دور ہی نیست ونابود کرنا ہے تاکہ ان کے ملک اور ملک کے عوام کو ان بلائوں سے تحفظ دے سکیں۔ وزیرستان میں ڈرون حملوں کا مقصد پاکستان کو دہشتگردی سے نجات دلانا ہے نہ پاکستان میں دہشتگردوں نے خود اپنے دینی بھائیوں کے خلاف جو وحشیانہ جنگ شروع کی ہے اور جس میں اب تک 40سے 70ہزار پاکستانی شہید ہوئے ہیں اس سے امریکا کو کوئی دلچسپی ہے لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ڈرون حملوں سے پاکستان کو فائدہ ہورہاہے اگر پاکستانی حکومتیں در پردہ ڈرون حملوں کی اجازت دے رہی ہیں تو یقینا اس کا مقصد دہشتگردوں کو پاکستان پر قبضہ کرنے سے روکنا ہے اور یہ بات کسی حوالے سے قابل شرم نہیں بلکہ پاکستان کے مفادات کے عین مطابق ہے۔
جو لوگ ڈرون حملوں کے خلاف واویلا کر رہے ہیں ہوسکتاہے اس کے پیچھے قبائلی عوام سے ہمدردی کا جذبہ کار فرما ہو لیکن پاکستان کے عوام حیرت سے یہ بات نوٹ کر رہے ہیں کہ ہر روز سیکڑوں پاکستانیوں کو خیبر سے کراچی تک دہشتگرد جس طرح قتل کررہے ہیں اس کے خلاف ڈرون حملے کے مخالفین کو کوئی دکھ نہیں نہ وہ 40یا 70ہزار پاکستانیوں کے قتل کے خلاف دہشت گردوں کے خلاف مذمتی بیانات سے آگے جانے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ایسی جانبداری ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں ور پاکستانی عوام کے مستقبل کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستانی حکومتیں ہر اس ملک سے تعاون کریں جو دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑرہاہے۔ خواہ وہ امریکا ہو، روس یا چین۔
اب وقت آگیا ہے کہ حکمران اپنے سیاسی مفادات کے حصار سے باہر نکل کر پاکستان کے دشمنوں کے خلاف کھل کر جنگ کریں۔ جو لوگ دہشت گردوں سے مذاکرات پر اصرار کررہے ہیں یا تو وہ اس خطرے کی نوعیت سے پوری طرح واقف نہیں ہیں یا پھر دہشت گردوں سے نظریاتی ہم آہنگی رکھتے ہیں اس ملک کا ایک ناخواندہ شخص بھی اس حقیقت کو سمجھ رہا ہے کہ پاکستان کے آئین و قانون پاکستان کی حکومت پاکستان کی عدلیہ کو کفر کی علامتیں سمجھنے والوں ور پاکستان میں ہر قیمت پر اپنی ایجاد کردہ شریعت کو نافذ کرنے کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھنے والوں سے مذاکرات محض وقت کا ضیاع ہے لیکن اگر کچھ حلقے نیک نیتی سے مذاکرات کو ملک وقوم کے مفاد میں سمجھتے ہیں تو ان حلقوں کو اپنی خوش فہمی دور کرنے کا موقع دیاجانا چاہیے۔
اس حوالے سے اے پی سی کا فیصلہ بھی موجود ہے، اے پی سی نے متفقہ طورپر صحیح یا غلط مذاکرات کی حمایت کی ہے اور حکومت کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرے لیکن اے پی سی یہ بتانے سے قاصر رہی ہے کہ مذاکرات کس سے کیے جائیں اور اس کا ایجنڈا کیا ہے لیکن 69گروہوں میں سے صرف تین گروہوں سے مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلے گا یقیناً حکومت اور مذاکرات کے حامی اس سے واقف ہوںگے اور یہ سادہ لوح حضرات اور جماعتیں یہ بھی جانتی ہوںگی کہ دہشت گردوں کا مقصد صرف پاکستان پر قبضہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ساری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو بطور لانچنگ پیڈ استعمال کرنا ہے۔
اگر دہشت گرد ایٹمی پاکستان پر قبضہ کرنے میں خدانخواستہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو دنیا کو ایٹمی جنگ سے بچانا کسی کے بس میں نہیں رہے گا اور دہشت گرد دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے بجائے کرہ ارض سے انسانوں کو نیست ونابود کرنے کا ذریعہ بن جائیں گے۔ اس المیہ سے بچنے کے لیے پاکستان کو ہر اس ملک سے تعاون حاصل کرنا چاہیے جو انسانی تہذیب کو ملیا میٹ ہونے سے بچانے کے لیے خلوص دل سے تیار ہو۔ خواہ وہ امریکا ہو، اس کے اتحادی ہوں، روس، چین یا بھارت...!! اسی میں پاکستانی اور دنیا کے 7ارب انسانوں کی بھلائی ہے۔
امریکا کی تاریخ جارحیت سے بھری ہوئی ہے، کوریا، ویت نام سے لے کر عراق اور افغانستان تک اس کے کردار کا مشاہدہ کیا جاسکتاہے۔ دنیا کے آزاد اور خود مختار ملکوں کی جغرافیائی سرحدوں اور بین الاقوامی قوانین کی جب چاہے وہ خلاف ورزی کرسکتاہے، پاکستان کے شمالی علاقوں وزیرستان میں وہ برسوں سے ڈرون حملوں کے ذریعے سرحدی خلاف ورزیاں کرتا آرہاہے۔ ہماری سابق حکومتیں بھی امریکا کی اس سرحدی خلاف ورزیوں پر پرامن احتجاج کرتی رہی ہیں لیکن ہماری موجودہ حکومت اور اس کے بعض نظریاتی دوستوں نے امریکا کے ڈرون حملوں کے خلاف جو ''جرأت مندانہ موقف'' اختیار کیا ہے وہ یقینا آزاد اور خود مختار ملکوں کی روایات کے عین مطابق ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے۔
ہمارے وزیراعظم نے اپنے دورہ امریکا کے دوران اوباما سے بات چیت کے دوران ڈرون حملوں پر اطلاعات کے مطابق بہت سخت موقف اختیار کیا اگر واقعی یہ اطلاعات درست ہیں تو میاں صاحب کی جرأت اظہار کی بھی داد دینی چاہیے لیکن اس حوالے سے امریکی کانگریس میں ایوان نمایندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ایک رکن ایلن گریسن نے ایک عجیب انکشاف کیا ہے کہ ''اگر پاکستان چاہے تو ڈرون حملے کل ہی بند ہوسکتے ہیں، پاک فضائیہ کافی طاقتور ہے وہ جب چاہے ڈرون حملوں کو روک سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایلن گریسن نے یہ بھی کہا ہے کہ ''پاکستان کی منظوری کے بغیر ڈرون حملے نہیں ہوسکتے'' اس قسم کی باتیں اگرچہ بہت پہلے سے کی جارہی ہیں لیکن ''ایلن گریسن کے بیان کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ ڈرون حملوں میں پاکستان کی رضامندی شامل رہی ہے۔
نواز شریف نے ڈرون حملوں کے حوالے سے جو سخت موقف اختیار کیا ہے، اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈرون حملے ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے۔ ڈرون حملوں کو ہم اگر اپنا سب سے بڑا قومی مسئلہ کہتے ہیں تو یہ بات اس لیے غلط نہیں کہلائی جاسکتی کہ دنیا کی سیاسی اخلاقیات میں کسی ملک کی بین الاقوامی اور جغرافیائی سرحدوں کی خلاف ورزی اس ملک کا سب سے بڑا قومی مسئلہ اس لیے سمجھی جاتی ہے کہ اس قسم کی خلاف ورزیوں سے ملکی سالمیت اور خود مختاری کو خطرہ لاحق ہوجاتاہے۔
ہماری حکومت کی طرف سے میڈیا کو ڈرون حملوں کے نقصانات کے جو اعداد وشمار فراہم کیے گئے ہیں ان کے مطابق پچھلے چھ سالوں میں 317ڈرون حملے کیے گئے جن میں 2160دہشت گرد جن میں ان کے اہم رہنما شامل ہیں ہلاک ہوئے اور صرف 67شہری ان حملوں میں شہید ہوئے، میڈیا کے مطابق پچھلے 2سالوں میں کوئی شہری ڈرون حملوں میں نہیں ماراگیا۔ بے گناہ عام شہری اگر ایک بھی ماراجاتاہے تو یہ ایک ایسا قومی نقصان ہوتا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، اس پر منظر میں اگر عمران خان اور ان کے ہمنوا ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ شہریوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو ان کا یہ احتجاج بالکل جائز ہے۔
ہمارے وزیراعظم نے اس المناک حقیقت کا بھی اعتراف کیا ہے کہ اب تک دہشت گردی کے واقعات میں ''چالیس ہزار'' بیگناہ شہری شہید ہو چکے ہیں جب کہ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 70ہزار بے گناہ شہریوں کو دہشت گردوں نے قتل کردیا ہے۔ ان اعداد وشمار کی روشنی میں عوام یہ سوال کررہے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ ڈرون حملے ہیں یا دہشت گردی ہے؟ اس کا جواب ان سیاستدانوں کو دینا چاہیے جو ڈرون کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان کے ہر شہری کی جان قابل احترام ہے اگر کوئی ایک بے گناہ شہری بھی ماراجاتاہے تو یہ ایک قومی نقصان ہوتاہے۔ اس حقیقت کے پس منظر میں عوام جب ڈرون حملوں میں شہید ہونے والے 67بے گناہ شہریوں اور دہشت گردی میں انتہائی سفاکی سے مارے جانے والے 40یا 70ہزار بے گناہ شہریوں کا موازنہ کرتے ہیں تو ان کے لیے یہ طے کرنا بہت مشکل ہوجاتاہے کہ ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ کون سا ہے؟ ڈرون حملے یا دہشت گردی۔!!
امریکا کا کوئی کام بے مقصد نہیں ہوتا۔ وزیرستان میں ڈرون حملے کیوں کیے جارہے ہیں۔ وزیرستان امریکا سے ہزاروں میل دور ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی اپنے ملکوں سے ہزاروں میل دور دہشتگردوں کے خلاف جو جنگ لڑرہے ہیں اس کا مقصد دہشتگردوں کو اپنے ملک سے ہزاروں میل دور ہی نیست ونابود کرنا ہے تاکہ ان کے ملک اور ملک کے عوام کو ان بلائوں سے تحفظ دے سکیں۔ وزیرستان میں ڈرون حملوں کا مقصد پاکستان کو دہشتگردی سے نجات دلانا ہے نہ پاکستان میں دہشتگردوں نے خود اپنے دینی بھائیوں کے خلاف جو وحشیانہ جنگ شروع کی ہے اور جس میں اب تک 40سے 70ہزار پاکستانی شہید ہوئے ہیں اس سے امریکا کو کوئی دلچسپی ہے لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ڈرون حملوں سے پاکستان کو فائدہ ہورہاہے اگر پاکستانی حکومتیں در پردہ ڈرون حملوں کی اجازت دے رہی ہیں تو یقینا اس کا مقصد دہشتگردوں کو پاکستان پر قبضہ کرنے سے روکنا ہے اور یہ بات کسی حوالے سے قابل شرم نہیں بلکہ پاکستان کے مفادات کے عین مطابق ہے۔
جو لوگ ڈرون حملوں کے خلاف واویلا کر رہے ہیں ہوسکتاہے اس کے پیچھے قبائلی عوام سے ہمدردی کا جذبہ کار فرما ہو لیکن پاکستان کے عوام حیرت سے یہ بات نوٹ کر رہے ہیں کہ ہر روز سیکڑوں پاکستانیوں کو خیبر سے کراچی تک دہشتگرد جس طرح قتل کررہے ہیں اس کے خلاف ڈرون حملے کے مخالفین کو کوئی دکھ نہیں نہ وہ 40یا 70ہزار پاکستانیوں کے قتل کے خلاف دہشت گردوں کے خلاف مذمتی بیانات سے آگے جانے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ایسی جانبداری ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں ور پاکستانی عوام کے مستقبل کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستانی حکومتیں ہر اس ملک سے تعاون کریں جو دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑرہاہے۔ خواہ وہ امریکا ہو، روس یا چین۔
اب وقت آگیا ہے کہ حکمران اپنے سیاسی مفادات کے حصار سے باہر نکل کر پاکستان کے دشمنوں کے خلاف کھل کر جنگ کریں۔ جو لوگ دہشت گردوں سے مذاکرات پر اصرار کررہے ہیں یا تو وہ اس خطرے کی نوعیت سے پوری طرح واقف نہیں ہیں یا پھر دہشت گردوں سے نظریاتی ہم آہنگی رکھتے ہیں اس ملک کا ایک ناخواندہ شخص بھی اس حقیقت کو سمجھ رہا ہے کہ پاکستان کے آئین و قانون پاکستان کی حکومت پاکستان کی عدلیہ کو کفر کی علامتیں سمجھنے والوں ور پاکستان میں ہر قیمت پر اپنی ایجاد کردہ شریعت کو نافذ کرنے کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھنے والوں سے مذاکرات محض وقت کا ضیاع ہے لیکن اگر کچھ حلقے نیک نیتی سے مذاکرات کو ملک وقوم کے مفاد میں سمجھتے ہیں تو ان حلقوں کو اپنی خوش فہمی دور کرنے کا موقع دیاجانا چاہیے۔
اس حوالے سے اے پی سی کا فیصلہ بھی موجود ہے، اے پی سی نے متفقہ طورپر صحیح یا غلط مذاکرات کی حمایت کی ہے اور حکومت کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرے لیکن اے پی سی یہ بتانے سے قاصر رہی ہے کہ مذاکرات کس سے کیے جائیں اور اس کا ایجنڈا کیا ہے لیکن 69گروہوں میں سے صرف تین گروہوں سے مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلے گا یقیناً حکومت اور مذاکرات کے حامی اس سے واقف ہوںگے اور یہ سادہ لوح حضرات اور جماعتیں یہ بھی جانتی ہوںگی کہ دہشت گردوں کا مقصد صرف پاکستان پر قبضہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ساری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو بطور لانچنگ پیڈ استعمال کرنا ہے۔
اگر دہشت گرد ایٹمی پاکستان پر قبضہ کرنے میں خدانخواستہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو دنیا کو ایٹمی جنگ سے بچانا کسی کے بس میں نہیں رہے گا اور دہشت گرد دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے بجائے کرہ ارض سے انسانوں کو نیست ونابود کرنے کا ذریعہ بن جائیں گے۔ اس المیہ سے بچنے کے لیے پاکستان کو ہر اس ملک سے تعاون حاصل کرنا چاہیے جو انسانی تہذیب کو ملیا میٹ ہونے سے بچانے کے لیے خلوص دل سے تیار ہو۔ خواہ وہ امریکا ہو، اس کے اتحادی ہوں، روس، چین یا بھارت...!! اسی میں پاکستانی اور دنیا کے 7ارب انسانوں کی بھلائی ہے۔